Surah Nisa Ayat 63 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا﴾
[ النساء: 63]
ان لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے خدا اس کو خوب جانتا ہے تم ان (کی باتوں) کو کچھ خیال نہ کرو اور انہیں نصیحت کرو اور ان سے ایسی باتیں کہو جو ان کے دلوں میں اثر کر جائیں
Surah Nisa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرچہ ہم ان کے دلوں کے تمام بھیدوں سے واقف ہیں ( جس پر ہم انہیں جزا دیں گے ) لیکن اے پیغمبر! آپ ان کے ظاہر کو سامنے رکھتے ہوئے درگزر ہی فرمائیے اور وعظ ونصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے سے ان کے اندر کی اصلاح کی کوشش جاری رکھیئے ! جس سے یہ معلوم ہوا کہ دشمنوں کی سازش کو عفو ودرگزر، وعظ ونصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے ہی ناکام بنانے کی سعی کی جانی چاہیئے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
حسن سلوک اور دوغلے لوگ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دعوے کو جھٹلایا ہے جو زبانی تو اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تمام اگلی کتابوں پر اور اس قرآن و حدیث کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ کسی اور طرف لے جاتے ہیں، چناچہ یہ آیت ان دو شخصوں کے بارے میں نازل ہوئی جن میں کچھ اختلاف تھا ایک تو یہودی تھا دوسرا انصاری، یہودی تو کہتا تھا کہ چل محمد ﷺ سے فیصلہ کرالیں اور انصاری کہتا تھا کعب بن اشرف کے پاس چلو یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے جو بھی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن درپردہ احکام جاہلیت کی طرف جھکنا چاہتے تھے، اس کے سوا اوراقوال بھی ہیں، آیت اپنے حکم اور الفاظ کے اعتبار سے عام ہے ان تمام واقعات پر مشتمل ہے ہر اس شخص کی مذمت اور برائی کا اظہار کرتی ہے جو کتاب و سنت سے ہٹ کر کسی اور باطل کی طرف اپنا فیصلہ لے جائے اور یہی مراد یہاں طاغوت سے ہے ( یعنی قرآن و حدیث کے سوا کی چیز یا شخص ) صدور سے مراد تکبر سے منہ موڑ لینا، جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا ) 2۔ البقرۃ :170) یعنی جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی فرمانبرداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کی پیروی پر ہی اڑے رہیں گے، ایمان والوں کو جواب یہ نہیں ہوتا بلکہ ان کا جواب دوسری آیت میں اس طرح مذکور ہے ( اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) 24۔ النور:51) یعنی ایمان والوں کو جب اللہ رسول کے فیصلے اور حکم کی طرف بلایا جائے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور ہم نے تہ دل سے قبول کیا، پھر منافقوں کی مذمت میں بیان ہو رہا ہے کہ ان کے گناہوں کے باعث جب تکلیفیں پہنچتی ہیں اور تیری ضرورت محسوس ہوتی ہے تو دوڑے بھاگے آتے ہیں اور تمہیں خوش کرنے کے لئے عذر معذرت کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور قسمیں کھا کر اپنی نیکی اور صلاحیت کا یقین دلانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کے سوا دوسروں کی طرف ان مقدمات کے لے جانے سے ہمارا مقصود صرف یہی تھا کہ ذرا دوسروں کا دل رکھا جائے آپس میں میل جول نبھ جائے ورنہ دل سے کچھ ہم ان کی اچھائی کے معتقد نہیں، جیسے اور آیت میں ( فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ ۭفَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ ) 5۔ المائدة:52) تک بیان ہوا ہے، یعنی تو دیکھے گا کہ بیمار دل یعنی منافق یہود و نصاریٰ کی باہم دوستی کی تمام تر کوششیں کرتے پھرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے اختلاف کی وجہ سے آفت میں پھنس جانے کا خطرہ ہے بہت ممکن ہے ان سے دوستی کے بعد اللہ تعالیٰ فتح دیں یا اپنا کوئی حکم نازل فرمائیں اور یہ لوگ ان ارادوں پر پشیمان ہونے لگیں جو ان کے دلوں میں پوشیدہ ہیں، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ابو برزہ اسلمی ایک کاہن شخص تھا، یہود اپنے بعض فیصلے اس سے کراتے تھے ایک واقعہ میں مشرکین بھی اس کی طرف دوڑے اس میں یہ آیتیں ( آیت الم تر سے ترفیقا ) تک نازل ہوئیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس قسم کے لوگ یعنی منافقین کے دلوں میں جو کچھ ہے ؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ کو کامل ہے اس پر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مخفی نہیں وہ ان کے ظاہر وباطن کا اسے علم ہے تو ان سے چشم پوشی کر ان کے باطنی ارادوں پر ڈانٹ ڈپٹ نہ کر ہاں انہیں نفاق اور دوسروں سے شر و فساد وابستہ رہنے سے باز رہنے کی نصیحت کر اور دل میں اترنے والی باتیں ان سے کہ بلکہ ان کے لئے دعا بھی کر۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 63 اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰہُ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ ق فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ وَعِظْہُمْ وَقُلْ لَّہُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلاً م بَلِیْغًا یہ آیات نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رض کو بری قرار دیا کہ اللہ کی طرف سے ان کی براءت آگئی ہے ‘ اور اسی دن سے ان کا لقب فاروققرار پایا ‘ یعنی حق و باطل میں فرق کردینے والا۔اب ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ اس سورة مبارکہ میں منافقت جو زیر بحث آئی ہے وہ تین عنوانات کے تحت ہے۔ منافقوں پر تین چیزیں بہت بھاری تھیں ‘ جن میں سے اوّلین رسول اللہ ﷺ کی اطاعت تھی۔ اور یہ بڑی نفسیاتی بات ہے۔ ایک انسان کے لیے دوسرے انسان کی اطاعت بڑا مشکل کام ہے۔ ہم جو رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ ہمارے لیے ایک ادارے institution کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ رسول ﷺ ‘ شخصاً ہمارے سامنے موجود نہیں ہے۔ جبکہ ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ شخصاً موجود تھے۔ وہ دیکھتے تھے کہ ان کے بھی دو ہاتھ ہیں ‘ دو پاؤں ہیں ‘ دو آنکھیں ہیں ‘ لہٰذا بظاہر اپنے جیسے ایک انسان کی اطاعت ان پر بہت شاق تھی۔ جیسا کہ جماعتوں میں ہوتا ہے کہ امیر کی اطاعت بہت شاق گزرتی ہے ‘ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ امیر کی رائے پر چلنے کے لیے اپنی رائے کو پیچھے ڈالنا پڑتا ہے۔ جو صادق الایمان مسلمان تھے انہیں تو یہ یقین تھا کہ یہ محمد بن عبد اللہ جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں ‘ حقیقت میں محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور ہم ان کی اسی حیثیت میں ان پر ایمان لائے ہیں۔ لیکن جن کے دلوں میں یہ یقین نہیں تھا یا کمزور تھا ان کے لیے حضور ﷺ کی شخصی اطاعت بڑی بھاری اور بڑی کٹھن تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مواقع پر وہ کہتے تھے کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اپنے پاس سے کہہ رہے ہیں۔ کیوں نہیں کوئی سورت نازل ہوجاتی ؟ کیوں نہیں کوئی آیت نازل ہوجاتی ؟ اور سورة محمد ﷺ اسی انداز میں نازل ہوئی ہے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ محمد ﷺ نے خود اپنی طرف سے اقدام کردیا ہے۔ اس پر اللہ نے کہا کہ لو پھر ہم قتال کی آیات نازل کردیتے ہیں۔ دوسری چیز جو ان پر کٹھن تھی وہ ہے قتال ‘ یعنی اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلنا۔ ان کا حال یہ تھا کہ ع مرحلہ سخت ہے اور جان عزیز ! تیسری کٹھن چیز ہجرت تھی۔ اس کا اطلاق منافقین مدینہ پر نہیں ہوتا تھا بلکہ مکہ اور ارد گرد کے جو منافق تھے ان پر ہوتا تھا۔ ان کا ذکر بھی آگے آئے گا۔ ظاہر ہے گھر بار اور خاندان والوں کو چھوڑ کر نکل جانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اب سب سے پہلے اطاعت رسول ﷺ ‘ کی اہمیت بیان کی جا رہی ہے :
أولئك الذين يعلم الله ما في قلوبهم فأعرض عنهم وعظهم وقل لهم في أنفسهم قولا بليغا
سورة: النساء - آية: ( 63 ) - جزء: ( 5 ) - صفحة: ( 88 )Surah Nisa Ayat 63 meaning in urdu
اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، ان سے تعرض مت کرو، انہیں سمجھاؤ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جو شخص اپنے پروردگار کے پاس گنہگار ہو کر آئے گا تو اس کے لئے
- اب تو یہ لوگ قیامت ہی کو دیکھ رہے ہیں کہ ناگہاں ان پر آ
- اور بہت سے پچھلوں میں سے
- خدا تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹاتا رہتا ہے۔ بےشک خدا کسی خیانت
- کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر یہ (قرآن) خدا کی طرف سے ہو اور تم
- جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لیے برابر
- جو لوگ عرش کو اٹھائے ہوئے اور جو اس کے گردا گرد (حلقہ باندھے ہوئے)
- تو اس روز ظالم لوگوں کو ان کا عذر کچھ فائدہ نہ دے گا اور
- اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان
- اور جو کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے اور خدا
Quran surahs in English :
Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers