Surah Maidah Ayat 5 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ المائدہ کی آیت نمبر 5 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Maidah ayat 5 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾
[ المائدة: 5]

Ayat With Urdu Translation

آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) جبکہ ان کا مہر دے دو۔ اور ان سے عفت قائم رکھنی مقصود ہو نہ کھلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی کرنی اور جو شخص ایمان سے منکر ہوا اس کے عمل ضائع ہو گئے اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا

Surah Maidah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اہل کتاب کا وہی ذبیحہ حلال ہوگا جس میں خون بہہ گیا ہو۔ گویا ان کا مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہے، کیونکہ اس میں خون بہنے کی ایک بنیادی شرط مفقود ہے۔
( 2 ) اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت کے ساتھ ایک تو پاکدامن کی قید ہے، جو آج کل اکثر اہل کتاب کی عورتوں میں مفقود ہے۔ دوسرے، اس کے بعد فرمایا گیا جو ایمان کے ساتھ کفر کرے، اس کے عمل برباد ہوگئے۔ اس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں ایمان کے ضیاع کا اندیشہ ہو تو بہت ہی خسارہ کا سودا ہوگا اور آج کل اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں ایمان کو جو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں، محتاج وضاحت نہیں۔ درآں حالیکہ ایمان کو بچانا فرض ہے۔ ایک جائز کام کے لئے فرض کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس لئے اس کا جواز بھی اس وقت تک ناقابل عمل رہے گا، جب تک مذکورہ دونوں چیزیں مفقود نہ ہوجائیں۔ علاوہ ازیں آج کل کے اہل کتاب ویسے بھی اپنے دین سے بالکل ہی بیگانہ بلکہ بیزار اور باغی ہیں۔ اس حالت میں کیا وہ واقعی اہل کتاب میں شمار بھی ہوسکتے ہیں؟ واللہ اعلم۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


ذبیحہ کس نام اور کن ہاتھوں کا حلال ہے ؟ حلال و حرام کے بیان کے بعد بطور خلاصہ فرمایا کہ کل ستھری چیزیں حلال ہیں، پھر یہود و نصاریٰ کے ذبح کئے ہوئے جانوروں کی حلت بیان فرمائی۔ حضرت ابن عباس، ابو امامہ، مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ، عطاء، حسن، مکحول، ابراہیم، نخعی، سدی، مقاتل بن حیان یہ سب یہی کہتے ہیں کہ طعام سے مراد ان کا اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ہوا جانور ہے، جس کا کھانا مسلمانوں کو حلال ہے، علماء اسلام کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ ان کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال ہے، کیونکہ وہ بھی غیر اللہ کیلئے ذبح کرنا ناجائز جانتے ہیں اور ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا دوسرے کا نام نہیں لیتے گو ان کے عقیدے ذات باری کی نسبت یکسر اور سراسر باطل ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ بلند وبالا اور پاک و منزہ ہے۔ صحیح حدیث میں حضرت عبداللہ بن مغفل کا بیان ہے کہ جنگ خیبر میں مجھے چربی کی بھری ہوئی ایک مشک مل گئی، میں نے اسے قبضہ میں کیا اور کہا اس میں سے تو آج میں کسی کو بھی حصہ نہ دونگا، اب جو ادھر ادھر نگاہ پھرائی تو دیکھتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ میرے پاس ہی کھڑے ہوئے تبسم فرما رہے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ مال غنیمت میں سے کھانے پینے کی ضروری چیزیں تقسیم سے پہلے بھی لے لینی جائز ہیں اور یہ استدلال اس حدیث سے صاف ظاہر ہے، تینوں مذہب کے فقہاء نے مالکیوں پر اپنی سند پیش کی ہے اور کہا ہے کہ تم جو کہتے ہو کہ اہل کتاب کا وہی کھانا ہم پر حلال ہے جو خود ان کے ہاں بھی حلال ہو یہ غلط ہے کیونکہ چربی کو یہودی حرام جانتے ہیں لیکن مسلمان کیلئے حلال ہے لیکن یہ ایک شخص کا انفرادی واقعہ ہے۔ البتہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ وہ چربی ہو جسے خود یہودی بھی حلال جانتے تھے یعنی پشت کی چربی انتڑیوں سے لگی ہوئی چربی اور ہڈی سے ملی ہوئی چربی، اس سے بھی زیادہ دلالت والی تو وہ روایت ہے جس میں ہے کہ خیبر والوں نے سالم بھنی ہوئی ایک بکری حضور ﷺ کو تحفہ میں دی جس کے شانے کے گوشت کو انہوں نے زہر آلود کر رکھا تھا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ حضور ﷺ کو شانے کا گوشت پسند ہے، چناچہ آپ نے اس کا یہی گوشت لے کر منہ میں رکھ کر دانتوں سے توڑا تو فرمان باری سے اس شانے نے کہا، مجھ میں زہر ملا ہوا ہے، آپ نے اسی وقت اسے تھوک دیا اور اس کا اثر آپ کے سامنے کے دانتوں وغیرہ میں رہ گیا، آپ کے ساتھ حضرت بشر بن براء بن معرور بھی تھے، جو اسی کے اثر سے راہی بقاء ہوئے، جن کے قصاص میں زہر ملانے والی عورت کو بھی قتل کیا گیا، جس کا نام زینب تھا، وجہ دلالت یہ ہے کہ خود حضور ﷺ نے مع اپنے ساتھیوں کے اس گوشت کے کھانے کا پختہ ارادہ کرلیا اور یہ نہ پوچھا کہ اس کی جس چربی کو تم حلال جانتے ہو اسے نکال بھی ڈالا ہے یا نہیں ؟ اور حدیث میں ہے کہ ایک یہودی نے آپ کی دعوت میں جو کی روٹی اور پرانی سوکھی چربی پیش کی تھی، حضرت مکحول فرماتے ہیں جس چیز پر نام رب نہ لیا جائے اس کا کھانا حرام کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رحم فرما کر منسوخ کر کے اہل کتاب کے ذبح کئے جانور حلال کر دئے یہ یاد رہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس جانور پر بھی نام الٰہی نہ لیا جائے وہ حلال ہو ؟ اس لئے کہ وہ اپنے ذبیحوں پر اللہ کا نام لیتے تھے بلکہ جس گوشت کو کھاتے تھے اسے ذبیحہ پر موقوف نہ رکھتے تھے بلکہ مردہ جانور بھی کھالیتے تھے لیکن سامرہ اور صائبہ اور ابراہیم وشیث وغیرہ پیغمبروں کے دین کے مدعی اس سے مستثنیٰ تھے، جیسے کہ علماء کے دو اقوال میں سے ایک قول ہے اور عرب کے نصرانی جیسے بنو تغلب، تنوخ بہرا، جذام لحم، عاملہ کے ایسے اور بھی ہیں کہ جمہور کے نزدیک ان کے ہاتھ کا کیا ہوا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا۔ حضرت علی فرماتے ہیں قبیلہ بنو تغلب کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور نہ کھاؤ، اس لئے کہ انہوں نے تو نصرانیت سے سوائے شراب نوشی کے اور کوئی چیز نہیں لی، ہاں سعید بن مسیب اور حسن بنو تغلب کے نصاریٰ کے ہاتھوں ذبح کئے ہوئے جانور کے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں جانتے تھے، باقی رہے مجوسی ان سے گو جزیہ لیا گیا ہے کیونکہ انہیں اس مسئلہ میں یہود و نصاریٰ میں ملا دیا گیا ہے اور ان کا ہی تابع کردیا گیا ہے، لیکن ان کی عورتوں سے نکاح کرنا اور ان کے ذبح کئے ہوئے جانور کا کھانا ممنوع ہے۔ ہاں ابو ثور ابراہیم بن خالد کلبی جو شافعی اور احمد کے ساتھیوں میں سے تھے، اس کے خلاف ہیں، جب انہوں نے اسے جائز کہا اور لوگوں میں اس کی شہرت ہوئی تو فقہاء نے اس قول کی زبردست تردید کی ہے۔ یہاں تک کہ حضرت امام احمد بن حنبل نے تو فرمایا کہ ابو ثور اس مسئلہ میں اپنے نام کی طرح ہی ہے یعنی بیل کا باپ، ممکن ہے ابو ثور نے ایک حدیث کے عموم کو سامنے رکھ کر یہ فتویٰ دیا ہو جس میں حکم ہے کہ مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب کا سا طریقہ برتو لیکن اولاً تو یہ روایت ان الفاظ سے ثابت ہی نہیں دوسرے یہ روایت مرسل ہے، ہاں البتہ صحیح بخاری شریف میں صرف اتنا تو ہے کہ ہجر کے مجوسیوں سے رسول اللہ ﷺ نے جزیہ لیا۔ علاوہ ان سب کے ہم کہتے ہیں کہ ابو ثور کی پیش کردہ حدیث کو اگر ہم صحیح مان لیں، تو بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے عموم سے بھی اس آیت میں حکم امتناعی کو دلیل بنا کر اہل کتاب کے سوا اور دین والوں کا ذبیحہ بھی ہمارے لئے حرام ثابت ہوتا ہے، پھر فرماتا ہے کہ تمہارا ذبیحہ بھی ہمارے لئے حرام ثابت ہوسکتا ہے، پھر فرماتا ہے کہ تمہارا ذبیحہ ان کیلئے حلال ہے یعنی تم انہیں اپنا ذبیحہ کھلا سکتے ہو۔ یہ اس امر کی خبر نہیں کہ ان کے دین میں ان کیلئے تمہارا ذبیحہ حلال ہے ہاں زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس بات کی خبر ہو کہ انہیں بھی ان کی کتاب میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جس جانور کا ذبیحہ اللہ کے نام پر ہوا ہو اسے وہ کھا سکتا ہے بلحاظ اس سے کہ ذبح کرنے والا انہیں میں سے ہو یا ان کے سوا کوئی اور ہو، لیکن زیادہ باوزن بات پہلی ہی ہے۔ یعنی یہ کہ تمہیں اجازت ہے کہ انہیں اپنا ذبیحہ کھلاؤ جیسے کہ ان کے ذبح کئے ہوئے جانور تم کھالیتے ہو۔ یہ گویا اول بدل کے طور پر ہے، جس طرح حضور ﷺ نے عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کو اپنے خاص کرتے ہیں کفن دیا جس کی وجہ سے بعض حضرات نے یہ بیان کیا ہے کہ اس نے آپ کے چچا حضرت عباس کو اپنا کرتا دیا تھا جب وہ مدینے میں آئے تھے تو آپ نے اس کا بدلہ چکا دیا۔ ہاں ایک حدیث میں ہے کہ مومن کے سوا کسی اور کی ہم نشینی نہ کر اور اپنا کھانا بجز پرہیزگاروں کے اور کسی کو نہ کھلا اسے اس بدلے کے خلاف نہ سمجھنا چاہئے، ہوسکتا ہے کہ حدیث کا یہ حکم بطور پسندیدگی اور افضلیت کے ہو، واللہ اعلم۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ پاک دامن مومن عورتوں سے نکاح کرنا تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے یہ بطور تمہید کے ہے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم سے پہلے جنہیں کتاب دی گئی ہے ان کی عفیفہ عورتوں سے بھی نکاح تمہیں حلال ہے۔ یہ قول بھی ہے کہ مراد محصنات سے آزاد عورتیں ہیں یعنی لونڈیاں نہ ہوں۔ یہ قول حضرت مجاہد کی طرف منسوب ہے اور حضرت مجاہد کے الفاظ یہ ہیں کہ محصنات سے آزاد مراد ہیں اور جب یہ ہے تو جہاں اس قول کا وہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ لونڈیاں اس سے خارج ہیں وہاں یہ معنی بھی لئے جاسکتے ہیں کہ پاک دامن عفت شعار، جیسے کہ انہی سے دوسری روایت ان ہی لفظوں میں موجود ہے، جمہور بھی کہتے ہیں اور یہ زیادہ ٹھیک بھی ہے۔ تاکہ ذمیہ ہونے کے ساتھ ہی غیر عفیفہ ہونا شامل ہو کر بالکل ہی باعث فساد نہ بن جائے اور اس کا خاوند صرف فضول بھرتی کے طور پر بری رائے پر نہ چل پڑے پس بظاہر یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ محصنات سے مراد عفت مآب اور بدکاری سے بچاؤ والیاں ہی لی جائیں، جیسے دوسری آیت میں محصنات کے ساتھ ہی آیت ( غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ )المائدة:5) آیا ہے۔ علماء اور مفسرین کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کیا آیت ہر کتابیہ عفیفہ عورت پر مشتمل ہے ؟ خواہ وہ آزاد ہو خواہ لونڈی ہو ؟ ابن جریر میں سلف کی ایک جماعت سے اسے نقل کیا ہے جو کہتے ہیں کہ محصنات سے مراد پاک دامن ہے، ایک قول یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں مراد اہل کتاب سے اسرائیلی عورتیں ہیں، امام شافعی کا یہی مذہب ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ذمیہ عورتیں ہیں سوائے آزاد عورتوں کے اور دلیل یہ آیت ہے ( قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ )التوبة:29) یعنی ان سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے، چناچہ حضرت عبداللہ بن عمر نصرانیہ عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں جانتے تھے اور فرماتے تھے اس سے بڑا شرک کیا ہوگا ؟ کہ وہ کہتی ہو کہ اس کا رب عیسیٰ ہے اور جب یہ مشرک ٹھہریں تو نص قرآنی موجود ہے کہ آیت ( وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ ۭوَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا ) 2۔ البقرۃ :221) یعنی مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں، ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرنے کا حکم نازل ہوا تو صحابہ ان سے رک گئے یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اہل کتاب کی پاکدامن عورتوں سے نکاح کرنے کی رخصت نازل ہوئی تو صحابہ نے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کئے اور صحابہ کی ایک جماعت سے ایسے نکاح اسی آیت کو دلیل بنا کر کرنے ثابت ہیں تو گویا پہلے سورة بقرہ کی آیت کی ممانعت میں یہ داخل تھیں لیکن دوسری آیت نے انہیں مخصوص کردیا۔ یہ اس وقت جب یہ مان لیا جائے کہ ممانعت والی آیت کے حکم میں یہ بھی داخل تھیں ورنہ ان دونوں آیتوں میں کوئی معارض نہیں، اس لئے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں عام مشرکین سے انہیں الگ بیان کیا گیا ہے جیسے آیت لم یکن الذین کفروا۔ ( وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ )آل عمران:20) پھر فرماتا ہے جب تم انہیں ان کے مقررہ مہر دے دو وہ اپنے نفس کو بچانے والیاں ہوں اور تم ان کے مہر ادا کرنے والے ہو، حضرت جابر بن عبداللہ عامر شعبی ابراہیم نخعی حسن بصری کا فتویٰ ہے کہ جب کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور دخول سے پہلے اس نے بدکاری کی تو میاں بیوی میں تفریق کرا دی جائے گی اور جو مہر خاوند نے عورت کو دیا ہے اسے واپس دلوایا جائے گا ( ابن جریر ) پھر فرماتا ہے تم بھی پاک دامن عفت مآب ہو اور علانیہ یا پوشیدہ بدکار نہ ہوؤ۔ پس عورتوں میں جس طرح پاک دامن اور عفیفہ ہونے کی شرط لگائی تھی مردوں میں بھی یہی شرط لگائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ وہ کھلے بدکار نہ ہوں کہ ادھر ادھر منہ مارتے پھرتے ہوں اور نہ ایسے ہوں کہ خاص تعلق سے حرام کاری کرتے ہوں۔ سورة نساء میں بھی اسی کے تماثل حکم گزر چکا ہے۔ حضرت امام احمد اسی طرف گئے ہیں کہ زانیہ عورتوں سے توبہ سے پہلے ہرگز کسی بھلے آدمی کو نکاح کرنا جائز نہیں، اور یہی حکم ان کے نزدیک مردوں کا بھی ہے کہ بدکار مردوں کا نکاح نیک کار عفت شعار عورتوں سے بھی ناجائز ہے جب تک وہ سچی توبہ نہ کریں اور اس رذیل فعل سے باز نہ آجائیں۔ ان کی دلیل ایک حدیث بھی ہے جس میں ہے کوڑے لگایا ہوا زانی اپنے جیسی سے ہی نکاح کرسکتا ہے۔ خلیفتہ المومنین حضرت عمر فاروق نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں ارادہ کر رہا ہوں کہ جو مسلمان کوئی بدکاری کرے میں اسے ہرگز کسی مسلمان پاک دامن عورت سے نکاح نہ کرنے دوں۔ اس پر حضرت ابی بن کعب نے عرض کی کہ اے امیر المومنین شرک اس سے بہت بڑا ہے اس کے باوجود بھی اس کی توبہ قبول ہے۔ اس مسئلے کو ہم آیت ( اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً ۡ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ ) 24۔ النور:3) کی تفسیر میں پوری طرح بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ آیت کے خاتمہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ کفار کے اعمال اکارت ہیں اور وہ آخرت میں نقصان یافتہ ہیں۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 5 اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ط یہ وہی اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔ والا انداز ہے۔ یعنی اس سے پہلے اگر مختلف مذاہب کے احکام کی وجہ سے ‘ یہود کی شریعت یا حضرت یعقوب علیہ السلام کی ذاتی پسند و ناپسند کی بنا پر اگر کوئی رکاوٹیں پیدا ہوگئی تھیں یا معاشرے میں رائج مشرکانہ رسومات و اوہام کی وجہ سے تمہارے ذہنوں میں کچھ الجھنیں تھیں تو آج ان سب کو صاف کیا جا رہا ہے اور آج تمہارے لیے تمام صاف ستھری اور پاکیزہ چیزوں کے حلال ہونے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ ۔لیکن یہ صرف اس صورت میں ہے کہ وہ کھانا اصلاً حلال ہو ‘ کیونکہ اگر ایک عیسائیُ سؤر کھا رہا ہوگا تو وہ ہمارے لیے حلال نہیں ہوگا۔ اس کھانے میں ان کا ذبیحہ بھی شامل ہے ‘ دو بنیادی شرائط کے ساتھ : ایک یہ کہ جانور حلال ہو اور دوسرے یہ کہ اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو۔ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ یعنی مسلمان مرد عیسائی یا یہودی عورت سے شادی کرسکتا ہے۔ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ نیت یہ ہو کہ تم نے ان کو اپنے گھر میں بسانا ہے ‘ مستقل طور پر ایک خاندان کی بنیاد رکھنی ‘ ہے۔ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ ط بلکہ معروف طریقے سے علی الاعلان نکاح کر کے تم انہیں اپنے گھروں میں آباد کرو اور ان کے محافظ بنو۔ اس ضمن میں بعض اشکالات کا رفع کرنا ضروری ہے۔ جہاں تک شریعت اسلامی کا حکم ہے تو شریعت رسول اللہ ﷺ پر مکمل ہوچکی ہے ‘ اب اس میں تغیر و تبدل ممکن نہیں۔ اس لحاظ سے یہ قانون اپنی جگہ قائم ہے اور قائم رہے گا۔ یہ تو ہے اس کا جواز ‘ البتہ اگر آج اس کے خلاف کسی کو کوئی مصلحت نظر آتی ہے تو وہ اپنی جگہ درست ہوسکتی ہے ‘ لیکن اس کے باوجود قانون کو بدلا نہیں جاسکتا۔ البتہ اگر ایک خالص اسلامی ریاست ہو تو حالات کی سنگینی کے پیش نظر کچھ عرصے کے لیے کسی ایسی اجازت یا حکم کو موقوف کیا جاسکتا ہے۔ جیسے حضرت عمر رض نے ایک مرتبہ اپنے زمانے میں قحط کے سبب قطع ید ہاتھ کاٹنے کی سزا کو موقوف کردیا تھا۔ اس طرح کسی قانون میں اسلامی حکومت کے کسی عارضی انتظامی حکم Executive Order کے ذریعے سے کوئی عارضی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ مزیدبرآں اس اجازت کے پس منظر میں جو فلسفہ اور حکمت ہے اس کی اصل روح کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ اجازت صرف مسلمان مردوں کو دی گئی ہے کہ وہ عیسائی یا یہودی عورتوں سے شادی کرسکتے ہیں ‘ مسلمان عورت عیسائی یا یہودی مرد سے شادی نہیں کرسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر مرد عورت پر غالب ہوتا ہے ‘ لہٰذا امکان غالب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اسلام کی طرف راغب کرلے گا۔ دوسرے یہ کہ اس زمانے میں یہّ بات مسلمہ تھی کہ اولاد مرد کی ہے ‘ اور مرد کے غالب اور فعالّ ہونے کا مطلب تھا کہ ایسے میاں بیوی کی اولاد عیسائی یا یہودی نہیں بلکہ مسلمان ہوگی۔ اس وقت ویسے بھی مسلمانوں کا غلبہ تھا اور یہودی اور عیسائی ان کے تابع ہوچکے تھے۔ آج کل حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں۔ آج عیسائی اور یہودی غالب ہیں ‘ جبکہ مسلمان انتہائی مغلوب۔ دوسری طرف بین الاقوامی سیاست میں عورتوں کا غلبہ ہے۔ لہٰذا موجودہ حالات میں مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ ایسی شادیاں نہ ہوں ‘ لیکن بہرحال ان کو حرام نہیں کہا جاسکتا ‘ کیونکہ اس کے جواز کا واضح حکم موجود ہے۔ ہاں اگر کوئی اسلامی ریاست کہیں قائم ہوجائے تو وہ عارضی طور پر جب تک حالات میں کوئی تبدیلی نہ آجائے اس اجازت کو منسوخ کرسکتی ہے۔ وَمَنْ یَّکْفُرْ بالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ ز اس میں اشارہ اہل کتاب کی طرف بھی ہوسکتا ہے کہ جب تکٌ محمد رسول اللہ ﷺ تشریف نہیں لائے تھے تب تک وہ اہل ایمان تھے لیکن اب اگر وہ نبی آخر الزماں ﷺ پر ایمان نہیں لا رہے تو گویا وہ کفر کر رہے ہیں۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان کا مدعی ہو کر کافرانہ حرکتیں کرے تو اس کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔

اليوم أحل لكم الطيبات وطعام الذين أوتوا الكتاب حل لكم وطعامكم حل لهم والمحصنات من المؤمنات والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم إذا آتيتموهن أجورهن محصنين غير مسافحين ولا متخذي أخدان ومن يكفر بالإيمان فقد حبط عمله وهو في الآخرة من الخاسرين

سورة: المائدة - آية: ( 5 )  - جزء: ( 6 )  -  صفحة: ( 107 )

Surah Maidah Ayat 5 meaning in urdu

آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا اُن کے لیے اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، بشر طیکہ تم اُن کے مہر ادا کر کے نکاح میں اُن کے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنایا
  2. ایک طلب کرنے والے نے عذاب طلب کیا جو نازل ہو کر رہے گا
  3. (اور) قوم ثمود نے بھی پیغمبروں کو جھٹلا دیا
  4. اور اگر خدا چاہتا تو ان کو ایک ہی جماعت کردیتا لیکن وہ جس کو
  5. ہاں جو شخص خدا کے آگے گردن جھکا دے، (یعنی ایمان لے آئے) اور وہ
  6. اور بن کے رہنے والے اور تُبّع کی قوم۔ (غرض) ان سب نے پیغمبروں کو
  7. اے کتاب والو! قبل اس کے کہ ہم لوگوں کے مونہوں کو بگاڑ کر ان
  8. اور (مکے والو) تمہارے رفیق (یعنی محمدﷺ) دیوانے نہیں ہیں
  9. بے شک تمہارا پروردگار تاک میں ہے
  10. دیکھو یہ بلاشبہ مفسد ہیں، لیکن خبر نہیں رکھتے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Maidah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Maidah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Maidah Complete with high quality
surah Maidah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Maidah Bandar Balila
Bandar Balila
surah Maidah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Maidah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Maidah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Maidah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Maidah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Maidah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Maidah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Maidah Fares Abbad
Fares Abbad
surah Maidah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Maidah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Maidah Al Hosary
Al Hosary
surah Maidah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Maidah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Wednesday, December 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers