Surah maryam Ayat 92 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا﴾
[ مريم: 92]
اور خدا کو شایاں نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے
Surah maryam UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
عیسیٰ ؑ کا تعارف اس مبارک سورت کے شروع میں اس بات کا ثبوت گزر چکا کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کے بندے ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے باپ کے بغیر اپنے حکم سے حضرت مریم صدیقہ کے بطن سے پیدا کیا ہے۔ اس لئے یہاں ان لوگوں کی نادانی بیان ہو رہی ہے جو آپ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ جس سے ذات الہٰی پاک ہے۔ ان کے قول کو بیان فرمایا۔ پھر فرمایا یہ بڑی بھاری بات ہے ادا اور ادا تینوں لغت ہیں لیکن مشہور ادا ہے۔ ان کی یہ بات اتنی بری ہے کہ آسمان کپکپا کر ٹوٹ پڑے اور زمین جھٹکے لے لے کر پھٹ جائے۔ اس لئے کہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ کی عزت و عظمت جانتی ہے، ان میں رب کی توحید سمائی ہوئی ہے انہیں معلوم ہے کہ ان بدکار بےسمجھ انسانوں نے اللہ کی ذات پر تہمت باندھی ہے نہ اس کی جنس کا کوئی نہ اس کی ماں نہ اولاد نہ اس کے شریک نہ اس جیسا کوئی۔ تمام مخلوق اس کی وحدانیت کی شاہد ہے کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کی توحید پر دلالت کرنے والا ہے۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کے شرک سے ساری مخلوق کانپ اٹھتی ہے۔ قریب ہوتا ہے کہ انتظام کائنات درہم برہم ہوجائے۔ شرک کے ساتھ کوئی نیکی کار آمد نہیں ہوتی۔ کیا عجب کہ اس کے برعکس توحید کے ساتھ کے گناہ کل کے کل اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے اپنے مرنے والوں کو لا الہ اللہ کی تلقین کرو۔ موت کے وقت جس نے اسے کہہ لیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ صحابہ ؓ نے کہا حضور ﷺ جس نے زندگی میں کہہ لیا ؟ فرمایا اس کے لئے اور زیادہ واجب ہوگئی۔ قسم اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ زمین و آسمان اور ان کی اور ان کے درمیان کی اور ان کے نیچے کی تمام چیزیں ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور لا الہ الا اللہ کی شہادت دوسرے پلڑے میں رکھی جائے تو وہ ان سب سے وزن میں بڑھ جائے اسی کی مزید دلیل وہ حدیث ہے جس میں توحید کے ایک چھوٹے سے پرچے کا گناہوں کے بڑے بڑے دفتروں سے وزنی ہوجانا آیا ہے واللہ اعلم۔ پس ان کا یہ مقولہ اتنا بد ہے جسے سن کر آسمان بوجہ اللہ کی عظمت کے کانپ اٹھے اور زمین بوجہ غضب کے پھٹ جائے اور پہاڑ پاش پاش ہوجائیں۔ حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ سے دریافت کرتا ہے کہ کیا آج کوئی ایسا شخص بھی تجھ پر چڑھا جس نے اللہ کا ذکر کیا ہو ؟ وہ خوشی سے جواب دیتا ہے کہ ہاں۔ پس پہاڑ بھی باطل اور جھوٹ بات کو اور بھلی بات کو سنتے ہیں اور کلام نہیں کرتے۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ مروی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب زمین کو اور اس کے درختوں کو پیدا کیا تو ہر درخت ابن آدم کو پھل پھول اور نفع دیتا تھا مگر جب زمین پر رہنے والے لوگوں نے اللہ کے لئے اولاد کا لفظ بولا تو زمین ہل گئی اور درختوں میں کانٹے پڑگئے۔ کعب کہتے ہیں ملائیکہ غضبناک ہوگئے اور جہنم زور شور سے بھڑک اٹھی۔ مسند احمد میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ لوگوں کی ایذاء دہندہ باتوں پر اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں۔ لوگ اس کے ساتھ شریک کرتے ہیں، اس کی اولادیں مقرر کرتے ہیں اور وہ انہیں عافیت دے رہا ہے، روزیاں پہنچا رہا ہے، برائیاں ان سے ٹالتا رہتا ہے۔ پس ان کی اس بات سے کہ اللہ کی اولاد ہے زمین و آسمان اور پہاڑ تک تنگ ہیں اللہ کی عظمت وشان کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں اولاد ہو۔ اس کے لڑکے لڑکیاں ہوں اس لئے کہ تمام مخلوق اس کی غلامی میں ہے اس کی جوڑ کا یا اس جیسا کوئی اور نہیں زمین و آسمان میں جو ہیں سب اس کے زیر فرمان اور حاضر باش غلام ہیں وہ سب کا آقا سب کا پالنہار سب کا خبر لینے والا ہے۔ سب کی گنتی اس کے پاس ہے سب کو اس کے علم نے گھیر رکھا ہے سب اس کی قدرت کے احاطے میں ہیں۔ ہر مرد و عورت چھوٹے بڑے کی اسے اطلاع ہے شروع پیدائش سے ختم دنیا تک کا اسے علم ہے اس کا کوئی مددگار نہیں نہ اس کا شریک وساجی۔ ہر ایک بےیارو مددگار اس کے سامنے قیامت کے روز پیش ہونے والا ہے ساری مخلوق کے فیصلے اس کے ہاتھ میں ہیں۔ وہی وحدہ لاشریک لہ سب کے حساب کتاب چکائے گا جو چاہے گا کرے گا عادل ہے ظالم نہیں کسی کی حق تلفی اس کی شان سے بعید ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 92 وَمَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا ”دراصل اولاد کی خواہش اور ضرورت ایک کمزوری ہے۔ اس بات کی وضاحت پہلے بھی کی جا چکی ہے کہ اولاد کی ضرورت انسان کو ہے اور اس لیے ہے کہ وہ خود فانی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں مرنا ہے ‘ اس دنیا سے ہمارا نام و نشان مٹ جانا ہے۔ اپنی اس کمزوری کے تحت ہم اولاد کی خواہش کرتے ہیں۔ ہم اپنی اولاد کے ذریعے دراصل اپنی ہستی کا تسلسل چاہتے ہیں ‘ اولاد کی شکل میں ہم اس دنیا میں اپنی بقا چاہتے ہیں۔ مندرجہ ذیل الفاظ میں Pyramids اہرام مصر کے حوالے سے یہی فلسفہ بیان ہوا ہے :Calm and self possessed ,Still and resolute ,The Pyramids echo into eternity ,They define cry of mans will , To survive and conquer the storms of time .یعنی فراعنہ مصر نے عظیم الشان اہرام اسی خواہش کے تحت تعمیر کیے تھے کہ ان کی وجہ سے ان کا نام اس دنیا میں زندہ رہے گا۔ بہر حال انسان یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ وہ فانی ہے ‘ کسی نہ کسی طریقے سے اس دنیا میں اپنا دوام چاہتا ہے۔ اسی خواہش کے تحت وہ دنیا میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑنا چاہتا ہے اور اسی لیے وہ اولاد کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ بہر حال ایسی کوئی ضرورت ہم انسانوں کو ہی لاحق ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی ہر کمزوری سے پاک ہے۔ اسے کسی ایسے سہارے کی ضرورت بھلا کیونکر ہوگی !
Surah maryam Ayat 92 meaning in urdu
رحمان کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہو کر (دونوں حالتوں میں) لوگوں
- اور قوم! ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کو
- اے (محمدﷺ) جو کپڑا لپیٹے پڑے ہو
- اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو
- اور نہ اندھوں کو گمراہی سے (نکال کر) رستہ دیکھا سکتے ہو۔ تم ان ہی
- یعنی موسیٰ اور ہارون کے پروردگار پر
- (یعنی) خدا کے فضل اور احسان سے۔ اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
- اور کبھی نہیں ہوسکتا کہ پیغمبر (خدا) خیانت کریں۔ اور خیانت کرنے والوں کو قیامت
- اور ہم ان کو اپنے ہاں سے اجر عظیم بھی عطا فرماتے
- پس اگر تم کسی کے بس میں نہیں ہو
Quran surahs in English :
Download surah maryam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah maryam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter maryam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers