Surah al imran Ayat 56 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَأُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ﴾
[ آل عمران: 56]
یعنی جو کافر ہوئے ان کو دنیا اور آخرت (دونوں) میں سخت عذاب دوں گا اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا
Surah al imran UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اظہارخو دمختاری قتادہ وغیرہ بعض مفسرین تو فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا پھر اس کے بعد تجھے فوت کروں گا، ابن عباس فرماتے ہیں یعنی میں تجھے مارنے والا ہوں، وہب بن منبہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اٹھاتے وقت دن کے شروع میں تین ساعت تک فوت کردیا تھا، ابن اسحاق کہتے ہیں نصاریٰ کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات ساعت تک فوت رکھا پھر زندہ کردیا، وہب فرماتے ہیں تین دن تک موت کے بعد پھر زندہ کر کے اٹھا لیا، مطر وراق فرماتے ہیں یعنی میں تجھے دنیا میں پورا پورا کردینے والا ہوں یہاں وفات موت مراد نہیں، اسی طرح ابن جریر فرماتے ہیں تو فی سے یہاں مراد ان کا رفع ہے اور اکثر مفسرین کا قول ہے کہ وفات سے مراد یہاں نیند ہے، جیسے اور جگہ قرآن حکیم میں ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ ) 6۔ الأنعام:60) وہ اللہ ذوالمنن جو تمہیں رات کو فوت کردیتا ہے یعنی سلا دیتا ہے اور جگہ ہے آیت ( اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ) 39۔ الزمر:42) یعنی اللہ تعالیٰ ان کی موت کے وقت جانوں کو فوت کرتا ہے اور جو نہیں مرتیں انہیں ان کی نیند کے وقت، رسول اللہ ﷺ جب نیند سے بیدار ہوتے تو فرماتے ( حدیث الحمد للہ الذی احیانا بعدما اماتنا ) یعنی اللہ عزوجل کا شکر ہے جس نے ہمیں مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کردیا، اور جگہ فرمان باری تعالیٰ وبکفرھم سے شیھدا تک پڑھو جہاں فرمایا گیا ہے ان کے کفر کی وجہ سے اور حضرت مریم پر بہتان عظیم باندھ لینے کی بنا پر اور اس باعث کہ وہ کہتے ہیں ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ ﷺ کو قتل کردیا حالانکہ نہ قتل کیا ہے اور نہ صلیب دی لیکن ان کو شبہ میں ڈال دیا گیا موتہ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ ؑ ہیں یعنی تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ پر ایمان لائیں گے جبکہ وہ قیامت سے پہلے زمین پر اتریں گے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آرہا ہے۔ انشاء اللہ، پس اس وقت تمام اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے کیونکہ نہ وہ جزیہ لیں گے نہ سوائے اسلام کے اور کوئی بات قبول کریں گے، ابن ابی حاتم میں حضرت حسن سے ( آیت انی متوفیک ) کی تفسیر یہ مروی ہے کہ ان پر نیند ڈالی گئی اور نیند کی حالت میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں اٹھا لیا، حضرت حسن فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں سے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ مرے نہیں وہ تمہاری طرف قیامت سے پہلے لوٹنے والے ہیں۔ پھر فرماتا ہے میں تجھے اپنی طرف اٹھا کر کافروں کی گرفت سے آزاد کرنے والا ہوں، اور تیرے تابعداروں کو کافروں پر غالب رکھنے والا ہوں قیامت تک، چناچہ ایسا ہی ہوا، جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو آسمان پر چڑھا لیا تو ان کے بعد ان کے ساتھیوں کے کئی فریق ہوگئے ایک فرقہ تو آپ کی بعثت پر ایمان رکھنے والا تھا کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی ایک بندی کے لڑکے ہیں بعض وہ تھے جنہوں نے غلو سے کام لیا اور بڑھ گئے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنے لگے، اوروں نے آپ کو اللہ کہا، دوسروں نے تین میں کا ایک آپ کو بتایا، اللہ تعالیٰ ان کے ان عقائد کا ذکر قرآن مجید میں فرماتا ہے پھر ان کی تردید بھی کردی ہے تین سو سال تک تو یہ اسی طرح رہے، پھر یونان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ جو بڑا فیلسوف تھا جس کا نام اسطفلین تھا کہا جاتا ہے کہ صرف اس دین کو بگڑانے کے لئے منافقانہ انداز سے اس دین میں داخل ہوا یا جہالت سے داخل ہوا ہو، بہر صورت اس نے دین مسیح کو بالکل بدل ڈالا اور بڑی تحریف اور تفسیر کی اس دین میں اور کمی زیادہ بھی کر ڈالی، بہت سے قانون ایجاد کئے اور امانت کبریٰ بھی اسی کی ایجاد ہے جو دراصل کمینہ پن کی خیانت ہے، اسی نے اپنے زمانہ میں سور کو حلال کیا اسی کے حکم سے عیسائی مشرق کی طرف نمازیں پڑھنے لگے اسی نے گرجاؤں اور کلیساؤں میں عبادت خانوں اور خانقاہوں میں تصویریں بنوائیں اور اپنے ایک گناہ کے باعث دس روزے روزوں میں بڑھوا دئیے، غرض اس کے زمانہ سے دین مسیح مسیحی دین نہ رہا بلکہ دین اسطفلین ہوگیا، اس نے ظاہری رونق تو خوب دی بارہ ہزار سے زاید تو عبادت گاہیں بنوا دیں اور ایک شہر اپنے نام سے بسایا، ملکیہ گروہ نے اس کی تمام باتیں مان لیں لیکن باوجود ان سب سیاہ کاریوں کے یہودی ان کے ہاتھ تلے رہے اور دراصل نسبتاً حق سے زیادہ قریب یہی تھے گو فی الواقع سارے کے سارے کفار تھے اللہ خالق کل کی ان پر پھٹکار ہو، اب جبکہ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا برگزیدہ بنا کر دنیا میں بھیجا تو آپ پر جو لوگ ایمان لائے ان کا ایمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی تھا اس کے فرشتوں پر بھی تھا اس کی کتابوں پر بھی تھا اور اس کے تمام رسولوں پر بھی تھا پس حقیقت میں نبیوں کے سچے تابع فرمان یہی لوگ تھے یعنی امت محمد ﷺ ، اس لئے کہ یہ نبی امی عربی خاتم الرسول سید اولاد آدم کے ماننے والے تھے اور حضور ﷺ کی تعلیم برحق تعلیم کو سچا ماننے کی تھی، لہذا دراصل ہر نبی کے سچے تابعدار اور صحیح معنی میں امتی کہلانے کے مستحق یہی لوگ تھے کیونکہ ان لوگوں نے جو اپنے تئیں عیسیٰ کی امت کہتے تھے تو دین عیسوی کو بالکل مسخ اور فسخ کردیا تھا، علاوہ ازیں پیغمبر آخرالزمان کا دین بھی اور تمام اگلی شریعتوں کا ناسخ تھا پھر محفوظ رہنے والا تھا جس کا ایک شوشہ بھی قیامت تک بدلنے والا نہیں اس لئے اس آیت کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کافروں پر اس امت کو غالب کر اور یہ مشرق سے لے کر مغرب تک چھا گئے ملک کو اپنے پاؤں تلے روند دیا اور بڑے بڑے جابر اور کٹر کافروں کی گردنیں مروڑ دیں دولتیں ان کے پیروں میں آگئیں فتح و غنیمت ان کی رکابیں چومنے لگی مدتوں کی پرانی سلطنتوں کے تحت انہوں نے الٹ دئیے، کسریٰ کی عظیم الشان پر شان سلطنت اور ان کے بھڑکتے ہوئے آتش کدے ان کے ہاتھوں ویران اور سرد ہوگئے، قیصر کا تاج و تخت ان اللہ والوں نے تاخت و تاراج کیا اور انہیں مسیح پرستی کا خوب مزا چکھایا اور ان کے خزانوں کو اللہ واحد کی رضامندی میں اور اس کے سچے نبی کے دین کی اشاعت میں دل کھول کر خرچ کئے اور اللہ کے لکھے اور نبی کے وعدے چڑھے ہوئے سورج اور چودھویں کے روشن چاند کی طرح سچے ہوئے لوگوں نے دیکھ لئے، مسیح ؑ کے نام کو بدنام کرنے والے مسیح کے نام شیطانوں کو پوجنے والے ان پاکباز اللہ پرستوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر شام کے لہلہاتے ہوئے باغات اور آباد شہروں کو ان کے حوالے کر کے بدحواس بھاگتے ہوئے روم میں جا بسے پھر وہاں سے بھی یہ بےعزت کر کے نکالے گئے اور اپنے بادشاہ کے خاص شہر قسطنطنیہ میں پہنچے لیکن پھر وہاں سے بھی ذلیل خوار کر کے نکال دئیے گئے اور انشاء اللہ العزیز اسلام اور اہل اسلام قیامت تک ان پر غالب ہی رہیں گے۔ سب سچوں کے سردار جن کی سچائی پر مہر الٰہی لگ چکی ہے یعنی آنحضرت ﷺ خبر دے چکے ہیں جو اٹل ہے نہ کاٹے کٹے نہ توڑے ٹوٹے، نہ ٹالے ٹلے، فرماتے ہیں کہ آپ کی امت کا آخری گروہ قسطنطنیہ کو فتح کرے گا اور وہاں کے تمام خزانے اپنے قبضے میں لے گا اور رومیوں سے ان کی گھمسان کی لڑائی ہوگی کہ اس کی نظیر سے دنیا خالی ہو (ہماری دعا ہے کہ ہر زمانے میں اللہ قادر کل اس امت کا حامی و ناصر رہے اور روئے زمین کے کفار پر انہیں غالب رکھے اور انہیں سمجھ دے تاکہ یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کریں نہ محمد ﷺ کے سوا کسی اور کی اطاعت کریں، یہی اسلام کی اصل ہے اور یہی عروج دینوی کا گر ہے میں نے سب کو علیحدہ کتاب میں جمع کردیا ہے، آگے اللہ تعالیٰ کے قول پر نظر ڈالیے کہ مسیح ؑ کے ساتھ کفر کرنے والے یہود اور آپ کی شان میں بڑھ چڑھ کر باتیں بنا کر بہکنے والے نصرانیوں کو قتل و قید کی مار اور سلطنت کے تباہ ہوجانے کی یہاں بھی سزا دی اور آخرت کا عذاب وہاں دیکھ لیں گے جہاں نہ کوئی بچا سکے نہ مدد کرسکے گا لیکن برخلاف ان کے ایمانداروں کو پورا اجر اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا دنیا میں بھی فتح اور نصرت عزت و حرمت عطا ہوگی اور آخرت میں بھی خاص رحمتیں اور نعمتیں ملیں گی، اللہ تعالیٰ ظالموں کو ناپسند رکھتا ہے۔ پھر فرمایا اے نبی ﷺ یہ تھی حقیقت حضرت عیسیٰ کی ابتداء پیدائش کی اور ان کے امر کی جو اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے آپ کی طرف بذریعہ اپنی خاص وحی کے اتار دی جس میں کوئی شک و شبہ نہیں جیسے سورة مریم میں فرمایا، عیسیٰ بن مریم یہی ہیں یہی سچی حقیقت ہے جس میں تم شک و شبہ میں پڑے ہو، اللہ تعالیٰ کو تو لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو وہ اس سے بالکل پاک ہے وہ جو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے ہوجا، بس وہ ہوجاتا ہے، اب یہاں بھی اس کے بعد بیان ہو رہا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 55 اِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ لفظ مُتَوَفِّیْکَکو قادیانیوں نے اپنے اس غلط عقیدے کے لیے بہت بڑی بنیاد بنایا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہے۔ لہٰذا اس لفظ کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ وَفٰی کے معنی ہیں پورا کرنا۔ اردو میں بھی کہا جاتا ہے وعدہ وفا کرو۔ اسی سے باب تفعیل میں وَفّٰی۔ یُوَفِّیْ۔ تَوْفِیَۃً کا مطلب ہے کسی کو پورا دینا۔ جیسا کہ آیت 25 میں ہم پڑھ آئے ہیں : فَکَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْبَ فِیْہِقف وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ تو کیا حال ہوگا جب ہم انہیں اکٹھا کریں گے اس دن جس کے بارے میں کوئی شک نہیں ! اور ہر جان کو پورا پورا بدلہ اس کے اعمال کا دے دیا جائے گا اور ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ باب تفعّل میں تَوَفّٰی۔ یَتَوَفّٰیکا معنی ہوگا کسی کو پورا پورا لے لینا۔ اور یہ لفظ گویا بتمام و کمال منطبق ہوتا ہے حضرت مسیح علیہ السلام پر کہ جن کو اللہ تعالیٰ ان کے جسم اور جان سمیت دنیا سے لے گیا۔ ہم جب کہتے ہیں کہ کوئی شخص وفات پا گیا تو یہ استعارتاً کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کا جسم تو یہیں رہ گیا صرف جان گئی ہے۔ اور یہی لفظ قرآن میں نیند کے لیے بھی آیا ہے : اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا ج الزمر : 42 وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کرلیتا ہے۔ اس لیے کہ نیند میں بھی انسان سے خود شعوری نکل جاتی ہے ‘ اگرچہ وہ زندہ ہوتا ہے۔ روح کا تعلق خود شعوری کے ساتھ ہے۔ پھر جب انسان مرتا ہے تو روح اور جان دونوں چلی جاتی ہیں اور صرف جسم رہ جاتا ہے۔ قرآن حکیم نے ان دونوں حالتوں نیند اور موت کے لیے توفّی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور سب سے زیادہ مکمل تَوَفّی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام کو ان کے جسم ‘ جان اور روح تینوں سمیت ‘ جوں کا توں ‘ زندہ سلامت لے گیا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع سماوی کا یہ عقیدہ مسلمانوں کا ہے ‘ اور جہاں تک لفظ تَوَفّی کا تعلق ہے اس میں قطعاً کوئی ایسی پیچیدہ بات نہیں ہے جس سے کوئی شخص آپ علیہ السلام کی موت کی دلیل پکڑ سکے ‘ سوائے اس کے کہ ان لوگوں کو بہکانا آسان ہے جنہیں عربی زبان کی گرامر سے واقفیت نہیں ہے اور وہ ایک ہی وفات جانتے ہیں ‘ جبکہ ازروئے قرآن تین قسم کی وفات ثابت ہوتی ہے ‘ جس کی میں نے وضاحت کی ہے۔ آیت زیر مطالعہ کے متذکرہ بالا ٹکڑے کا ترجمہ پھر کر لیجیے : یاد کرو جب اللہ نے کہا کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں تمہیں لے جانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں۔وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ج یہود جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کا انکار کیا تھا اس وقت سے لے کر موجودہ زمانے تک حضرت مسیح علیہ السلام کے پیروکاروں سے مار کھاتے رہے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام 30 ء یا 33 ء میں آسمان پر اٹھا لیے گئے تھے اور اس کے بعد سے یہود پر عیسائیوں کے ہاتھوں مسلسل عذاب کے کوڑے برستے رہے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع سماوی کے چالیس برس بعد 70 ء میں ٹائٹس رومی کے ہاتھوں ہیکل سلیمانی مسمار ہوا اور یروشلم میں ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ تینتیس ہزار یہودی ایک دن میں قتل کیے گئے۔ گویا دو ہزار برس ہونے کو ہیں کہ ان کا کعبہ گرا پڑا ہے۔ اس کی صرف ایک دیوار دیوار گریہ باقی ہے جس پر جا کر یہ رو دھو لیتے ہیں۔ ہیکل سلیمانی اوّلاً بخت نصر نے چھٹی صدی قبل مسیح میں مسمار کیا تھا اور پورے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ اس نے لاکھوں یہودی تہ تیغ کردیے تھے اور لاکھوں کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا تھا۔ یہ ان کا اسارت Captivity کا دور کہلاتا ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام کے زمانے میں یہ فلسطین واپس آئے تھے اور معبد ثانیتعمیر کیا تھا ‘ جو 70 ء میں منہدم کردیا گیا اور انہیں فلسطین سے نکال دیا گیا۔ چناچہ یہ مختلف ملکوں میں منتشر ہوگئے۔ کوئی روس ‘ کوئی ہندوستان ‘ کوئی مصر اور کوئی یورپ چلا گیا۔ اس طرح یہ پوری دنیا میں پھیل گئے۔ یہ ان کا دور انتشار Diaspora کہلاتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رض کے دور میں جب عیسائیوں نے ایک معاہدے کے تحت یروشلم مسلمانوں کے حوالے کردیا تو حضرت عمر رض نے اسے کھلا شہر open city قرار دے دیا کہ یہاں مسلمان ‘ عیسائی اور یہودی سب آسکتے ہیں۔ اس طرح ان کی یروشلم میں آمد و رفت شروع ہوگئی۔ البتہ عیسائیوں نے اس معاہدے میں یہ شرط لکھوائی تھی کہ یہودیوں کو یہاں آباد ہونے یا جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چناچہ حضرت عمر رض کے زمانے سے خلافت عثمانیہ کے دور تک اس معاہدے پر عمل درآمد ہوتا رہا اور یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہودیوں نے عثمانی خلفاء کو بڑی سے بڑی رشوتوں کی پیشکش کی ‘ لیکن انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی۔ چناچہ انہوں نے سازشیں کیں اور خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کروا دیا۔ اس لیے کہ انہیں یہ نظر آتا تھا کہ اس خلافت کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ہم کسی طرح بھی فلسطین میں دوبارہ آباد ہو سکیں۔ انہوں نے 1917 ء میں برطانوی وزیر بالفور Balfor کے ذریعے بالفور ڈیکلریشن منظور کرایا ‘ جس میں ان کو یہ حق دیا گیا کہ وہ فلسطین میں آکر جائیداد بھی خرید سکتے ہیں اور آباد بھی ہوسکتے ہیں۔ اس ڈیکلریشن کی منظوری کے 31 برس بعد اسرائیل کی ریاست وجود میں آگئی۔ یہ تاریخ ذہن میں رہنی چاہیے۔ اب ایک طرح سے محسوس ہوتا ہے کہ یہودی دنیا بھر میں سیاست اور اقتدار پر چھائے ہوئے ہیں ‘ تعداد میں ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ہونے کے باوجود اس وقت دنیا کی معیشت کا بڑا حصہ ان کے کنٹرول میں ہے۔ لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ عیسائیوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہے۔ اگر عیسائی ان کی مدد نہ کریں تو عرب ایک دن میں ان کے ٹکڑے اڑا کر رکھ دیں۔ اس وقت پوری امریکی حکومت ان کی پشت پر ہے ‘ بلکہ White Anglo Saxon Protestants یعنی امریکہ اور برطانیہ تو گویا ان کے زرخرید ہیں۔ دوسرے عیسائی ممالک بھی ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ بہرحال اب بھی صورت حال یہ ہے کہ اوپر تو عیسائی ہی ہیں اور یہ معنوی طور پر سازشی انداز میں نیچے سے انہیں کنٹرول کر رہے ہیں۔
فأما الذين كفروا فأعذبهم عذابا شديدا في الدنيا والآخرة وما لهم من ناصرين
سورة: آل عمران - آية: ( 56 ) - جزء: ( 3 ) - صفحة: ( 57 )Surah al imran Ayat 56 meaning in urdu
جن لوگوں نے کفر و انکار کی روش اختیار کی ہے انہیں دنیا اور آخرت دونوں میں سخت سزا دوں گا اور وہ کوئی مددگار نہ پائیں گے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو
- پس خدا ہی کو ہر طرح کی تعریف (سزاوار) ہے جو آسمانوں کا مالک اور
- اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو
- اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس
- پھر باوجود اس کے کہ وہ لوگ نشان دیکھ چکے تھے ان کی رائے یہی
- اب اپنی شرارت کا مزہ چکھو۔ یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا
- اور جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار
- پھر ذکر (یعنی قرآن) پڑھنے والوں کی (غور کرکر)
- کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو (بات) نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو
- اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس
Quran surahs in English :
Download surah al imran with the voice of the most famous Quran reciters :
surah al imran mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter al imran Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers