Surah juma Ayat 9 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾
[ الجمعة: 9]
مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو خدا کی یاد (یعنی نماز) کے لئے جلدی کرو اور (خریدو) فروخت ترک کردو۔ اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے
Surah juma Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ اذان کس طرح دی جائے اس کے الفاظ کیا ہوں؟ یہ قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں ہے جس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن ہے نہ اس پر عمل کرنا ہی۔ جمعہ کو ، جمعہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ ہر چیز کی پیدائش سے فارغ ہوگیا تھا، یوں گویا تمام مخلوقات کا اس دن اجتماع ہوگیا، یا نماز کے لیے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اس بنا پر کہتے ہیں۔ ( فتح القدیر ) فَاسْعَوْا کا مطلب یہ نہیں کہ دوڑ کر آؤ، بلکہ یہ ہےکہ اذان کے فوراً بعد آجاؤ اور کاروبار بند کر دو۔ کیونکہ نماز کے لیے دوڑ کر آنا ممنوع ہے، وقار اور سکینت کے ساتھ آنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ( صحيح بخاري، كتاب الأذان وصحيح مسلم، كتاب المساجد ) بعض حضرات نے ذَرُوا الْبَيْعَ ( خرید وفروخت چھوڑ دو ) سے استدلال کیا ہے کہ جمعہ صرف شہروں میں فرض ہے ، اہل دیہات پر نہیں۔ کیونکہ کاروبار اور خرید وفروخت شہروں میں ہی ہوتی ہے، دیہاتوں میں نہیں۔ حالانکہ اول تو دنیا میں کوئی گاؤں ایسا نہیں جہاں خرید وفروخت اور کاروبار نہ ہوتا ہو، اس لیے یہ دعویٰ ہی خلاف واقعہ ہے۔ دوسرا بیع اور کاروبار سے مطلب، دنیا کے مشاغل ہیں، وہ جیسے بھی اور جس قسم کے بھی ہوں۔ اذان جمعہ کے بعد انہیں ترک کر دیا جائے۔ کیا اہل دیہات کے مشاغل دنیا نہیں ہوتے؟ کیا کھیتی باڑی، کاروبار اور مشاغل دنیا سے مختلف چیز ہے؟
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
جمعہ کا دن کیا ہے ؟ اس کی اہمیت کیوں ہے ؟ جمعہ کا لفظ جمع سے مشتق ہے، وجہ اشتقاق یہ ہے کہ اس دن مسلمان بڑی بڑی مساجد میں اللہ کی عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں اور یہ بھی وجہ ہے کہ اسی دن تمام مخلوق کامل ہوئی چھ دن میں ساری کائنات بنائی گئی ہے چھٹا دن جمعہ کا ہے اسی دن حضرت آدم ؑ پیدا کئے گئے، اسی دن جنت میں بسائے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے، اسی دن میں قیامت قائم ہوگی، اس دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے جو طلب کرے اللہ تعالیٰ اسے عنایت فرماتا ہے، جیسے کہ صحیح احادیث میں آیا ہے، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سلمان سے پوچھا جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا اسی دن تیرے ماں باپ ( یعنی آدم و حوا ) کو اللہ تعالیٰ نے جمع کیا۔ یا یوں فرمایا کہ تمہارے باپ کو جمع کیا۔ اسی طرح ایک موقوف حدیث میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے فاللہ اعلم، پہلے اسے یوم العروبہ کہا جاتا تھا، پہلی امتوں کو بھی ہر سات دن میں ایک دن دیا گیا تھا، لیکن جمعہ کی ہدایت انہیں نہ ہوئی، یہودیوں نے ہفتہ پسند کیا جس میں مخلوق کی پیدائش شروع بھی نہ ہوئی تھی، نصاریٰ نے اتوار اختیار کیا جس میں مخلوق کی پیدائش کی ابتدا ہوئی ہے اور اس امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو سند فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پورا کیا تھا، جیسے صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے تو سب کے پیچھے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے سوائے اس کے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب اللہ دی گئی، پھر ان کے اس دن میں انہوں نے اختلاف کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں راہ راست دکھائی پس لوگ اس میں بھی ہمارے پیچھے ہیں یہودی کل اور نصرانی پرسوں، مسلم میں اتنا اور بھی ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلہ ہمارے بارے میں کیا جائے گا، یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کو جمعہ کے دن اپنی عبادت کے لئے جمع ہونے کا حکم دے رہا ہے، سعی سے مراد یہاں دوڑنا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ذکر اللہ یعنی نماز کے لئے قصد کرو چل پڑو کوشش کرو کام کاج چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوجاؤ، جیسے اس آیت میں سعی کوشش کے معنی میں ہے ومن ارادالاخرۃ وسعی لھا سعیھا یعنی جو شخص آخرت کا ارادہ کرے پھر اس کے لئے کوشش بھی کرے، حضرت عمر بن خطاب ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرائت میں بجائے فاسعوا کے فامضوا ہے، یہ یاد رہے کہ نماز کے لئے دوڑ کر جانا منع ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے جب تم اقامت سنو تو نماز کیلئے سکینت اور وقار کے ساتھ چلو، دوڑو نہیں، جو پاؤ پڑھ لو، جو فوت ہو ادا کرلو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نماز میں تھے کہ لوگوں کے پاؤں کی آہٹ زور زور سے سنی، فارغ ہو کر فرمایا کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا حضرت ہم جلدی جلدی نماز میں شامل ہوئے فرمایا ایسا نہ کرو نماز کو اطمینان کے ساتھ چل کر آؤ جو پاؤ پڑھ لو جو چھوٹ جائے پوری کرلو، حضرت حسن فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہاں یہ حکم نہیں کہ دوڑ کر نماز کے لئے آؤ یہ تو منع ہے بلکہ مراد دل اور نیت اور خشوع خضوع ہے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں اپنے دل اور اپنے عمل سے کوشش کرو، جیسے اور جگہ ہے فلما بلغ معہ السعی حضرت ذبیح اللہ جب خلیل اللہ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے، جمعہ کے لئے آنے والے کو غسل بھی کرنا چاہئے، بخاری مسلم میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز کے لئے جانے کا ارادہ کرے وہ غسل کرلیا کرے، اور حدیث میں ہے جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے اور روایت میں ہے کہ ہر بالغ پر ساتویں دن سر اور جسم کا دھونا ہے، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ وہ دن جمعہ کا دن ہے، سنن اربعہ میں ہے جو شخص جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کرے اور سویرے سے ہی مسجد کی طرف چل دے پیدل جائے سوار نہ ہو اور امام سے قریب ہو کر بیٹھے خطبے کو کان لگا کر سنے لغو کام نہ کرے تو اسے ہر ایک قدم کے بدلے سال بھر کے روزوں اور سال بھر کے قیام کا ثواب ہے، بخاری مسلم میں ہے جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح غسل کرے، اول ساعت میں جائے اس نے گویا ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا دوسری ساعت میں جانے والا مثل گائے کی قربانی کرنے والے کے ہے، تیسری ساعت میں جانے والا مرغ راہ اللہ میں تصدق کرنے والے کی طرح ہے، پانچویں ساعت میں جانے والا انڈا راہ اللہ دینے والے جیسا ہے، پھر جب امام آئے فرشتے خطبہ سننے کے لئے حاضر ہوجاتے ہیں، مستحب ہے کہ جعہ کے دن اپنی طاقت کے مطابق اچھا لباس پہنے خوشبو لگائے مسواک کرے اور صفائی اور پاکیزگی کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لئے آئے، ایک حدیث میں غسل کے بیان کے ساتھ ہی مسواک کرنا اور خوشبو ملنا بھی ہے، مسند احمد میں ہے جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور اپنے گھر والوں کو خوشبو ملے اگر ہو اور اچھا لباس پہنے پھر مسجد میں آئے اور کچھ نوافل پڑھے اگر جی چاہے اور کسی کے ایذاء نہ دے ( یعنی گردنیں پھلانگ کر نہ آئے نہ کسی بیٹھے ہوئے کو ہٹائے ) پھر جب امام آجائے اور خطبہ شروع ہو خاموشی سے سنے تو اس کے گناہ جو اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے ہوں سب کا کفارہ ہوجاتا ہے، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے منبر پر بیان فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کسی پر کیا حرج ہے اگر وہ اپنے روز مرہ کے محنتی لباس کے علاوہ دو کپڑے خرید کر جمعہ کے لئے مخصوص رکھے۔ حضور ﷺ نے یہ فرمان اس وقت فرمایا جب لوگوں پر وہی معمولی چادریں دیکھیں تو فرمایا کہ اگر طاقت ہو تو ایسا کیوں نہ کرلو۔ جس اذان کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد ہوتی ہے نبی ﷺ کے زمانہ میں یہی اذان تھی جب آپ گھر سے تشریف لاتے منبر پر جاتے اور آپ کے بیٹھ جانے کے بعد آپ کے سامنے یہ اذان ہوتی تھی، اس سے پہلے کی اذان حضور ﷺ کے زمانے میں نہ تھی اسے امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ؓ نے صرف لوگوں کی کثرت کو دیکھ کر زیادہ کیا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے نبی ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف اسی وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کہنے کے لئے بیٹھ جاتا، حضرت عثمان کے زمانے میں جب لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو آپ نے دوسری اذان ایک الگ مکان پر کہلوائی زیادہ کی اس مکان کا نام زورا تھا مسجد سے قریب سب سے بلند یہی مکان تھا۔ حضرت مکحول سے ابن ابی حاتم میں روایت ہے کہ اذان صرف ایک ہی تھی جب امام آتا تھا اس کے بعد صرف تکبیر ہوتی تھی، جب نماز کھڑی ہونے لگے، اسی اذان کے وقت خریدو فروخت حرام ہوتی ہے، حضرت عثمان ؓ نے اس سے پہلے کی اذان کا حکم صرف اس لئے دیا تھا کہ لوگ جمع ہوجائیں۔ جمعہ میں آنے کا حکم آزاد مردوں کو ہے عورتوں، غلاموں اور بچوں کو نہیں، مسافر مریض اور تیمار دار اور ایسے ہی اور عذر والے بھی معذور گنے گئے ہیں جیسے کہ کتب فروغ میں اس کا ثبوت موجود ہے۔ پھر فرماتا ہے بیع کو چھوڑ دو یعنی ذکر اللہ کے لئے چل پڑو تجارت کو ترک کردو، جب نماز جمعہ کی اذان ہوجائے علماء کرام ؓ کا اتفاق ہے کہ اذان کے بعد خریدو فروخت حرام ہے، اس میں اختلاف ہے کہ دینے والا اگر دے تو وہ بھی صحیح ہے یا نہیں ؟ ظاہر آیت سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی صحیح نہ ٹھہرے گا واللہ اعلم، پھر فرماتا ہے بیع کو چھوڑ کر ذکر اللہ اور نماز کی طرف تمہارا آنا ہی تمہارے حق میں دین دنیا کی بہتری کا باعث ہے اگر تم میں علم ہو۔ ہاں جب نماز سے فراغت ہوجائے تو اس مجمع سے چلے جانا اور اللہ کے فضل کی تلاش میں لگ جانا، تمہارے لئے حلال ہے۔ عراک بن مالک ؓ جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر لوٹ کر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے اور یہ دعا پڑھتے ( ترجمہ ) یعنی اے اللہ میں نے تیری آواز پر حاضری دی اور تیری فرض کردہ نماز ادا کی پھر تیرے حکم کے مطابق اس مجمع سے اٹھ آیا، اب تو مجھے اپنا فضل نصیب فرما تو سب سے بہتر روزی رساں ہے ( ابن ابی حاتم ) اس آیت کو پیش نظر رکھ کر بعض سلف صالحین نے فرمایا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد خریدو فروخت کرے اسے اللہ تعالیٰ ستر حصے زیادہ برکت دے گا۔ پھر فرماتا ہے کہ خرید فروخت کی حالت میں بھی ذکر اللہ کیا کرو دنیا کے نفع میں اس قدر مشغول نہ ہوجاؤ کہ آخروی نفع بھول بیٹھو۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص کسی بازار جائے اور وہاں ( ترجمہ ) پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ برائیاں معاف فرماتا ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں بندہ کثیر الذکر اسی وقت کہلاتا ہے جبکہ کھڑے بیٹھے لیٹے ہر وقت اللہ کی یاد کرتا رہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
سورت کے تیسرے اور آخری حصے میں نماز جمعہ کا ذکر ہے۔ نماز جمعہ دراصل ” حزب اللہ “ کا ہفتہ وار تعلیمی و تربیتی اجتماع ہے۔ ایسے اجتماعات کا انعقاد ہر انقلابی تحریک کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی زمانے میں کمیونسٹوں کے ہاں بھی اپنے کارکنوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ہفتہ وار ” سٹڈی سرکلز “ کا انعقاد بڑے اہتمام سے کیا جاتا تھا۔ دراصل حزب اللہ کا نصب العین بہت عظیم اور راستہ بہت کٹھن ہے۔ اس راستے پر سفر جاری رکھنے کے لیے غیر معمولی صبر اور استقامت درکار ہے۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ انقلابی کارکنوں کے ذہنوں میں ان کے بنیادی نظریے اور نصب العین کا شعور ہر لحظہ مستحضر رہے۔ چناچہ جمعہ کے اجتماع کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ہر سات دن کے بعد باقاعدگی کے ساتھ دور و نزدیک سے سب اہل ایمان اکٹھے ہوں اور اللہ کا کوئی بندہ نائب رسول ﷺ کی حیثیت سے ان کے لیے ” یَتْـلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ “ کا فریضہ سرانجام دے ‘ تاکہ تعلیم و تربیت اور تزکیہ نفس کا عمل حضور ﷺ کے بعد بھی قیامت تک جاری وساری رہے۔ اجتماعِ جمعہ کے اس پہلو کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس کے لیے ظہر کی نماز مختصر کردی گئی۔ یعنی ظہر کے چار فرائض کے بجائے صرف دو رکعتیں رہ گئیں اور باقی دو رکعتوں کی جگہ خطبہ یعنی ” تعلیم و تعلّم “ کو لازم کردیا گیا۔ اس لحاظ سے اجتماعِ جمعہ کو تعلیم بالغاں کا ہفتہ وار پروگرام بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس پروگرام کی اہمیت پچھلے زمانے میں اور بھی زیادہ تھی ‘ جب نہ سکول کالج تھے ‘ نہ یونیورسٹیاں تھیں ‘ نہ کتابیں دستیاب تھیں ‘ نہ اخبار چھپتے تھے اور نہ ہی آڈیو ویڈیو کی سہولیات میسر تھیں۔ برعظیم پاک و ہند میں اجتماعِ جمعہ کی تعلیمی اہمیت کا شعور ماضی قریب کے زمانہ تک بھی موجود تھا۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جمعہ کے دن شہر کی جامع مسجد میں دور دراز دیہات سے لوگ صبح سات آٹھ بجے ہی پہنچنا شروع ہوجاتے تھے۔ اس دور میں جمعہ صرف شہروں میں ادا کیا جاتا تھا ‘ دیہات میں جمعہ نہیں ہوتا تھا۔ جمعہ کے لیے فقہاء نے ” مصر ِجامع “ کی شرط عائد کی ہے۔ یعنی جمعہ ہر بستی میں نہیں بلکہ صرف اس شہر میں ہوسکتا ہے جس میں بازار ہوں ‘ قیامِ امن کا انتظام ہو ‘ جامع مسجد ہو۔ لیکن جب ہر چھوٹی بڑی بستی میں جمعہ پڑھنا شروع کردیا گیا تو مجموعی طور پر اجتماعِ جمعہ کی اہمیت کم ہونا شروع ہوگئی۔ ظاہر ہے جب ہر بستی میں جمعہ ہو رہا ہو تو لوگ اس کے لیے سفر کر کے شہر کی جامع مسجد میں بھلا کیوں جائیں گے ؟ جمعہ کے اجتماعات تو آج بھی منعقد ہوتے ہیں ‘ لوگ جوق در جوق ان میں شرکت بھی کرتے ہیں ‘ خطبے بھی پڑھے اور سنے جاتے ہیں ‘ لیکن یہ سب کچھ ایک ” رسم عبادت “ کے طور پر ہو رہا ہے ‘ جبکہ اس اجتماع کا بنیادی فلسفہ اور اصل مقصد مجموعی طور پر ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ بقول اقبال : ؎رہ گئی رسم ِاذاں ‘ روحِ بلالی رض نہ رہی فلسفہ رہ گیا ‘ تلقین غزالی نہ رہی ! بہرحال آج کل اجتماعِ جمعہ کے حوالے سے جو ظاہری اہتمام دیکھنے میں آتا ہے اس کی حیثیت اس عمارت کے کھنڈرات کی سی ہے جو عرصہ دراز سے زمین بوس ہوچکی ہے ‘ لیکن ان کھنڈرات کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ عمارت بہت عظیم الشان تھی۔آیت 9{ یٰٓــاَیـُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ } ” اے ایمان والو ! جب تمہیں پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو دوڑو اللہ کے ذکر کی طرف اور کاروبار چھوڑ دو۔ “ نماز تو بہرحال اللہ کا ذکر ہے ہی ‘ لیکن یہاں اللہ کے ذکر سے خصوصی طور پر خطبہ جمعہ مراد ہے۔۔۔۔ ” اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو “ کا مطلب یہ نہیں کہ بھاگتے ہوئے آئو ‘ بلکہ اس سے مراد مستعدی سے چل کھڑے ہونا ہے ‘ یعنی جلدی سے جلدی وہاں پہنچنے کی کوشش کرو۔ نماز کے لیے بھاگ کر آنے سے نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ { ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّــکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ } ” یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ “
ياأيها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع ذلكم خير لكم إن كنتم تعلمون
سورة: الجمعة - آية: ( 9 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 554 )Surah juma Ayat 9 meaning in urdu
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ہر شیطان راندہٴ درگاہ سے اُسے محفوظ کر دیا
- پھر (پانی کا) بوجھ اٹھاتی ہیں
- اور نمازیوں میں تمہارے پھرنے کو بھی
- اور دن کو معاش (کا وقت) قرار دیا
- پھر دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس (کے کام) کا
- خدا نے عزت کے گھر (یعنی) کعبے کو لوگوں کے لیے موجب امن مقرر فرمایا
- پھر ان کے بعد چند ناخلف ان کے جانشیں ہوئے جنہوں نے نماز کو (چھوڑ
- (یہ لوگ) جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھی ایسے برباد ہوئے تھے کہ گویا
- کچھ شک نہیں کہ جو پرہیزگار ہیں اور جو نیکوکار ہیں خدا ان کا مددگار
- فرمایا کہ موسیٰ اسے ڈال دو
Quran surahs in English :
Download surah juma with the voice of the most famous Quran reciters :
surah juma mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter juma Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers