Surah qalam Ayat 52 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ﴾
[ القلم: 52]
اور (لوگو) یہ (قرآن) اہل عالم کے لئے نصیحت ہے
Surah qalam Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جب واقعہ یہ ہے کہ یہ قرآن جن و انس کی ہدایت و رہنمائی کے لئے آیا ہے تو پھر اس کو لانے والا اور بیان کرنے والا مجنون ( دیوانہ ) کس طرح ہو سکتا ہے؟
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مصائب سے نجات دلانے والی دعا ، نظر، فال اور شگون اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ اپنی قوم کی ایذاء پر اور ان کے جھٹلانے پر صبر و ضبط کرو عنقریب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہونے والا ہے، انجام کار آپ کا اور آپ کے ماتحتوں کا ہی غلبہ ہوگا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیکھو تم مچھلی والے نبی کی طرح نہ ہونا اس سے مراد حضرت یونس بن متی ؑ ہیں جبکہ وہ اپنی قوم پر غضب ناک ہو کر نکل کھڑے ہوئے پھر جو ہوا سو ہوا، یعنی آپ کا جہاز میں سوار ہونا مچھلی کا آپ کو نگل جانا اور سمندر کی تہہ میں بیٹھ جانا اور ان تہ بہ تہ اندھیروں میں اس قدر نیچے آپ کا سمندر کو اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرتے ہوئے سننا اور خود آپ کا بھی پکارنا اور آیت ( لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87ښ ) 21۔ الأنبیاء :87) پڑھنا پھر آپ کی دعا کا قبول ہونا اس غم سے نجات پانا وغیرہ جس واقعہ کا مفصل بیان پہلے گزر چکا ہے۔ جس کے بیان کے بعد اللہ سبحان و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم اسی طرح ایمانداروں کو نجات دیا کرتے ہیں اور فرماتا ہے کہ اگر وہ تسبیح نہ کرتے تو قیامت تک اسی کے پیٹ میں پڑے رہتے، یہاں بھی فرمان ہے کہ جب اس نے غم اور دکھ کی حالت میں ہمیں پکارا، پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یونس ؑ کی زبان سے نکلتے ہی یہ کلمہ عرش پر پہنچا، فرشتوں نے کہا یا رب اس کمزور غیر معروف شخص کی آواز تو ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے پہلے کی سنی ہوئی ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کیا تم نے اسے پہچانا نہیں ؟ فرشتوں نے عرض کیا نہیں، جناب باری نے فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے فرشتوں نے کہا پروردگار پھر تو تیرا یہ بندہ وہ ہے جس کے اعمال صالحہ روز آسمانوں پر چڑھتے رہے جس کی دعائیں ہر وقت قبولیت کا درجہ پاتی رہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا سچ ہے، فرشتوں نے کہا پھر اے ارحم الراحمین ان کی آسانیوں کے وقت کے نیک اعمال کی بنا پر انہیں اس سختی سے نجات عطا فرما، چناچہ فرمان باری ہوا کہ اے مچھلی تو انہیں اگل دے اور مچھلی نے انہیں کنارے پر آ کر اگل دیا، یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ اللہ نے اسے پھر برگزیدہ بنا لیا اور نیک کاروں میں کردیا، مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو حضرت یونس بن متی سے افضل بتائے۔ بخاری و مسلم میں بھی یہ حدیث ہے، اگلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ تیرے بغض و حسد کی وجہ سے یہ کفار تو اپنی آنکھوں سے گھور گھور کر تجھے پھسلا دینا چاہتے ہیں اگر اللہ کی طرف سے حمایت اور بچاؤ نہ ہوتا تو یقیناً یہ ایسا کر گذرتے، اس آیت میں دلیل ہے اس امر پر کہ نظر کا لگنا اور اس کی تاثیر کا اللہ کے حکم سے ہونا حق ہے جیسا کہ بہت سی احادیث میں بھی ہے جو کئی کئی سندوں سے مروی ہے، ابو داؤد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں دم جھاڑا صرف نظر کا اور زہریلے جانوروں کا اور نہ تھمنے والے خون کا ہے، بعض سندوں میں نظر کا لفظ نہیں یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے اور صحیح مسلم شریف میں بھی ایک قصہ کے ساتھ موقوفاً مروی ہے، بخاری شریف اور ترمذی میں بھی ہے، ایک غریب حدیث ابو یعلی میں ہے کہ نظر میں کچھ بھی حق نہیں سب سے سچا شگون فال ہے، یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے غریب کہتے ہیں اور روایت میں ہے کہ کوئی ڈر، خوف، الو اور نظر نہیں اور نیک فالی سب سے زیادہ سچا فال ہے اور روایات میں ہے کہ نظر حق ہے، نظر حق ہے، وہ بلندی والے کو بھی اتار دیتی ہے ( مسند احمد ) صحیح مسلم میں ہے نظر حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر کر جاتی جب تم سے غسل کرایا جائے تو غسل کرلیا کرو، عبدالرزاق میں ہے کہ آنحضرت ﷺ حضرت حسن اور حضرت حسین ان الفاظ کے ساتھ پناہ میں دیتے دعا ( اعیذ کما بکلمات اللہ التامتہ من کل شیطان وھامتہ ومن کل عین لامتہ ) یعنی تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے بھرپور کلمات کی پناہ میں سونپتا ہوں ہر شیطان سے اور ہر ایک زہریلے جانور سے اور ہر ایک لگ جانے والی نظر سے اور فرماتے کہ حضرت ابراہیم ؑ بھی حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل ( علیہما السلام ) کو انہی الفاظ سے اللہ کی پناہ دیا کرتے تھے، یہ حدیث سنن میں اور بخاری شریف میں بھی ہے، ابن ماجہ میں ہے کہ سہل بن حنیف غسل کر رہے تھے عامر بن ربیعہ کہنے لگے میں نے تو آج تک ایسا بدن کسی پردہ نشین کا بھی نہیں دیکھا بس ذرا سی دیر میں وہ بیہوش ہو کر گرپڑے لوگوں نے حضور ﷺ سے کہا یا رسول اللہ ﷺ ان کی خبر لیجئے یہ تو بیہوش ہوگئے آپ نے فرمایا کسی پر تمہارا شک بھی ہے لوگوں نے کا کہاں عامر بن ربیعہ پر، آپ نے فرمایا تم میں سے کیوں کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی کسی ایسی چیز کو دیکھے کہ اسے بہت اچھی لگے تو اسے چاہئے کہ اس کے لئے برکت کی دعا کرے پھر پانی منگوا کر عامر سے فرمایا تم وضو کرو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ اور گھٹنے اور تہمبد کے اندر کا حصہ جسم دھو ڈالو۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا برتن کو اس کی پیٹھ کے پیچھے سے اوندھا دو ، نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت موجود ہے، حضرت ابو سعید فرماتے ہیں آنحضرت ﷺ جنات کی اور انسانوں کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے، جب سورة معوذتیں نازل ہوئیں تو آپ نے انہیں لے لیا اور سب کو چھوڑ دیا ( ابن ماجہ ترمذی نسائی ) مسند وغیرہ میں ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا اے نبی صاحب ﷺ کیا آپ بیمار ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں تو جبرائیل ﷺ نے کہا دعا ( بسم اللہ ارقیک من کل شئی یوذیک من شر کل نفس وعین واللہ یشفیک بسم اللہ ارقیک ) بعض روایات میں کچھ الفاظ کا ہیر پھیر بھی ہے، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ یقیناً نظر کا لگ جانا برحق ہے، مسند کی ایک حدیث میں اس کے بعد یوں بھی ہے کہ اس کا سبب شیطان ہے اور ابن آدم کا حسد ہے، مسند کی اور روایت میں ہے حضرت ابوہریرہ سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے حضور ﷺ سے سنا ہے کہ شگون تین چیزوں میں ہے گھر گھوڑ اور عورت تو حضرت ابوہریرہ نے فرمایا پھر تو میں رسول اللہ ﷺ پر وہ کہوں گا جو آپ نے نہیں فرمایا ہاں میں نے حضور ﷺ سے یہ تو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا سب سے سچا شگون نیک فالی ہے اور نظر کا لگنا حق ہے، ترمذی وغیرہ میں ہے کہ حضرت اسماء ؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ حضرت جعفر کے بچوں کو نظر لگ جایا کرتی ہے تو کیا میں کچھ دم کرا لیا کروں آپ نے فرمایا ہاں اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کر جانے والی ہوتی تو وہ نظر تھی، حضرت عائشہ کو بھی حضور ﷺ کا نظر بد سے دم کرنے کا حکم مروی ہے ( ابن ماجہ ) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نظر لگانے والے کو حکم کیا جاتا تھا کہ وہ وضو کرے اور جس کو نظر لگی ہے اسے اس پانی سے غسل کرایا جاتا تھا ( احمد ) اور حدیث میں ہے، نہیں ہے الو اور نظر حق ہے اور سب سے سچا شگون فال ہے مسند احمد میں بھی حضرت سہل اور حضرت عامر والا قصہ جو اوپر بیان ہوا قدرے تفصیل کے ساتھ مروی ہے، بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ یہ دونوں بزرگ غسل کے ارادے سے چلے اور حضرت عامر پانی میں غسل کے لئے اترے اور ان کا بدن دیکھ کر حضرت سہل کی نظر لگ گئی اور وہ وہیں پانی میں خرخراہٹ کرنے لگے میں نے تین مرتبہ آوازیں دیں لیکن جواب نہ ملا میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ سنایا آپ خود تشریف لائے اور تھوڑے سے پانی میں کھچ کھچ کرتے ہوئے تہمبد اونچا اٹھائے ہوئے وہاں تک پہنچے اور ان کے سینے میں ہاتھ مارا اور دعا کی ( اللھم اصرف عنہ حشرھا و بردھا و وصبھا ) اے اللہ تو اس سے اس کی گرمی اور سردی اور تکلیف دور کر دے۔ مسند بزار میں ہے کہ میری امت کی قضاء و قدر کے بعد اکثر موت نظر سے ہوگی، فرماتے ہیں نظر حق ہے انسان کو قبر تک پہنچا دیتی ہے اور اونٹ کو ہنڈیا تک میری امت کی اکثر ہلاکی اسی میں ہے، ایک اور صحیح سند سے بھی یہ روایت مروی ہے، فرمان رسالت ہے کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور نہ الو کی وجہ سے بربادی کا یقین کرلینا کوئی واقعیت رکھتا ہے اور نہ حسد کوئی چیز ہے، ہاں نظر سچ ہے، ابن عساکر میں ہے کہ جبرائیل حضور ﷺ کے پاس آئے آپ اس وقت غمزدہ تھے جب پوچھا تو فرمایا حسن اور حسین کو نظر لگ گئی ہے، فرمایا یہ سچائی کے قابل چیز ہے نظر واقعی لگتی ہے، آپ نے یہ کلمات پڑھ کر انہیں پناہ میں کیوں نہ دیا ؟ حضور ﷺ نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں ؟ فرمایا یوں کہو اللھم ذا السلطان العظیم ذا المن القدیم ذا الوجہ الکریم ولی الکلمات التامات والدعوت المستجابات عاف الحسن والحسین من انفس الجن واعین الانس یعنی اے اللہ اے بہت بڑی بادشاہی والے اے زبردست قدیم احسانوں والے، اے بزرگ تر چہرے والے اے پورے کلموں والے اور اے دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دینے والے تو حسن اور حسین کو تمام جنات کی ہواؤں سے اور تمام انسان کی آنکھوں سے اپنی پناہ دے، حضور ﷺ نے یہ دعا پڑھی وہیں دونوں بچے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے سامنے کھیلنے کودنے لگے توحضور ﷺ نے فرمایا لوگو اپنی جانوں کو اپنی بیویوں کو اور اپنی اولاد کو اسی پناہ کے ساتھ پناہ دیا کرو، اس جیسی اور کوئی پناہ کی دعا نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ جہاں یہ کافر اپنی حقارت بھری نظریں آپ پر ڈالتے ہیں وہاں اپنی طعنہ آمیز زبان بھی آپ پر کھولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو قرآن لانے میں مجنون ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے قرآن تو اللہ ان کی طرف سے تمام عالم کے لئے نصیحت نامہ ہے۔ الحمد للہ سورة نون کی تفسیم ختم ہوئی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 52{ وَمَا ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ } ” اور نہیں ہے وہ ‘ مگر ایک یاد دہانی تمام جہان والوں کے لیے۔ “ یہاں پر ھُوَکی ضمیر قرآن کے لیے بھی ہے اور حضور ﷺ کے لیے بھی۔ قرآن مجید کے ذکر یاد دہانی اور نصیحت ہونے کا تذکرہ تو قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے ‘ جبکہ اپنی ذات میں حضور ﷺ بھی قیامت تک کے لوگوں کے لیے یاد دہانی ہیں ‘ بلکہ آپ ﷺ اپنی ذات میں مجسم قرآن ہیں۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رض کا فرمان ہے : کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ ” آپ ﷺ کا اخلاق قرآن ہی تو تھا۔ “] بعض مترجمین نے یہاں ” ذِکْر “ کا ترجمہ ” شرف “ بھی کیا ہے۔ یعنی آپ ﷺ سارے جہانوں کے لیے وجہ عزو شرف ہیں۔ مرتب [
Surah qalam Ayat 52 meaning in urdu
حالانکہ یہ تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور نوجوان خدمت گار (جو ایسے ہوں گے) جیسے چھپائے ہوئے موتی ان کے آس
- اگر تم خوف کی حالت میں ہو تو پیادے یا سوار (جس حال میں ہو
- یا تمہارے پاس کوئی صریح دلیل ہے
- جو کچھ ان کے آگے ہوچکا ہے اور پیچھے ہوگا وہ سب سے واقف ہے
- اور جب ان کے پاس کوئی آیت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ جس طرح
- (یہ تمہارے مددگار نہیں ہیں) بلکہ خدا تمہارا مددگار ہے اور وہ سب سے بہتر
- جب آگے چلے تو (موسیٰ نے) اپنے شاگرد سے کہا کہ ہمارے لئے کھانا لاؤ۔
- جو ملک میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے
- کہہ دو کہ بھلا دیکھو تو اگر اس کا عذاب تم پر (ناگہاں) آجائے رات
- اور تھوڑے سے پچھلوں میں سے
Quran surahs in English :
Download surah qalam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah qalam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter qalam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers