Surah Zariyat Ayat 56 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾
[ الذاريات: 56]
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں
Surah Zariyat Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارادۂ شرعیہ تکلیفیہ کا اظہار ہے جو اس کو محبوب ومطلوب ہے کہ تمام انس وجن صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اطاعت بھی اسی ایک کی کریں۔ اگر اس کا تعلق ارادۂ تکوینی سے ہوتا، پھر تو کوئی انس وجن اللہ کی عبادت واطاعت سے انحراف کی طاقت ہی نہ رکھتا۔ یعنی اس میں انسانوں اور جنوں کو اس مقصد زندگی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جسے اگر انہوں نے فراموش کیے رکھا تو آخرت میں سخت بازپرس ہوگی اور وہ اس امتحان میں ناکام قرار پائیں گے جس میں اللہ نے ان کو ارادہ واختیار کی آزادی دے کر ڈالا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
تبلیغ میں صبرو ضبط کی اہمیت اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ کفار جو آپ کو کہتے ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں ان سے پہلے کا کافروں نے بھی اپنے اپنے زمانہ کے رسولوں سے یہی کہا ہے، کافروں کا یہ قول سلسلہ بہ سلسلہ یونہی چلا آیا ہے جیسے آپس میں ایک دوسرے کو وصیت کر کے جاتا ہو سچ تو یہ ہے کہ سرکشی اور سرتابی میں یہ سب یکساں ہیں اس لئے جو بات پہلے والوں کے منہ سے نکلی وہی ان کی زبان سے نکلتی ہے کیونکہ سخت دلی میں سب ایک سے ہیں پس آپ چشم پوشی کیجئے یہ مجنون کہیں جادوگر کہیں آپ صبر و ضبط سے سن لیں ہاں نصیحت کی تبلیغ نہ چھوڑئیے اللہ کی باتیں پہچانتے چلے جائیے۔ جن دلوں میں ایمان کی قبولیت کا مادہ ہے وہ ایک نہ ایک روز راہ پر لگ جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا فرمان ہے کہ میں نے انسانوں اور جنوں کو کسی اپنی ضرورت کے لئے نہیں پیدا کیا بلکہ صرف اس لئے کہ میں انہیں ان کے نفع کے لئے اپنی عبادت کا حکم دوں وہ خوشی ناخوشی میرے معبود برحق ہونے کا اقرار کریں مجھے پہچانیں حضرت سدی فرماتے ہیں بعض عبادتیں نفع دیتی ہیں اور بعض عبادتیں بالکل نفع نہیں پہنچاتیں جیسے قرآن میں ایک جگہ ہے کہ اگر تم ان کافروں سے پوچھو کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو یہ جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے تو گو یہ بھی عبادت ہے مگر مشرکوں کو کام نہ آئے گی غرض عابد سب ہیں خواہ عبادت ان کے لئے نافع ہو یا نہ ہو، اور حضرت ضحاک فرماتے ہیں اس سے مراد مسلمان انسان اور ایمان والے جنات ہیں مسند احمد کی حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ ﷺ نے یوں پڑھایا ہے حدیث ( اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ 58 ) 51۔ الذاريات:58) یہ حدیث ابو داؤد ترمذی اور نسائی میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح بتاتے ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بندگی کیلئے پیدا کیا ہے اب اس کی عبادت یکسوئی کے ساتھ جو بجا لائے گا کسی کو اس کا شریک نہ کرے گا وہ اسے پوری پوری جزا عنایت فرمائے گا اور جو اس کی نافرمانی کرے گا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک کرے گا وہ بدترین سزائیں بھگتے گا اللہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ کل مخلوق ہر حال اور ہر وقت میں اس کی پوری محتاج ہے بلکہ محض بےدست و پا اور سراسر فقیر ہے خالق رزاق اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے، مسند احمد میں حدیث قدسی ہے کہ اے ابن آدم میری عبادت کے لئے فارغ ہوجا میں تیرا سینہ تونگری اور بےنیازی سے پر کر دونگا اور تیری فقیری روک دوں گا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے سینے کو اشغال سے بھر دوں گا اور تیری فقیری کو ہرگز بند نہ کروں گا ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث شریف ہے، امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں خالد کے دونوں لڑکے حضرت حبہ اور حضرت سواء ؓ فرماتے ہیں ہم آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ کسی کام میں مشغول تھے یا کوئی دیوار بنا رہے تھے یا کسی چیز کو درست کر رہے تھے ہم بھی اسی کام میں لگ گئے جب کام ختم ہوا تو آپ نے ہمیں دعا دی اور فرمایا سر ہل جانے تک روزی سے مایوس نہ ہونا دیکھو انسان جب پیدا ہوتا ہے ایک سرخ بوٹی ہوتا ہے بدن پر ایک چھلکا بھی نہیں ہوتا پھر اللہ تعالیٰ اسے سب کچھ دیتا ہے ( مسند احمد ) بعض آسمانی کتابوں میں ہے اے ابن آدم میں نے تجھے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے تو اس سے غفلت نہ کر تیرے رزق کا میں ضامن ہوں تو اس میں بےجا تکلیف نہ کر مجھے ڈھونڈ تاکہ مجھے پالے جب تو نے مجھے پا لیا تو یقین مان کہ تو نے سب کچھ پا لیا اور اگر میں تجھے نہ ملا تو سمجھ لے کہ تمام بھلائیاں تو کھو چکا سن تمام چیزوں سے زیادہ محبت تیرے دل میں میری ہونی چاہیے۔ پھر فرماتا ہے یہ کافر میرے عذاب کو جلدی کیوں مانگ رہے ہیں ؟ وہ عذاب تو انہیں اپنے وقت پر پہنچ کر ہی رہیں گے جیسے ان سے پہلے کا کافروں کو پہنچے قیامت کے دن جس دن کا ان سے وعدہ ہے انہیں بڑی خرابی ہوگی الحمد اللہ سورة ذاریات کی تفسیر ختم ہوئی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 56{ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ } ” اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔ “ شیخ سعدی رح نے اس مفہوم کی ترجمانی اس طرح کی ہے : ؎زندگی آمد برائے بندگی زندگی بےبندگی شرمندگی !یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں تخلیق انسانی کی غایت بیان کی گئی ہے۔ کائنات کی تخلیق کے حوالے سے عام طور پر ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس تخلیق کا سبب کیا ہے ؟ یہ ایک مشکل اور پیچیدہ سوال ہے جس کے جواب میں ہر زمانے کے فلاسفر اور حکماء نے اپنی اپنی آراء دی ہیں۔ یہ ان تفاصیل میں جانے کا موقع نہیں۔ ایک عام شخص کے لیے تخلیق کائنات کے سبب کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ضروری نہیں اور اس لاعلمی کی وجہ سے اسے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی نہیں۔ البتہ اپنی تخلیق کی غرض وغایت کے بارے میں جاننا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ اگر انسان کو اپنی غایت تخلیق ہی کا علم نہیں ہوگا تو گویا اس کی ساری زندگی رائیگاں جائے گی۔ چناچہ اس آیت میں بنی نوع انسان کو ان کی غایت تخلیق واضح طور پر بتادی گئی ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ” بندگی “ کے لیے پیدا کیا ہے۔ بندگی یا عبادت کے بارے میں قبل ازیں بھی میں نے کئی مرتبہ وضاحت کی ہے کہ اس کے تین حصے ہیں : اوّلاً ہمہ تن اطاعت ‘ ثانیاً اطاعت کی روح یعنی اللہ تعالیٰ کی غایت درجے کی محبت۔ عبادت اصلاً ان دو چیزوں کے مجموعے کا نام ہے اَلْعِبَادَۃُ تَجْمَعُ اَصْلَیْنِ : غَایَۃَ الْحُبِّ مَعَ غَایَۃِ الذُّلِّ وَالْخُضُوْعِ ۔ جبکہ تیسری چیز مراسم ِعبودیت ہے ‘ جس کی حیثیت عبادت کے ظاہر یا جسم کی ہے۔ مثلاً اللہ کے سامنے عاجزی کی حالت قنوت میں کھڑے ہونا قیام ‘ رکوع ‘ سجدہ ‘ حمدیہ کلمات ادا کرنا ‘ نماز وغیرہ مراسم عبودیت ہیں اور ان کی اپنی اہمیت ہے۔ اگر ہم عبادت کی اس تعریف اللہ تعالیٰ کی ہمہ تن اطاعت کی روشنی میں آج اپنی حالت کا جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت واضح ہوگی کہ ہم میں سے جو لوگ اپنے زعم میں شب و روز پابندی کے ساتھ اللہ کی عبادت پر کمر بستہ ہیں وہ بھی زیادہ سے زیادہ دس یا پندرہ فیصد تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر رہے ہیں۔ اس کا واضح تر مطلب یہ ہے کہ ہماری زندگیوں کا غالب حصہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت سے نکلا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس پر کافرانہ نظام کا غلبہ ہے اور اس نظام کے تحت رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ہمہ تن اطاعت ممکن ہی نہیں۔ ان حالات میں ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت یا عبادت کے تقاضوں سے کیسے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے خواہش مند حضرات اس موضوع پر میری کتب اور تقاریر سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے یہاں پر مختصراً یہ سمجھ لیں کہ مادی وعلمی لحاظ سے انسان جس قدر چاہے ترقی کرلے اگر وہ اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت یا بندگی کے قالب میں ڈھالنے سے قاصر رہا تو انسانی سطح پر اس کی ساری زندگی بیکار اور رائیگاں ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اپنے ان اشعار میں انسان کی اسی ناکامی کی طرف اشارہ کیا ہے : ؎ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شب ِتاریک سحر کر نہ سکا !
Surah Zariyat Ayat 56 meaning in urdu
میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جو مجھے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا
- اور جب شام کو انہیں (جنگل سے) لاتے ہو اور جب صبح کو (جنگل) چرانے
- اور (پھر) نوحؑ نے (یہ) دعا کی کہ میرے پروردگار اگر کسی کافر کو روئے
- (غرض موسیٰ اور ہارون فرعون کے پاس گئے) اس نے کہا کہ موسیٰ تمہارا پروردگار
- غرض خدا نے موسیٰ کو ان لوگوں کی تدبیروں کی برائیوں سے محفوظ رکھا اور
- دونوں فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو رہا ہے
- اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) ان کے پروردگار کی
- اور جو لوگ (کچھ) نہیں جانتے (یعنی مشرک) وہ کہتے ہیں کہ خدا ہم سے
- ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے
- کہو کہ مجھے وہ لوگ تو دکھاؤ جن کو تم نے شریک (خدا) بنا کر
Quran surahs in English :
Download surah Zariyat with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Zariyat mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Zariyat Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers