Surah Al Israa Ayat 79 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا﴾
[ الإسراء: 79]
اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو (اور تہجد کی نماز پڑھا کرو) ۔ (یہ شب خیزی) تمہاری لئے (سبب) زیادت ہے (ثواب اور نماز تہجد تم کو نفل) ہے قریب ہے کہ خدا تم کو مقام محمود میں داخل کرے
Surah Al Israa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) بعض کہتے ہیں ” تھجد “ اضداد میں سے ہے جس کے معنی سونے کے بھی ہیں اور نیند سے بیدار ہونے کے بھی۔ اور یہاں یہی دوسرے معنی ہیں کہ رات کو سو کر اٹھیں اور نوافل پڑھیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ” ھجود “ کے اصل معنی تو رات کو سونے کے ہی ہیں، لیکن باب تفعّل میں جانے سے اس میں تجنّب کے معنی پیدا ہوگئے جیسے تأثم کے معنی ہیں اس نے گناہ سے اجتناب کیا، یا بچا، اس طرح تھجد کے معنی ہونگے، سونے سے بچنا جو رات کو سونے سے بچا اور قیام کیا۔ بہرحال تھجد کا مفہوم رات کے پچھلے پہر اٹھ کر نوافل پڑھنا۔ ساری رات قیام اللیل کرنا خلاف سنت ہے۔ نبی رات کے پہلے حصے میں سوتے اور پچھلے حصے میں اٹھ کر تہجد پڑھتے۔ یہی طریقہ سنت ہے۔
( 2 ) بعض نے اس کے معنی کئے ہیں یہ ایک زائد فرض ہے جو آپ کے لئے خاص ہے، اس طرح وہ کہتے ہیں کہ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) پر تہجد بھی اسی طرح فرض تھی، جس طرح پانچ نمازیں فرض تھیں۔ البتہ امت کے لئے تہجد کی نماز فرض نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تہجد آپ پر فرض تھی نہ آپ کی امت پر۔ یہ ایک زائد عبادت ہے جس کی فضیلت یقینا بہت ہے اور اس وقت اللہ اپنی عبادت سے بڑا خوش ہوتا ہے۔ تاہم یہ نماز فرض و واجب نہ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) پر تھی اور نہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی امت پر ہی فرض ہے۔
( 3 ) یہ وہ مقام ہے جو قیامت والے دن اللہ تعالٰی نبی کو عطا فرمائے گا اور اس مقام پر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ شفاعت عظمٰی فرمائیں گے، جس کے بعد لوگوں کا حساب کتاب ہوگا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اوقات صلوۃ کی نشاندہی نمازوں کو وقتوں کی پابندی کے ساتھ ادا کرنے کا حکم ہو رہا ہے دلوک سے مراد غرب ہے یا زوال ہے۔ امام ابن جریر زوال کے قول کو پسند فرماتے ہیں اور اکثر مفسرین کا قول بھی یہی ہے۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں میں نے حضور ﷺ کی اور آپ کے ساتھ ان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جنہیں آپ نے چاہا دعوت کی، کھانا کھا کر سورج ڈھل جانے کے بعد آپ میرے ہاں سے چلے، حضرت ابوبکر ؓ سے فرمایا، چلو یہی وقت دلوک شمس کا ہے۔ پس پانچوں نمازوں کا وقت اس آیت میں بیان ہوگیا۔ غسق سے۔ مراد اندھیرا ہے جو کہتے ہیں کہ دلوک سے مراد غروبي ہے، ان کے نزدیک ظہر عصر مغرب عشا کا بیان تو اس میں ہے اور فجر کا بیان وقران الفجر میں ہے۔ حدیث سے بہ تواتر اقوال و افعال آنحضرت ﷺ سے پانچوں نمازوں کے اوقات ثابت ہیں اور مسلمان بحمد للہ اب تک اس پر ہیں، ہر پچھلے زمانے کے لوگ اگلے زمانے والوں سے برابر لیتے چلے آتے ہیں۔ جیسے کہ ان مسائل کے بیان کی جگہ اس کی تفصیل موجود ہے والحمد للہ۔ صبح کی تلاوت قرآن پر دن اور رات کے فرشتے آتے ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے تنہا شخص کی نماز پر جماعت جماعت کی نماز پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ صبح کن نماز کے وقت دن اور رات کے فرشتے اکھٹے ہوتے ہیں۔ اسے بیان فرما کر راوی حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا تم قرآن کی آیت کو پڑھ لو وقران الفجر الخ، بخاری و مسلم میں ہے کہ رات کے اور دن کے فرشتے تم میں برابر پے در پے آتے رہتے ہیں، صبح کی اور عصر کی نماز کے وقت ان کا اجتماع ہوجاتا ہے تم میں جن فرشتوں نے رات گزاری وہ جب چڑھ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے، باوجود یہ کہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں نماز میں پایا اور واپس آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ یہ چوکیدار فرشتے صبح کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر یہ چڑھ جاتے ہیں اور وہ ٹھیر جاتے ہیں۔ ابن جریر کی ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کے نزول فرمانے اور اس ارشاد فرمانے کا ذکر کیا کہ کوئی ہے ؟ جو مجھ سے استغفار کرے اور میں اسے بخشوں کوئی ہے ؟ کہ مجھ سے سوال کرے اور میں اسے دوں۔ کوئی ہے ؟ جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں۔ یہاں تک کہ صبح طلوع ہوجاتی ہے پس اس وقت پر اللہ تعالیٰ موجود ہوتا ہے اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر ﷺ کو تہجد کی نماز کا حکم فرماتا ہے، فرشوں کا تو حکم ہے ہی۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا رات کی نماز۔ تہجد کہتے ہیں نیند کے بعد کی نماز کو، لغت میں مفسرین کی تفسیروں میں اور حدیث میں یہ موجود ہے آپ کی عادت بھی یہی تھی کہ سو کر اٹھتے پھر تہجد پڑھتے۔ جیسے کہ اپنی جگہ بیان موجود ہے۔ ہاں حسن بصری کا قول ہے کہ جو نماز عشا کے بعد ہو۔ ممکن ہے کہ اس سے بھی مراد سو جانے کے بعد ہو۔ پھر فرمایا یہ زیادتی تیرے لئے ہے۔ بعض تو کہتے ہیں، تہجد کی نمازوں کے برخلاف صرف حضور ﷺ پر فرض تھی۔ بعض کہتے ہیں یہ خصوصیت اس وجہ سے ہے کہ آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف تھے اور امتیوں کی اس نماز کے وجہ سے ان کے گناہ دور ہوجاتے ہیں۔ ہمارے اس حکم کی بجا آوری پر ہم تجھے اس جگہ کھڑا کریں گے کہ جہاں گھڑا ہونے پر تمام مخلوق آپ کی تعریفیں کرے گی اور خود خالق اکبر بھی۔ کہتے ہیں کہ مقام محمود پر قیامت کے دن آپ اپنی امت کی شفاعت کے لئے جائیں گے تاکہ اس دن کی گھبراہٹ سے آپ انہیں راحت دیں۔ حضرت حدیفہ ؓ فرماتے ہیں لوگ ایک ہی میدان میں جمع کئے جائیں گے پکارنے والا اپنی آواز انہیں سنائے گا، آنکھیں کھل جائیں گے، ننگے پاؤں ننگ بدن ہوں گے، جیسے کہ پیدا کئے گے تھے، سب کھڑے ہوں گے، کوئی بھی بغیر اجازت الہٰی بات نہ کرسکے گا، آواز آئے گی، اے محمد ﷺ ! آپ کہیں گے لبیک وسعدیک۔ اے اللہ تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے۔ برائی تیری جانب سے نہیں۔ راہ یافتہ وہی ہے جسے تو ہدایت بخشے، تیرا غلام تیرے سامنے موجود ہے، وہ تیری ہی مدد سے قائم ہے، وہ تیری ہی جانب جھکنے والا ہے۔ تیری پکڑ سے سوائے تیرے دربار کے اور کوئی پناہ نہیں تو برکتوں اور بلندیوں والا ہے اے رب البیت تو پاک ہے۔ مقام محمود کا تعاف یہ مقام محمود جس کا ذکر اللہ عز و جل نے اس آیت میں کیا ہے۔ پس یہ مقام مقام شفاعت ہے۔ قتادہ ؒ فرماتے ہیں قیامت کے دن سب سے پہلے زمین سے آپ باہر آئیں گے۔ اور سب سے پہلے شفاعت آپ ہی کریں گے۔ اہل علم کہتے ہیں کہ یہی مقام محمود ہے جس کا وعدہ اللہ کریم نے اپنے رسول مقبول سے کیا ہے۔ ﷺ بیشک حضور ﷺ کی بہت سی بزرگیاں ایسی ملیں گی جن میں کوئی آپ کی برابری کا نہیں۔ سب سے پہلے آپ ہی کی قبر کی زمین شق ہوگی اور آپ سواری پر سوار محشر کی طرف جائیں گے، آپ کا ایک جھنڈا ہوگا کہ حضرت آدم ؑ حضرت نوح ؑ ، حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس ہو آئیں اور سب انکار کردیں۔ پھر آپ کے پاس آئیں گے اور آپ اس کے لئے تیار ہوں گے جیسے کہ اس کی حدیثیں مفصل آرہی ہے انشاء اللہ آپ ان لوگوں کی شفاعت کریں گے جن کی بابت حکم ہوچکا ہوگا کہ انہیں جہنم کی طرف لے جائیں۔ پھر وہ آپ کی شفاعت سے واپس لوٹا دئے جائیں گے، سب سے پہلے آپ ہی جنت میں لے جانے کی پہلے سفارشی ہوں گے۔ جیسے کہ صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔ صور کی حدیث میں ہے کہ تمام مومن آپ ہی کی شفاعت سے جنت میں جائیں گے۔ سب سے پہلے آپ جنت میں جائیں گے اور آپ کی امت اور امتوں سے پہلے جائے گی۔ آپ کی شفاعت سے کم درجے کے جنتی اعلی اور بلند درجے پائیں گے۔ آپ ہی صاحب وسیلہ ہیں جو جنت کی سب سے اعلی منزل ہے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملنے کی۔ یہ صحیح ہے کہ بحکم الہٰی گنہگاروں کی شفاعت فرشتے بھی کریں گے، نبی بھی کریں گے، مومن بھی کریں گے لیکن حضور ﷺ کی شفاعت جس قدر لوگوں کے بارے میں ہوگی ان کی گنتی کا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو علم نہیں اس میں کوئی آپ کی مثل اور برابر نہیں۔ کتاب السیرت کے آخر میں باب الخصائص میں میں نے اسے خوب تفصیل سے بیان کیا ہے والحمد للہ۔ اب مقام محمود کے بارے کی حدیثیں سنئے۔ اللہ ہماری مدد کرے۔ بخاری میں ہے حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں لوگ قیامت کے دن گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے ہر امت اپنے نبی کے پیچھے ہوگی کہ اے فلاں ہماری شفاعت کیجئے، اے فلاں ہماری شفاعت کیجئے یہاں تک کہ شفاعت کی انتہا محمد ﷺ کی طرف ہوگی۔ پس یہی وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا۔ ابن جریر میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں سورج بہت نزدیک ہوگا یہاں تک کہ پسینہ آدھے کانوں تک پہنچ جائے گا، اسی حالت میں لوگ حضرت آدم ؑ سے فریاد کریں گے، وہ صاف انکار کردیں گے پھر حضرت موسیٰ ؑ سے کہیں گے آب یہی جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں پھر حضرت محمد ﷺ سے کہیں گے آپ مخلوق کی شفاعت کے لئے چلیں گے یہاں تک کہ جنت کے دروازے کا کنڈا تھام لیں، پس اس وقت آپ کی تعریفیں کریں گے۔ بخاری میں ہے جو شخص اذان سن کر دعا ( اللہم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ ) الخ پڑھ لے اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہے۔ مسند احمد میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں قیامت کے دن میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب اور ان کا سفارشی ہوں گا میں یہ کچھ بطور فخر کے نہیں کہتا۔ اسے ترمذی بھی لائے ہیں اور حسن صحیح کہا ہے۔ ابن ماجہ میں بھی یہ ہے۔ حضرت ابی بن کعب ؓ سے وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں قرآن کو سات قرأتوں پر پڑھنے کا بیان ہے اس کے آخر میں ہے کہ میں نے کہا اے اللہ میری امت کو بخش، الہٰی میری امت کو بخش، تیری دعا میں نے اس دن کے لئے اٹھا رکھی ہے، جس دن تمام مخلوق میری طرف رعبت کرے گی، یہاں تک کہ اگر ابراہیم ؑ بھی۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن جمع ہوں گے پھر ان کے دل میں خیال ڈالا جائے گا کہ ہم کسی سے کہیں کہ وہ ہماری سفارش کر کے ہمیں اس جگہ سے آرام دے، پس سب کے سب حضرت آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے آدم آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کے لئے اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام بتائے آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش لے جائیے تاکہ ہمیں اس جگہ سے راحت ملے، حضرت آدم ؑ جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں آپ کو اپنا گناہ یاد آجائے گا اور اللہ تعالیٰ سے شرمانے لگیں، فرمائیں گے تم حضرت نوح ؓ کے پاس جاؤ وہ اللہ کے پہلے رسول ہیں، جنہیں زمین والوں کی طرف اللہ پاک نے بھیجا یہ آئیں گے یہاں سے بھی جواب پائیں گے کہ میں اس کے لائق نہیں ہوں، آپ کو بھی اپنی خطا یاد آئے گی کہ اللہ سے وہ سوال کیا تھا جس کا آپ کو علم نہ تھا۔ پس اپنے پروردگار سے شرمائیں جائیں گے اور فرمائیں گے تم ابراہیم خلیل الرحمن ؑ کے پاس جاؤ وہ آپ کے پاس آئیں گے، آپ فرمائیں کے، میں اس قابل نہیں تم حضرت موسیٰ ؑ کے پاس جاؤ، ان سے اللہ نے کلام کیا ہے اور انہیں تورات دی ہے لوگ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آئیں گے لیکن وہ کہیں گے مجھ میں اتنی قابلیت کہاں ؟ پھر آپ اس قتل کا ذکر کریں گے جو بغیر کسی مقتول کے معاوضے کے آپ نے کردیا تھا پس بوجہ اس کے شرمانے لگیں گے اور کہیں گے تم عیسیٰ ؑ کے پاس جاؤ جو اللہ کے بندے اس کا کلمہ اور اس کی روح ہے۔ وہ یہاں آئیں گے لیکن آپ فرمائیں گے میں اس جگہ کے قابل نہیں ہوں۔ تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ جن کے اول آخر تمام گناہ بخش دئے گئے ہیں، پس وہ میرے پاس آئیں گے میں کھڑا ہوؤں گا۔ اپنے رب سے اجازت چاہوں گا جب اسے دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا۔ جب تک اللہ کو منظور ہوگا میں سجدے میں ہی رہوں گا پھر فرمایا جائے گا، اے محمد سر اٹھائیے، کہئے، سنا جائے گا، شفاعت کیجئے، قبول کی جائے گی، مانگئے دیا جائے گا، پس میں سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ تعریفیں کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا۔ پھر میں سفارش پیش کروں گا، میرے لئے ایک حد مقرر کردی جائے گی، میں انہیں جنت میں پہچا آؤں گا، پھر دوبارہ جناب باری میں حاضر ہو کر اپنے رب کی وہ حمد بیان کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لئے ایک حد مقرر کردی جائے گی میں انہیں بھی جنت میں پہنچا آؤں گا۔ پھر تیسری مرتبہ لوٹوں گا اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک وہ چاہے اسی حالت میں پڑا رہوں گا پھر فرمایا جائے گا کہ محمد ﷺ سر اٹھا، بات کر، سنی جائے گی۔ سوال کر، عطا فرمایا جائے گا۔ سفارش کر، قبول کی جائے۔ چناچہ میں سر اٹھا کر وہ حمد بیان کر کے جو مجھے وہی سکھائے گا سفارش کروں گا۔ پھر چوتھی بار واپس آؤں گا اور کہوں گا باری تعالیٰ اب تو صرف وہی باقی رہ گئے ہیں جنہیں قرآن نے روک لیا ہے۔ فرماتے ہیں جہنم میں سے وہ شخص بھی نکل آئے گا جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو اور ان کے دل میں ایک ذرے جتنا ایمان ہو۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے۔ مسند احمد میں ہے آپ فرماتے ہیں میری امت پل صراط سے گزر رہی ہوگی میں وہیں کھڑا دیکھ رہا ہوں گا جو میرے پاس حضرت عیسیٰ ؑ آئیں اور فرمائیں گے اے محمد ﷺ انبیا کی جماعت آپ سے کچھ مانگتی ہے وہ سب آپ کے لئے جمع ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ تمام امتوں کو جہاں بھی چاہے، الگ الگ کر دے، اس وقت وہ سخت غم میں ہیں، تمام مخلوق پسینوں میں گویا لگام چڑھا دی گئی ہے۔ مومن پر تو وہ مثل زکام کے ہے لیکن کافر پر تو موت کا ڈھانپ لینا ہے۔ آپ فرمائیں گے کہ ٹھیرو میں آتا ہوں پس آپ جائیں گے عرش تلے کھڑے رہیں گے اور وہ عزت و آبرو ملے گی کہ کسی برگزیدہ فرشتے اور کسی بھیجے ہوئے نبی رسول کو نہ ملی ہو پھر اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل ؑ کی طرف وحی کرے گا کہ محمد ﷺ کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپ سر اٹھائیے، مانگئے، ملے گا، سفارش کیجئے، قبول ہوگی، پس مجھے اپنی امت کی شفاعت ملے گی کہ ہر ننانوے میں سے ایک نکال لاؤں میں بار بار اپنے رب عز و جل کی طرف آتا جاتا رہوں گا اور ہر بار سفاش کروں گا یہاں تک کہ جناب باری مجھ سے ارشاد فرمائے گا کہ اے محمد ﷺ جاؤ مخلوق الہٰی میں سے جس نے ایک دن بھی خلوص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی گواہی دی ہو اور اسی پر مرا ہو، اسے بھی جنت میں پہنچا آؤ۔ مسند احمد میں ہے حضرت بریدہ ؓ حضرت معاویہ سے ؓ کے پاس گئے اس وقت ایک شخص کچھ کہہ رہا تھا، انہوں نے بھی کچھ کہنے کی اجازت مانگی، حضرت معاویہ ؓ نے اجازت دی۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ جو کچھ یہ پہلا شخص کہہ رہا ہے وہی بریدہ ؓ بھی کہیں گے۔ حضرت بریدہ ؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ زمین پر جتنے درخت اور کنکر ہیں، ان کی گنتی کے برابر لوگوں کی شفاعت میں کروں گا، پس اے معاویہ ؓ آپ کو تو اس کی امید ہو اور حضرت علی ؓ اس سے ناامید ہوں ؟ مسند احمد میں ہے کہ ملیکہ کے دونوں لڑکے رسول اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری ماں ہمارے والد کی بڑی ہی عزت کرتی تھیں، بچوں پر بڑی مہربانی اور شفقت کرتی تھیں، مہمانداری میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتی تھیں۔ ہاں انہوں نے جاہلیت کے زمانے میں اپنی زندہ لڑکیاں درگور کردی تھیں، آپ نے فرمایا پھر وہ جہنم میں پہنچی۔ وہ دونوں ملول خاطر ہو کر لوٹے تو آپ نے حکم دیا کہ انہیں واپس بلا لاؤ وہ لوٹے اور ان کے چہروں پر خوشی تھی کہ اب حضور ﷺ کوئی اچھی بات سنائیں گے۔ آپ نے فرمایا سنو میری ماں اور تمہاری ماں دونوں ایک ساتھ ہی ہیں، ایک منافق یہ سن کر کہنگ لگا کہ اس سے اس کی ماں کو کیا فائدہ ؟ ہم اس کے پیچھے جاتے ہیں ایک انصاری جو حضور ﷺ سے سب سے زیادہ سوالات کرنے کا عادی تھا، کہنے لگا یا رسول اللہ ﷺ کیا اس کے یا ان دونوں کے بارے میں آپ سے اللہ تعالیٰ نے کوئی وعدہ کیا ہے ؟ آپ سمجھ گئے کہ اس نے کچھ سنا ہے، فرمانے لگے نہ میرے رب نے چاہا نہ مجھے اس بارے میں کوئی طمع دی۔ سنو میں قیامت کے دن مقام محمود پر پہنچایا جاؤں گا انصاری نے کہا وہ کیا مقام ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ اس وقت جب کہ تمہیں ننگے بدن بےختنہ لایا جائے گا۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے خلیل کو کپڑے پہناؤ۔ پس دو چادریں سفید رنگ کی پہنائی جائیں گی اور آپ عرش کی طرف منہ کئے بیٹھ جائیں گے پھر میرا لباس لایا جائے گا میں ان کی دائیں طرف اس جگہ کھڑا ہوؤں گا کہ تمام اگلے پچھلے لوگ رشک کریں گے اور کوثر سے لگ کر حوض تک ان کے لئے کھول دیا جائے گا، منافق کہنے لگے پانی کے جاری ہونے کے لئے تو مٹی اور کنکر لازمی ہیں آپ نے فرمایا اس کی مٹی مشک ہے اور کنکر موتی ہیں۔ اس نے کہا، ہم نے تو کبھی ایسا نہیں سنا۔ اچھا پانی کے کنارے درخت بھی ہونے چاہیئں، انصاری نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا وہاں درخت بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں سونے کی شاخوں والے۔ منافق نے کہا آج جیسی بات تو ہم نے کبھی نہیں سنی۔ اچھا درختوں میں پتے اور پھل بھی ہونے چاہئیں۔ انصاری نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ کیا ان درختوں میں پھل بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں رنگا رنگ کے جواہر اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہوگا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ ایک گھونٹ بھی جس نم اس میں سے پی لیا، وہ کبھی بھی پیاسا نہ ہوگا اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ پھر کبھی آسودہ نہ ہوگا۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ عز و جل شفاعت کی اجازت دے گا، پس روح القدس حضرت جبرائیل ؑ کھڑے ہوں گے، پھر حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کھڑے ہوں گے آپ سے زیادہ کسی کی شفاعت نہ ہوگی یہی مقام محمود ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے، میں اپنی امت سمیت ایک ٹیلے پر کھڑا ہوؤں گا، مجھے اللہ تعالیٰ سبز رنگ حلہ پہنائے گا، پھر مجھے اجازت دی جائے گی اور جو کچھ کہنا چاہوں گا، کہوں گا یہی مقام محمود ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے مجھے سجدہ کرنے کی اجازت دی جائے گی اور مجھے ہی سب سے پہلے سر اٹھانے کی اجازت ملے گی، میں اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھ کر اپنی امت کو اور امتوں میں پہچان لوں گا، کسی نے پوچھا حضور ﷺ اور ساری امتیں جو حضرت نوح کے وقت تک کی ہوں گی ان سب میں سے آپ خاص اپنی امت کیسے پہچان لیں گے ؟ آپ نے فرمایا وضو کے اثر سے ان کے ہاتھ پاؤں منہ چمک رہے ہوں گے ان کے سوا اور کوئی ایسا نہ ہوگا اور میں انہیں یوں پہچان لوں گا کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ملیں گے اور نشان یہ ہے کہ ان کی اولادیں ان کے آگے آگے چل پھر رہی ہوں گی۔ مسند احمد میں ہے حضور ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا اور شانے کا گوشت چونکہ آپ کو زیادہ مرغوب تھا، وہی آپ کو دیا گیا آپ اس میں سے گوشت توڑ توڑ کر کھانے لگے اور فرمایا قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا آواز دینے والا انہیں سنائے گا۔ نگاہیں اوپر کو چڑھ جائیں گی سورج بالکل نزدیک ہوجائے گا اور لوگ ایسی سختی اور رنج و غم میں مبتلا ہوجائیں گے جو ناقابل برداشت ہے۔ اس وقت وہ آپس میں کہیں گے کہ دیکھو تو سہی ہم سب کس مصیبت میں مبتلا ہیں، چلو کسی سے کہہ کر اسے سفارشی بنا کر اللہ تعالیٰ کے پاس بھیجیں۔ چنانچہ مشورہ سے طے ہوگا اور لوگ حضرت آدم ؑ کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے، آپ میں اپنی روح پھونکی ہے، اپنے فرشتوں کو آپ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دے کر ان سے سجدہ کرایا ہے۔ آپ کیا ہماری خستہ حالی ملاحظہ نہیں فرما رہے ؟ آپ پروردگار سے شفاعت کی دعا کیجئے۔ حضرت آدم ؑ جواب دیں گے کہ میرا رب آج اس قدر غضبناک ہو رہا ہے کہ کبھی اس سے پہلے ایسا غضبناک نہیں ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک درخت سے روکا تھا، لیکن مجھ سے نافرمانی ہوگئی۔ آج تو مجھے خود اپنا خیال لگا ہوا ہے۔ نفسا نفسی لگی ہوئی ہے۔ تم کسی اور کے پاس جاؤ نوح ؑ کے پاس جاؤ۔ لوگ وہاں سے حضرت نوح ؑ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے نوح ؑ آپ کو زمین والوں کی طرف سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا۔ آپ کا نام اس نے شکر گزار بندہ رکھا۔ آپ ہمارے لئے اپنے رب کے پاس شفاعت کیجئے، دیکھئے تو ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں ؟ حضرت نوح ؑ جواب دیں گے کہ آج تو میرا پروردگار اس قدر غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا غصے میں ہوا نہ اسے کے بعد کبھی ایسا غصے ہوگا۔ میرے لئے ایک دعا تھی جو میں نے اپنے قوم کے خلاف مانگ لی مجھے تو آج اپنی پڑی ہے، نفسا نفسی لگ رہی ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ۔ لوگ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس جائیں گے اور کہیں کے، آپ نبی اللہ ہیں، آپ خلیل اللہ ہیں، کیا آپ ہماری یہ بپتا نہیں دیکھتے ؟ حضرت ابراہیم ؑ فرمائیں گے کہ میرا رب آج اس قدر غضبناک ہے کہ کبھی اس سے پہلے ایسا ناراض ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی اس سے زیادہ غصے میں آئے گا پھر آپ آپنے جھوٹ یاد کر کے نفسی نفسی کرنے لگیں گے اور فرمائیں گے میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس جاؤ۔ لوگ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے موسیٰ ؑ ہماری شفاعت لے جائیے دیکھئے تو کیسی سخت آفت میں ہیں ؟ آپ فرمائیں گے آج تو میرا رب اس قدر نارض ہے ایسا کہ اس سے پہلے کبھی ایسا ناراض نہیں ہوا اور نہ کبھی اس کے بعد ایسا ناراض ہوگا، میں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ایک انسان کو مار ڈالا تھا۔ نفسی نفسی تم مجھے چھوڑ کسی اور سے کہو تم حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس چلے جاؤ۔ لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ ؑ آپ رسول اللہ کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں جو مریم ؑ کی طرف بھیجی گئی بچپن میں گہوارے میں ہی آپ نے بولنا شروع کردیا تھا چاہے ہمارے رب سے ہماری شفاعت کیجئے خیال تو فرمائیے کہ ہم کس قدر بےچین ہیں ؟ حضرت عیسیٰ ؑ جواب دیں گے کہ آج جیسا غصہ تو نہ پہلے تھا، نہ بعد میں ہوگا، نفسی نفسی نفسی، آپ اپنے کسی گناہ کا ذکر نہ کریں گے۔ فرمائیں گے تم کسی اور ہی کے پاس جاؤ۔ دیکھو میں بتاؤں تم سب محمد ﷺ کے پاس جاؤ چناچہ وہ سب حضور ﷺ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے محمد ﷺ آپ رسول اللہ ہیں، آپ خاتم الانبیاء ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئے ہیں۔ آپ ہماری شفاعت کیجئے دیکھئے تو ہم کیسی سخت بلاؤں میں گھرے ہوئے ہیں، پھر میں کھڑا ہوؤں گأ اور عرش تلے آ کر اپنے رب عز و جل کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثنا کے وہ الفاظ کھولے گا جو مجھ سے پہلے کسی اور پر نہیں کھلے تھے۔ پھر مجھ سے فرمایا جائے گا اے محمد ﷺ اپنا سر اٹھاؤ، مانگو، تمہیں ملے گا، شفاعت کرو، منظور ہوگی۔ میں اپنا سر سجدے سے اٹھاؤں گا اور کہوں گا میرے پروردگار میری امت، میرے رب میری امت، اے اللہ میری امت، پس مجھ سے فرمایا جائے گا، جاؤ اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جن پر حساب نہیں، جنت میں لے جاؤ انہیں جنت کے داہنی طرف کے دروازے سے پہنچاؤ لیکن اور تمام دروازوں سے بھی روک نہیں۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، جنت کی دو چوکھٹوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ ور حمیر میں یا مکہ اور بصری میں۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے۔ مسلم شریف میں ہے قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار میں ہوں اس دن سب سے پہلے میری قبر کی زمین شق ہوگی، میں ہی پہلا شفیع ہوں اور پہلا شفاعت قبول کیا گیا۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور ﷺ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ شفاعت ہے۔ مسند احمد میں ہے مقام محمود وہ مقام ہے، جس میں میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا۔ عبد الرزاق میں ہے کہ قیامت کے دن کھال کی طرح اللہ تعالیٰ زمین کو کھینچ لے گا یہاں تک کہ ہر شخص کے لئے صرف اپنے دونوں قدم ٹکانے کی جگہ ہی رہے گی سب سے پہلے اسے اس نے نہیں دیکھا۔ میں کہوں گا کہ باری تعالیٰ اس فرشتے نے مجھ سے کہا تھا کہ اسے تو میری طرف بھیج رہا تھا اللہ تعالیٰ عز و جل فرمائے گا اس نے سچ کہا اب میں یہ کہہ کر شفاعت کروں گا کہ اے اللہ تیرے بندوں نے زمین کے مختلف حصوں میں تیری عبادت کی ہے، آپ فرماتے ہیں یہی مقام محمود ہے۔ یہ حدیث مرسل ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 79 وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ یہاں لفظ ” بِہٖ “ میں وہی انداز ہے جس کی تکرار اس سے پہلے ہم سورة الأنعام میں دیکھ چکے ہیں۔ اَنْذِر بِہٖ ‘ ذَکِّر بِہٖ یعنی انذار تذکیر تبشیر تبلیغ سب قرآن کے ذریعے سے ہو۔ چناچہ یہاں پر رسول اللہ کو تہجد کا حکم دیا گیا تو فرمایا گیا کہ رات کا ایک حصہ آپ قرآن کے ساتھ جاگیے۔ تہجد کی نماز آپ قرآن کے ساتھ پڑھیں۔ گویا تہجد کا مقصد اور اس کی اصل روح یہی ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھا جائے۔ چھوٹی چھوٹی سورتوں کے ساتھ رکعتوں کی مخصوص تعداد پوری کرلینے سے یہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا” مقام محمود “ بہت ہی اعلیٰ اور ارفع مقام ہے جس پر آنحضور کو میدان حشر میں اور جنت میں فائز کیا جائے گا۔ ہم اس مقام کی عظمت اور کیفیت کا اندازہ اپنے تصور سے نہیں کرسکتے۔
ومن الليل فتهجد به نافلة لك عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا
سورة: الإسراء - آية: ( 79 ) - جزء: ( 15 ) - صفحة: ( 290 )Surah Al Israa Ayat 79 meaning in urdu
اور رات کو تہجد پڑھو، یہ تمہارے لیے نفل ہے، بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر فائز کر دے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی۔ ان کے لیے
- ذوالقرنین نے کہا کہ جو (کفر وبدکرداری سے) ظلم کرے گا اسے ہم عذاب دیں
- اور ظاہر اور پوشیدہ ہر طرح سمجھاتا رہا
- اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی اہل ذوزخ ہیں۔ ہمیشہ
- (اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے
- اور موسٰی نے کہا کہ میرا پروردگار اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس
- اور نہ زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں۔ خدا جس کو چاہتا ہے سنا دیتا
- اے کاش کافر اس وقت کو جانیں جب وہ اپنے مونہوں پر سے (دوزخ کی)
- جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے ان کو خدا بہشتوں میں جن
- اور مال کو بہت ہی عزیز رکھتے ہو
Quran surahs in English :
Download surah Al Israa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Israa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Israa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers