Surah Maidah Ayat 93 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾
[ المائدة: 93]
جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھا چکے جب کہ انہوں نے پرہیز کیا اور ایمان لائے اور نیک کام کیے پھر پرہیز کیا اور ایمان لائے پھر پرہیز کیا اور نیکو کاری کی اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے
Surah Maidah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) حرمت شراب کے بعد بعض صحابہ ش کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہمارے کئی ساتھی جنگوں میں شہید یا ویسے ہی فوت ہوگئے۔ جب کہ وہ شراب پیتے رہے ہیں۔ تو اس آیت میں اس شبہے کا ازالہ کردیا گیا کہ ان کا خاتمہ ایمان وتقویٰ پر ہی ہوا ہے کیونکہ شراب اس وقت تک حرام نہیں ہوئی تھی۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
پانسہ بازی، جوا اور شراب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ بعض چیزوں سے روکتا ہے۔ شراب کی ممانعت فرمائی، پھر جوئے کی روک کی۔ امیر المونین حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے مروی ہے کہ شطرنج بھی جوئے میں داخل ہے ( ابن ابی حاتم ) عطا مجاہد اور طاؤس سے یا ان میں سے دو سے مروی ہے کہ جوئے کی ہر چیز میسر میں داخل ہے گو بچوں کے کھیل کے طور پر ہو۔ جاہلیت کے زمانے میں جوئے کا بھی عام رواج تھا جسے اسلام نے غارت کیا۔ ان کا ایک جوا یہ بھی تھا کہ گوشت کو بکری کے بدلے بیجتے تھے، پانسے پھینک کر مال یا پھل لینا بھی جوا ہے۔ حضرت قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ جو چیز ذکر اللہ اور نماز سے غافل کر دے وہ جوا ہے، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع غریب حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان پانسوں سے بچو جن سے لوگ کھیلا کرتے تھے، یہ بھی جوا ہے صحیح مسلم شریف میں ہے پانسوں سے کھیلنے والا گویا اپنے ہاتھوں کو سور کے خون اور گوشت میں آلودہ کرنے والا ہے۔ سنن میں ہے کہ وہ اللہ اور رسول کا نافرمان ہے۔ حضرت ابو موسیٰ کا قول بھی اسی طرح مروی ہے۔ واللہ اعلم، مسند میں ہے پانسوں سے کھیل کر نماز پڑھنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قے اور گندگی سے اور سور کے خون سے وضو کر کے نماز ادا کرے۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک شطرنج اس سے بھی بری ہے۔ حضرت علی سے شطرنج کا جوئے میں سے ہونا پہلے بیان ہوچکا ہے۔ امام مالک امام ابوحنیفہ امام احمد تو کھلم کھلا اسے حرام بتاتے ہیں اور امام شافعی بھی اسے مکروہ بتاتے ہیں۔ انصاب ان پتھروں کو کہتے ہیں جن پر مشرکین اپنے جانور چڑھایا کرتے تھے اور انہیں وہیں ذبح کرتے تھے ازلام ان تیروں کو کہتے ہیں جن میں وہ فال لیا کرتے تھے۔ ان سب چیزوں کی نسبت فرمایا کہ یہ اللہ کی ناراضگی کے اور شیطانی کام ہیں۔ یہ گناہ کے اور برائی کے کام ہیں تم ان شیطانی کاموں سے بچو انہیں چھوڑ دو تاکہ تم نجات پاؤ۔ اس فقرے میں مسلمانوں کو ان کاموں سے روکنے کی ترغیب ہے۔ پھر رغبت آمیز دھمکی کے ساتھ مسلمانوں کو ان چیزوں سے روکا گیا ہے۔ حرمت شراب کی مزید وضاحت اب ہم یہاں پر حرمت شراب کی مزید احادیث وارد کرتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں شراب تین مرتبہ حرام ہوئی۔ آنحضرت ﷺ جب مدینے شریف میں آئے تو لوگ جواری شرابی تھے حضور ﷺ سے اس بارے میں سوال ہوا اور آیت ( يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۭ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ للنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ) 2۔ البقرۃ :219) نازل ہوئی۔ اس پر لوگوں نے کہا یہ دونوں چیزیں ہم پر حرام نہیں کی گئیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ فوائد بھی ہیں۔ چناچہ شراب پیتے رہے۔ ایک دن ایک صحابی اپنے ساتھیوں کو مغرب کی نماز پڑھانے کیلئے کھرے ہوئے تو قرأت خط ملط ہوگئی اس پر آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ) 4۔ النساء:43) نازل ہوئی۔ یہ بہ نسبت پہلی آیت کے زیادہ سخت تھی اب لوگوں نے نمازوں کے وقت شراب چھوڑ دی لیکن عادت برابر جاری رہی اس پر اس سے بھی زیادہ سخت اور صریح آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) 5۔ المائدة:90) نازل ہوئی اسے سن کر سارے صحابہ بول اٹھے انتھینا ربنا اے اللہ ہم اب باز رہے، ہم رک گئے، پھر لوگوں نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا جو شراب اور جوئے کی حرمت کے نازل ہونے سے پیشتر اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے تھے اس کے جواب میں اس کے بعد کی آیت ( لیس علی الذین ) الخ، نازل ہوئی اور آپ نے فرمایا اگر ان کی زندگی میں یہ حکم اترا ہوتا تو وہ بھی تمہاری طرح اسے مان لیتے، مسند احمد میں ہے حضرت عمر بن خطاب ؓ نے تحریم شراب کے نازل ہونے پر فرمایا یا اللہ ہمارے سامنے اور کھول کر بیان فرما پس سورة بقرہ کی آیت ( فیھما اثم کبیر ) نازل ہوئی۔ حضرت عمر فاروق کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس کی تلاوت کی گئی پھر بھی آپ نے فرمایا اے اللہ تو ہمیں اور واضح لفظوں میں فرما ! پس سورة نساء کی آیت ( وانتم سکاری ) نازل ہوئی اور مؤذن جب حی علی الصلوۃ کہتا تو ساتھ ہی کہ دیتا کہ نشہ باز ہرگز ہرگز نماز کے قریب بھی نہ آئیں۔ حضرت عمر کو بلوایا گیا اور یہ آیت بھی انہیں سنائی گئی لیکن پھر بھی آپ نے یہی فرمایا کہ اے اللہ اس بارے میں صفائی سے بیان فرما۔ پس سورة مائدہ کی آیت اتری آپ کو بلوایا گیا اور یہ آیت سنائی گئی جب آیت ( فھل انتم منتھون ) تک سنا تو فرمانے لگے انتھینا انتھینا ہم رک گئے ہم رک گئے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے منبر نبوی پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ شراب کی حرمت جب نازل ہوئی اس وقت شراب پانچ چیزوں کی بنائی جاتی تھی، انگور، شہد، کجھور، گہیوں اور جو۔ ہر وہ چیز جو عقل پر غالب آجائے خمر ہے۔ یعنی شراب کے حکم میں ہے اور حرام ہے صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ شراب کی حرمت کی آیت کے نزول کے موقع پر مدینے شریف میں پانچ قسم کی شرابیں تھیں ان میں انگور کی شراب نہ تھی، ابو داؤد طیالسی میں ہے ابن عمر فرماتے ہیں شراب کے بارے میں تین آیتیں اتریں۔ اول تو آیت ( یسلونک عن الخمر ) والی آیت اتری تو کہا گیا کہ شراب حرام ہوگئی اس پر بعض صحابہ نے فرمایا رسول اللہ ہمیں اس سے نفع اٹھانے دیجئے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آپ خاموش ہوگئے پھر آیت ( وانتم سکاری ) والی آیت اتری اور کہا گیا کہ شراب حرام ہوگئی۔ لیکن صحابہ نے فرمایا دیا رسول اللہ ہم بوقت نماز نہ پئیں گے۔ آپ پھر چپ رہے پھر یہ دونوں آیتیں اتری اور خود رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا کہ اب شراب حرام ہوگئی۔ مسلم وغیرہ میں ہے کہ حضور کا ایک دوست تھا قبیلہ ثقیف میں سے یا قبیلہ دوس میں سے۔ فتح مکہ والے دن وہ آپ سے ملا اور ایک مشک شراب کی آپ کو تحفتاً دینے لگا آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کردیا ہے۔ اب اس شخص نے اپنے غلام سے کہا کہ جا اسے بیچ ڈال، آپ نے فرمایا کیا کہا ؟ اس نے جواب دیا کہ بیچنے کو کہہ رہا ہوں آپ نے فرمایا جس اللہ نے اس کا پینا حرام کیا ہے اسی نے اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے۔ اس نے اسی وقت کہا جاؤ اسے لے جاؤ اور بطحا کے میدان میں بہا آؤ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ حضرت تمیم دارمی آنحضرت ﷺ کو تحفہ دینے کیلئے ایک مشک شراب کی لائے، آپ اسے دیکھ کر ہنس دیئے اور فرمایا یہ تو تمہارے جانے کے بعد حرام ہوگئی ہے کہا خیر یا رسول اللہ میں اسے واپس لے جاتا ہوں اور بیچ کر قیمت وصول کرلوں گا، یہ سن کر آپ نے فرمایا یہودیوں پر اللہ کی لنعٹ ہوئی کہ ان پر جب گائے بکری کی چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کیا، اللہ تعالیٰ نے شراب کو اور اس کی قیمت کو حرام کردیا ہے مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے کہ اس میں ہے کہ ہر سال حضرت دارمی ایک مشک ہدیہ کرتے تھے، اس کے آخر میں حضور کا دو مرتبہ یہ فرمانا ہے کہ شراب بھی حرام اور اس کی قیمت بھی حرام، ایک حدیث مسند احمد میں اور ہے اس میں ہے کہ حضرت کیسان ؓ شراب کے تاجر تھے جس سال شراب حرام ہوئی اس سال یہ شام کے ملک سے بہت سی شراب تجارت کیلئے لائے تھے حضور سے ذکر کیا آپ نے فرمایا اب تو حرام ہوگئی پوچھا پھر میں اسے بیچ ڈالوں ؟ آپ نے فرمایا یہ بھی حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے۔ چناچہ حضرت کیسان نے وہ ساری شراب بہا دی، مسند احمد میں ہے حضرت انس ؓ فرماتے ہیں، میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح حضرت ابی بن کعب، حضرت سہل بن بیضاء اور صحابہ کرام کی ایک جماعت کو شراب پلا رہا تھا دور چل رہا تھا سب لذت اندوز ہو رہے تھے قریب تھا کہ نشے کا پارہ بڑھ جائے، اتنے میں کسی صحابی نے آ کر خبر دی کہ کیا تمہیں علم نہیں شراب تو حرام ہوگئی ؟ انہوں نے کہا بس کرو جو باقی بچی ہے اسے لنڈھا دو اللہ کی قسم اس کے بعد ایک قطرہ بھی ان میں سے کسی کے حلق میں نہیں گیا۔ یہ شراب کھجو کی تھی اور عامتاً اسی کی شراب بنا کرتی تھی، یہ روایت بخاری مسلم میں بھی ہے اور روایت میں ہے کہ شراب خوری کی یہ مجلس حضرت ابو طلحہ ؓ کے مکان پر تھی، ناگاہ منادی کی آواز پڑی مجھ سے کہا گیا باہر جاؤ دیکھو کیا منادی ہو رہی ہے ؟ میں نے جا کر سنا منادی ندا دے رہا ہے کہ شراب تم پر حرام کی گئی ہے، میں نے آ کر خبر دی تو حضرت ابو طلحہ نے فرمایا اٹھو جتنی شراب ہے سب بہادو میں نے بہادی اور میں نے دیکھا کہ مدینے کے گلی کوچوں میں شراب بہہ رہی ہے، بعض اصحاب نے کہا ان کا کیا حال ہوگا جن کے پیٹ میں شراب تھی اور وہ قتل کردیئے گئے ؟ اس پر اس کے بعد کی آیت ( لیس علی الذین ) الخ، نازل ہوئی یعنی ان پر کوئی حرج نہیں، ابن جریر کی روایت میں اس مجلس والوں کے ناموں میں حضرت ابو دجانہ اور حضرت معاذ بن جبل کا نام بھی ہے اور یہ بھی ہے کہ ندا سنتے ہی ہم نے شراب بہا دی، مٹکے اور پیپے توڑ ڈالے۔ کسی نے وضو کرلیا، کسی نے غسل کرلیا اور حضرت ام سلیم کے ہاں سے خوشبو منگوا کر لگائی اور مسجد پہنچے تو دیکھا حضور ﷺ یہ آیت پڑھ رہے تھے، ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور اس سے پہلے جو لوگ فوت ہوگئے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ پس اس کے بعد آیت اتری، کسی نے حضرت قتادہ سے پوچھا کہ آپ نے یہ حدیث خود رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے ؟ فرمایا ہاں ہم جھوٹ نہیں بولتے بلکہ ہم تو جانتے بھی نہیں کہ جھوٹ کسے کہتے ہیں ؟ مسند احمد میں ہے حضور فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے شراب اور پانسے اور بربط کا باجا حرام کردیا ہے، شراب سے بچو غبیرا نام کی شراب عام ہے مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص مجھ سے وہ بات منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے۔ میں نے آپ سے سنا ہے کہ شراب جوا پانسے اور غبیرا سب حرام ہیں اور ہر نشے والی چیز حرام ہے، مسند احمد میں ہے شراب کے بارے میں دس لعنتیں ہیں خود شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے بیچنے والے پر، اس کے خریدنے والے پر اس کے نچوڑنے والے پر، اس کے بنانے والے پر، اس کے اٹھانے والے پر اور اس پر بھی جس کے پاس یہ اٹھا کرلے جایا جائے اور اس کی قیمت کھانے والے پر ( ابو داؤد، ابن ماجہ ) مسند میں ہے ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ باڑے کی طرف نکلے میں آپ کے ساتھ تھا۔ آپ کے دائیں جانب چل رہا تھا جو حضرت ابوبکر صدیق آئے میں ہٹ گیا اور آپ کے داہنے حضرت صدیق چلنے لگے تھوڑی دیر میں حضرت عمر آگئے میں ہٹ گیا آپ حضور کے بائیں طرف ہوگئے جب آپ باڑے میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پر چند مشکیں شراب کی رکھی ہوئی ہیں آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا چھری لاؤ جب میں لایا تو آپ نے حکم دیا کہ یہ مشکیں کاٹ دی جائیں پھر فرمایا شراب پر، اس کے پینے والے پر، پلانے والے پر، بیچنے والے پر، خریدار پر، اٹھانے والے پر، اٹھوانے والے پر، بنانے والے پر، بنوانے والے پر، قیمت لینے والے پر سب پر لعنت ہے، مسند احمد کی اور روایت میں ہے کہ حضور نے یہ مشکیں کٹوا دیں پھر مجھے اور میرے ساتھیوں کو چھری دے کر فرمایا جاؤ جتنی مشکیں شراب کی جہاں پاؤ سب کاٹ کر بہا دو ، پس ہم گئے اور سارے بازار میں ایک مشک بھی نہ چھوڑی۔ بہقی کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص شراب بیجتے تھے اور بہت خیرات کیا کرتے تھے حضرت ابن عباس سے شراب فروشی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے، اے امت محمد اگر تمہاری کتاب کے بعد کوئی کتاب اترنے والی ہوتی اور اگر تمہارے نبی کے بعد کوئی نبی اور آنے والا ہوتا، جس طرح اگلوں کی رسوائیاں اور ان کی برائیاں تمہاری کتاب میں اتریں تمہاری خرابیاں ان پر نازل ہوتیں لیکن تمہارے افعال کا اظہار قیامت کے دن پر مؤخر رکھا گیا ہے اور یہ بہت بھاری اور بڑا ہے، پھر حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا سنو میں حضور کے ساتھ مسجد میں تھا۔ آپ گوٹھ لگائے ہوئے بیٹھے تھے فرمانے لگے جس کے پاس جتنی شراب ہو وہ ہمارے پاس لائے۔ لوگوں نے لانی شروع کی، جس کے پاس جتنی تھی حاضر کی۔ آپ نے فرمایا جاؤ اسے بقیع کے میدان میں فلاں فلاں جگہ رکھو۔ جب سب جمع ہوجائے مجھے خبر کو، جب جمع ہوگئی اور آپ سے کہا گیا تو آپ اٹھے میں آپ کے داہنے جانب تھا آپ مجھ پر ٹیک لگائے چل رہے تھے حضرت ابوبکر صدیق جب آئے تو آپ نے مجھے ہٹا دیا اپنے بائیں کردیا اور میری جگہ حضرت ابوبکر نے لے لی، پھر حضرت عمر سے ملاقت ہوئی تو آپ نے مجھے اور پیچھے ہٹا دیا اور جناب فاروق کو اپنے بائیں لے لیا اور وہاں پہنچے لوگوں سے فرمایا جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ سب نے کہا ہاں جانتے ہیں یہ شراب ہے، فرمایا سنو اس پر اس کے بنانے والے پر، بنوانے والے پر، پینے والے پر، پلانے والے پر، اٹھانے والے پر، اٹھوانے والے پر، بیچنے والے پر، خریدنے والے پر، قیمت لینے والے پر اللہ کی پھٹکار ہے۔ پھر چھری منگوائی اور فرمایا اسے تیز کرلو پھر اپنے ہاتھ سے مشکیں پھاڑنی اور مٹکے توڑنے شروع کئے لوگوں نے کہا بھی کہ حضور مشکوں اور مٹکو کو رہنے دیجئے اور کام آئیں گی فرمایا ٹھیک ہے لیکن میں تو اب ان سب کو توڑ کر ہی رہوں گا یہ غضب و غضہ اللہ کیلئے ہے کیونکہ ان تمام چیزوں سے رب اراض ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا حضور آپ خود کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم حاضر ہیں فرمایا نہیں میں اپنے ہاتھ سے انہیں نیست و نابود کروں گا۔ بیہقی کی حدیث میں ہے کہ شراب کے بارے میں چار آیتیں اتری ہیں۔ پھر حدیث بیان فرما کر کہا کہ ایک انصاری نے دعوت کی ہم دعوت میں جمع ہوئے خوب شرابیں پیں۔ نشے میں جھومتے ہوئے اپنے نام و نسب پر فخر کرنے لگے، ہم افضل ہیں۔ قریشی نے کہا ہم افضل ہیں۔ ایک انصاری نے اونٹ کے جبڑا لے کر حضرت سعد کو مارا اور ہاتھا پائی ہونے لگی پھر شراب کی حرمت کی آیت اتری۔ یہ شراب پی کر بدمست ہوگئے اور آپس میں لاف زنی ہونے لگی جب نشے اترے تو دیکھتے ہیں اس کی ناک پر زخم ہے اس کے چہرے پر زخم ہے اس کی داڑھی نچی ہوئی ہے اور اسے چوٹ لگی ہوئی ہے، کہنے لگے مجھے فلاں نے مارا میری بےحرمتی فلاں نے کی اگر اس کا دل میری طرف سے صاف ہوتا تو میرے ساتھ یہ حرکت نہ کرتا دلوں میں نفرت اور دشمنی بڑھنے لگی پس یہ آیت اتری۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا جب یہ گندگی ہے تو فلاں فلاں صحابہ تو اسے پیتے ہوئے ہی رحلت کر گئے ہیں ان کا کیا حال ہوگا ؟ ان میں سے بعض احد کے میدان میں شہید ہوئے ہیں اس کے جواب میں اگلی آیت اتری۔ ابن جریر میں ہے حضرت ابو بریدہ کے والد کہتے ہیں کہ ہم چار شخص ریت کے ایک ٹیلے پر بیٹھے شراب پی رہے تھے دور چل رہا تھا جام گردش میں تھا ناگہاں میں کھڑا ہوا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سلام کیا وہیں حرمت شراب کی یہ آیت نازل ہوئی۔ میں پچھلے پیروں اپنی اسی مجلس میں آیا اور اپنے ساتھیوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی، بعض وہ بھی تھے، جن کے منہ سے جام لگا ہوا تھا لیکن واللہ انہوں نے اسی وقت اسے الگ کردیا اور جتنا پیا تھا اسے قے کر کے نکال دیا اور کہنے لگے یا اللہ ہم رک گئے ہم باز آگئے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جنگ احد کی صبح بعض لوگوں نے شرابیں پی تھیں اور میدان میں اسی روز اللہ کی راہ میں شہید کردیئے گئے اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔ بزار میں یہ ذاتی بھی ہے کہ اسی پر بعض یہودیوں نے اعتراض کیا اور جواب میں آیت ( لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ) 5۔ المائدة:93) نازل ہوئی، ابو یعلی موصلی میں ہے کہ ایک شخص خیبر سے شراب لا کر مدینے میں فروخت کیا کرتا تھا ایک دن وہ لا رہا تھا ایک صحابی راستے میں ہی اسے مل گئے اور فرمایا شراب تو اب حرام ہوگئی وہ واپس مڑ گیا اور ایک ٹیلے تلے اسے کپڑے سے ڈھانپ کر آگیا اور حضور سے کہنے لگا کیا یہ سچ ہے کہ شراب حرام ہوگئی ؟ آپ نے فرمایا ہاں سچ ہے کہا پھر مجھے اجازت دیجئے کہ جس سے لی ہے اسے واپس کر دوں۔ فرمایا اس کا لوٹانا بھی جائز نہیں، کہا پھر اجازت دیجئے کہ میں اسے ایسے شخص کو تحفہ دوں جو اس کا معاوضہ مجھے دے آپ نے فرمایا یہ بھی ٹیک نہیں کہ حضور اس میں یتیموں کا مال بھی لگا ہوا ہے فرمایا دیکھو جب ہمارے پاس بحرین کا مال آئے گا اس سے ہم تمہارے یتیموں کی مدد کریں گے پھر مدینہ میں منا دی ہوگئی ایک شخص نے کہا حضور شراب کے برتنوں سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دیجئے آپ نے فرمایا جاؤ مشکوں کو کھول ڈالو اور شراب بہا دو اس قدر شراب بہی کہ میدان بھر گئے۔ یہ حدیث غریب ہے، مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول کریم ﷺ سے سوال کیا کہ میرے ہاں جو یتیم بچے پل رہے ہیں ان کے ورثے میں انہیں شراب ملی ہے آپ نے فرمایا جاؤ اس یہا دو عرض کیا اگر اجازت ہو تو اس کا سرکہ بنا لوں فرمایا نہیں۔ یہ حدیث مسلم ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔ ابن ابی حاتم میں صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے فرمایا جیسے یہ آیت قرآن میں ہے تورات میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو نازل فرمایا تاکہ اس کی وجہ سے باطل کو دور کر دے اور اس سے کھیل تماشے باجے گاجے بربط دف طنبورہ راگ راگنیاں فنا کر دے۔ شرابی کیلئے شراب نقصان دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ جو اسے حرمت کے بعد پئے گا اسے میں قیامت کے دن پیاسا رکھوں گا اور حرمت کے بعد جوا سے چھوڑے گا میں اسے جنت کے پاکیزہ چشمے سے پلاؤں گا۔ حدیث شریف میں ہے جس شخص نے نشہ کی وجہ سے ایک وقت کی نماز چھوڑی وہ ایسا ہے جیسے کہ سے روئے زمین کی سلطنت جھن گئی اور جس شخص نے چار بار کی نماز نشے میں چھوڑ دی اللہ تعالیٰ اسے طینتہ الخیال پلائے گا۔ پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے ؟ فرمایا جہنمیوں کا لہو پیپ پسینہ پیشاب وغیرہ ( مسند احمد ) ابو داؤد میں ہے کہ ہر عقل کو ڈھانپنے والی چیز خمر ہے اور ہر نشہ والی چیز حرام ہے اور جو شخص نشے والی چیز پئے گا اس کی چالیس دن کی نمازیں ناقبول ہیں۔ اگر وہ توبہ کرے گا تو توبہ قبول ہوگی اگر اس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور طینتہ الخیال پلائے گا پوچھا گیا وہ کیا ہے ؟ فرمایا جہنمیوں کا نچوڑ اور ان کی پیپ اور جو شخص اسے کسی بچہ کو پلائے گا جو حلال حرام کی تمیز نہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے بھی جہنمیوں کا پیپ پلائے۔ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے دنیا میں جو شراب پیئے گا اور توبہ نہ کرے گا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ہر نشے والی چیز خمر ہے اور ہر نشے والی چیز حرام ہے اور جس شخص نے شراب کی عادت ڈالی اور بےتوبہ مرگیا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا۔ نسائی وغیرہ میں ہے تین شخصوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر رحمت سے نہ دیکھے گا، ماں باپ کا نافرمان، شراب کی عادت والا اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتلانے والا، مسند احمد میں ہے کہ دے کر احسان جتانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور شرابی جنت میں نہیں جائے گا۔ مسند احمد میں اس کے ساتھ ہی ہے کہ زنا کی اولاد بھی، حضرت عثمان بن عفان ؓ تعلای عنہ فرماتے ہیں شراب سے پرہیز کرو وہ تمام برائیوں کی جر ہے۔ سنو اگلے لوگوں میں ایک ولی اللہ تھا جو بڑا عبادت گزر تھا اور تارک دنیا تھا۔ بستی سے الگ تھلگ ایک عبادت خانے میں شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہا کرتا تھا، ایک بدکار عورت اس کے پیچھے لگ گئی، اس نے اپنی لونڈی کو بھیج کر اسے اپنے ہاں ایک شہادت کے بہانے بلوایا، یہ چلے گئے لونڈی اپنے گھر میں انہیں لے گئی جس دروازے کے اندر یہ پہنچ جاتے پیچھے سے لونڈی اسے بند کرتی جاتی۔ آخری کمرے میں جب گئے تو دیکھا کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت بیٹھی ہے، اس کے پاس ایک بچہ ہے اور ایک جام شراب لبالب بھرا رکھا ہے۔ اس عورت نے اس سے کہا سنئے جناب میں نے آپ کو درحقیقت کسی گواہی کیلئے نہیں بلوایا فی الواقع اس لئے بلوایا ہے کہ یا تو آپ میرے ساتھ بدکاری کریں یا اس بچے کو قتل کردیں یا شراب کو پی لیں درویش نے سوچ کر تینوں کاموں میں ہلکا کام شراب کا پینا جان کر جام کو منہ سے لگا لیا، سارا پی گیا۔ کہنے لگا اور لاؤ اور لاؤ، خوب پیا، جب نشے میں مدہوش ہوگیا تو اس عورت کے ساتھ زنا بھی کر بیٹھا اور اس لڑکے کو بھی قتل کردیا۔ پس اے لوگو ! تم شراب سے بچو سمجھ لو کہ شراب اور ایمان جمع نہیں ہوتے ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے ( بیہقی ) امام ابوبکر بن ابی الدنیا ؒ نے اپنی کتاب ذم المسکر میں بھی اسے وارد کیا ہے اور اس میں مرفوع ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہے واللہ اعلم، اس کی شاہد بخاری و مسلم کی مرفوع حدیث بھی ہے جس میں ہے کہ زانی زنا کے وقت، چور چوری کے وقت، شرابی شراب خوری کے وقت مومن نہیں رہتا۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب شراب حرام ہوئی تو صحابہ نے سوال کیا کہ اس کی حرمت سے پہلے جو لوگ انتقال کرچکے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ اس پر یہ آیت ( لیس علی الذین ) الخ، نازل ہوئی یعنی ان پر اس میں کوئی حرج نہیں اور جب بیت المقدس کا قبلہ بدلا اور بیت اللہ شریف قبلہ ہوا اس وقت بھی صحابہ نے پہلے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے انتقال کر جانے والوں کی نسبت دریافت کیا تو آیت ( ماکان اللہ لیضیع ایمانکم ) الخ، نازل ہوئی یعنی ان کی نمازیں ضائع نہ ہوں گی۔ مسند احمد میں ہے جو شخص شراب پئے چالیس دن تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر رہتی ہے اگر وہ اسی حالت میں مرگیا تو کافر مرے گا ہاں اگر اس نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا اور اگر اس نے پھر بھی شراب پی تو اللہ تعالیٰ دوزخیوں کا فضلہ پلائے گا اور روایت میں ہے کہ جب یہ حکم اترا کہ ایمانداروں پر حرمت سے پہلے پی ہوئی کا کوئی گناہ نہیں تو حضور نے فرمایا مجھ سے کہا گیا ہے کہ تو انہی میں سے ہے۔ مسند احمد میں ہے پانسوں کے کھیل سے بچو یہ عجمیوں کا جوا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 93 لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا کسی شے کی حرمت کے قطعی حکم آنے سے پہلے جو کچھ کھایا پیا گیا ‘ اس کا کوئی گناہ ان پر نہیں رہے گا۔ یہ کوئی ہڈیوں میں بیٹھ جانے والی شے نہیں ہے ‘ یہ تو شرعی اور اخلاقی قانون Moral Law کا معاملہ ہے ‘ طبعی قانون Physical Law کا نہیں ہے۔ طبعی Physical طور پر تو کچھ چیزوں کے اثرات واقعی دائمی ہوجاتے ہیں ‘ لیکن Moral Law کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ گناہ تو احد پہاڑ کے برابر بھی ہوں تو سچی توبہ سے بالکل صاف ہوجاتے ہیں۔ ازروئے حدیث نبوی ﷺ : اَلتَّاءِبُ مِنَ ا لذَّنْبِ کَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَہٗ 1 گناہ سے حقیقی توبہ کرنے والا بالکل ایسے ہے جیسے اس نے کبھی وہ گناہ کیا ہی نہیں تھا۔ صدق دل سے توبہ کی جائے تو نامۂ اعمال بالکل دھل جاتا ہے۔ لہٰذا ایسی کسی تشویش کو بالکل اپنے قریب مت آنے دو۔ اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ یہ دراصل تین درجے ہیں۔ پہلا درجہ ’ اسلام ‘ ہے۔ یعنی اللہ کو مان لیا ‘ رسول ﷺ کو مان لیا اور اس کے احکام پر چل پڑے۔ اس سے اوپر کا درجہ ’ ایمان ‘ ہے ‘ یعنی دل کا کامل یقین ‘ جو ایمان کے دل میں اتر جانے سے حاصل ہوتا ہے۔ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ الحجرات : 7 کے مصداق ایمان قلب میں اتر جائے گا تو اعمال کی کیفیت بدل جائے گی ‘ اعمال میں ایک نئی شان پیدا ہوجائے گی ‘ زندگی کے اندر ایک نیا رنگ آجائے گا جو کہ خالص اللہ کا رنگ ہوگا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : صِبْغَۃَ اللّٰہِج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃًر البقرۃ : 138۔ اور اس سے بھی آگے جب ایمان عین الیقین کا درجہ حاصل کرلے تو یہی درجۂ احسان ہے۔ حدیث نبوی ﷺ میں اس کی کیفیت یہ بیان ہوئی ہے : اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ 2 یہ کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے ‘ اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی تو پھر یہ کیفیت تو پیدا ہونی چاہیے کہ وہ تو تجھے دیکھتا ہے۔ یعنی تم اللہ کی بندگی کرو ‘ اللہ کے لیے جہاد کرو ‘ اس کی راہ میں بھاگ دوڑ کرو ‘ اور اس میں تقویٰ کی کیفیت ایسی ہوجائے کہ جیسے تم اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ احسان کی یہ تعریف حدیث جبرائیل میں موجود ہے۔ اس حدیث کو اُمّ السُّنَّۃ کہا گیا ہے ‘ جیسے سورة الفاتحہ کو اُمّ القرآن کا نام دیا گیا ہے۔ جس طرح سورة الفاتحہ اساس القرآن ہے ‘ اسی طرح حدیث جبرائیل علیہ السلام سنت کی اساس ہے۔ اس حدیث میں ہمیں یہ تفصیل ملتی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں حضور ﷺ کے پاس آئے۔ صحابہ رض کا مجمع تھا ‘ وہاں انہوں نے کچھ سوالات کیے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پہلا سوال اسلام کے بارے میں کیا : یَامُحَمَّدُ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ ! اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ‘ نماز قائم کرو ‘ زکوٰۃ اد اکرو ‘ رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر تمہیں اس کے لیے سفر کی استطاعت ہو۔ یعنی اسلام کے ضمن میں اعمال کا ذکر آگیا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتلایئے ! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر ‘ اس کے فرشتوں پر ‘ اس کی کتابوں پر ‘ اس کے رسولوں پر ‘ یوم آخرت پر اور تقدیر کی اچھائی اور برائی پر۔ اب یہاں یہ نکتہ غور طلب ہے کہ ایمان تو اسلام میں بھی موجود ہے ‘ یعنی زبانی اور قانونی ایمان ‘ لیکن دوسرے درجے میں ایمان کو اسلام سے علیحدہ کیا گیا ہے اور اعمال صالحہ کا تعلق ایمان کے بجائے اسلام سے بتایا گیا ہے۔ اس لیے کہ جب ایمان دل میں اتر کر یقین کی صورت اختیار کر جائے تو پھر اعمال کا ذکر الگ سے کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایمان کے اس مرحلے پر اعمال لازماً درست ہوجائیں گے۔ پھر ایمان جب دل میں مزید گہرا اور پختہ ہوتا ہے تو اعمال بھی مزید درست ہوں گے۔ یوں سمجھئے کہ جتنا جتنا درخت اوپر جا رہا ہے اسی نسبت سے جڑ نیچے گہرائی میں اتر رہی ہے۔ ایمان کی جڑ نے دل کی زمین میں قرار پکڑا تو اسلام سے ایمان بن گیا۔ جب یہ جڑ مزید گہری ہوئی تو تیسری منزل یعنی احسان تک رسائی ہوگئی اور یہاں اعمال میں مزید نکھار پیدا ہوا۔ چناچہ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے احسان کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔۔ آپ ﷺ کا جواب تین روایتوں میں تین مختلف الفاظ میں نقل ہوا ہے : 1 اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ۔۔ 2 اَنْ تَخْشَی اللّٰہَ تَعَالٰی کَاَنَّکَ تَرَاہُ۔۔ 1 3 اَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ کَاَنَّکَ تَرَاہُ 2۔ اگلے الفاظ : فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ تینوں روایتوں میں یکساں ہیں۔ یعنی ایک بندۂ مؤمن اللہ کی بندگی ‘ اللہ کی پرستش ‘ اللہ کے لیے بھاگ دوڑ ‘ اللہ کے لیے عمل ‘ اللہ کے لیے جہاد ایسی کیفیت سے سرشار ہو کر کر رہا ہوگویاوہ اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ تو جب اللہ سامنے ہوگا ‘ تو پھر کیسے کچھ ہمارے جذبات عبدیت ہوں گے ‘ کیسی کیسی ہماری قلبی کیفیات ہوں گی۔ اس دنیا میں بھی یہ کیفیت حاصل ہوسکتی ہے ‘ لیکن یہ کیفیت بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ چناچہ اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو سکے تو احسان کا ایک اس سے نچلا درجہ بھی ہے۔ یعنی کم از کم یہ بات ہر وقت مستحضر رہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ تو یہ ہیں وہ تین درجے جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں مولانا مودودی مرحوم کی ایک قابل قدر کتاب ہے۔ اس میں مولانا نے اسلام ‘ ایمان ‘ احسان اور تقویٰ چار مراتب بیان کیے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک تقویٰ علیحدہ سے کوئی مرتبہ ومقام نہیں ہے۔ تقویٰ وہ روح spirit اور وہ قوت محرکہ driving force ہے جو انسان کو نیکی کی طرف دھکیلتی اور ابھارتی ہے۔ چناچہ آیت زیر نظر میں تقویٰ کی تکرار کا مفہوم یوں ہے کہ تقویٰ نے آپ کو baseline سے اوپر اٹھایا اور اب آپ کے ایمان اور عمل صالح میں اور رنگ پیدا ہوگیا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۔ پھر تقویٰ میں مزید اضافہ ہوا اور تقویٰ نے آپ کو مزید اوپر اٹھایا تو اب وہ یقین والا ایمان پیدا ہوگیا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا۔ اب یہاں عمل صالح کے علیحدہ ذکر کی ضرورت ہی نہیں۔ جب دل میں ایمان اتر گیا تو اعمال خود بخود درست ہوگئے۔ پھر تقویٰ اگر مزید روبہ ترقی ہے ثُمَّ اتَّقَوْا تو اس کے نتیجے میں وَاَحْسَنُوْا کا درجہ آجائے گا ‘ یعنی انسان درجۂ احسان پر فائز ہوجائے گا۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔ آمین ! ایمان اور تقویٰ سے اعمال کی درستی کے ضمن میں نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان پیش نظر رہنا چاہیے : اَلَا وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً ‘ اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُُ کُلُّہٗ ‘ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُکُلُّہٗ ‘ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ 1آگاہ رہو ‘ یقیناً جسم کے اندر ایک گوشت کا لوتھڑا ہے ‘ جب وہ درست ہو تو سارا جسم ‘ درست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ آگاہ رہو کہ وہ دل ہے۔وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اور اللہ ایسے محسن بندوں کو محبوب رکھتا ہے۔اللہ کے جو بندے درجۂ احسان تک پہنچ جاتے ہیں وہ اس کے محبوب بن جاتے ہیں۔اس سورة مبارکہ آیت 71 میں پہلے ایک غلط راستے کی نشاندہی کی گئی تھی : فَعَمُوْا وَصَمُّوْا۔۔ ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا۔۔ یہ گمراہی و ضلالت کے مختلف مراحل کا ذکر ہے کہ وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ‘ اللہ نے پھر ڈھیل دی تو اس پر وہ اور بھی اندھے اور بہرے ہوگئے ‘ اللہ نے مزید ڈھیل دی تو وہ اور زیادہ اندھے اور بہرے ہوگئے۔ اس راستے پر انسان قدم بہ قدم گمراہی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ مگر ایک راستہ یہ ہے ‘ ہدایت کا راستہ ‘ اسلام ‘ ایمان ‘ احسان ‘ اور تقویٰ کا راستہ۔ یہاں انسان کو درجہ بہ درجہ ترقی ملتی چلی جاتی ہے۔
ليس على الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا إذا ما اتقوا وآمنوا وعملوا الصالحات ثم اتقوا وآمنوا ثم اتقوا وأحسنوا والله يحب المحسنين
سورة: المائدة - آية: ( 93 ) - جزء: ( 7 ) - صفحة: ( 123 )Surah Maidah Ayat 93 meaning in urdu
جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی بشرطیکہ وہ آئندہ اُن چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اچھے کام کریں، پھر جس جس چیز سے روکا جائے اس سے رکیں اور جو فرمان الٰہی ہو اُسے مانیں، پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویہ رکھیں اللہ نیک کردار لوگوں کو پسند کرتا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اور جب
- خدا سود کو نابود (یعنی بےبرکت) کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور
- پھر اس کو موت دی پھر قبر میں دفن کرایا
- تو اس روز ظالم لوگوں کو ان کا عذر کچھ فائدہ نہ دے گا اور
- (خدا نے) فرمایا، نکل جا۔ یہاں سے پاجی۔ مردود جو لوگ ان میں سے تیری
- نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ (ایک ہی حالت میں) رہیں گے ان کے آس پاس
- اور خدا کے سب نام اچھے ہی اچھے ہیں۔ تو اس کو اس کے ناموں
- اور اگر یہ تم سے جھگڑا کریں تو کہہ دو کہ جو عمل تم کرتے
- میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے
- ہم کو معلوم ہے کہ ان (کافروں) کی باتیں تمہیں رنج پہنچاتی ہیں (مگر) یہ
Quran surahs in English :
Download surah Maidah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Maidah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Maidah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers