Surah Anfal Ayat 53 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾
[ الأنفال: 53]
یہ اس لیے کہ جو نعمت خدا کسی قوم کو دیا کرتا ہے جب تک وہ خود اپنے دلوں کی حالت نہ بدل ڈالیں خدا اسے نہیں بدلا کرتا۔ اور اس لیے کہ خدا سنتا جانتا ہے
Surah Anfal Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم کفران نعمت کا راستہ اختیار کرکے اور اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی سے اعراض کرکے اپنے احوال واخلاق کو نہیں بدل لیتی، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کا دروازہ بند نہیں فرماتا ۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ گناہوں کی وجہ سے اپنی نعمتیں سلب فرما لیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ گویا تبدیلی کا مطلب یہی ہے کہ قوم گناہوں کو چھوڑ کر اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کرے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اللہ ظالم نہیں لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنی دی ہوئی نعمتیں گناہوں سے پہلے نہیں چھینتا۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی ان باتوں کو نہ بدل دیں جو ان کے دلوں میں ہیں۔ جب وہ کسی قوم کی باتوں کی وجہ سے انہیں برائی پہنچانا چاہتا ہے تو اس کے ارادے کوئی بدل نہیں سکتا۔ نہ اس کے پاس کوئی حمایتی کھڑا ہوسکتا ہے۔ تم دیکھ لو کہ فرعونیوں اور ان جیسے ان سے گذشتہ لوگوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ انہیں اللہ نے اپنی نعمتیں دیں وہ سیاہ کاریوں میں مبتلا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دیئے ہوئے باغات چشمے کھیتیاں خزانے محلات اور نعمتیں جن میں وہ بد مست ہو رہے تھے سب چھین لیں۔ اس بارے میں انہوں نے اپنا برا آپ کیا۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 53 ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ لا اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف اپنا پیغمبر مبعوث کیا ‘ جس نے اللہ کی توحید اور اس کے احکام کے مطابق اس قوم کو دعوت دی۔ پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے نوازا ‘ ان پر اپنے انعامات و احسانات کی بارشیں کیں۔ پھر اپنے پیغمبر کے بعد ان لوگوں نے آہستہ آہستہ کفرو ضلالت کی روش اختیار کی اور توحید کی شاہراہ کو چھوڑ کر شرک کی پگڈنڈیاں اختیار کرلیں تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں نے بھی ان سے منہ موڑ لیا ‘ انعامات کی جگہ اللہ کے عذاب نے لے لی اور یوں وہ قوم تباہ و برباد کردی گئی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی پر سوار ہونے والے مؤمنین کی نسل سے ایک قوم وجود میں آئی۔ جب وہ قوم گمراہ ہوئی تو حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی طرف بھیجا گیا۔ پھر حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کی نسل سے ایک قوم نے جنم لیا اور پھر جب وہ لوگ گمراہ ہوئے تو ان کی طرف حضرت صالح علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ گویا ہر قوم اسی طرح وجود میں آئی ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے کسی قوم سے اپنی نعمت اس وقت تک سلب نہیں کی جب تک کہ خود انہوں نے ہدایت کی راہ کو چھوڑ کر گمراہی اختیار نہیں کی۔ یہ مضمون بعد میں سورة الرعد آیت 11 میں بھی آئے گا۔ مولانا ظفر علی خان نے اس مضمون کو ایک خوبصورت شعر میں اس طرح ڈھالا ہے : خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا !اس فلسفے کے مطابق جب کوئی قوم محنت کو اپنا شعار بنا لیتی ہے تو اس کے ظاہری حالات میں مثبت تبدیلی آتی ہے اور یوں اس کی تقدیر بدلتی ہے۔ صرف خوش فہمیوں wishful thinkings اور دعاؤں سے قوموں کی تقدیریں نہیں بدلا کرتیں ‘ اور قوم چونکہ افراد کا مجموعہ ہوتی ہے ‘ اس لیے تبدیلی کا آغاز افراد سے ہوتا ہے۔ پہلے چند افراد کی قلب ماہیت ہوتی ہے اور ان کی سوچ ‘ ان کے نظریات ‘ ان کے خیالات ‘ ان کے مقاصد ‘ ان کی دلچسپیاں اور ان کی امنگیں تبدیل ہوتی ہیں۔ جب ایسے پاک باطن لوگوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی ہے اور وہ لوگ ایک طاقت اور قوت کے طور پر خود کو منظم کر کے باطل کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں تو طاغوتی طوفان اپنا رخ بدلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یوں اہل حق کی قربانیوں سے نظام بدلتا ہے ‘ معاشرہ پھر سے راہ حق پر گامزن ہوتا ہے اور انقلاب کی سحر پر نور طلوع ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں اس انقلاب کے لیے فکری و عملی بنیاد اور اس کٹھن سفر میں زاد راہ کی فراہمی صرف اور صرف قرآنی تعلیمات سے ممکن ہے۔ اسی سے انسان کے اندر کی دنیا میں انقلاب آتا ہے۔ اسی اکسیر سے اس کی قلب ماہیت ہوتی ہے اور پھر مٹی کا یہ انبار یکایک شمشیر بےزنہار کا روپ دھار لیتا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اس لطیف نکتے کی وضاحت اس طرح کی ہے : چوں بحاں در رفت جاں دیگر شود جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود یعنی جب یہ قرآن کسی انسان کے دل کے اندر اتر جاتا ہے تو اس کے دل اور اس کی روح کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اور ایک بندۂ مؤمن کے اندر کا یہی انقلاب بالآخر عالمی انقلاب کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔
ذلك بأن الله لم يك مغيرا نعمة أنعمها على قوم حتى يغيروا ما بأنفسهم وأن الله سميع عليم
سورة: الأنفال - آية: ( 53 ) - جزء: ( 10 ) - صفحة: ( 184 )Surah Anfal Ayat 53 meaning in urdu
یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اے کاش موت (ابد الاآباد کے لئے میرا کام) تمام کرچکی ہوتی
- وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا
- تو جو اس کے بعد پھر جائیں وہ بد کردار ہیں
- تو ہم نے ان کو ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی
- (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ کوئی بات تم اپنے دلوں میں مخفی رکھو
- جیسا حال فرعوینوں اور ان سے پہلے لوگوں کا (ہوا تھا ویسا ہی ان کا
- اور جب موسٰی اُن کے پاس ہماری کھلی نشانیاں لےکر آئے تو وہ کہنے لگے
- تو اس پر سونے کے کنگن کیوں نہ اُتارے گئے یا (یہ ہوتا کہ) فرشتے
- اور اُن کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر وہ اُس کے ساتھ استہزاء
- دیکھو انہوں نے اپنے اوپر کیسا جھوٹ بولا اور جو کچھ یہ افتراء کیا کرتے
Quran surahs in English :
Download surah Anfal with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Anfal mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Anfal Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers