Surah Maidah Ayat 44 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ المائدہ کی آیت نمبر 44 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Maidah ayat 44 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾
[ المائدة: 44]

Ayat With Urdu Translation

بیشک ہم نے توریت نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے اسی کے مطابق انبیاء جو (خدا کے) فرمانبردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں اور مشائخ اور علماء بھی کیونکہ وہ کتاب خدا کے نگہبان مقرر کیے گئے تھے اور اس پر گواہ تھے (یعنی حکم الہٰی کا یقین رکھتے تھے) تو تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں

Surah Maidah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) ” لِلَّذِينَ هَادُوا “ اس کا تعلق ” يَحْكُمْ “ سے ہے۔ یعنی یہودیوں سے متعلق فیصلے کرتے تھے۔
( 2 ) ” أَسْلَمُوا “ یہ ” نَبِيِّينَ “ کی صفت بیان کی کہ وہ سارے انبیاء دین اسلام ہی کے پیروکار تھے جس کی طرف محمد ( صلى الله عليه وسلم ) دعوت دے رہے ہیں۔ یعنی تمام پیغمبروں کا دین ایک ہی رہا ہے۔ اسلام جس کی بنیادی دعوت یہ تھی کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ ہر نبی نے سب سے پہلے اپنی قوم کو یہی دعوت توحید واخلاص پیش کی «وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنَا فَاعْبُدُونِ» ( الأنبياء: 25 ) ” ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے، سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، پس تم سب میری ہی عبادت کرو “۔ اسی کو قرآن میں الدين بھی کہا گیا ہے۔ جیسا کہ سورۂ شوریٰ کی آیت 13 «شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا» الآية میں کہا گیا ہے، جس میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے لئے ہم نے وہی دین مقرر کیا ہے جو آپ سے قبل دیگر انبیاء کے لئے کیا تھا۔
( 3 ) چنانچہ انہوں نے تورات میں کوئی تغیر وتبدل نہیں کیا، جس طرح بعد میں لوگوں نے کیا۔
( 4 ) کہ یہ کتاب کمی بیشی سے محفوظ ہے اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔
( 5 ) یعنی لوگوں سے ڈر کر تورات کے اصل احکام پر پردہ مت ڈالو، نہ دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لئے ان میں رد و بدل کرو۔
( 6 ) پھر تم کیسے ایمان کے بدلے کفر پر راضی ہوگئے ہو؟

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


جھوٹ سننے اور کہنے کے عادی لوگ ان آیتوں میں ان لوگوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے، جو رائے، قیاس اور خواہش نفسانی کو اللہ کی شریعت پر مقدم رکھتے ہیں۔ اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت سے نکل کر کفر کی طرف دوڑتے بھاگتے رہتے ہیں۔ گویہ لوگ زبانی ایمان کے دعوے کریں لیکن ان کا دل ایمان سے خالی ہے۔ منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان کے کھرے، دل کے کھوٹے اور یہی خصلت یہودیوں کی ہے جو اسلام اور اہل اسلام کے دشمن ہیں۔ یہ جھوٹ کو مزے مزے سے سنتے ہیں اور دل کھول کر قبول کرتے ہیں۔ لیکن سچ سے بھاگتے ہیں، بلکہ نفرت کرتے ہیں اور جو لوگ آپ کی مجلس میں نہیں آتے یہ یہاں کی وہاں پہنچاتے ہیں۔ ان کی طرف سے جاسوسی کرنے کو آتے ہیں۔ پھر نالائقی یہ کرتے ہیں کہ یہ بات کو بدل ڈالا کرتے ہیں مطلب کچھ ہو، لے کر کچھ اڑتے ہیں، ارادے یہی ہیں کہ اگر تمہاری خواہش کے مطابق کہے تو مان لو، طبیعت کے خلاف ہو تو دور رہو۔ کہا کیا گیا ہے کہ یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں اتری تھی جن میں ایک کو دوسرے نے قتل کردیا تھا، اب کہنے لگے چلو حضور ﷺ کے پاس چلیں اگر آپ دیت جرمانے کا حکم دیں تو منظور کرلیں گے اور اگر قصاص بدلے کو فرمائیں تو نہیں مانیں گے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ ایک زنا کار کو لے کر آئے تھے۔ ان کی کتاب توراۃ میں دراصل حکم تو یہ تھا کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے۔ لیکن انہوں نے اسے بدل ڈالا تھا اور سو کوڑے مار کر، منہ کالا کر کے، الٹا گدھا سوار کر کے رسوائی کر کے چھوڑ دیتے تھے۔ جب ہجرت کے بعد ان میں سے کوئی زنا کاری کے جرم میں پکڑا گیا تو یہ کہنے لگے آؤ حضور ﷺ کے پاس چلیں اور آپ سے اس کے بارے میں سوال کریں، اگر آپ بھی وہی فرمائیں جو ہم کرتے ہیں تو اسے قبول کریں گے اور اللہ کے ہاں بھی یہ ہماری سند ہوجائے گی اور اگر رجم کو فرمائیں گے تو نہیں مانیں گے۔ چناچہ یہ آئے اور حضور ﷺ سے ذکر کیا کہ ہمارے ایک مرد عورت نے بدکاری کی ہے، ان کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تمہارے ہاں توراۃ میں کیا حکم ہے ؟ انہوں نے کہا ہم تو اسے رسوا کرتے ہیں اور کوڑے مار کر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا، جھوٹ کہتے ہیں، تورات میں سنگسار کا حکم ہے۔ لاؤ تورات پیش کرو، انہوں نے تورات کھولی لیکن آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے کی سب عبارت پڑھ سنائی۔ حضرت عبداللہ سمجھ گئے اور آپ نے فرمایا اپنے ہاتھ کو تو ہٹا، ہاتھ ہٹایا تو سنگسار کرنے کی آیت موجود تھی، اب تو انہیں بھی اقرار کرنا پڑا۔ پھر حضور ﷺ کے حکم سے زانیوں کو سنگسار کردیا گیا، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں " میں نے دیکھا کہ وہ زانی اس عورت کو پتھروں سے بچانے کیلئے اس کے آڑے آجاتا تھا " ( بخاری مسلم ) اور سند سے مروی ہے کہ یہودیوں نے کہا " ہم تو اسے کالا منہ کر کے کچھ مار پیٹ کر چھوڑ دیتے ہیں "۔ اور آیت کے ظاہر ہونے کے بعد انہوں نے کہا، ہے تو یہی حکم لیکن ہم نے تو اسے چھپایا تھا، جو پڑھ رہا تھا اسی نے رجم کی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا، جب اس کا ہاتھ اٹھوایا تو آیت پر اچٹتی ہوئی نظر پڑگئی۔ ان دونوں کے رجم کرنے والوں میں حضرت عبداللہ بن عمر بھی موجود تھے، ایک اور روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے اپنے آدمی بھیج کر آپ کو بلوایا تھا، اپنے مدرسے میں گدی پر آپ کو بٹھایا تھا اور جو اب تورات آپ کے سامنے پڑھ رہا تھا، وہ ان کا بہت بڑا عالم تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ان سے قسم دے کر پوچھا تھا کہ تم تورات میں شادی شدہ زانی کی کیا سزا پاتے ہو ؟ تو انہوں نے یہی جواب دیا تھا لیکن ایک نوجوان کچھ نہ بولا، خاموش ہی کھڑا رہا، آپ نے اس کی طرف دیکھ کر خاص اسے دوبارہ قسم دی اور جواب مانگا، اس نے کہا جب آپ ایسی قسمیں دے رہے ہیں تو میں جھوٹ نہ بولوں گا، واقعی تورات میں ان لوگوں کی سزا سنگساری ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا پھر یہ بھی سچ سچ بتاؤ کہ پہلے پہل اس رجم کو تم نے کیوں اور کس پر سے اڑایا ؟ اس نے کہا حضرت ہمارے کسی بادشاہ کے رشتے دار، بڑے آدمی نے زنا کاری کی۔ اس کی عظمت اور بادشاہ کی ہیبت کے مارے اسے رجم کرو ورنہ اسے بھی چھوڑو۔ آخر ہم نے مل ملا کر یہ طے کیا کہ بجائے رجم کے اس قسم کی کوئی سزا مقرر کردی جائے۔ چناچہ حضور ﷺ نے توراۃ کے حکم کو جاری کیا اور اسی بارے میں آیت ( انا انزلنا ) الخ، اتری۔ پس آنحضرت ﷺ بھی ان احکام کے جاری کرنے والوں میں سے ہیں ( احمد ابو داؤد ) مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص کو یہودی کالا منہ کئے لے جا رہے تھے اور اسے کوڑے بھی مار رکھے تھے، تو آپ نے بلا کر ان سے ماجرا پوچھا انہوں نے کہا کہ اس نے زنا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا زانی کی یہی سزا تمہارے ہاں ہے ؟ کہا ہاں۔ آپ نے ان کے ایک عالم کو بلا کر اسے سخت قسم دے کر پوچھا تو اس نے کہا کہ اگر آپ ایسی قسم نہ دیتے تو میں ہرگز نہ بتاتا، بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں دراصل زنا کاری کی سزا سنگساری ہے لیکن چونکہ امیر امراء اور شرفاء لوگوں میں یہ بدکاری بڑھ گئی تھی اور انہیں اس قسم کی سزا دینی ہم نے مناسب نہ جانی، اس لئے انہیں تو چھوڑ دیتے تھے اور اللہ کا حکم مارا نہ جائے اس لئے غریب غرباء، کم حیثیت لوگوں کو رجم کرا دیتے تھے پھر ہم نے رائے زنی کی کہ آؤ کوئی ایسی سزا تجویز کرو کہ شریف و غیر شریف، امیر غریب پر سب پر یکساں جاری ہو سکے چناچہ ہمارا سب کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ منہ کالے کردیں اور کوڑے لگائیں۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے حکم دیا کہ ان دونوں کو سنگسار کرو چناچہ انہیں رجم کردیا گیا اور آپ نے فرمایا اے اللہ میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیرے ایک مردہ حکم کو زندہ کیا۔ اس پر آیت ( يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ )المائدة:41) سے ( ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ )المائدة:44) تک نازل ہوئی۔ انہی یہودیوں کے بارے میں۔ اور آیت میں ہے کہ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے ظالم ہیں اور آیت میں ہے ( فاسق ہیں (مسلم وغیرہ اور روایت میں ہے " واقعہ زنا فدک میں ہوا تھا اور وہاں کے یہودیوں نے مدینے شریف کے یہودیوں کو لکھ کر حضور ﷺ سے پچھوایا تھا جو عالم ان کا آیا اس کا نام ابن صوریا تھا، یہ آنکھ کا بھینگا تھا، اور اس کے ساتھ دوسرا عالم بھی تھا۔ حضور ﷺ نے جب انہیں قسم دی تو دونوں نے قول دیا تھا، آپ نے انہیں کہا تھا، تمہیں اس اللہ کی قسم جس نے بنو اسرائیل کیلئے پانی میں راہ کردی تھی اور ابر کا سایہ ان پر کیا تھا اور فرعونیوں سے بچا لیا تھا اور من وسلویٰ اتارا تھا۔ اس قسم سے وہ چونک گئے اور آپس میں کہنے لگے بڑی زبردست قسم ہے، اس موقع پر جھوٹ بولنا ٹھیک نہیں تو کہا حضور ﷺ تورات میں یہ ہے کہ بری نظر سے دیکھنا بھی مثل زنا کے ہے اور گلے لگانا بھی اور بوسہ لینا بھی، پھر اگر چار گواہ اس بات کے ہوں کہ انہوں نے دخول خروج دیکھا ہے جیسا کہ سلائی سرمہ دانی میں جاتی آتی ہے تو رجم واجب ہوجاتا ہے۔ آپ نے فرمایا یہی مسئلہ ہے پھر حکم دیا اور انہیں رجم کرا دیا گیا "۔ اس پر آیت (فَاِنْ جَاۗءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ ۚ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَـيْـــًٔـا ۭوَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بالْقِسْطِ ۭاِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ )المائدة:42) ، اتری ( ابو داؤد وغیرہ ) ایک روایت میں جو دو عالم سامنے لائے گئے تھے، یہ دونوں صوریا کے لڑکے تھے۔ ترک حد کا سبب اس روایت میں یہودیوں کی طرف سے یہ بیان ہوا ہے کہ جب ہم میں سلطنت نہ رہی تو ہم نے اپنے آدمیوں کی جان لینی مناسب نہ سمجھی پھر آپ نے گواہوں کو بلوا کر گواہی لی جنہوں نے بیان دیا کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے انہیں اس برائی میں دیکھا ہے، جس طرح سرمہ دانی میں سلائی ہوتی ہے۔ دراصل توراۃ وغیرہ کا منگوانا ان کے عالموں کو بلوانا، یہ سب انہیں الزام دینے کیلئے نہ تھا، نہ اس لئے تھا کہ وہ اسی کے ماننے کے مکلف ہیں، نہیں بلکہ خود رسول اللہ ﷺ کا فرمان واجب العمل ہے، اس سے مقصد ایک تو حضور ﷺ کی سچائی کا اظہار تھا کہ اللہ کی وحی سے آپ نے یہ معلوم کرلیا کہ ان کی تورات میں بھی حکم رجم موجود ہے اور یہی نکلا، دوسرے ان کی رسوائی کہ انہیں پہلے کے انکار کے بعد اقرار کرنا پڑا اور دنیا پر ظاہر ہوگیا کہ یہ لوگ فرمان الٰہی کو چھپا لینے والے اور اپنی رائے قیاس پر عمل کرنے والے ہیں اور اس لئے بھی کہ یہ لوگ سچے دل سے حضور ﷺ کے پاس اس لئے نہیں آئے تھے کہ آپ کی فرماں برداری کریں بلکہ محض اس لئے آئے تھے کہ اگر آپ کو بھی اپنے اجماع کے موافق پائیں گے تو اتحاد کرلیں گے ورنہ ہرگز قبول نہ کریں گے، اسی لئے فرمان ہے کہ " جنہیں اللہ گمراہ کر دے تو ان کو کسی قسم سے راہ راست آنے کا اختیار نہیں ہے ان کے گندے دلوں کو پاک کرنے کا اللہ کا ارادہ نہیں، یہ دنیا میں ذلیل و خواہ ہوں گے اور آخرت میں داخل نار ہوں گے۔ یہ باطل کو کان لگا کر مزے لے کر سننے والے ہیں اور رشوت جیسی حرام چیز کو دن دہاڑے کھانے والے ہیں، بھلا ان کے نجس دل کیسے پاک ہوں گے ؟ اور ان کی دعائیں اللہ کیسے سنے گا ؟ اگر یہ تیرے پاس آئیں تو تجھے اختیار ہے کہ ان کے فیصلے کر یا نہ کر اگر تو ان سے منہ پھیر لے جب بھی یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ ان کا قصد اتباع حق نہیں بلکہ اپنی خواہشوں کی پیروی ہے "۔ بعض بزرگ کہتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے اس آیت سے ( وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكَ )المائدة:49) پھر فرمایا " اگر تو ان میں فیصلے کرے تو عدل و انصاف کے ساتھ کر، گویہ خود ظالم ہیں اور عدل سے ہٹے ہوئے ہیں اور مان لو کہ اللہ تعالیٰ عادل لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔ پھر انی کی خباثت بدباطنی اور سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ " ایک طرف تو اس کتاب اللہ کو چھوڑ رکھا ہے، جس کی تابعداری اور حقانیت کے خود قائل ہیں، دوسری طرف اس جانب جھک رہے ہیں، جسے نہیں مانتے اور جسے جھوٹ مشہور کر رکھا ہے، پھر اس میں بھی نیت بد ہے کہ اگر وہاں سے ہماری خواہش ہے مطابق حکم ملے گا تو لے لیں گے، ورنہ چھوڑ چھاڑ دیں گے " ۔ یہ فرمایا کہ یہ کیسے تیری فرماں برداری کریں گے ؟ انہوں نے تو تورات کو بھی چھوڑ رکھا ہے، جس میں اللہ کے احکامات ہونے کا اقرار نہیں بھی ہے لیکن پھر بھی بےایمانی کر کے اس سے پھرجاتے ہیں۔ پھر اس تورات کی مدحت و تعریف بیان فرمائی جو اس نے اپنے برگزیدہ رسول حضرت موسیٰ بن عمران پر نازل فرمائی تھی کہ اس میں ہدایت و نورانیت تھی۔ انبیاء جو اللہ کے زیر فرمان تھے، اسی پر فیصلے کرتے رہے، یہودیوں میں اسی کے احکام جاری کرتے رہے، تبدیلی اور تحریف سے بچے رہے، ربانی یعنی عابد، علماء اور احبار یعنی ذی علم لوگ بھی اسی روش پر رہے۔ کیونکہ انہیں یہ پاک کتاب سونپی گئی تھی اور اس کے اظہار کا اور اس پر عمل کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ و شاہد تھے۔ اب تمہیں چاہئے کہ بجز اللہ کے کسی اور سے نہ ڈرو۔ ہاں قدم قدم اور لمحہ لمحہ پر خوف رکھو اور میری آیتوں کو تھوڑے تھوڑے مول فروخت نہ کیا کرو۔ جان لو کہ اللہ کی وحی کا حکم جو نہ مانے وہ کافر ہے۔ اس میں دو قول ہیں جو ابھی بیان ہوں گے انشاء اللہ۔ ان آیتوں کا ایک شان نزول بھی سن لیجئے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ ایسے لوگوں کو اس آیت میں تو کافر کہا دوسری میں ظالم تیسری میں فاسق۔ بات یہ ہے کہ یہودیوں کے دو گروہ تھے، ایک غالب تھا، دوسرا مغلوب۔ ان کی آپس میں اس بات پر صلح ہوئی تھی کہ غالب، ذی عزت فرقے کا کوئی شخص اگر مغلوب ذلیل فرقے کے کسی شخص کو قتل کر ڈالے تو پچاس وسق دیت دے اور ذلیل لوگوں میں سے کوئی عزیز کو قتل کر دے تو ایک سو وسق دیت دے۔ یہی رواج ان میں چلا آ رہا تھا۔ جب حضور ﷺ مدینے میں آئے، اس کے بعد ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ان نیچے والے یہودیوں میں سے کسی نے کسی اونچے یہودی کو مار ڈالا۔ یہاں سے آدمی گیا کہ لاؤ سو وسق دلاؤ دلواؤ، وہاں سے جواب ملا کہ یہ صریح ناانصافی ہے کہ ہم دونوں ایک ہی قبیلے کے، ایک ہی دین کے، ایک ہی نسب کے، ایک ہی شہر کے پھر ہماری دیت کم اور تمہارا زیادہ ؟ ہم چونکہ اب تک تمہارے دبے ہوئے تھے، اس ناانصافی کو بادل ناخواستہ برداشت کرتے رہے لیکن اب جب کہ حضرت محمد ﷺ جیسے عادل بادشاہ یہاں آگئے ہیں ہم تمہیں اتنی ہی دیت دیں گے جتنی تم ہمیں دو۔ اس بات پر ادھر ادھر سے آستینیں چڑھ گئیں، پھر آپس میں یہ بات طے ہوئی کہ اچھا اس جھگڑے کا فیصلہ حضرت محمد ﷺ کریں گے۔ لیکن اونچی قوم کے لوگوں نے آپس میں جب مشورہ کیا تو ان کے سمجھداروں نے کہا دیکھو اس سے ہاتھ دھو رکھو کہ حضور ﷺ کوئی ناانصافی پہ مبنی حکم کریں۔ یہ تو صریح زیادتی ہے کہ ہم آدھی دیں اور پوری لیں اور فی الواقع ان لوگوں نے دب کر اسے منظور کیا تھا جو تم نے آنحضرت ﷺ کو حکم اور ثالث مقرر کیا ہے تو یقینا تمہارا یہ حق مارا جائے گا کسی نے رائے دی کہ اچھا یوں کرو، کسی کو حضور ﷺ کے پاس چپکے سے بھیج دو ، وہ معلوم کر آئے کہ آپ فیصلہ کیا کریں گے ؟ اگر ہماری حمایت میں ہوا تب تو بہت اچھا چلو اور ان سے حق حاصل کر آؤ اور اگر خلاف ہوا تو پھر الگ تھلگ ہی اچھے ہیں۔ چناچہ مدینہ کے چند منافقوں کو انہوں نے جاسوس بنا کر حضرت ﷺ کے پاس بھیجا۔ اس سے پہلے کہ وہ یہاں پہنچیں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتار کر اپنے رسول ﷺ کو ان دونوں فرقوں کے بد ارادوں سے مطلوع فرما دیا ( ابو داؤد ) ایک روایت میں ہے کہ یہ دونوں قبیلے بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے۔ بنو نضیر کی پوری دیت تھی اور بنو قریظہ کی آدھی۔ حضور ﷺ نے دونوں کی دیت یکساں دینے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ ایک روایت ہے کہ قرظی اگر کسی نضری کو قتل کر ڈالے تو اس سے قصاص لیتے تھے لیکن اس کے خلاف میں قصاص تھا ہی نہیں سو وسق دیت تھی۔ یہ بہت ممکن ہے کہ ادھر یہ واقعہ ہوا، ادھر زنا کا قصہ واقع ہوا، جس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے ان دونوں پر یہ آیتیں نازل ہوئیں واللہ اعلم۔ ہاں ایک بات اور ہے جس سے اس دوسری شان نزول کی تقویت ہوتی ہے وہ یہ کہ اس کے بعد ہی فرمایا ہے آیت ( وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بالنَّفْسِ ۙوَالْعَيْنَ بالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بالسِّنِّ ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ۭ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ )المائدة:45) یعنی ہم نے یہودیوں پر تورات میں یہ حکم فرض کردیا تھا کہ جان کے عوض جان، آنکھ کے عوض آنکھ۔ واللہ اعلم۔ پھر انہیں کافی کہا گیا جو اللہ کی شریعت اور اس کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے اور حکم نہ کریں گو یہ آیت شان نزول کے اعتبار سے بقول مفسرین اہل کتاب کے بارے میں ہے لیکن حکم کے اعتبار سے ہر شخص کو شامل ہے۔ بنو اسرائیل کے بارے میں اتری اور اس امت کا بھی یہی حکم ہے۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ رشوت حرام ہے اور رشوت ستانی کے بعد کسی شرعی مسئلہ کے خلاف فتویٰ دینا کفر ہے۔ سدی فرماتے ہیں جس نے وحی الٰہی کے خلاف عمداً فتویٰ دیا جاننے کے باوجود اس کے خلاف کیا وہ کافر ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں جس نے اللہ کے فرمان سے انکار کیا، اس کا یہ حکم ہے اور جس نے انکار تو نہ کیا لیکن اس کے مطابق نہ کہا وہ ظالم اور فاسق ہے۔ خواہ اہل کتاب ہو خواہ کوئی اور شعبی فرماتے ہیں " مسلمانوں میں جس نے کتاب کے خلاف فتویٰ دیا وہ کافر ہے اور یہودیوں میں دیا ہو تو ظالم ہے اور نصرانیوں میں دیا ہو تو فاسق ہے " ۔ ابن عباس فرماتے ہیں " اس کا کفر اس آیت کے ساتھ ہے " ۔ طاؤس فرماتے ہیں " اس کا کفر اس کے کفر جیسا نہیں جو سرے سے اللہ کے رسول قرآن اور فرشتوں کا منکر ہو " ۔ عطا فرماتے ہیں " کتم ( چھپانا ) کفر سے کم ہے اسی طرح ظلم و فسق کے بھی ادنیٰ اعلیٰ درجے ہیں۔ اس کفر سے وہ ملت اسلام سے پھرجانے والا جاتا ہے " ۔ ابن عباس فرماتے ہیں " اس سے مراد وہ کفر نہیں جس کی طرف تم جا رہے ہو "۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


سورة المائدۃ کا یہ ساتواں رکوع حسن اتفاق سے سات ہی آیات پر مشتمل ہے۔ اس میں بہت سخت تہدید ‘ تنبیہہ اور دھمکی ہے ان لوگوں کے لیے جو کسی آسمانی شریعت پر ایمان کے دعوے دار ہوں اور پھر اس کے بجائے کسی اور قانوں کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہوں۔ قرآن حکیم کی طویل سورتوں میں کہیں کہیں تین تین آیتوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ ملتے ہیں جو معانی و مفہوم کے لحاظ سے بہت جامع ہوتے ہیں ‘ جیسا کہ سورة آل عمران کی آیات 102 ‘ 103 اور 104 ہیں۔ ابھی سورة المائدۃ میں بھی تین آیات پر مشتمل نہایت جامع احکامات کا حامل ایک مقام آئے گا۔ اسی طرح کہیں کہیں سات سات آیات کا مجموعہ بھی ملتا ہے۔ جیسے سورة البقرة کے پانچویں رکوع کی سات آیات 40 تا 46 بنی اسرائیل سے خطاب کے ضمن میں نہایت جامع ہیں۔ یہ دعوت کے ابتدائی انداز پر مشتمل ہیں اور دعوت کے باب میں بمنزلہ فاتحہ ہیں۔ اسی طرح قانون شریعت کی تنفیذ ‘ اس کی اہمیت اور اس سے پہلو تہی پر وعید کے ضمن میں زیر مطالعہ رکوع کی سات آیات نہایت تاکیدی اور جامع ہیں ‘ بلکہ یہ مقام اس موضوع پر قرآن حکیم کا ذروۂ سنام climax ہے۔آیت 44 اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰٹۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ ج یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا ظاہر ہے کہ تمام انبیا کرام علیہ السلام خود بھی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے۔لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا یعنی انبیا کرام علیہ السلام یہودیوں کے تمام فیصلے تورات شریعت موسوی کے مطابق کرتے تھے ‘ جیسا کہ حدیث میں ہے کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ 1 یعنی بنی اسرائیل کی سیاست اور حکومت کے معاملات ‘ انتظام و انصرام ‘ انبیاء کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ اس لیے وہی ان کے مابین نزاعات کے فیصلے کرتے تھے۔وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ ان کے ہاں اللہ والے صوفیاء اور علماء و فقہاء بھی تورات ہی کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ ُ انہیں ذمہ داری دی گئی تھی کہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کرنی ہے۔وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُہَدَآءَ ج فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط یعنی اللہ کا طے کردہ قانون موجود ہے ‘ اس کے مطابق فیصلے کرو۔ لوگوں کو پسند ہو یا ناپسند ‘ اس سے تمہارا بالکل کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ اب آرہی ہے وہ کانٹے والی بات :وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ ۔ بقول علامہ اقبالؔ ؂ ُ بتوں سے تجھ کو امیدیں ‘ خدا سے ناامیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ؟

إنا أنـزلنا التوراة فيها هدى ونور يحكم بها النبيون الذين أسلموا للذين هادوا والربانيون والأحبار بما استحفظوا من كتاب الله وكانوا عليه شهداء فلا تخشوا الناس واخشون ولا تشتروا بآياتي ثمنا قليلا ومن لم يحكم بما أنـزل الله فأولئك هم الكافرون

سورة: المائدة - آية: ( 44 )  - جزء: ( 6 )  -  صفحة: ( 115 )

Surah Maidah Ayat 44 meaning in urdu

ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی سارے نبی، جو مسلم تھے، اُسی کے مطابق اِن یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور اِسی طرح ربانی اور احبار بھی (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے پس (اے گروہ یہود!) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. کہہ دو کہ موت جس سے تم گریز کرتے ہو وہ تو تمہارے سامنے آ
  2. ہم نے اسے یاد دلانے اور مسافروں کے برتنے کو بنایا ہے
  3. جب ان کا اسباب تیار کر دیا تو اپنے بھائی کے شلیتے میں گلاس رکھ
  4. اور آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی
  5. اور جن لوگوں کو یہ خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ کوئی چیز بھی تو
  6. خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا
  7. جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کچھ
  8. اور جو لوگ تم میں پہلے گزر چکے ہیں ہم کو معلوم ہیں اور جو
  9. یہ اس لئے کہ یہ (پہلے تو) ایمان لائے پھر کافر ہوگئے تو ان کے
  10. اس دن یہ قبر سے نکل کر (اس طرح) دوڑیں گے جیسے (شکاری) شکار کے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Maidah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Maidah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Maidah Complete with high quality
surah Maidah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Maidah Bandar Balila
Bandar Balila
surah Maidah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Maidah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Maidah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Maidah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Maidah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Maidah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Maidah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Maidah Fares Abbad
Fares Abbad
surah Maidah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Maidah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Maidah Al Hosary
Al Hosary
surah Maidah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Maidah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Friday, May 10, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب