Surah Mujadila Ayat 8 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ مجادلہ کی آیت نمبر 8 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Mujadila ayat 8 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾
[ المجادلة: 8]

Ayat With Urdu Translation

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو سرگوشیاں کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ پھر جس (کام) سے منع کیا گیا تھا وہی پھر کرنے لگے اور یہ تو گناہ اور ظلم اور رسول (خدا) کی نافرمانی کی سرگوشیاں کرتے ہیں۔ اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو جس (کلمے) سے خدا نے تم کو دعا نہیں دی اس سے تمہیں دعا دیتے ہیں۔ اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ (اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا؟ (اے پیغمبر) ان کو دوزخ (ہی کی سزا) کافی ہے۔ یہ اسی میں داخل ہوں گے۔ اور وہ بری جگہ ہے

Surah Mujadila Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اس سے مدینے کے یہودی اور منافقین مراد ہیں۔ جب مسلمان ان کے پاس سے گزرتے تو یہ باہم سر جوڑ کر اس طرح سرگوشیاں اور کانا پھوسی کرتے کہ مسلمان یہ سمجھتے کہ شاید ان کے خلاف یہ کوئی سازش کررہے ہیں، یا مسلمانوں کے کسی لشکر پر دشمن نے حملہ کرکے انہیں نقصان پہنچایا ہے، جس کی خبر ان کے پاس پہنچ گئی ہے۔ مسلمان ان چیزوں سے خوف زدہ ہو جاتے۔ چنانچہ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے اس طرح سرگوشیاں کرنے سے منع فرما دیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد انہوں نے پھر یہ مذموم سلسلہ شروع کر دیا۔ آیت میں ان کے اسی کردار کو بیان کیا جارہا ہے۔
( 2 ) یعنی ان کی سرگوشیاں نیکی اور تقویٰ کی باتوں میں نہیں ہوتیں، بلکہ گناہ، زیادتی اور معصیت رسول ( صلى الله عليه وسلم ) پر مبنی ہوتی ہیں مثلاً کسی کی غیبت ، الزام تراشی ، بے ہودہ گوئی ، ایک دوسرے کو رسول ( صلى الله عليه وسلم ) کی نافرمانی پر اکسانا وغیرہ۔
( 3 ) یعنی اللہ نے تو سلام کا طریقہ یہ بتلایا کہ تم السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ ، کہو لیکن یہ یہودی نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس کے بجائے کہتے السَّامُ عَلَيْكُمْ یا عَلَيْكَ ( تم پر موت وارد ہو ) اس لیے رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) ان کے جواب میں صرف یہ فرمایا کرتے تھے۔ وَعَلَيْكُمْ یا وَعَلَيْكَ ( اور تم پر ہی ہو ) اور مسلمانوں کو بھی آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے تاکید فرمائی کہ جب کوئی اہل کتاب تمہیں سلام کرے تو تم جواب میں ” عَلَيْكَ “ کہا کرو یعنی عَلَيْكَ مَا قُلْتَ ( تو نے جو کہا ہے ، وہ تجھ پر ہی وارد ہو ) ( صحيح بخاري ومسلم ، كتاب الأدب ، باب لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم فاحشا ولا متفحشا )۔
( 4 ) یعنی وہ آپس میں یا اپنے دلوں میں کہتے کہ اگر یہ سچا نبی ہوتا تو اللہ تعالیٰ یقیناً ہماری اس قبیح حرکت پر ہماری گرفت ضرور فرماتا۔
( 5 ) اللہ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے اپنی مشیت اور حکمت بالغہ کے تحت دنیا میں ان کو فوری گرفت نہیں فرمائی تو کیا وہ آخرت میں جہنم کے عذاب سے بھی بچ جائیں گے؟ نہیں یقیناً نہیں۔ جہنم ان کی منتظر ہے جس میں وہ داخل ہوں گے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


معاشرتی آداب کا ایک پہلو اور قیامت کا ایک منظر کانا پھوسی سے یہودیوں کو روک دیا گیا تھا اس لئے کہ ان میں اور آنحضرت ﷺ میں جب صلح صفائی تھی تو یہ لوگ یہ حرکت کرنے لگے کہ جہاں کسی مسلمان کو دیکھا اور جہاں کوئی ان کے پاس گیا یہ ادھر ادھر جمع ہو ہو کر چپکے چپکے اشاروں کنایوں میں اس طرح کانا پھوسی کرنے لگتے کہ اکیلا دکیلا مسلمان یہ گمان کرتا کہ شاید یہ لوگ میرے قتل کی سازشیں کر رہے ہیں یا میرے خلاف اور ایمانداروں کے خلاف کچھ مخفی ترکیبیں سوچ رہے ہیں اسے ان کی طرف جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا، جب یہ شکایتیں عام ہوئیں تو حضور ﷺ نے یہودیوں کو اس سفلی حرکت سے روک دیا، لیکن انہوں نے پھر بھی یہی کرنا شروع کیا۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم لوگ باری باری رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رات کو حاضر ہوتے کہ اگر کوئی کام کاج ہو تو کریں، ایک رات کو باری والے آگئے اور کچھ اور لوگ بھی بہ نیت ثواب آگئے چونکہ لوگ زیادہ جمع ہوگئے تو ہم ٹولیاں ٹولیاں بن کر ادھر ادھر بیٹھ گئے اور ہر جماعت آپس میں باتیں کرنے لگی، اتنے میں آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور فرمایا یہ سرگوشیاں کیا ہو رہی ہیں ؟ کیا تمہیں اس سے روکا نہیں گیا ؟ ہم نے کہا حضور ﷺ ہماری توبہ ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے کیونکہ اس سے کھٹکا لگا رہتا ہے، آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اس سے بھی زیادہ خوف کی چیز بتاؤں وہ پوشیدہ شرک ہے اس طرح کہ ایک شخص اٹھ کھڑا ہو اور دوسروں کے دکھانے کیلئے کوئی دینی کام کرے ( یعنی ریاکاری ) اس کی اسناد غریب ہے اور اس میں بعض راوی ضعیف ہیں۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ ان کی خانگی سرگوشیاں یا تو گناہ کے کاموں پر ہوتی ہیں جس میں ان کا ذاتی نقصان ہے، یا ظلم پر ہوتی ہیں جس میں دوسروں کے نقصان کی ترکیبیں سوچتے ہیں یا پیغمبر ؑ کی مخالفت پر ایک دوسروں کو پختہ کرتے ہیں اور آپ کی نافرمانیوں کے منصوبے گانٹھتے ہیں۔ پھر ان بدکاروں کی ایک بدترین خصلت بیان ہو رہی ہے کہ سلام کے الفاظ کو بھی یہ بدل دیتے ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں ایک مرتبہ یہودی حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا السام علیک یا ابو القاسم حضرت عائشہ سے رہا نہ گیا فرمایا وعلیکم السام۔ سام کے معنی موت کے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے عائشہ اللہ تعالیٰ برے الفاظ اور سخت کلامی کو ناپسند فرماتا ہے۔ میں نے کہا کیا حضور ﷺ نے نہیں سنا۔ انہوں نے آپ کو السلام نہیں کہا بلکہ السام کہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے نہیں سنا ؟ میں نے کہہ دیا وعلیکم۔ اسی کا بیان یہاں ہو رہا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ نے ان کے جواب میں فرمایا تھا علیکم السام والنام واللعنتہ اور آپ نے صدیقہ کو روکتے ہوئے فرمایا کہ ہماری دعا ان کے حق میں مقبول ہے اور ان کا ہمیں کو سنانا مقبول ہے ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) ایک مرتبہ حضور ﷺ اپنے اصحاب کے مجمع میں تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی نے آکر سلام کیا صحابہ نے جواب دیا پھر حضور ﷺ نے صحابہ سے پوچھا معلوم بھی ہے اس نے کیا کہا تھا ؟ انہوں نے کہا حضرت ﷺ سلام کیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اس نے کہا تھا سام علیکم یعنی تمہارا دین مغلوب ہو کر مٹ جائے، پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس یہودی کو بلاؤ جب وہ آگیا تو آپ نے فرمایا سچ سچ بتا کیا تو نے سام علیکم نہیں کہا تھا ؟ اس نے کہا ہاں حضور ﷺ میں نے یہی کہا تھا آپ نے فرمایا سنو جب کبھی کوئی اہل کتاب تم میں سے کسی کو سلام کرے تو تم صرف علیک کہہ دیا کرو یعنی جو تو نے کہا ہو وہ تجھ پر ( ابن جریر وغیرہ ) پھر یہ لوگ اپنے اس کرتوت پر خوش ہو کر اپنے دل میں کہتے کہ اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہماری اس چالبازی پر ہمیں دنیا میں ضرور عذاب کرتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو ہمارے باطنی حال سے بخوبی واقف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انہیں دار آخرت کا عذاب ہی کافی ہے جہاں یہ جہنم میں جائیں گے اور بری جگہ پہنچیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ اس آیت کا شان نزول یہودیوں کا اس طریقے کا سلام ہے، حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ منافق اسی طرح سلام کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کو ادب سکھاتا ہے کہ تم ان منافقوں اور یہودیوں کے سے کام نہ کرنا تم گناہ کے کاموں اور حد سے گزر جانے اور نبی کے نہ ماننے کے مشورے نہ کرنا بلکہ تمہیں ان کے برخلاف نیکی اور اپنے بچاؤ کے مشورے کرنے چاہئیں۔ تمہیں ہر وقت اس اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے جس کی طرف تمہیں جمع ہونا ہے، جو اس وقت تمہیں ہر نیکی بدی کی جزا سزا دے گا اور تمام اعمال و اقوال سے متنبہ کرے گا گو تم بھول گئے لیکن اس کے پاس سب محفوظ اور موجود ہیں۔ حضرت صفوان فرماتے ہیں میں حضرت عبداللہ بن عمر کا ہاتھ تھامے ہوا تھا کہ ایک شخص آیا اور پوچھا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے مومن کی جو سرگوشی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ہوگی اس کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا رسالت مآب ﷺ سے میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب بلائے گا اور اس قدر قریب کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور لوگوں سے اسے پردے میں کرلے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور پوچھے گا یاد ہے ؟ فلاں گناہ تم نے کیا تھا فلاں کیا تھا فلاں کیا تھا یہ اقرار کرتا جائے گا اور دل دھڑک رہا ہوگا کہ اب ہلاک ہوا، اتنے میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھ دنیا میں بھی میں نے تیری پردہ پوشی کی اور آج بھی میں نے بخشش کی، پھر اسے اس کی نیکیوں کا نامہ اعمال دیا جائے گا لیکن کافر و منافق کے بارے میں تو گواہ پکار کر کہہ دیں گے کہ یہ اللہ پر جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں خبردار ہوجاؤ ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے ( بخاری و مسلم )۔ پھر فرمان ہے کہ اس قسم کی سرگوشی جس سے مسلمان کو تکلیف پہنچے اور اسے بدگمانی ہو شیطان کی طرف سے ہے شیطان ان منافقوں سے یہ کام اس لئے کراتا ہے کہ مومنوں کو غم و رنج ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی شیطان یا کوئی اور انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا، جسے کوئی ایسی حرکت معلوم ہو اسے چاہئے کہ اعوذ پڑھے اللہ کی پناہ لے اور اللہ پر بھروسہ رکھے انشاء اللہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ ایسی کانا پھوسی جو کسی مسلمان کو ناگوار گزرے، حدیث میں بھی منع آئی ہے، مسند احمد میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تم تین آدمی ہو تو دو مل کر کان میں منہ ڈال کر باتیں کرنے نہ بیٹھ جاؤ اس سے اس تیسرے کا دل میلا ہوگا ( بخاری و مسلم ) اور روایت میں ہے کہ ہاں اگر اس کی اجازت ہو تو کوئی حرج نہیں ( مسلم )۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 8{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نُہُوْا عَنِ النَّجْوٰی ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُہُوْا عَنْہُ } ” کیا تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنہیں منع کیا گیا تھا نجویٰ سے ‘ پھر وہ اعادہ کر رہے ہیں اسی شے کا جس سے انہیں منع کیا گیا تھا “ یہ مدینہ کے منافقین کا ذکر ہے جو یہودیوں کے ساتھ مل کر ہر وقت مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال ُ بننے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔ یہاں الَّذِیْنَ نُہُوْا عَنِ النَّجْوٰیکے الفاظ میں سورة النساء کی آیت 114 کے اس حکم کی طرف اشارہ ہے : { لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰٹھُمْ } کہ ان لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں خیر کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ آیت زیر مطالعہ میں سورة النساء کی آیت کے حوالے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سورة المجادلة ‘ سورة النساء کے بعد نازل ہوئی۔ { وَیَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ } ” اور وہ سرگوشیاں کرتے ہیں گناہ ‘ زیادتی اور رسول ﷺ کی نافرمانی سے متعلق۔ “ قبل ازیں سورة النساء کے مطالعے کے دوران بھی ذکر ہوچکا ہے کہ حضور ﷺ کی ذاتی اطاعت کا حکم منافقین کو بہت برا لگتا تھا۔ اس حوالے سے ان کا موقف یہ تھا کہ ہم اللہ کی اطاعت بھی کرتے ہیں ‘ اللہ کی کتاب کے تمام احکام بھی تسلیم کرنے کو تیار ہیں ‘ لیکن اپنے جیسے ایک انسان کی تمام باتوں کو من وعن تسلیم کرنے کو ہم ضروری نہیں سمجھتے۔ اسی سوچ اور اسی موقف کے تحت وہ لوگ حضور ﷺ کے فیصلوں پر گاہے بگاہے اعتراضات بھی کرتے رہتے تھے۔ ان کے ایسے ہی ایک اعتراض کا ذکر سورة محمد کی آیت 20 میں بھی آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے قتال کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا تو قریش کے ساتھ خواہ مخواہ چھیڑ چھاڑ شروع کر کے حالات کیوں خراب کیے جا رہے ہیں ؟ { وَاِذَا جَآئُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ } ” اور جب وہ آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں تو آپ ﷺ کو اس کلمہ سے دعا دیتے ہیں جس سے اللہ نے آپ ﷺ کو دعا نہیں دی “ ” تَحِیَّۃ “ کے لغوی معنی کسی کو زندگی کی دعا دینے کے ہیں۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ ایک دوسرے سے ملتے وقت ” حَیَّاکَ اللّٰہُ “ کے جملے کا تبادلہ کرتے تھے۔ اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اچھی زندگی دے ‘ یا اللہ تعالیٰ تمہاری زندگی دراز کرے۔ عرفِ عام میں اس دعا کو ” تحیہ “ کہا جاتا تھا۔ اسلام نے دو مسلمانوں کی ملاقات کے موقع کے لیے دعائیہ کلمہ greetings کے طور پر السَّلام علیکم کے الفاظ کا انتخاب کیا ‘ لیکن تحیہ کا لفظ عربوں کے ہاں چونکہ بہت معروف تھا اس لیے ” السَّلام علیکم “ کو بھی اصطلاحاً ” تحیہ “ ہی کہا جانے لگا۔ سورة النساء کی آیت 86 میں یہ لفظ ” السَّلام علیکم “ ہی کے مفہوم میں آیا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں منافقین کی اس شرارت کا ذکر ہے جو وہ اس کلمہ تحیہ کے حوالے سے کرتے تھے۔ جب وہ حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوتے تو السَّلَام علَیکمکہنے کے بجائے ” السّام علیکم “ کہتے۔ ” سام “ کے معنی موت کے ہیں اور اس طرح اپنی طرف سے وہ لوگ حضور ﷺ اور آپ ﷺ کی محفل میں موجود مسلمانوں کے لیے اس دعائیہ کلمہ کو معاذ اللہ ! بددعا میں بدل دیتے تھے۔ { وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ } ” اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا ہمارے اس طرح کہنے پر ؟ “ ایسی حرکت کرنے کے بعد وہ سوچتے کہ اگر محمد ﷺ اللہ کے رسول ہوتے تو اللہ ان کی یہ توہین کبھی برداشت نہ کرتا اور اس گستاخی پر وہ فوراً ہماری زبانیں کھینچ لیتا۔ چناچہ ہمارے بار بار ایسا کہنے پر بھی اگر ہمیں کچھ نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔ یہ مرض منافقت کی وہ سٹیج ہے جس کا ذکر سورة الحدید کی آیت 14 میں آچکا ہے۔ اس سٹیج پر منافق شخص کے بچے کھچے ایمان میں شکوک و شبہات کے کانٹے چبھنے لگتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایمان کی تھوڑی بہت پونجی بھی برف کی طرح پگھلنے اور ضائع ہونے لگتی ہے۔ { حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ یَصْلَوْنَہَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔ } ”ان کے لیے تو اب جہنم ہی کافی ہے ‘ یہ اس میں داخل ہوں گے ‘ پس وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔

ألم تر إلى الذين نهوا عن النجوى ثم يعودون لما نهوا عنه ويتناجون بالإثم والعدوان ومعصية الرسول وإذا جاءوك حيوك بما لم يحيك به الله ويقولون في أنفسهم لولا يعذبنا الله بما نقول حسبهم جهنم يصلونها فبئس المصير

سورة: المجادلة - آية: ( 8 )  - جزء: ( 28 )  -  صفحة: ( 543 )

Surah Mujadila Ayat 8 meaning in urdu

کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کر دیا گیا تھا پھر بھی وہ وہی حرکت کیے جاتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا؟ یہ لوگ چھپ چھپ کر آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں کرتے ہیں، اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں اُس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تم پر سلام نہیں کیا ہے اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری اِن باتوں پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا اُن کے لیے جہنم ہی کافی ہے اُسی کا وہ ایندھن بنیں گے بڑا ہی برا انجام ہے اُن کا


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور جب موسیٰ اپنی قوم میں نہایت غصے اور افسوس کی حالت میں واپس آئے۔
  2. اور یہ لوگ تم سے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں۔ اگر ایک وقت
  3. اور ہر شیطان راندہٴ درگاہ سے اُسے محفوظ کر دیا
  4. جب بھاگ کر بھری ہوئی کشتی میں پہنچے
  5. پھر آہستہ آہستہ چلتی ہیں
  6. اور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے)
  7. اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے الگ ہو جاؤ
  8. سبز قالینوں اور نفیس مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے
  9. سچ مچ ہونے والی
  10. (نجات) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Mujadila with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Mujadila mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Mujadila Complete with high quality
surah Mujadila Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Mujadila Bandar Balila
Bandar Balila
surah Mujadila Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Mujadila Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Mujadila Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Mujadila Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Mujadila Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Mujadila Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Mujadila Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Mujadila Fares Abbad
Fares Abbad
surah Mujadila Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Mujadila Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Mujadila Al Hosary
Al Hosary
surah Mujadila Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Mujadila Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Wednesday, December 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers