Surah Muminoon Ayat 56 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ ۚ بَل لَّا يَشْعُرُونَ﴾
[ المؤمنون: 56]
تو (اس سے) ان کی بھلائی میں جلدی کر رہے ہیں (نہیں) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں
Surah Muminoon UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اکل حلال کی فضیلت اللہ تعالیٰ اپنے تمام انبیاء ؑ کو حکم فرتا ہے کہ وہ حلال لقمہ کھائیں اور نیک اعمال بجالایا کریں پس ثابت ہوا کہ لقمہ حلال عمل صالحہ کا مددگار ہے پس انبیاء نے سب بھلائیاں جمع کرلیں، قول، فعل، دلالت، نصیحت، سب انہوں نے سمیٹ لی۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے سب بندوں کی طرف سے نیک بدلے دے۔ یہاں کوئی رنگت مزہ بیان نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ حلال چیزیں کھاؤ۔ حضرت عیسیٰ ؑ اپنی والدہ کے بننے کی اجرت میں سے کھاتے تھے صحیح حدیث میں ہے کوئی نبی ایسا نہیں جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں لوگوں نے پوچھا آپ سمیت ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں بھی چند قیراط پر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا ؟ اور حدیث میں ہے حضرت داؤد ؑ اپنے ہاتھ کی محنت کا کھایا کرتے تھے۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے اللہ کو سب سے زیادہ پسند روزہ داؤد ؑ کا روزہ ہے اور سب سے زیادہ پسندیدہ قیام داؤد ؑ کا قیام ہے۔ آدھی رات سوتے تھے اور تہائی رات نماز تہجد پڑھتے تھے اور چھٹا حصے سوجاتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہ رکھتے تھے میدان جنگ میں کبھی پیٹھ نہ دکھاتے۔ ام عبداللہ بن شداد ؓ فرماتی ہیں میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ شام کے وقت بھیجا تاکہ آپ اس سے اپنا روزہ افطار کریں دن کا آخری حصہ تھا اور دھوپ کی تیزی تھی تو آپ نے قاصد کو واپس کردیا اگر تیری بکری کا ہوتا تو خیر اور بات تھی۔ انہوں نے پیغام بھیجا کہ یارسول اللہ ﷺ میں نے یہ دودھ اپنے مال سے خرید کیا ہے پھر آپ نے پی لیا دوسرے دن مائی صاحبہ حاضر خدمت ہو کر عرض کرتی ہیں کہ یارسول اللہ ﷺ اس گرمی میں میں نے دودھ بھیجا، بہت دیر سے بھیجا تھا آپ نے میرے قاصد کو واپس کردیا۔ آپ نے فرمایا ہاں مجھے یہی فرمایا گیا ہے۔ " انبیاء صرف حلال کھاتے ہیں اور صرف نیک عمل کرتے ہیں "، اور حدیث میں ہے آپ نے فرمایا لوگو اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ صرف پاک کو ہی قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسول کو دیا ہے کہ اے رسولو ! پاک چیز کھاؤ اور نیک کام کرو میں تمہارے اعمال کا عالم ہوں یہی حکم ایمان والوں کو دیا کہ اے ایماندارو ! جو حلال چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ۔ پھر آپ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے پراگندہ بالوں والا غبار آلود چہرے والا ہوتا ہے لیکن کھانا پہنن احرام کا ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر اے رب اے رب کہتا ہے لیکن ناممکن ہے کہ اس کی دعا قبول فرمائی جائے۔ امام ترمذی ؒ اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں۔ پھر فرمایا اے پیغمبرو تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے ایک ہی ملت ہے یعنی اللہ واحد لاشریک لہ کی عبادت کی طرف دعوت دینا۔ اسی لئے اسی کے بعد فرمایا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ پس مجھ سے ڈرو۔ سورة انبیاء میں اس کی تفسیر و تشریح ہوچکی ہے آیت ( امتہ واحدۃ ) پر نصب حال ہونے کی وجہ ہے۔ جن امتوں کی طرف حضرت انبیاء ( علیہم السلام ) بھیجے گئے تھے انہوں نے اللہ کے دین کے ٹکڑے کردئے اور جس گمراہی پر اڑگئے اسی پر نازاں وفرحاں ہوگئے اس لئے کہ اپنے نزدیک اسی کو ہدایت سمجھ بیٹھے۔ پس بطور ڈانٹ کے فرمایا انہیں ان کے بہکنے بھٹکنے میں ہی چھوڑ دیجئے یہاں تک کہ ان کی تباہی کا وقت آجائے۔ کھانے پینے دیجئے، مست وبے خود ہونے دیجئے، ابھی ابھی معلوم ہوجائے گا۔ کیا یہ مغرور یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو مال واولاد انہیں دے رہے ہیں وہ ان کی بھلائی اور نیکی کی وجہ سے ان کے ساتھ سلوک کررہے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ یہ تو انہیں دھوکا لگا ہے یہ اس سے سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جیسے یہاں خوش حال ہیں وہاں بھی بےسزا رہ جائیں گے یہ محض غلط ہے جو کچھ انہیں دنیا میں ہم دے رہے ہیں وہ تو صرف ذرا سی دیر کی مہلت ہے لیکن یہ بےشعور ہیں۔ یہ لوگ اصل تک پہنچے ہی نہیں۔ جیسے فرمان ہے۔ آیت ( فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ 55 ) 9۔ التوبة:55) تجھے ان کے مال واولاد دھوکے میں نہ ڈالیں اللہ کا ارادہ تو یہ ہے کہ اس سے انہیں دنیا میں عذاب کرے۔ اور آیت میں ہے یہ ڈھیل صرف اس لئے دی گئی ہے کہ وہ اپنے گناہوں میں اور بڑھ جائیں۔ اور جگہ ہے۔ مجھے اور اس بات کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دے ہم انہیں اس طرح بتدریج پکڑیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہو۔ اور آیتوں میں فرمایا ہے آیت ( ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا 11 ۙ ) 74۔ المدّثر:11) ، یعنی مجھے اور اسے چھوڑ دے جس کو میں نے تنہا پیدا کیا ہے اور بہ کثرت مال دیا ہے اور ہمہ وقت موجود فرزند دئیے ہیں اور سب طرح کا سامان اس لئے مہیا کردیا ہے پھر اسے ہوس ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں، ہرگز نہیں وہ ہماری باتوں کا مخالف ہے اور آیت میں ہے ( وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بالَّتِيْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓي اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ۡ فَاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ جَزَاۗءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِي الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ 37 ) 34۔ سبأ :37) تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تمہیں مجھ سے قربت نہیں دے سکتیں مجھ سے قریب تو وہ ہے جو ایماندار اور نیک عمل ہو۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں یہی اللہ کا شکر ہے پس تم انسانوں کو مال اور اولاد سے نہ پرکھو بلکہ انسان کی کسوٹی ایمان اور نیک عمل ہے۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے اخلاق بھی تم میں اسی طرح تقسیم کئے ہیں جس طرح روزیاں تقسیم فرمائی ہیں اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت رکھے اور اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت نہ رکھے ہاں دین صرف اسی کو دیتا ہے جس سے پوری محبت رکھتا ہو پس جسے اللہ دین دے سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور زبان مسلمان نہ ہوجائے اور بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بےفکر نہ ہوجائیں۔ لوگوں نے پوچھا کہ ایذاؤں سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا دھوکے بازی، ظلم وغیرہ۔ سنو جو بندہ حرام مال حاصل کرلے اس کے خرچ میں برکت نہیں ہوتی اس کا صدقہ قبول نہیں ہوتا جو چھوڑ کرجاتا ہے وہ اس کا جہنم کا توشہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا ہاں برائی کو بھلائی سے رفع کرتا ہے۔ خبیث خبیث کو نہیں مٹاتا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 56 نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْْخَیْرٰتِط بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ ” ہماری طرف سے اپنے ان نافرمانوں کو مال و اولاد جیسی نعمتوں سے نوازتے چلے جانا ان کے ساتھ بھلائی کی علامت نہیں ہے بلکہ یہی چیزیں ان کے لیے موجب عذاب بن جائیں گی۔ سورة التوبة میں یہ فلسفہ اس طرح بیان ہوا ہے : فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَلآَ اَوْلاَدُہُمْط اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ ”تو اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو ان کے اموال اور ان کی اولاد سے تعجب نہ ہو ‘ اللہ تو چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعے سے انہیں دنیا کی زندگی میں عذاب دے ‘ اور ان کی جانیں نکلیں اسی کفر کی حالت میں “۔ اور سورة التوبة ہی کی آیت 85 میں الفاظ کے بہت معمولی فرق کے ساتھ یہی مضمون پھر سے دہرایا گیا ہے۔آگے جو آیات آرہی ہیں ان کا انداز اس سورت کی ابتدائی آیات سے مشابہ ہے۔ سورت کے آغاز میں اکثر آیات اَلَّذِیْنَ یا والَّذِیْنَ سے شروع ہوتی ہیں اور ان آیات میں بھی اَلَّذِیْنَ اور والَّذِیْنَ کی تکرار ہے۔ گویا جو مضمون آغاز سورت میں بیان ہوا تھا یہ اس کی دوسری قسط ہے۔ وہاں پر بندۂ مؤمن کی سیرت کی تعمیر اور شخصیت کے ارتقاء کے لیے درکار بنیادی خصوصیات کا ذکر کیا گیا تھا جبکہ یہاں پر مطلوبہ شخصیت و کردار کی پختہ mature خصوصیات کی جھلکیاں دکھائی جا رہی ہیں ‘ جن میں زیادہ تر بندۂ مؤمن کی باطنی کیفیات کا تذکرہ ہے۔
Surah Muminoon Ayat 56 meaning in urdu
تو گویا انہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں؟ نہیں، اصل معاملے کا انہیں شعور نہیں ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (ان سے) پوچھو کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے کس کا ہے کہہ
- نیکوکاروں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں
- اور (اے پیغمبر) تم کو جو حکم بھیجا جاتا ہے اس کی پیروی کئے جاؤ
- پھر اس کو بدکاری (سے بچنے) اور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی
- اور ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جس کو ہم نے
- تب زلیخا نے کہا یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے طعنے دیتی
- جب وہ ان کو صحیح و سالم (بچہ) دیتا ہے تو اس (بچے) میں جو
- اور (اے محمدﷺ) جو اپنے پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے ہیں ان سے
- عصر کی قسم
- (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا
Quran surahs in English :
Download surah Muminoon with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Muminoon mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Muminoon Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers