Surah Zukhruf Ayat 51 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَٰذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِي ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ﴾
[ الزخرف: 51]
اور فرعون نے اپنی قوم سے پکار کر کہا کہ اے قوم کیا مصر کی حکومت میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اور یہ نہریں جو میرے (محلوں کے) نیچے بہہ رہی ہیں (میری نہیں ہیں) کیا تم دیکھتے نہیں
Surah Zukhruf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جب حضرت موسیٰ ( عليه السلام ) نے ایسی کئی نشانیاں پیش کردیں جو ایک سے بڑھ کر ایک تھیں تو فرعون کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں میری قوم موسیٰ کی طرف مائل نہ ہوجائے۔ چنانچہ اس نے اپنی ہزیمت کے داغ کو چھپانے اور قوم کو مسلسل دھوکے اور فریب میں مبتلا رکھنے کے لیے یہ نئی چال چلی کہ اپنے اختیار واقتدار کے حوالے سے موسیٰ ( عليه السلام ) کی بےتوقیری اور کمتری کو نمایاں کیا جائے تاکہ قوم میری سلطنت وسطوت سے ہی مرعوب رہے۔
( 2 ) اس سے مراد دریائے نیل یا اس کی بعض شاخیں ہیں جو اس کے محل کے نیچے سے گزرتی تھیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
قلاباز بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کو جناب باری نے اپنا رسول و نبی فرما کر فرعون اور اس کے امراء اور اس کی رعایا قبطیوں اور بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تاکہ آپ انہیں توحید سکھائیں اور شرک سے بچائیں آپ کو بڑے بڑے معجزے بھی عطا فرمائے جیسے ہاتھ کا روشن ہوجانا لکڑی کا اژدھا بن جانا وغیرہ۔ لیکن فرعونیوں نے اپنے نبی کی کوئی قدر نہ کی بلکہ تکذیب کی اور تمسخر اڑایا۔ اس پر اللہ کا عذاب آیا تاکہ انہیں عبرت بھی ہو۔ اور نبوت موسیٰ پر دلیل بھی ہو پس طوفان آیا ٹڈیاں آئیں جوئیں آئیں، مینڈک آئے اور کھیت، مال، جان اور پھل وغیرہ کی کمی میں مبتلا ہوئے۔ جب کوئی عذاب آتا تو تلملا اٹھتے حضرت موسیٰ کی خوشامد کرتے انہیں رضامند کرتے ان سے قول قرار کرتے آپ دعا مانگتے عذاب ہٹ جاتا۔ یہ پھر سرکشی پر اتر آتے پھر عذاب آتا پھر یہی ہوتا ساحر یعنی جادوگر سے وہ بڑا عالم مراد لیتے تھے ان کے زمانے کے علماء کا یہی لقب تھا اور انہی لوگوں میں علم تھا اور ان کے زمانے میں یہ علم مذموم نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا پس ان کا جناب موسیٰ ؑ کو جادوگر کہہ کر خطاب کرنا بطور عزت کے تھا اعتراض کے طور پر نہ تھا کیونکہ انہیں تو اپنا کام نکالنا تھا ہر بار اقرار کرتے تھے کہ مسلمان ہوجائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے پھر جب عذاب ہٹ جاتا تو وعدہ شکنی کرتے اور قول توڑ دیتے۔ اور آیت ( فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ01303 ) 7۔ الأعراف:133) میں اس پورے واقعہ کو بیان فرمایا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 51 { وَنَادٰی فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِہٖ } ” اور فرعون نے اپنی قوم میں ڈھنڈورا پٹوا دیا “ { قَالَ یٰـــقَوْمِ اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ } ” اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے ؟ “ نوٹ کیجیے ! یہ سیاسی شرک شرک کی بد ترین قسم ہے۔ حاکمیت صرف اللہ کی ہے ‘ اس کے علاوہ جو کوئی بھی حاکمیت کا مدعی ہو ‘ چاہے وہ ایک فرد ہو ‘ ایک قوم ہو یا پوری نسل انسانی ‘ وہ اللہ کے ساتھ برابری کا دعویدار ہے۔ اور فرعون نے خدائی کا دعویٰ اسی مدعیت کے ساتھ اور اسی مفہوم میں کیا تھا ‘ ورنہ وہ زمین و آسمان کے خالق ہونے کا دعویدار تو ہرگز نہیں تھا۔ وہ خود بھی جانتا تھا کہ جس طرح تمام انسان پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اسی طرح پیدا ہوا ہے اور سب کی نظروں کے سامنے پلابڑھا ہے۔ چناچہ اس کے خدائی کے دعوے کی اصل حقیقت یہی تھی کہ وہ حاکمیت ِمطلق کا دعویدار تھا ‘ جو کہ صرف اور صرف اللہ کا حق ہے۔ Divine Rights of the Kings کا ذکر آپ کو اہل یورپ کی تاریخ میں بھی ملے گا۔ ان کے ہاں بھی قدیم زمانے سے یہ تصور چلا آ رہا ہے کہ بادشاہوں کو خدائی اختیارات حاصل ہیں ‘ ان کا اختیار مطلق ہے ‘ وہ final legistative authority ہیں۔ ان کی مرضی ہے وہ جو چاہیں قانون بنا دیں۔ جبکہ یہ سوچ اور یہ دعویٰ بد ترین شرک ہے ‘ جسے اہل یورپ نے دور حاضر میں جمہوریت کے نام سے عوام الناس میں تقسیم کردیا ہے۔ چناچہ جو گندگی کسی زمانے میں فرعون یا نمرود کے سر پر ٹنوں کے حساب سے لدی ہوتی تھی اسے انہوں نے تولوں اور ماشوں میں تقسیم کر کے اپنے ہر شہری کی جیب میں ڈال دیا ہے ‘ کہ یہ لو ووٹ کی اس پرچی کے بل پر اب تم میں سے ہر ایک حکومت میں حصہ دار ہے۔ اب تم اپنی اکثریت کے ذریعے جو قانون چاہو بنا لو۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ” ابلیس کی مجلس شوریٰ “ میں اس شیطانی فریب کو خوب بےنقاب کیا ہے۔ ابلیس کا ایک مشیر اقبالؔ کے الفاظ میں دوسرے مشیر سے کہتا ہے : ؎ خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر ؟rُتو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر !کہ اب دنیا میں سلطانی جمہور عوام کی حکمرانی کے نام پر جو شور و غوغا اٹھا ہے وہ ابلیسی نظام کے لیے ایک بہت بڑا فتنہ اور خطرہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہمارے سب ہتھکنڈوں کا توڑ ڈھونڈنے پر تلا بیٹھا ہے۔ اگر انسانوں کا بنایا ہوا عوامی حاکمیت کا یہ سکہ دنیا میں چل گیا تو ہمارا کاروبار تو ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ اس کی اس بات پر دوسرا مشیر کہتا ہے : ؎ہوں ‘ مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے جو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر !کہ میں اس ” فتنے “ کی اصلیت سے خوب باخبر ہوں ‘ بہر حال تشویش کی کوئی بات نہیں۔ یہ جمہوریت بھی ملوکیت ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے : ؎ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر !اصل میں جب ہم نے دیکھا کہ انسان اپنے ” بنیادی حقوق “ کے بارے میں کچھ زیادہ ہی حساس ہوتا چلا جا رہا ہے تو ہم نے ” شاہی “ کو ” جمہوری “ لباس پہنا کر اس کے سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ لو بھئی اب تو تمہارا عام شخص بھی حاکم بن گیا ہے ‘ اب تو ہر شہری کو شاہی اختیار میں سے برابر کا حصہ مل گیا ہے۔ لہٰذا سلطانی ٔ جمہور کا یہ شوشہ ہماری ” ابلیسیت “ کے لیے کوئی خطرہ نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہی تیار کردہ منصوبہ ہے۔ ملوکیت اور جمہوریت کی حقیقت کو اس مثال سے سمجھنا چاہیے کہ گندگی تو گندگی ہی ہے چاہے ٹنوں کے حساب سے کسی ایک شخص کے سر پر لاد دی جائے یا ایک کروڑ انسانوں میں تولہ تولہ ماشہ ماشہ تقسیم کردی جائے۔ چناچہ فرعون کو اسی ” خدائی “ کا دعویٰ تھا اور اس نے اپنی ” خدائی “ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے اعلان کیا کہ لوگو ! دیکھو کیا مصر کی حکومت میرے قبضے میں نہیں ہے ؟ { وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ } ” اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟ “ اس فقرے کا مفہوم ہمارے ہاں عام طور پر یوں سمجھ لیا جاتا ہے جیسے فرعون نے اپنے محل کے نیچے بہنے والے دریا کا ذکر کیا تھا ‘ جبکہ اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ملک کے اندر آب پاشی کا پورا نظام جس پر تمہاری معیشت کا انحصار ہے ‘ میرے حکم کے تابع ہے۔ میں جسے چاہوں اور جس قدر چاہوں پانی مہیا کروں۔ جس کو چاہوں کم پانی دوں ‘ جس کو چاہوں زیادہ دوں اور جسے چاہوں پانی سے محروم کر دوں ‘ مجھے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ { اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔ } ” تو کیا تم دیکھتے نہیں ؟ “
ونادى فرعون في قومه قال ياقوم أليس لي ملك مصر وهذه الأنهار تجري من تحتي أفلا تبصرون
سورة: الزخرف - آية: ( 51 ) - جزء: ( 25 ) - صفحة: ( 493 )Surah Zukhruf Ayat 51 meaning in urdu
ایک روز فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا، "لوگو، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے، اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں؟ کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا؟
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں یعنی عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی
- بےشک اس (قصے) میں اہل فراست کے لیے نشانی ہے
- جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے (کہ وہ
- کیا تم (اس سے) بےخوف ہو کہ خدا تمہیں خشکی کی طرف (لے جا کر
- جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کی مثال بری ہے اور انہوں
- کہہ دو کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار
- اور لوط (کا قصہ یاد کرو) جب ان کو ہم نے حکم (یعنی حکمت ونبوت)
- تو ہم نے ان کو باغوں اور چشموں سے نکال دیا
- اس دن جھٹلانے والوں کے لئے خرابی ہے
- اور ان کے پاس ان ہی میں سے ایک پیغمبر آیا تو انہوں نے اس
Quran surahs in English :
Download surah Zukhruf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Zukhruf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Zukhruf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers