Surah An Nur Ayat 53 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۖ قُل لَّا تُقْسِمُوا ۖ طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾
[ النور: 53]
اور (یہ) خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تم ان کو حکم دو تو (سب گھروں سے) نکل کھڑے ہوں۔ کہہ دو کہ قسمیں مت کھاؤ، پسندیدہ فرمانبرداری (درکار ہے) ۔ بےشک خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
Surah An Nur Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ، میں جَهْدٌ فعل محذوف کا مصدر ہے جو بطور تاکید کے ہے، يَجْهَدُونَ أَيْمَانَهُمْ جَهْدًا یا یہ حال کی وجہ سے منصوب ہے یعنی مُجْتَهِدِينَ فِي أَيْمَانِهِمْ، مطلب یہ ہے کہ اپنی وسعت بھر قسمیں کھا کر کہتے ہیں ( فتح القدیر )۔
( 2 ) اور وہ یہ ہے کہ جس طرح تم قسمیں جھوٹی کھاتے ہو، تمہاری اطاعت بھی نفاق پر مبنی ہے۔ بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تمہارا معاملہ طاعت معروفہ ہونا چاہیئے۔ یعنی معروف میں بغیر کسی قسم کے حلف کے اطاعت، جس طرح مسلمان کرتے ہیں، پس تم بھی ان کی مثل ہوجاؤ۔ ( ابن کثیر )۔
( 3 ) یعنی وہ تمہارے سب کے حالات سے باخبر ہے۔ کون فرمانبردار ہے اور کون نافرمان؟ پس حلف اٹھا کر اطاعت کے اظہار کرنے سے، جب کہ تمہارے دل میں اس کے خلاف عزم ہو، تم اللہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے، اس لئے کہ وہ پوشیدہ ہے، پوشیدہ تر بات کو بھی جانتا ہے اور وہ تمہارے سینوں میں پلنے والے رازوں سے بھی آگاہ ہے اگرچہ تم زبان سے اس کے خلاف اظہار کرو!۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مکار منافق اہل نفاق کا حال بیان ہو رہا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر اپنی ایمانداری اور خیر خواہی جتاتے ہوئے قسمیں کھا کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم جہاد کیلئے تیار بیٹھے ہیں بلکہ بےقرار ہیں، آپ کے حکم کی دیر ہے فرمان ہوتے ہی گھر بار بال بچے چھوڑ کر میدان جنگ میں پہنچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے ان سے کہہ دو کہ قسمیں نہ کھاؤ تمہاری اطاعت کی حقیقت تو روشن ہے، زبانی ڈینگیں بہت ہیں، عملی حصہ صفر ہے۔ تمہاری قسموں کی حقیقت بھی معلوم ہے، دل میں کچھ ہے، زبان پر کچھ ہے، جتنی زبان مومن ہے اتنا ہی دل کافر ہے۔ یہ قسمیں صرف مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ ان قسموں کو تو یہ لوگ ڈھال بنائے ہوئے ہیں تم سے ہی نہیں بلکہ کافروں کے سامنے بھی ان کی موافقت اور ان کی امداد کی قسمیں کھاتے ہیں لیکن اتنے بزدل ہیں کہ ان کا ساتھ خاک بھی نہیں دے سکتے۔ اس جملے کے ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ تمہیں تو معقول اور پسندیدہ اطاعت کا شیوہ چاہے نہ کہ قسمیں کھانے اور ڈینگیں مارنے کا۔ تمہارے سامنے مسلمان موجود ہیں دیکھو نہ وہ قسمیں کھاتے ہیں نہ بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے ہیں، ہاں کام کے وقت سب سے آگے نکل آتے ہیں اور فعلی حصہ بڑھ چڑھ کرلیتے ہیں۔ اللہ پر کسی کا کوئی عمل مخفی نہیں وہ اپنے بندوں کے ایک ایک عمل سے باخبر ہے۔ ہر عاصی اور مطیع اس پر ظاہر ہے۔ ہر ایک باطن پر بھی اس کی نگاہیں ویسی ہی ہیں جیسی ظاہر پر، گو تم ظاہر کچھ کرو لیکن وہ باطن پر بھی اگاہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی یعنی قرآن اور حدیث کی اتباع کرو اگر تم اس سے منہ موڑ لو، اسے چھوڑ دو تو تمہارے اس گناہ کا وبال میرے نبی ﷺ پر نہیں۔ اس کے ذمے تو صرف پیغام الہٰی پہنچانا اور ادائے امانت کردینا ہے۔ تم پر وہ ہے جس کے ذمے دار تم ہو یعنی قبول کرنا، عمل کرنا وغیرہ۔ ہدایت صرف اطاعت رسول میں ہے، اس لئے کہ صراط مستقیم کا داعی وہی ہے جو صراط مستقیم اس اللہ تک پہنچاتی ہے جس کی سلطنت تمام زمین آسمان ہے۔ رسول ﷺ کے ذمے صرف پہنچادینا ہی ہے۔ سب کا حساب ہمارے ذمے ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( فَذَكِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ 21ۭ ) 88۔ الغاشية :21) ، تو صرف ناصح و واعظ ہے۔ انہیں نصیحت کردیا کر، تو ان کا وکیل یا داروغہ نہیں۔ وہب بن منبہ ؒ فرماتے ہیں کہ شعیاء کی طرف وحی الہٰی آئی کہ تو بنی اسرائیل کے مجمع میں کھڑا ہوجا۔ میں تری زبان سے جو چاہوں گا نکلواؤں گا، چناچہ آپ کھڑے ہوئے تو آپ کی زبان سے بہ حکم الہٰی یہ خطبہ بیان ہوا۔ اے آسمان سن، اے زمین خاموش رہ، اللہ تعالیٰ ایک شان پوری کرنا اور ایک امر کی تدبیر کرنے والا ہے وہ چاہتا ہے کہ جنگلوں کو آباد کردے۔ ویرانے کو بسا دے، صحراوں کو سرسبز بنا دے، فقیروں کو غنی کر دے، چرواہوں کو سلطان بنا دے، ان پڑھوں میں سے ایک امی کو نبی بنا کر بھیجے جو نہ بدگو ہو نہ بد اخلاق ہو، نہ بازاروں میں شوروغل کرنے والا ہو، اتنا مسکین صفت ہو اور متواضع ہو کہ اس کے دامن کی ہوا سے چراغ بھی نہ بجھے، جس کے پاس سے وہ گزرا ہو۔ اگر وہ سوکھے بانسوں پر پیر رکھ کر چلے تو بھی چراچراہٹ کسی کے کان میں نہ پہنچے۔ میں اسے بشیر و نذیر بنا کر بھیجوں گا، وہ زبان کا پاک ہوگا، اندھی آنکھیں اس کی وجہ سے روشن ہوجائیں گی، بہرے کان اس کے باعث سننے لگیں گے، غلاف والے دل اس کی برکت سے کھل جائیں گے۔ ہر ایک بھلے کام سے میں اسے سنواردوں گا۔ حکمت اس کی باتیں ہوں گی، صدق و وفا کی کی طبیعت ہوگی، عفو و درگزر کرنا اور عمدگی و بھلائی چاہنا اس کی خصلت ہوگی۔ حق اس کی شریعت ہوگی، عدل اس کی سیرت ہوگی، ہدایت اس کی امام ہوگی۔ اسلام اس کی ملت ہوگا۔ احمد اس کا نام ہوگا۔ ﷺ گمراہی کے بعد اس کی وجہ سے میں ہدایت پھیلاوں گا، جہالت کے بعد علم چمک اٹھے گا، پستی کے بعد اس کی وجہ سے ترقی ہوگی۔ نادانی اس کی ذات سے دانائی میں بدل جائے گی۔ کمی زیادتی سے بدل جائے گی، فقیری کو اس کی وجہ سے میں امیری سے بدل دوں گا۔ اس کی ذات سے جداجدا لوگوں کو میں ملا دوں گا، فرقت کے بعد الفت ہوگی، انتشار کے بعد اتحاد ہوگا، اختلاف کے بعد اتفاق ہوگا، مختلف دل، جداگانہ خواہشیں ایک ہوجائیں گی۔ بیشمار بند گان رب ہلاکت سے بچ جائیں گے، اس کی امت کو میں تمام امتوں سے بہتر کردوں گا جو لوگوں کے نفع کے لئے ہوگی، بیشمار بندگان رب ہلاکت سے بچ جائیں گے، اس کی امت کو میں تمام امتوں سے بہتر کر دونگا جو لوگوں کے نفع کے لئے ہوگی، بھلائیوں کا حکم کرنے والی برائیوں سے روکنے والی ہوگی، موحد مومن مخلص ہوں گے، اللہ کے جتنے رسول اللہ کی طرف سے جو لائے ہیں یہ سب کو مانیں گے، کسی کے منکر نہ ہوں گے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 53 وَاَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَءِنْ اَمَرْتَہُمْ لَیَخْرُجُنَّ ط ” منافقین سے جب بھی کسی قربانی کا تقاضا کیا جاتا یا جہاد کے لیے نکلنے کا مرحلہ آتا تو وہ بہانے تراشتے ہوئے قسمیں کھاتے کہ ہمیں فلاں مجبوری ہے ‘ فلاں مسئلہ درپیش ہے ‘ لیکن اگر آپ ﷺ حکم دیں گے تو ہم بہرحال آپ ﷺ کے ساتھ ضرور نکلیں گے۔ جماعتی زندگی میں یہ نمونہ آج بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ امیر کی طرف سے ایک واضح حکم آجانے کے بعد بھی کچھ لوگ بہانے بناتے ہیں ‘ اپنی معذوری کا اظہار کرتے ہیں اور مجبوریاں گنوانے کے بعد یوں بھی کہتے ہیں کہ ”ویسے اگر آپ حکم دیں تو ہم حاضر ہیں ! “ گویا جو پہلے حکم دیا گیا ہے وہ حکم نہیں ہے ؟ امیر کی بات کو آپ حکم کیوں نہیں سمجھ رہے ؟تو کیا جہاد کے لیے ایک واضح حکم کے بعد منافقین یہ توقع رکھتے ہیں کہ حضور ﷺ ان میں سے ہر ایک کی الگ الگ خوشامد کر کے اسے راضی کریں کہ اجی ! آپ ضرور جہاد کے لیے تشریف لے جائیں !قُلْ لَّا تُقْسِمُوْاج طاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ ط ”جب تم لوگ مجھے اللہ کا رسول تسلیم کرنے اور مجھ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہو تو باقی تمام اہل ایمان کی طرح میری اطاعت اختیار کرو۔ میری طرف سے جو حکم تمہیں دیا جاتا ہے اسے قبول کرو۔
وأقسموا بالله جهد أيمانهم لئن أمرتهم ليخرجن قل لا تقسموا طاعة معروفة إن الله خبير بما تعملون
سورة: النور - آية: ( 53 ) - جزء: ( 18 ) - صفحة: ( 356 )Surah An Nur Ayat 53 meaning in urdu
یہ (منافق) اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ "آپ حکم دیں تو ہم گھروں سے نکل کھڑے ہوں" اِن سے کہو "قسمیں نہ کھاؤ، تمہاری اطاعت کا حال معلوم ہے، تمہارے کرتوتوں سے اللہ بے خبر نہیں ہے"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور آسمان وزمین میں جو کچھ ہے سب خدا ہی کا ہے۔ اور خدا ہر
- اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا تو کہتے کہ موسیٰ ہمارے لیے اپنے پروردگار
- بےشک ان کے پروردگار کا عذاب ہے ہی ایسا کہ اس سے بےخوف نہ ہوا
- جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابّا آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے
- اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے
- اور اے قوم میرا کیا (حال) ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا
- کہو کہ میں صبح کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں
- خدا کو سزاوار نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ہے جب کسی چیز
- پھر آہستہ آہستہ چلتی ہیں
- وہ بولے کیا ہم نے تم کو سارے جہان (کی حمایت وطرفداری) سے منع نہیں
Quran surahs in English :
Download surah An Nur with the voice of the most famous Quran reciters :
surah An Nur mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter An Nur Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers