Surah Nisa Ayat 89 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا﴾
[ النساء: 89]
وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں (اسی طرح) تم بھی کافر ہو کر (سب) برابر ہوجاؤ تو جب تک وہ خدا کی راہ میں وطن نہ چھوڑ جائیں ان میں سے کسی کو دوست نہ بنانا اگر (ترک وطن کو) قبول نہ کریں تو ان کو پکڑ لو اور جہاں پاؤ قتل کردو اور ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ بناؤ
Surah Nisa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ہجرت ( ترک وطن ) اس بات کی دلیل ہوگی کہ اب یہ مخلص مسلمان بن گئے ہیں۔ اس صورت میں ان سے دوستی اور محبت جائز ہوگی۔
( 2 ) یعنی جب تمہیں ان پر قدرت وطاقت حاصل ہو جائے۔
( 3 ) حِل ہو یا حَرم۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
منافقوں سے ہوشیار رہو اس میں اختلاف ہے کہ منافقوں کے کس معاملہ میں مسلمانوں کے درمیان دو قسم کے خیالات داخل ہوئے تھے، حضرت زید بن ثابت ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب میدان احد میں تشریف لے گئے تب آپ کے ساتھ منافق بھی تھے جو جنگ سے پہلے ہی لوٹ آئے تھے ان کے بارے میں بعض مسلمان تو کہتے تھے کہ انہیں قتل کردینا چاہیے اور بعض کہتے تھے نہیں یہ بھی ایماندار ہیں، اس پر یہ آیت اتری تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ شہر طیبہ ہے جو خود بخود میل کچیل کو اس طرح دور کر دے گا جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو چھانٹ دیتی ہے۔ ( بخاری و مسلم ) ابن اسحاق میں ہے کہ کل لشکر جنگ احد میں ایک ہزار کا تھا، عبداللہ بن ابی سلول تین سو آدمیوں کو اپنے ہمراہ لے کر واپس لوٹ آیا تھا اور حضور ﷺ کے ساتھ پھر سات سو ہی رہ گئے تھے، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں مکہ سے نکلے، انہیں یقین تھا کہ اصحاب رسول سے ان کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی کیونکہ بظاہر کلمہ کے قائل تھے ادھر جب مدنی مسلمانوں کو اس کا علم ہوا تو ان میں سے بعض کہنے لگے ان نامرادوں سے پہلے جہاد کرو یہ ہمارے دشمنوں کے طرف دار ہیں اور بعض نے کہا سبحان اللہ جو لوگ تم جیسا کلمہ پڑھتے ہیں تم ان سے لڑو گے ؟ صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے ہجرت نہیں کی اور اپنے گھر نہیں چھوڑے، ہم کس طرح ان کے خون اور ان کے مال اپنے اوپر حلال کرسکتے ہیں ؟ ان کا یہ اختلاف رسول اللہ ﷺ کے سامنے ہوا آپ خاموش تھے جو یہ آیت نازل ہوئی ( ابن ابی حاتم ) حضرت سعید بن معاذ کے لڑکے فرماتے ہیں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر جب تہمت لگائی گئی اور رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کوئی ہے جو مجھے عبداللہ بن ابی کی ایذاء سے بچائے اس پر اوس و خزرج کے درمیان جو اختلاف ہوا اس کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے، ان کی ہدایت کی کوئی راہ نہیں۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ سچے مسلمان بھی ان جیسے گمراہ ہوجائیں ان کے دلوں میں اس قدر عداوت ہے، تو تمہیں ممانعت کی جاتی ہے کہ جب تک یہ ہجرت نہ کریں انہیں اپنا نہ سمجھو، یہ خیال نہ کرو کہ یہ تمہارے دوست اور مددگار ہیں، بلکہ یہ خود اس لائق ہیں کہ ان سے باقاعدہ جہاد کیا جائے۔ پھر ان میں سے ان حضرات کا استثنا کیا جاتا ہے جو کسی ایسی قوم کی پناہ میں چلے جائیں جس سے مسلمانوں کا عہد و پیمان صلح و سلوک ہو تو ان کا حکم بھی وہی ہوگا جو معاہدہ والی قوم کا ہے، سراقہ بن مالک مدلجی فرماتے ہیں جب جنگ بدر اور جنگ احد میں مسلمان غالب آئے اور آس پاس کے لوگوں میں اسلام کی بخوبی اشاعت ہوگئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کا ارادہ ہے کہ خالد بن ولید کو ایک لشکر دے کر میری قوم بنو مدلج کی گوشمالی کے لئے روانہ فرمائیں تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میں آپ کو احسان یاد دلاتا ہوں لوگوں نے مجھ سے کہا خاموش رہ لیکن حضور ﷺ نے فرمایا اسے کہنے دو ، کہو کیا کہنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ میری قوم کی طرف لشکر بھیجنے والے ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سے صلح کرلیں اس بات پر کہ اگر قریش اسلام لائیں تو یہ بھی مسلمان ہوجائیں گے اور اگر وہ اسلام نہ لائیں تو ان پر بھی آپ چڑھائی نہ کریں، حضور ﷺ نے حضرت خالد بن ولید کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا ان کے ساتھ جاؤ اور ان کے کہنے کے مطابق ان کی قوم سے صلح کر آؤ پس اس بات پر صلح ہوگئی کہ وہ دشمنان دین کی کسی قسم کی مدد نہ کریں اور اگر قریش اسلام لائیں تو یہ بھی مسلمان ہوجائیں پس اللہ نے یہ آیت اتاری کہ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی کفر کرو جیسے وہ کفر کرتے ہیں پھر تم اور وہ برابر ہوجائیں پس ان میں سے کسی کو دوست نہ جانو، یہی روایت ابن مردویہ میں ہے کہ تم بھی کفر کرو جیسے وہ کفر کرتے ہیں پھر تم وہ برابر ہوجاؤ پس ان میں سے کسی کو دوست نہ جانو، یہی روایت ابن مردویہ میں ہے اور ان میں ہی آیت ( اِلَّا الَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ اَوْ جَاۗءُوْكُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُھُمْ اَنْ يُّقَاتِلُوْكُمْ اَوْ يُقَاتِلُوْا قَوْمَھُمْ ) 4۔ النساء:90) نازل ہوئی پس جو بھی ان سے مل جاتا وہ انہی کی طرح پر امن رہتا کلام کے الفاظ سے زیادہ مناسبت اسی کو ہے، صحیح بخاری شریف میں صلح حدیبیہ کے قصے میں ہے کہ پھر جو چاہتا ہے کہ کفار کی جماعت میں داخل ہوجاتا ہے اور امن پالیتا ہے جو چاہتا ہے مدنی مسلمانوں سے ملتا اور عہد نامہ کی وجہ سے مامون ہوجاتا ہے حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ اس حکم کو پھر اس آیت نے منسوخ کردیا کہ ( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 9۔ التوبة:5) یعنی جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین سے جہاد کرو جہاں کہیں انہیں پاؤ۔ ایک دوسری جماعت کا ذکر ہو رہا ہے جسے مستثنیٰ کیا ہے جو میدان میں لائے جاتے ہیں لیکن یہ بیچارے بےبس ہوتے ہیں وہ نہ تو تم سے لڑنا چاہتے ہیں نہ تمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم سے لڑنا پسند کرتے ہیں بلکہ وہ ایسے بیچ کے لوگ ہیں جو نہ تمہارے دشمن کہے جاسکتے ہیں نہ دوست۔ یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ اس نے ان لوگوں کو تم پر مسلط نہیں کیا اگر وہ جاہتا تو انہیں زور و طاقت دیتا اور ان کے دل میں ڈال دیتا کہ وہ تم سے لڑیں پس اگر یہ تمہاری لڑائی سے باز رہیں اور صلح و صفائی سے یکسو ہوجائیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت نہیں، اسی قسم کے لوگ تھے جو بدر والے دن بنو ہاشم کے قبیلے میں سے مشرکین کے ساتھ آئے تھے جو دل سے اسے ناپسند رکھتے تھے جیسے حضرت عباس ؓ وغیرہ یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عباس ؓ کے قتل کو منع فرما دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ انہیں زندہ گرفتار کرلیا جائے۔ پھر ایک اور گروہ کا ذکر کیا جاتا ہے جو بظاہر تو اوپر والوں جیسا ہے لیکن دراصل نیت میں بہت کھوٹ ہے یہ لوگ منافق ہیں حضور کے پاس آکر اسلام ظاہر کر کے اپنے جان و مال مسلمانوں سے محفوظ کرا لیتے ہیں ادھر کفار میں مل کر ان کے معبودان باطل کی پرستش کر کے ان میں سے ہونا ظاہر کر کے ان سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں تاکہ ان کے ہاتھوں سے بھی امن میں رہیں، دراصل یہ لوگ کافر ہیں، جیسے اور جگہ ہے اپنے شیاطین کے پاس تنہائی میں جا کر کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں یہاں بھی فرماتا ہے کہ جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تو جی کھول کر پوری سرگرمی سے اس میں حصہ لیتے ہیں جیسے کوئی اوندھے منہ گرا ہوا ہو۔ " فتنہ " سے مراد یہاں شرک ہے حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بھی مکہ والے تھے یہاں آ کر بطور ریا کاری کے اسلام قبول کرتے تھے وہاں جا کر ان کے بت پوجتے تھے تو مسلمانوں کو فرمایا جاتا ہے کہ اگر یہ اپنی دوغلی روش سے باز نہ آئیں ایذاء رسانی سے ہاتھ نہ روکیں صلح نہ کریں تو انہیں امن امان نہ دو ان سے بھی جہاد کرو، انہیں بھی قیدی بناؤ اور جہاں پاؤ قتل کردو، بیشک ان پر ہم نے تمہیں ظاہر غلبہ اور کھلی حجت عطا فرمائی ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآءً یہ لوگ جو ان کے بارے میں نرمی کی باتیں کر رہے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کفر کیا ہے تم بھی کرو ‘ تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہوجائیں۔ دُم کٹی بلی چاہتی ہے کہ سب بلیوں کی دمیں کٹ جائیں۔فَلاَ تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ اَوْلِیَآءَ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط۔یہ گویا اب ان کے ایمان کا لٹمس ٹیسٹ ہے۔ اگر وہ ہجرت نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ مؤمن نہیں منافق ہیں۔ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْہُمْ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ ۔یعنی اگر وہ ہجرت نہیں کرتے جو ان پر فرض کردی گئی ہے تو پھر وہ کافروں کے حکم میں ہیں ‘ چاہے وہ کلمہ پڑھتے ہوں۔ تم انہیں جہاں بھی پاؤ پکڑو اور قتل کرو۔
ودوا لو تكفرون كما كفروا فتكونون سواء فلا تتخذوا منهم أولياء حتى يهاجروا في سبيل الله فإن تولوا فخذوهم واقتلوهم حيث وجدتموهم ولا تتخذوا منهم وليا ولا نصيرا
سورة: النساء - آية: ( 89 ) - جزء: ( 5 ) - صفحة: ( 92 )Surah Nisa Ayat 89 meaning in urdu
وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو جاؤ تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہو جائیں لہٰذا ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے نہ آ جائیں، اور اگر وہ ہجرت سے باز رہیں تو جہاں پاؤ انہیں پکڑو اور قتل کرو اور ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہ بناؤ
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں (ان
- اور تمہارے لئے ان میں (اور بھی) فائدے ہیں اور اس لئے بھی کہ (کہیں
- اور ہم اس طرح ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے تاکہ وہ
- (خدا نے) فرمایا جب میں نے تجھ کو حکم دیا تو کس چیز نے تجھے
- اور (ایسی شیخیوں) سے اپنے حق میں ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا۔
- اور تم جہاں سے نکلو، مسجدِ محترم کی طرف منہ (کرکے نماز پڑھا) کرو۔ اور
- جنہوں نے اپنے دین کو تماشا اور کھیل بنا رکھا تھا اور دنیا کی زندگی
- کہا کہ پروردگار میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما۔ فرمایا نشانی یہ ہے کہ تم
- خدا انہیں لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو نادانی سے بری حرکت کر بیٹھے
- اور (ازراہ غرور) لوگوں سے گال نہ پھلانا اور زمین میں اکڑ کر نہ چلنا۔
Quran surahs in English :
Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers