Surah anaam Ayat 50 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ﴾
[ الأنعام: 50]
کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس الله تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ (یہ کہ) میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے (خدا کی طرف سے) آتا ہے۔ کہہ دو کہ بھلا اندھا اور آنکھ والے برابر ہوتے ہیں؟ تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے
Surah anaam Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) میرے پاس اللہ کے خزانے بھی نہیں ( جس سے مراد ہر طرح کی قدرت وطاقت ہے ) کہ میں تمہیں اللہ کے اذن ومشیت کے بغیر کوئی ایسا بڑا معجزہ صادر کرکے دکھا سکوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو، جسے دیکھ کر تمہیں میری صداقت کا یقین ہوجائے۔ میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں کہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات میں تمہیں مطلع کر دو، مجھے فرشتہ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کہ تم مجھے ایسے خرق عادات امور پر مجبور کرو جو انسانی طاقت سے بالا ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کا پیرو ہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے اور اس میں حدیث بھی شامل ہے، جیسا کہ آپ نے فرمایا: ” أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ “ مجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا یہ مثل حدیث رسول ( صلى الله عليه وسلم ) ہی ہے۔
( 2 ) یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی اندھا اور بینا، گمراہ اور ہدایت یافتہ اور مومن وکافر برابر نہیں ہوسکتے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مسلمانو ! طبقاتی عصبیت سے بچو اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے فرماتا ہے کہ لوگوں میں اعلان کردو کہ میں اللہ کے خزانوں کا مالک نہیں نہ مجھے ان میں کسی طرح کا اختیار ہے، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا جاننے والا ہوں، رب نے جو چیزیں خاص اپنے علم میں رکھی ہیں مجھے ان میں سے کچھ بھی معلوم نہیں، ہاں جن چیزوں سے خود اللہ نے مجھے مطلع کر دے ان پر مجھے اطلاع ہوجاتی ہے، میرا یہ بھی دعوی نہیں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں، میں تو انسان ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے جو شرف دیا ہے یعنی میری طرف جو وحی نازل فرمائی ہے میں اسی کا عمل پیرا ہوں، اس سے ایک بالشت ادھر ادھر نہیں ہٹتا۔ کیا حق کے تابعدار جو بصارت والے ہیں اور حق سے محروم جو اندھے ہیں برابر ہوسکتے ہیں ؟ کیا تم اتنا غور بھی نہیں کرتے ؟ اور آیت میں ہے کہ کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے حق ہے اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو نابینا ہے ؟ نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ؟ اے نبی ﷺ آپ قرآن کے ذریعہ انہیں راہ راست پر لائیں جو رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف دل میں رکھتے ہیں، حساب کا کھٹکار رکھتے ہیں، جانتے ہیں کہ رب کے سامنے پیش ہونا ہے اس دن اس کے سوا اور کوئی ان کا قریبی یا سفارشی نہ ہوگا، وہ اگر عذاب کرنا چاہے تو کوئی شفاعت نہیں کرسکتا۔ یہ تیرا ڈرانا اس لئے ہے کہ شاید وہ تقی بن جائیں حاکم حقیقی سے ڈر کر نیکیاں کریں اور قیامت کے عذابوں سے چھوٹیں اور ثابت کے مستحق بن جائیں، پھر فرماتا ہے یہ مسلمان غرباء جو صبح شام اپنے پروردگار کا نام جپتے ہیں خبردار انہیں حقیر نہ سمجھنا انہیں اپنے پاس سے نہ ہٹانا بلکہ انہی کو اپنی صحبت میں رکھ کر انہی کے ساتھ بیٹھ اٹھ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ ) 18۔ الكهف:28) یعنی انہی کے ساتھ رہ جو صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی کی طلب کرتے ہیں، خبردار ان کی طرف سے آنکھیں نہ پھیرنا کہ دنیا کی زندگی کی آسائش طلب کرنے لگو اس کا کہا نہ کرنا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور اس نے اپنی خواہش کی پیروی کی ہے اور اس کا ہر کام حد سے گزرا ہوا ہے بلکہ ان کا ساتھ دے جو صبح شام اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے دعائیں مانگتے ہیں بعض بزرگ فرماتے ہیں مراد اس سے فرض نمازیں ہیں اور آیت میں ہے آیت ( وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ ) 40۔ غافر:60) تمہارے رب کا اعلان ہے کہ مجھ سے دعائیں کرو میں قبول کروں گا ان اطاعتوں اور عبادتوں سے ان کا ارادہ اللہ کریم کے دیدار کا ہے، محض خلوص اخلاص والی ان کی نیتیں ہیں، ان کا کوئی حساب تجھ پر نہیں نہ تیرا کوئی حساب ان پر، جناب نوح ؑ سے جب ان کی قوم کے شرفا نے کہا تھا کہ ہم تجھے کیسے مان لیں تیرے ماننے والے تو اکثر غریب مسکین لوگ ہیں تو آپ نے یہی جواب دیا کہ ان کے اعمال کا مجھے کیا علم ہے ان کا حساب تو میرے رب پر ہے لیکن تمہیں اتنا بھی شعور نہیں پھر بھی تم نے ان غریب مسکین لوگوں کو اپنی مجلس میں نہ بیٹھنے دیا۔ ان سے ذرا بھی بےرخی کی تو یاد رکھنا تمہارا شمار بھی ظالموں میں ہوجائے گا، مسند احمد میں ہے کہ قریش کے بڑے لوگ نبی ﷺ کے پاس گئے اس وقت آپ کی مجلس مبارک میں حضرت صہیب ؓ ، حضرت بلال ؓ ، حضرت خباب ؓ حضرت عمار ؓ تھے، انہیں دیکھ کر یہ لوگ کہنے لگے دیکھو تو ہمیں چھوڑ کر کن کے ساتھ بیٹھے ہیں ؟ تو آیت ( و انذر بہ سے بالشاکرین تک اتری۔ ابن جریر میں ہے کہ ان لوگوں اور ان جیسے اوروں کو حضور کی مجلس میں دیکھ کر مشرک سرداروں نے یہ بھی کہا تھا کہ کیا یہی لوگ رہ گئے ہیں کہ اللہ نے ہم سب میں سے چن چن کر انہی پر احسان کیا ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ پے در پے سہارا لوگ بھی ہم امیروں رئیسوں کے برابر بیٹھیں دیکھئے حضرت اگر آپ انہیں اپنی مجلس سے نکال دیں تو وہ آپ کی مجلس میں بیٹھ سکتے ہیں اس پر آیت (وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ ) 6۔ الأنعام:52) شاکرین تک اتری۔ ابن ابی حاتم میں قریش کے ان معززین لوگوں میں سے دو کے نام یہ ہیں اقرع بن حابس تیمی، عینیہ بن حصن فزاری، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ تنہائی میں مل کر انہوں نے حضور کو سمجھایا کہ ان غلام اور گرے پڑے بےحیثیت لوگوں کے ساتھ ہمیں بیٹھتے ہوئے شرم معلوم ہوتی ہے، آپ کی مجلس میں عرب کا وفد آیا کرتے ہیں وہ ہمیں ان کے ساتھ دیکھ کر ہمیں بھی ذلیل خیال کریں گے تو آپ کم سے کم اتنا ہی کیجئے کہ جب ہم آئیں تب خاص مجلس ہو اور ان جیسے گرے پڑے لوگ اس میں شامل نہ کئے جائین، ہاں جب ہم نہ ہوں تو آپ کو اختیار ہے جب یہ بات طے ہوگئی اور آپ نے بھی اس کا اقرار کرلیا تو انہوں نے کہا ہمارا یہ معاہدہ تحریر میں آجانا چاہیے آپ نے کاغذ منگوایا اور حضرت علی کو لکھنے کیلئے بلوایا، مسلمانوں کا یہ غریب طبقہ ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا اسی وقت حضرت جبرائیل اترے اور یہ آیت نازل ہوئی حضور نے کاغذ پھینک دیا اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا اور ہم نے پھر سے رسول اللہ ﷺ کو اپنے حلقے میں لے لیا، لیکن یہ حدیث غریب ہے آیت مکی ہے اوراقرع اور عینیہ ہجرت کے بہت سارے زمانے کے بعد اسلام میں آئے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی تھے ہم لوگ سب سے پہلے خدمت نبوی میں جاتے اور آپ کے اردگرد بیٹھتے تاکہ پور طرح اور شروع سے آخر تک آپ کی حدیثیں سنیں۔ قریش کے بڑے لوگوں پر یہ بات گراں گزرتی تھی اس کے برخلاف یہ آیت اتری ( مستدرک حاکم ) پھر فرماتا ہے اسی طرح ہم ایک دورے کو پرکھ لیتے ہیں اور ایک سے ایک کا امتحان لے لیتے ہیں کہ یہ امرا ان غرباء سے متعلق اپنی رائے ظاہر کردیں کہ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا اور ہم سب میں سے اللہ کو یہی لوگ پسند آئے ؟ حضور ﷺ کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے یہی بیچارے بےمایہ غریب غرباء لوگ تھے مرد عورت لونڈی غلام وغیرہ، بڑے بڑے اور ذی وقعت لوگوں میں سے تو اس وقت یونہی کوئی اکا دکا آگیا تھا۔ یہی لوگ دراصل انبیاء ( علیہم السلام ) کے مطیع اور فرمانبردار ہوتے رہے۔ قوم نوح نے کہا تھا ( وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِيْنَ هُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِيَ الرَّاْيِ ) 11۔ هود:27) یعنی ہم تو دیکھتے ہیں کہ تیری تابعداری رذیل اور بیوقوف لوگوں نے ہی کی ہے، شاہ روم ہرقل نے جب ابو سفیان سے حضور کی بابت یہ دریافت کیا کہ شریف لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے ؟ یا ضعیف لوگوں نے ؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا تھا کہ ضعیف لوگوں نے، بادشاہ نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ فی الواقع تمام نبیوں کا اول پیرو یہی طبقہ ہوتا ہے، الغرض مشرکین مکہ ان ایمان داروں کا مزاق اڑاتے اور انہیں ستاتے تھے جہاں تک بس چلتا انہیں سزائیں دیتے اور کہتے کہ یہ ناممکن ہے کہ بھلائی انہیں تو نظر آجائے اور ہم یونہی رہ جائیں ؟ قرآن میں ان کا قول یہ بھی ہے کہ آیت ( لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ ) 46۔ الأحقاف:11) اگر یہ کوئی اچھی چیز ہوتی تو یہ لوگ ہم سے آگے نہ بڑھ سکتے اور آیت میں ہے جب ان کے سامنے ہماری صاف اور واضح آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو یہ کفار ایمانداروں سے کہتے یہیں کہ بتاؤ تو مرتبے میں عزت میں حسب نسب میں کون شریف ہے ؟ اس کے جواب میں رب نے فرمایا آیت ( وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْيًا ) 19۔ مریم :74) یعنی ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کردی ہیں جو باعتبار سامان و اسباب کے اور باعتبار نمود و ریا کے ان سے بہت ہی آگے بڑھی ہوئی تھیں، چناچہ یہاں بھی ان کے ایسے ہی قول کے جواب میں فرمایا گیا کہ شکر گزاروں تو اللہ کو رب جانتا ہے جو اپنے اقوال و افعال اور ولی ارادوں کو درست رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں سلامتیوں کی راہیں دکھاتا ہے اور اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور صحیح راہ کی رہنمائی کرتا ہے، جیسے فرمان ہے آیت ( وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ ) 29۔ العنكبوت:69) جو لوگ ہماری فرمانبرداری کی کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی صحیح رہ پر لگا دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نیک کاروں کا ساتھ دیتا ہے، صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور رنگوں کو نہیں دیکھتا بلکہ نیتوں اور اعمال کو دیھکتا ہے، عکرمہ فرماتے ہیں ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اور عدی کا بیٹا مطعم اور نوفل کا بیٹا حارث اور عمرو کا بیٹا قرطہ اور ابن عبد مناف کے قبیلے کے کافر سب کے سب جمع ہو کر ابو طالب کے پاس گئے اور کہنے لگے دیکھ آپ کے بھتیجے اگر ہماری ایک درخواست قبول کرلیں تو ہمارے دلوں میں ان کی عظمت و عزت ہوگی اور پھر ان کی مجلس میں بھی آمدو رفت شروع کردیں گے اور ہوسکتا ہے کہ ان کی سچائی سمجھ میں آجائے اور ہم بھی مان لیں، ابو طالب نے قوم کے بڑوں کا یہ پیغام رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچایا حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی اس وقت اس مجلس میں تھے فرمانے لگے یا رسول اللہ ﷺ ایسا کرنے میں کیا حرج ہے ؟ اللہ عزوجل نے وانذو سے بالشاکرین تک آیتیں اتریں۔ یہ غرباء جنہیں یہ لوگ فیض صحبت سے محروم کرنا چاہتے تھے یہ تھے بلال، عمار، سالم صبیح، ابن مسعود، مقداد، مسعود، واقد، عمرو ذوالشمالین، یزید اور انہی جیسے اور حضرات ؓ اجمعین، انہی دونوں جماعتوں کے بارے میں آیت ( وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّيَقُوْلُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنْۢ بَيْنِنَا ۭ اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بالشّٰكِرِيْنَ ) 6۔ الأنعام:53) بھی نازل ہوئی۔ حضرت عمر ان آیتوں کو سن کر عذر معذرت کرنے لگے اس پر آیت ( وَاِذَا جَاۗءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۙ اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءًۢا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَاَصْلَحَ ۙ فَاَنَّهٗ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 6۔ الأنعام:54) نازل ہوئی، آخری آیت میں حکم ہوتا ہے کہ ایمان والے جب تیرے پاس آ کر سلام کریں تو ان کے سلام کا جواب دو ان کا احترام کرو اور انہیں اللہ کی وسیع رحمت کی خبر دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نفس پر رح پر واجب کرلیا ہے، بعض سلف سے منقول ہے کہ گناہ ہر شخص جہالت سے ہی کرتا ہے، عکرمہ فرماتے ہیں دنیا ساری جہالت ہے، غرض جو بھی کوئی برائی کرے پھر اس سے ہٹ جائے اور پورا ارادہ کرلے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کرے گا اور آگے کیلئے اپنے عمل کی اصلاح بھی کرلے تو وہ یقین مانے کہ غفور و رحیم اللہ اسے بخشے گا بھی اور اس پر مہربانی بھی کرے گا۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کی قضا و قدر مقرر کی تو اپنی کتاب میں لکھا جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ ابن مردویہ میں حضور کا فرمان ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے کر دے گا اپنے عرش کے نیچے سے ایک کتاب نکالے گا جس میں یہ تحریر ہے کہ میرا رحم و کرم میرے غصے اور غضب سے زیادہ بڑھا ہوا ہے اور میں سب سے زیادہ رحمت کرنے والا ہوں پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ایک بار مٹھیاں بھر کر اپنی مخلوق کو جہنم میں سے نکالے گا جنہوں نے کوئی بھلائی نہیں کی ان کی پیشانیوں پر لکھا ہوا ہوگا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں۔ حضرت سلمان فارسی ؓ فرماتے ہیں کہ توراۃ میں ہم لکھا دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اپنی رحمت کے سو حصے کئے پھر ساری مخلوق میں ان میں سے ایک حصہ رکھا اور ننانوے حصے اپنے پاس باقی رکھے اسی ایک حصہ رحمت کا یہ ظہور ہے کہ مخلوق بھی ایک دوسرے پر مہربانی کرتی ہے اور تواضع سے پیش آتی ہے اور آپس کے تعلقات قائم ہیں، اونٹنی گائے بکری پرند مچھلی وغیرہ جانور اپنے بچوں کی پرورش میں تکلیفیں جھیلتے ہیں اور ان پر پیار و محبت کرتے ہیں، روز قیامت میں اس حصے کو کامل کرنے کے بعد اس میں ننانوے حصے ملا لئے جائیں گے فی الواقع رب کی رحمت اور اس کا فضل بہت ہی وسیع اور کشادہ ہے، یہ حدیث دوسری سند ہے مرفوعاً بھی مروی ہے اور ایسی ہی اکثر حدیثیں آیت ( وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ) 7۔ الأعراف:156) کی تفسیر میں آئیں گی انشاء اللہ تعالیٰ ایسی ہی احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضور نے حضرت معاذ بن جبل ؓ سے پوجھا جانتے ہو اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ وہ سب اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ پھر فرمایا جانتے ہو بندے جب یہ کرلیں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ کیا ہے ؟ یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ کرے، مسند احمد میں یہ حدیث بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 50 قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآءِنُ اللّٰہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ ج تم لوگ مجھ سے معجزات کے مطالبات کرتے ہو اور غیب کے احوال پوچھتے ہو ‘ لیکن کسی شخص سے مطالبہ تو کیا جانا چاہیے اس کے دعوے کے مطابق۔ میں نے کب دعویٰ کیا ہے کہ میں غیب جانتا ہوں اور الوہیت میں میرا حصہ ہے۔ میرا دعویٰ تو یہ ہے کہ میں اللہ کا ایک بندہ ہوں ‘ بشر ہوں ‘ مجھ پر وحی آتی ہے ‘ مجھے مامور کیا گیا ہے کہ تمہیں خبردارکر دوں اور وہ کام میں کر رہا ہوں۔
قل لا أقول لكم عندي خزائن الله ولا أعلم الغيب ولا أقول لكم إني ملك إن أتبع إلا ما يوحى إلي قل هل يستوي الأعمى والبصير أفلا تتفكرون
سورة: الأنعام - آية: ( 50 ) - جزء: ( 7 ) - صفحة: ( 133 )Surah anaam Ayat 50 meaning in urdu
ا ے محمدؐ! ان سے کہو، "میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے" پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- وہ بولے کہ ہم تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
- اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کے
- مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر
- کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے خدا پر جھوٹ باندھ لیا ہے؟ اگر
- ہرگز نہیں۔ یہ جو کچھ کہتا ہے ہم اس کو لکھتے جاتے اور اس کے
- وہ کہنے لگے کہ خدا کی قسم تم کو معلوم ہے کہ ہم (اس) ملک
- کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کو حکم بھیجا (ہوگا)
- (یہ بھی) کہہ دو کہ اگر خدا چاہتا تو (نہ تو) میں ہی یہ (کتاب)
- آج یہاں تمہارے پاس کوئی فقیر نہ آنے پائے
- اور اگر تم پکار کر بات کہو تو وہ تو چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ
Quran surahs in English :
Download surah anaam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah anaam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter anaam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers