Surah Al Araaf Ayat 94 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ﴾
[ الأعراف: 94]
اور ہم نے کسی شہر میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو (جو ایمان نہ لائے) دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اور زاری کریں
Surah Al Araaf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ” بَأْسَاءُ “ وہ تکلیفیں جو انسان کے بدن کو لاحق ہوں یعنی بیماری اور ” ضَرَّاءُ “ سے مراد فقر وتنگ دستی ۔ مطلب یہ ہے کہ جس کسی بستی میں بھی ہم نے رسول بھیجا، انہوں نے اس کی تکذیب کی جس کی پاداش میں ہم نے ان کو بیماری اور محتاجی میں مبتلا کردیا جس سے مقصد یہ تھا کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں اور اس کی بارگاہ میں گڑ گڑائیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ادوارماضی اگلی امتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے رسول آئے اور ان کے انکار پر وہ امتیں مختلف بلاؤں میں مبتلا کی گئیں مثلاً بیماریاں، فقیری، مفلسی، تنگی۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اکڑنا چھوڑ دیں اور اس کے سامنے جھک جائیں۔ مصیبتوں کے ٹالنے کی دعائیں کریں اور اس کے رسول کی مان لیں۔ لیکن انہوں نے اس موقعہ کو ہاتھ سے نکال دیا باوجود بری حالت ہونے کے دل کا کفر نہ ٹوتا، اپنی ضد سے نہ ہٹے تو ہم نے دوسری طرح پھر ایک موقہ دیا۔ سختی کو نرمی سے، برائی کو بھلائی سے، بیماری کو تندرستی سے، فقیری کو امیری سے بدل دیا تاکہ شکر کریں اور ہماری حکمرانی کے قائل ہوجائیں لیکن انہوں نے اس موقعہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا، جیسے جیسے بڑھے ویسے ویسے کفر میں پھنسے، بد مستی میں اور بڑھے اور مغرور ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ زمانہ کے اتفاقات ہیں۔ پہلے سے یہی ہوتا چلا آیا ہے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں بڑی۔ زمانہ ہمیشہ ایک حالت پر نہیں رہتا، الغرض اتفاق پر محمول کر کے معمولی سی بات سمجھ کر دونوں موقع ٹال دیئے۔ ایمان والے دونوں حالتوں میں عبرت پکڑتے ہیں۔ مصیبت پر صبر، راحت پر شکر ان کا شیوہ ہوتا ہے، بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مومن پر تعجب ہے اس کی دونوں حالتیں انجام کے لحاظ سے اس کیلئے بہتر ہوتی ہیں۔ یہ دکھ پر صبر کرتا ہے، انجام بہتر ہوتا ہے، سکھ پر شکر کرتا ہے، نیکیاں پاتا ہے، پس مومن رنج و راحت دونوں میں اپنی آزمائش کو سمجھ لیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے بلاؤں کی وجہ سے مومن کے گناہ بالکل دور ہوجاتے ہیں اور وہ پاک صاف ہوجاتا ہے۔ ہاں منافق کی مثال گدھے جیسی ہے جسے نہیں معلوم کہ کیوں باندھا گیا اور کیوں کھولا گیا ؟ ( اوکمال قال ) پس ان لوگوں کو اس کے بعد اللہ کے عذاب نے اچانک آپکڑا یہ محض بیخبر تھے اپنی خرمستیوں میں لگے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اچانک موت مومن کے لئے رحمت ہے اور کافروں کے لئے حسرت ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 94 وَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ الآَّ اَخَذْنَآ اَہْلَہَا بالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُوْنَ یہ اللہ کے ایک خاص قانون کا تذکرہ ہے ‘ جس کے بارے میں ہم سورة الأنعام آیات 42 تا 45 میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب بھی کسی قوم کی طرف کسی رسول کو بھیجا جاتا تو اس قوم کو سختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا کر کے ان کے لیے رسول کی دعوت کو قبول کرنے کا ماحول پیدا کیا جاتا۔ کیونکہ خوشحالی اور عیش کی زندگی گزارتے ہوئے انسان ایسی کوئی نئی بات سننے کی طرف کم ہی مائل ہوتا ہے ‘ البتہ اگر انسان تکلیف میں مبتلا ہو تو وہ ضرور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ لہٰذا کسی رسول کی دعوت کے آغاز کے ساتھ ہی اس قوم پر زندگی کے حالات تنگ کردیے جاتے تھے ‘ لیکن اگر وہ لوگ اس کے باوجود بھی ہوش میں نہ آتے ‘ اپنی ضد پر اڑے رہتے ‘ اور رسول کی دعوت کو رد کرتے چلے جاتے ‘ تو ان پر سے وہ سختیاں اور تکلیفیں دور کر کے ان کو غیرمعمولی آسائشوں اور نعمتوں سے نواز دیا جاتا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گویا ڈھیل دینے کا ایک انداز ہے کہ اب اس قوم نے برباد تو ہونا ہی ہے مگر آخری انجام کو پہنچنے سے پہلے ان کی نافرمانی کی آخری حدود دیکھ لی جائیں کہ اپنی اس روش پر وہ کہاں تک جاسکتے ہیں۔ یہ ہے وہ قانون یا اللہ کی سنت ‘ جس پر ہر رسول کے آنے پر عمل درآمد ہوتا رہا ہے۔ سورة السجدة میں اس قانون کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے : وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ اور ہم انہیں مزا چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے پہلے شاید کہ یہ رجوع کریں۔ بڑا عذاب تو عذاب استیصال ہوتا ہے جس کے بعد کسی قوم کو تباہ و برباد کر کے نسیاً منسیا کردیا جاتا ہے۔ اس بڑے عذاب کی کیفیت مکی سورتوں میں اس طرح بیان کی گئی ہے : کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْہَا ج الاعراف : 92 ‘ اور سورة هود : 68 ‘ 95 وہ لوگ ایسے ہوگئے جیسے وہاں بستے ہی نہیں تھے۔ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاط الانعام : 45 پس ظالم قوم کی جڑ کاٹ دی گئی۔ لَا یُرٰٓی اِلَّا مَسٰکِنُہُمْط الاحقاف : 25 اب صرف ان کے مسکن ہی نظر آ رہے ہیں۔ یعنی عذاب استیصال کے بعد اب ان کی کیفیت یہ ہے کہ ان کے بنائے ہوئے عالیشان محل تو نظر آ رہے ہیں ‘ لیکن ان کے مکینوں میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہا۔۔ قانون قدرت کے تحت اس نوعیت کے عذاب الاکبر سے پہلے چھوٹی چھوٹی تنبیہات آتی ہیں تاکہ لوگ خواب غفلت سے جاگ جائیں ‘ ہوش میں آجائیں ‘ استکبار کی روش ترک کر کے عاجزی اختیار کریں اور رجوع کر کے عذاب استیصال سے بچ سکیں۔
وما أرسلنا في قرية من نبي إلا أخذنا أهلها بالبأساء والضراء لعلهم يضرعون
سورة: الأعراف - آية: ( 94 ) - جزء: ( 9 ) - صفحة: ( 162 )Surah Al Araaf Ayat 94 meaning in urdu
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اُس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اتر آئیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- پھر لپک کر آگے بڑھتے ہیں
- جب جادوگر آگئے تو فرعون سے کہنے لگے اگر ہم غالب رہے تو ہمیں صلہ
- (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی
- اور ایک شخص شہر کی پرلی طرف سے دوڑتا ہوا آیا (اور) بولا کہ موسٰی
- اور ہم نے ان سے پہلے کئی اُمتیں ہلاک کر ڈالیں۔ وہ ان سے قوت
- وہ لوگ (بھی) کافر ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ خدا تین میں
- اور ہم نے فرعون کو اپنی سب نشانیاں دکھائیں مگر وہ تکذیب وانکار ہی کرتا
- اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں تو اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں
- اس دن جھٹلانے والوں کے لئے خرابی ہے
- ایک دفتر ہے لکھا ہوا
Quran surahs in English :
Download surah Al Araaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Araaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Araaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers