Surah Muminoon Ayat 1 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ﴾
[ المؤمنون: 1]
بےشک ایمان والے رستگار ہوگئے
Surah Muminoon Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) فَلَاح کے لغوی معنی ہیں چیرنا، کاٹنا، کاشت کار کو فَلَاح کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو چیر پھاڑ کر اس میں بیج بوتا ہے، مفلح ( کامیاب ) بھی وہ ہوتا ہے جو صعوبتوں کو قطع کرتے ہوئے مطلب تک پہنچ جاتا ہے، یا کامیابی کی راہیں اس کے لئے کھل جاتی ہیں، اس پر بند نہیں ہوتیں۔ شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کر لے اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جائے۔ اس کے ساتھ دنیا کی سعادت و کامرانی بھی میسر آ جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ گو دنیا والے اس کے برعکس دنیاوی آسائشوں سے بہرہ ور کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں۔ آیت میں ان مومنوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جن میں ذیل کی صفات ہوں گی۔ مثلًا اگلی آیات ملاحظہ ہوں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
دس آیتیں اور جنت کی ضمانت نسائی، ترمذی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ حضرت رسول ﷺ پر جب وحی اترتی تو ایک ایسی میٹھی میٹھی، بھینی بھینی، ہلکی ہلکی سی آواز آپ کے پاس سنی جاتی جیسے شہد کی مکھیوں کے اڑنے کی بھنبھناہٹ کی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ یہی حالت طاری ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی اترچکی تو آپ نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ تو ہمیں زیادہ کر، کم نہ کر، ہمارا اکرام کر، اہانت نہ کر، ہمیں انعام عطا فرما، محروم نہ رکھ، ہمیں دوسروں پر کے مقابلے میں فضیلت دے، ہم پر دوسروں کو پسند نہ فرما، ہم سے خوش ہوجا اور ہمیں خوش کر دے۔ عربی کے الفاظ یہ ہیں۔ دعا ( الہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولاتہنا واعطنا ولاتحرمنا واثرنا ولاتوثر علینا وارض عنا وارضنا۔ )پھر فرمایا مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں، جو ان پر جم گیا وہ جنتی ہوگیا۔ پھر آپ نے مندرجہ بالا دس آیتیں تلاوت فرمائیں۔ امام ترمذی ؒ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں، کیونکہ اس کا راوی صرف یونس بن سلیم ہے جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں۔ نسائی میں ہے حضرت عائشہ ؓ سے آنحضور ﷺ کے عادات و اخلاق کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضور ﷺ کا خلق قرآن تھا، پھر ان آیتوں کی ( یحافظون )۔ تک تلاوت فرمائی۔ اور فرمایا یہی حضرت ﷺ کے اخلاق تھے۔ مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت عدن پیدا کی اور اس میں درخت وغیرہ اپنے ہاتھ سے لگائے تو اسے دیکھ کر فرمایا کچھ بول۔ اس نے یہی آیتیں تلاوت کیں جو قرآن میں نازل ہوئیں۔ ابو سعید ؓ فرماتے ہیں کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے۔ فرشتے اس میں جب داخل ہوئے، کہنے لگے واہ واہ یہ تو بادشاہوں کی جگہ ہے۔ اور روایت میں ہے اس کا گارہ مشک کا تھا۔ اور روایت میں ہے کہ اس میں وہ وہ چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی دل میں سمائیں۔ اور روایت میں ہے کہ جنت نے جب ان آیتوں کی تلاوت کی تو جناب باری نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی اور جلال کی قسم تجھ میں بخیل ہرگز داخل نہیں ہوسکتا۔ اور حدیث میں ہے کہ اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے اور دوسری سرخ یاقوت کی اور تیسری سبز زبرجد کی۔ اس کا گارہ مشک کا ہے اس کی گھاس زعفران ہے۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ اس حدیث کو بیان فرما کر حضور ﷺ نے یہ آیت ( وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۚ ) 59۔ الحشر:9) پڑھی الغرض فرمان ہے کہ مومن مراد کو پہنچ گئے، وہ سعادت پاگئے، انہوں نے نجات پالی۔ ان مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں خشوع اور سکون کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ دل حاضر رکھتے ہیں، نگاہیں نیچی ہوتی ہیں، بازو جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ محمد بن سیرین ؒ کا قول ہے کہ اصحاب رسول ﷺ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے۔ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کی نگاہیں نیچی ہوگئیں، سجدے کی جگہ سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاتے تھے۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ جائے نماز سے ادھر ادھر ان کی نظر نہیں جاتی تھی اگر کسی کو اس کے سوا عادت پڑگئی ہو تو اسے چاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کرلے۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ بھی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے پس یہ خضوع و خشوع اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے، جس کا دل فارغ ہو، خلوص حاصل ہو اور نماز میں پوری دلچپسی ہو اور تمام کاموں سے زیادہ اسی میں دل لگتا ہو۔ چناچہ حدیث شریف میں ہے رسول ﷺ فرماتے ہیں مجھے خوشبو اور عورتیں زیادہ پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے ( نسائی ) ایک انصاری صحابی ؓ نے نماز کے وقت اپنی لونڈی سے کہا کہ پانی لاؤ، نماز پڑھ کر راحت حاصل کروں تو سننے والوں کو ان کی یہ بات گراں گزری۔ آپ نے فرمایا رسول ﷺ حضرت بلال ؓ سے فرماتے تھے۔ اے بلال اٹھو اور نماز کے ساتھ ہمیں راحت پہنچاؤ۔ مومنوں کے اوصاف پھر اور وصف بیان ہوا کہ وہ باطل، شرک، گناہ اور ہر ایک بیہودہ اور بےفائدہ قول وعمل سے بچتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا 72 ) 25۔ الفرقان:72) وہ لغو بات سے بزرگانہ گزر جاتے ہیں وہ برائی اور بےسود کاموں سے اللہ کی روک کی وجہ سے رک جاتے ہیں۔ اور انکا یہ وصف ہے کہ یہ مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں لیکن اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال میں ہوتی ہے پھر مکی آیت میں اسکا بیان کیسے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ تو مکہ میں واجب ہوچکی تھی ہاں اس کی مقدار، مال کا نصاب وغیرہ یہ سب احکام مدینے میں مقرر ہوئے۔ دیکھئے سورة انعام بھی مکی ہے اور اس میں یہی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے آیت ( وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ڮ وَلَا تُسْرِفُوْا01401ۙ ) 6۔ الأنعام:141) یعنی کھیتی کے کٹنے والے دن اس کی زکوٰ ۃ ادا کردیا کرو۔ ہاں یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ مراد زکوٰۃ سے یہاں نفس کو شرک وکفر کے میل کچیل سے پاک کرنا ہو۔ جیسے فرمان ہے آیت ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۽ ) 91۔ الشمس:9) ، جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اس نے فلاح پالی۔ اور جس نے اسے خراب کرلیا وہ نامراد ہوا۔ یہی ایک قول آیت ( وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ ۙ ) 41۔ فصلت :6) میں بھی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں دونوں زکاتیں ایک ساتھ مراد لی جائیں۔ یعنی زکوٰۃ نفس بھی اور زکوٰۃ مال بھی۔ فی الواقع مومن کامل وہی ہے جو اپنے نفس کو بھی پاک رکھے اور اپنے مال کی بھی زکوٰۃ دے واللہ اعلم۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ سوائے اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے دوسری عورتوں سے اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں۔ یعنی حرام کاری سے بچتے ہیں۔ زنا لواطت وغیرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ ہاں ان کی بیویاں جو اللہ نے ان پر حلال کی ہیں اور جہاد میں ملی ہوئی لونڈیاں جو ان پر حلال ہیں۔ ان کے ساتھ ملنے میں ان پر کوئی ملامت اور حرج نہیں۔ جو شخص ان کے سوا دوسرے طریقوں سے یا کسی دوسرے سے خواہش پوری کرے وہ حد سے گزر جانے والا ہے۔ قتادہ ؒ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے غلام کو لے لیا اور اپنی سند میں یہی آیت پیش کی۔ جب حضرت عمر ؓ کو یہ معلوم ہوا تو آپ نے صحابہ کے سامنے اس معاملے کو پیش کیا۔ صحابہ نے فرمایا اس نے غلط معنی مراد لئے۔ اس پر فاروق اعظم ؓ نے اس غلام کا سر منڈوا کر جلاوطن کردیا اور اس عورت سے فرمایا اس کے بعد تو ہر مسلمان پر حرام ہے، لیکن یہ اثر منقطع ہے۔ اور ساتھ ہی غریب بھی ہے۔ امام ابن جریر نے اسے سورة مائدہ کی تفسیر کے شروع میں وارد کیا ہے لیکن اس کے وارد کرنے کی موزوں جگہ یہی تھی۔ اسے عام مسلمانوں پر حرام کرنے کی وجہ اس کے ارادے کے خلاف اسکے ساتھ معاملہ کرنا تھا واللہ اعلم۔ امام شافعی ؒ اور ان کے موافقین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اپنے ہاتھ سے اپنا خاص پانی نکال ڈالنا حرام ہے کیونکہ یہ بھی ان دونوں حلال صورتوں کے علاوہ ہے اور مشت زنی کرنے والا شخص بھی حد سے آگے گزرجانے والا ہے۔ امام حسن بن عرفہ نے اپنے مشہور جز میں ایک حدیث وارد کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالموں کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے پہلے جہنم میں جانے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل کرے گا یہ اور بات ہے کہ وہ توبہ کرلیں توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ مہربانی سے رجوع فرماتا ہے ایک تو ہاتھ سے نکاح کرنے والا یعنی مشت زنی کرنے والا اور اغلام بازی کرنے اور کرانے والا۔ اور نشے باز شراب کا عادی اور اپنے ماں باپ کو مارنے پیٹنے والا یہاں تک کہ وہ چیخ پکار کرنے لگیں اور اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت بھیجنے لگے اور اپنی پڑوسن سے بدکاری کرنے والا۔ لیکن اس میں ایک راوی مجہول ہے۔ واللہ اعلم۔ اور وصف ہے کہ وہ اپنی امانتیں اور اپنے وعدے پورے کرتے ہیں امانت میں خیانت نہیں کرتے بلکہ امانت کی ادائیگی میں سبقت کرتے ہیں وعدے پورے کرتے ہیں اس کے خلاف عادتیں منافقوں کی ہوتی ہیں۔ رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ 001 جب بات کرے، جھوٹ بولے 002 جب وعدہ کرے خلاف کرے 003 جب امانت دیا جائے خیانت کرے۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ نمازوں کی ان اوقات پر حفاظت کرتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا ماں باپ سے حسن سلوک کرنا۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا اللہ کے راہ میں جہاد کرنا ( بخاری ومسلم ) حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں وقت، رکوع، سجدہ وغیرہ کی حفاظت مراد ہے۔ ان آیات پر دوبارہ نظر ڈالو۔ شروع میں بھی نماز کا بیان ہوا اور آخر میں بھی نماز کا بیان ہوا۔ جس سے ثابت ہوا کہ نماز سب سے افضل ہے حدیث شریف میں ہے سیدھے سیدھے رہو اور تم ہرگز احاطہ نہ کرسکو گے۔ جان لو کہ تمہارے تمام اعمال میں بہترین عمل نماز ہے۔ دیکھو وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرسکتا ہے۔ ان سب صفات کو بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ یہی لوگ وارث ہیں جو جنت الفردوس کے دائمی وارث ہونگے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے اللہ سے جب مانگو جنت الفردوس مانگو، وہ سب سے اعلی اور اوسط جنت ہے۔ وہیں سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اسی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے ( بخاری ومسلم ) فرماتے ہیں تم میں ہر ایک کی دو دو جگہیں ہیں۔ ایک منزل جنت میں ایک جہنم میں، جب کوئی دوزخ میں گیا تو اس کی منزل کے وارث جنتی بنتے ہیں۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔ مجاہد ؒ فرماتے ہیں جنتی تو اپنی جنت کی جگہ سنوار لیتا ہے اور جہنم کی جگہ ڈھا دیتا ہے۔ اور دوزخی اس کے خلاف کرتا ہے، کفار جو عبادت کے لئے پیدا کئے گئے تھے، انہوں نے عبادت ترک کردی تو ان کے لئے جو انعامات تھے وہ ان سے چھین کر سچے مومنوں کے حوالے کر دئیے گئے۔ اسی لئے انہیں وارث کہا گیا۔ صحیح مسلم میں ہے کچھ مسلمان پہاڑوں کے برابر گناہ لے کر آئیں گے، جنہیں اللہ تعالیٰ یہود و نصاری پر ڈال دے گا اور انہیں بخش دے گا۔ اور سند سے مروی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ایک ایک یہودی یا نصرانی دے گا کہ یہ تیرا فدیہ ہے، جہنم سے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے جب یہ حدیث سنی تو راوی حدیث ابو بردہ ؓ کو قسم دی انہوں نے تین مرتبہ قسم کھا کر حدیث کو دوہرا دیا۔ اسی جیسی آیت یہ بھی ہے ( تِلْكَ الْجَــــنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا 63۔ ) 19۔ مریم :63) اسی جیسی آیت یہ بھی ( وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْٓ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 72 ) 43۔ الزخرف:72) فردوس رومی زبان میں باغ کو کہتے ہیں بعض سلف کہتے کہ اس باغ کو جس میں انگور کی بیلیں ہوں۔ واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 1 قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ” اس آیت کا یہ ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا ہے۔ مگر خود حضرت شیخ الہند رح کا کہنا ہے کہ انہوں نے ”موضح القرآن “ میں شاہ عبدالقاد ردہلوی کا ترجمہ ہی اختیار کیا ہے اور اس میں کہیں کہیں زبان کی تبدیلیوں کے علاوہ کوئی اور تبدیلی نہیں کی۔ گویا بنیادی طور پر یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی رح کا ہے اور میرے نزدیک لفظ فلح کی اصل روح کے قریب ترین ہے۔ ” فَلَاح “ کا ترجمہ بالعموم ” کامیابی “ سے کیا جاتا ہے ‘ لیکن اس کے مفہوم کو درست انداز میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ لفظ ” فلاح “ کے حقیقی اور لغوی معنی کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔ اس مادہ کے لغوی معنی ہیں : ” پھاڑنا “۔ اسی معنی میں کسان کو عربی میں ” فلّاح “ کہا جاتا ہے ‘ اس لیے کہ وہ اپنے ہل کی نوک سے زمین کو پھاڑتا ہے۔ عربی کی ایک کہاوت ہے : اِنَّ الحَدِید بالحَدِید یفلَحُ یعنی لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ اس طرح فَلَح کا مفہوم گویا فلقَ کے قریب تر ہے۔ سورة الأنعام کی آیت 95 میں لفظ ” فلق “ اسی مفہوم میں آیا ہے : اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ط ” یقیناً اللہ تعالیٰ گٹھلیوں اور بیجوں کو پھاڑنے والا ہے “۔ اس سے اگلی آیت میں یہی لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے نمود صبح کے حوالے سے اس طرح استعمال ہوا ہے : فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ج یعنی وہ تاریکی کا پردہ چاک کر کے صبح کو نمودار کرنے والا ہے۔ چونکہ فلح اور فلق دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں اور دونوں کے معنی پھاڑنا ہے اس لیے آیت زیر نظر میں فلح کا مفہوم سمجھنے کے لیے فٰلِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی کے حوالے سے گٹھلی کے پھٹنے اور اس کے اندر سے کو نپلیں برآمد ہونے کے عمل کو ذہن میں رکھیں۔ جس طرح گٹھلی کے اندر پورا پودا بالقوہّ potentially موجود ہے ‘ اسی طرح انسان کے اندر بھی اس کی انا یا روح اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ موجود ہے۔ اور جس طرح گٹھلی کے پھٹنے فلق سے دو کو نپلیں برآمد ہوتی ہیں اور پھر ان سے پورا درخت بنتا ہے اسی طرح جب انسانی وجود کے اندر موجود مادیت کے پردے چاک فلح ہوتے ہیں تو اس کی انا یا روح بےنقاب ہوتی ہے اور اس کی نشوونما سے اس کی معنوی شخصیت ترقی پاتی ہے۔ انسان کی اسی انا یا روح کو اقبال نے خودی کا نام دیا ہے اور اس کو اجاگر develop کرنے کے تصور پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھی ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے خصوصی طور پر آئیڈیل یا آدرش کے فلسفہ کے حوالے سے اس ضمن میں گزشتہ صفحات میں سورة الحج کی آیت 73 کی تشریح بھی مدنظر رہے اپنی معرکۃ الآراء کتاب The Idealogy of the Future میں اقبال کے فلسفہ خودی کی بہترین تعبیر کی ‘ ہے۔انسان بظاہر ایک مادی وجود کا نام ہے۔ اس وجود میں ہڈیاں ہیں ‘ گوشت ہے اور دیگر اعضاء ہیں۔ لیکن اس مادی وجود کے اندر اس کی انا اور روح بھی ہے جو اس کی اصل شخصیت ہے۔ انسان کہتا ہے میرا ہاتھ ‘ میرا پاؤں ‘ میری آنکھ ‘ میری ٹانگ ‘ میرا سر ‘ میرا جسم ! لیکن اس ” میرا “ اور ” میری “ کی تکرار میں ” میں “ کہاں ہے اور کون ہے ؟ یہ ” میں “ دراصل انسان کی انایا روح ہے۔ یعنی انسان کو حیوانوں کے مقابلے میں صرف عقل و شعور کی دولت سے ہی نہیں نوازا گیا بلکہ اسے روح ربانی کی نورانیت بھی عطا کی گئی ہے۔ بقول علامہ اقبال دم چیست ؟ پیام است ! شنیدی نشنیدی ؟در خاک تو یک جلوۂ عام است ندیدی ؟دیدن دگر آموز ! شنیدن دگر آموز ! !انسانی جسم کے اندر اس کی روح مادی غلافوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ گویا یہ ایک مخفی خزانہ ہے جسے کھود کر نکالنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس خزانے کو کام میں لانا ہے تو ” فلّاحی “ کے عمل سے مادیت کے پردوں کو چاک کرنا ہوگا اور آیت زیر نظر میں قَدْ اَفْلَحَ کے الفاظ اسی مفہوم میں آئے ہیں کہ مؤمنین صادقین نے اپنی روحوں پر پڑے ہوئے مادیت کے پردوں کو چاک کر کے اصل خزانے یعنی روح کو بےنقاب کرنے اور اس کی نشوونما develop کرنے کا مشکل کام کر دکھایا ہے۔ جبکہ عام انسان کی تمام تر توجہ اپنے حیوانی وجود پر ہی مرکوز رہتی ہے۔ نہ وہ اپنی روح کی خبر لیتا ہے اور نہ ہی اس کی غذا اور نشوونما کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے انسان کی روح سسک سسک کر مرجاتی ہے اور اس کا جسم اس کی روح کا مقبرہ بن جاتا ہے۔ بظاہر ایسے شخص کا شمار زندہ انسانوں میں ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ مردہ ہوتا ہے۔ مثلاً ابوجہل زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ تھا۔ وہ اندھا اور بہرا تھا ‘ اسی لیے نہ تو وہ محمد رسول اللہ ﷺ کو پہچان سکا اور نہ آپ ﷺ کی دعوت کو سن سکا۔ اس کے برعکس ایک بندۂ مؤمن ہے جو حقیقت میں زندہ ہے ‘ اس لیے کہ اس کی روح زندہ ہے۔ جیسے کہ سورة النحل کی آیت 97 میں ارشاد ہوا : فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ج ” تو ہم ضرور اسے عطا کریں گے ایک پاکیزہ زندگی “۔ چناچہ جو شخص بھی اپنی خودی کے ارتقاء development of self اور اپنے کردار کی تعمیر development of character کا مشکل کارنامہ سرانجام دے پائے گا وہی حقیقت میں کامیاب قرار پائے گا اور وہی آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے قَدْ اَفْلَحَ کا مصداق ٹھہرے گا۔ اور یہ کامیابی ہر انسان کی پہنچ میں ہے ‘ کیونکہ روح کی دولت تو ہر انسان کو عطا ہوئی ہے۔ ہندی شاعر بھیکؔ کے بقول : ع ” بھیکاؔ بھوکا کوئی نہیں ‘ سب کی گدڑی لال ! “ یعنی بھوکا یا نادار کوئی بھی نہیں ہے ‘ ہر انسان کی گٹھڑی میں لعل موجود ہے ‘ بس اس گٹھڑی کی گرہ کھول کر اس ” لعل “ یا دولت کو دریافت کرنے اور اسے کام میں لانے کا فن اسے آنا چاہیے۔ یہی نکتہ اس خوبصورت فارسی شعر میں ایک دوسرے انداز میں پیش کیا گیا ہے : ستم است گر ہو ست کشد کہ بہ سیرسرو وسمن درآ تو زغنچہ کم نہ دمیدۂ درِدل کشا بہ چمن در آ !یعنی تمہارے اندر بھی ایک مہکتا ہوا چمن موجود ہے ‘ تم اپنے دل کے دروازے سے داخل ہو کر اس چمن کی سیر سے لطف اندوز ہوسکتے ہو۔ اسی حقیقت کو قرآن حکیم میں اس طرح واضح کیا گیا ہے : وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ الذّٰرٰیت یعنی خود تمہارے اندرمعرفت کا سامان موجود ہے مگر تم لوگ اس سے غافل ہو۔ اپنشد کے ایک جملے کا انگریزی ترجمہ اس طرح ہے :" Man in his ignorance identifies himself with the material sheeths which encompass his real self."یعنی انسان اپنی جہالت کے باعث ان مادی غلافوں ہی کو اپنی ذات سمجھ بیٹھتا ہے جو اس کی ذات انا یا روح کے گرداگرد لپٹے ہوئے ہیں۔ اور یوں وہ نہ خود کو پہچان پاتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت اسے حاصل ہوتی ہے۔ چناچہ اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اپنی ذات کی معرفت ضروری ہے ‘ جیسے کہ صوفیاء کا قول ہے : مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ ” جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا “۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو اپنی ” انا “ self سے غافل رہا وہ معرفت الٰہی سے بھی محروم رہا۔ یہی نکتہ ہے جو سورة الحشر کی آیت 19 میں اس طرح واضح فرمایا گیا ہے : وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْ ط ” ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا “۔ چناچہ لفظ فلحکا یہ مفہوم ذہن میں رکھ کر اس آیت کو پڑھیں تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ اپنی شخصیت اور ذات کے مادی غلافوں کو پھاڑ کر اپنی معنوی شخصیت اور روح کو اجاگر کرنے اور اس کے ذریعے سے عرفان ذات اور پھر معرفتِ الٰہی تک پہنچنے جیسے مشکل مراحل ‘ اہل ایمان کامیابی سے طے کرلیتے ہیں۔ اور وہ کون سے اہل ایمان ہیں :
Surah Muminoon Ayat 1 meaning in urdu
یقیناً فلاح پائی ہے ایمان والوں نے جو:
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- مومنو! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا
- اور پرندوں کا گوشت جس قسم کا ان کا جی چاہے
- اور کتاب میں اسمٰعیل کا بھی ذکر کرو وہ وعدے کے سچے اور ہمارے بھیجے
- لیکن پیغمبر اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے سب اپنے مال اور جان
- البتہ جن مشرکوں کے ساتھ تم نے عہد کیا ہو اور انہوں نے تمہارا کسی
- کہ تمہارے پروردگار کا عذاب واقع ہو کر رہے گا
- تو خدا نے ان کو اس کہنے کے عوض (بہشت کے) باغ عطا فرمائے جن
- جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا
- اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے
- جو لوگ کافر ہوئے اور ظلم کرتے رہے خدا ان کو بخشنے والا نہیں اور
Quran surahs in English :
Download surah Muminoon with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Muminoon mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Muminoon Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers