Surah Talaq Ayat 1 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا﴾
[ الطلاق: 1]
اے پیغمبر (مسلمانوں سے کہہ دو کہ) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو۔ اور خدا سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرو۔ (نہ تو تم ہی) ان کو (ایام عدت میں) ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود ہی) نکلیں۔ ہاں اگر وہ صریح بےحیائی کریں (تو نکال دینا چاہیئے) اور یہ خدا کی حدیں ہیں۔ جو خدا کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ (اے طلاق دینے والے) تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے بعد کوئی (رجعت کی) سبیل پیدا کردے
Surah Talaq Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) نبی ( صلى الله عليه وسلم ) سے خطاب آپ کے شرف ومرتبت کی وجہ سے ہے، ورنہ حکم تو امت کو دیا جارہا ہے۔ یا آپ ہی کو بطور خاص خطاب ہے اور جمع کا صیغہ بطور تعظیم کے ہے اور امت کے لیے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کا اسوہ ہی کافی ہے۔ طَلَّقْتُمُ کا مطلب ہے جب طلاق دینے کا پختہ ارادہ کر لو۔
( 2 ) اس میں طلاق دینے کا طریقہ اور وقت بتلایا ہے لِعِدَّتِهِنَّ میں لام توقیت کے لیے ہے۔ یعنی لأوَّلِ یا لاسْتِقْبَالِ عِدَّتِهِنَّ ( عدت کے آغاز میں ) طلاق دو۔ یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو جائے تو اس سے ہم بستری کیے بغیر طلاق دو۔ حالت طہر اسکی عدت کا آغاز ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حیض کی حالت میں یا طہر میں ہم بستری کرنے کے بعد طلاق دینا غلط طریقہ ہے اس کو فقہا طلاق بدعی سے اور پہلے ( صحیح ) طریقے کو طلاق سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر ( رضي الله عنه ) ما نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) غضبناک ہوئے اور انہیں اس سے رجوع کرنے کے ساتھ حکم دیا کہ حالت طہر میں طلاق دینا، اور اس کے لیے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے اسی آیت سے استدلال فرمایا۔ ( صحيح بخاري، كتاب الطلاق ) تاہم حیض میں دی گئی طلاق بھی ، باوجود بدعی ہونے کے واقع ہو جائے گی۔ محدثین اور جمہور علما اسی بات کے قائل ہیں۔ البتہ امام ابن قیم اور امام ابن تیمیہ طلاق بدعی کے وقوع کے قائل نہیں ہیں۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیئے نيل الأوطار، كتاب الطلاق، باب النهي عن الطلاق في الحيض وفي الطهر اور دیگر شروحات حدیث )۔
( 3 ) یعنی اس کی ابتدا اور انتہا کا خیال رکھو، تاکہ عورت اس کے بعد نکاح ثانی کرسکے، یا اگر تم ہی رجوع کرنا چاہو، ( پہلی اور دوسری طلاق کی صورت میں ) تو عدت کے اندر رجوع کرسکو۔
( 4 ) یعنی طلاق دیتے ہی عورت کو اپنے گھر سے مت نکالو، بلکہ عدت تک اسے گھر میں ہی رہنے دو، اور اس وقت تک رہائش اور نان ونفقہ تمہاری ذمے داری ہے۔
( 5 ) یعنی عدت کے دوران خود عورت بھی گھر سے باہر نکلنے سے احتراز کرے، الایہ کہ کوئی بہت ہی ضروری معاملہ ہو۔
( 6 ) یعنی بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھے یا بدزبانی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرے جس سے گھر والوں کو تکلیف ہو۔ دونوں صورتوں میں اس کا اخراج جائز ہوگا۔
( 7 ) یعنی احکام مذکورہ، اللہ کی حدیں ہیں، جن سے تجاوز خود اپنے آپ پر ہی ظلم کرنا ہے، کیونکہ اس کے دینی اور دنیوی نقصانات خود تجاوز کرنے والے کو ہی بھگتنے پڑیں گے۔
( 8 ) یعنی مرد کے دل میں مطلقہ عورت کی رغبت پیدا کر دے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہو جائے، جیسا کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسی لیےبعض مفسرین کی رائے ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صرف ایک طلاق دینے کی تلقین اور بیک وقت تین طلاقیں دینے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اگر وہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دے ( اور شریعت اسے جائز قرار دے کر نافذ بھی کر دے ) تو پھر یہ کہنا بےفائدہ ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے۔ ( فتح القدیر ) اسی سے امام احمد اور دیگر بعض علما نے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ رہائش اور نفقے کی جو تاکید کی گئی ہے وہ ان عورتوں کے لیے ہے جن کو ان کے خاوندوں نے پہلی یا دوسری طلاق دی ہو۔ کیونکہ ان میں خاوند کے رجوع کا حق برقرار رہتا ہے۔ اور جس عورت کو مختلف اوقات میں دو طلاقیں مل چکی ہوں تو تیسری طلاق اس کے لیے طلاق بتہ یا بائنہ ہے، اس کا سُكْنَى ( رہائش ) اور نفقہ خاوند کے ذمے نہیں ہے۔ اس کو فوراً خاوند کے مکان سے دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے گا، کیونکہ خاوند اب اس سے رجوع کرکے اسے اپنے گھر آباد نہیں کرسکتا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ۔ اس لیے اب اسے خاوند کے پاس رہنے کا اور اس سے نان ونفقہ وصول کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس کی تائید حضرت فاطمہ بنت قیس ( رضی الله عنها ) کے اس واقعے سے ہوتی ہے کہ جب ان کے خاوند نے ان کو تیسری طلاق بھی دے دی اور اس کے بعد انھیں خاوند کے مکان سے نکلنے کے لیے کہا گیا تو وہ آمادہ نہیں ہوئی بالآخر معاملہ رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کے پاس پہنچا تو آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے یہی فیصلہ فرمایا کہ ان کے لیے رہائش اور نفقہ نہیں ہے، انھیں فوراً کسی دوسری جگہ منتقل ہو جانا چاہیے۔ بلکہ بعض روایات میں صراحت بھی ہے، إِنَّمَا النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لِلْمَرْأَةِ؛ إِذَا كَانَ لِزَوْجِهَا عَلَيْهَا الرَّجْعَةُ رواه أحمد والنسائي۔ البتہ بعض روایات میں حاملہ عورت کے لیے بھی نفقہ اور رہائش کی صراحت ہے۔ ( تفصیل اور حوالوں کے لیے دیکھئے: نيل الأوطار، باب ما جاء في نفقة المبتوتة وسكناها وباب النفقة والسكنى للمعتدة الرجعية ) بعض لوگ ان روایات کو قرآن کے مذکورہ حکم ” لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ “ کے خلاف باور کرا کے ان کو رد کر دیتے ہیں جو صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن کا حکم اپنے گرد وپیش کے قرائن کے پیش نظر مطلقہ رجعیہ سے متعلق ہے۔ اور اگر اسے عام مان بھی لیا جائے تو یہ روایات اس کی مخصص ہیں یعنی قرآن کے عموم کو ان روایات نے مطلقہ رجعیہ کے لیے خاص کر دیا اور مطلقہ بائنہ کو اس عموم سے نکال دیا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اولاً تو نبی ﷺ شرافت و کرامت کے طور پر خطاب کیا گیا پھر تبعاً آپ کی امت سے خطاب کیا گیا اور طلاق کے مسئلہ کو سمجھایا گیا، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفضہ کو طلاق دی وہ اپنے میکے آگئیں اس پر یہ آیت اتری اور آپ سے فرمایا گیا کہ ان سے رجوع کرلو وہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والی اور بہت زیادہ نماز پڑھنے والی ہیں اور وہ یہاں بھی آپ کی بیوی ہیں اور جنت میں بھی آپ کی ازواج میں داخل ہیں، یہی روایت مرسلاً ابن جریر میں بھی ہے اور سندوں سے بھی آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفضہ ؓ کو طلاق دی پھر رجوع کرلیا، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنی بیوی صاحبہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نہما نے اپنی بیوی صاحبہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، حضرت عمر نے یہ واقعہ آنحضور ﷺ سے بیان کیا آپ ناراض ہوئے اور فرمایا سے چاہئے کہ رجوع کرلے پھر حیض سے پاک ہونے تک روکے رکھے پھر دوسرا حیض آئے اور اس سے نہا لیں پھر اگر جی چاہے طلاق دیں یعنی اس پاکیزگی کی حالت میں بات چیت کرنے سے پہلے یہی وہ عدت ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ مذکور ہے، حضرت عبدالرحمٰن بن ایمن نے جو عزہ کے مولیٰ ہیں حضرت ابو الزبیر کے سنتے ہوئے حضرت ابن عمر ؓ سے سوال کیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو آپ نے فرمایا سنو ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں طلاق دی تو حضور ﷺ نے حکم دیا کہ اسے لوٹا لے چناچہ ابن عمر نے رجوع کرلیا اور یہی حضور ﷺ نے فرمایا تھا اس سے پاک ہوجانے کے بعد اسے اختیار ہے خواہ طلاق دے خواہ بسا لے اور آنحضرت ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی ( ترجمہ ) ( مسلم ) دوسری روایت میں ( ترجمہ ) یعنی طہر کی حالت میں جماع سے پہلے، بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی حیض میں طلاق نہ دو ، نہ اس طہر میں طلاق دو جس میں جماع ہوچکا ہو بلکہ اس وقت تک چھوڑ دے جب حیض آجائے پھر اس سے نہا لے تب ایک طلاق دے، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں عدت سے مراد طہر ہے، قرء سے مراد حیض ہے یا حمل کی حالت میں، جب حمل ظاہر ہو، جس طہر میں مجامعت کرچکا ہے اس میں طلاق نہ دے نہ معلوم حاملہ ہے یا نہیں، یہیں سے با سمجھ علماء نے احکام طلاق لئے ہیں اور طلاق کی دو قسمیں کی ہیں طلاق سنت اور طلاق بدعت، طلاق سنت تو یہ ہے کہ طہر کی یعنی پاکیزگی کی حالت میں جماع کرنے سے پہلے طلاق دے دے یا حالت حمل میں طلاق دے اور بدعی طلاق یہ ہے کہ حالت حیض میں طلاق دے یا طہر میں دے لیکن مجامعت کرچکا ہو اور معلوم نہ ہو کہ حمل ہے یا نہیں ؟ طلاق کی تیسری قسم بھی ہے جو نہ طلاق سنت ہے نہ طلاق بدعت اور وہ نابالغہ کی طلاق ہے اور اس عورت کی جسے حیض کے آنے سے نامیدی ہوچکی ہو اور اس عورت کی جس سے دخول نہ ہوا۔ ان سب کے احکام اور تفصیلی بحث کی جگہ کتب فروغ ہیں نہ کہ تفسیر۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم، پھر فرمان ہے عدت کی حفاظت کرو اس کی ابتداء انتہا کی دیکھ بھال رکھو ایسا نہ ہو کہ عدت کی لمبائی عورت کو دوسرا خاوند کرنے سے روک دے، اور اس بارے میں اپنے ابتداء انتہا کی دیکھ بھال رکھو ایسا نہ ہو کہ عدت کی لمبائی عورت کو دوسا خاوند کرنے سے روک دے اور اس بارے میں اپنے معبود حقیقی پروردگار عالم سے ڈرتے رہو، عدت کے زمانہ میں مطلقہ عورت کی رہائش کا مکان خاوند کے ذمہ ہے وہ اسے نکال نہ دے اور نہ خود اسے نکلنا جائز ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کے حق میں رکی ہوئی ہے ( ترجمہ ) زنا کو بھی شامل ہے اور اسے بھی کہ عورت اپنے خاوند کو تنگ کرے اس کا خلاف کرے اور ایذاء پہنچائے، یا بدزبانی و کج خلقی شروع کر دے اور اپنے کاموں سے اور اپنی زبان سے سسرال والوں کو تکلیف پہنچائے تو ان صورتوں میں بیشک خاوند کو جائز ہے کہ اسے اپنے گھر سے نکال باہر کرے، یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اس کی شریعت اور اس کے بتائے ہوئے احکام ہیں۔ جو شخص ان پر عمل نہ کرے انہیں بےحرمتی کے ساتھ توڑ دے ان سے آگے بڑھ جائے وہ اپنا ہی برا کرنے والا اور اپنی جان پر ظلم ڈھانے والا ہے شاید کہ اللہ کو نئی بات پیدا کر دے اللہ کے ارادوں کو اور ہونے والی باتوں کو کوئی نہیں جاسکتا، عدت کا زمانہ مطلقہ عورت کو خاوند کے گھر گذارنے کا حکم دینا اس مصلحت سے ہے کہ ممکن ہے اس مدت میں اس کے خاوند کے خیالات بدل جائیں، طلاق دینے پر نادم ہو دل میں لوٹا لینے کا خیال پیدا ہوجائے اور پھر رجوع کر کے دونوں میاں بیوی امن وامان سے گذارا کرنے لگیں، نیا کام پیدا کنے سے مراد بھی رجعت ہے، اسی بنا پر بعض سلف اور ان کے تابعین مثلاً حضرت امام احمد بن حنبل وغیرہ کا مذہب ہے کہ متبوتہ یعنی وہ عورت جس کی طلاق کے بعد خاوند کو رجعت کا حق باقی نہ رہا ہو اس کے لئے عدت گذارنے کے زمانے تک مکان کا دینا خاوند کے ذمہ نہیں، اسی طرح جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اسے بھی رہائشی مکان عدت تک کے لئے دینا اس کے وارثوں پر نہیں ان کی اعتمادی دلیل حضرت فاطمہ بنت قیس فہریہ والی حدیث ہے کہ جب ان کے خاوند حضرت ابو عمر بن حفص نے ان کو تیسری آخری طلاق دی اور وہ اس وقت یہاں موجود نہ تھے بلکہ یمن میں تھے اور ویں سے طلاق دی تھی تو ان کے وکیل نے ان کے پاس تھوڑے سے جو بھیج دیئے تھے کہ یہ تمہاری خوراک ہے یہ بہت ناراض ہوئیں اس نے کہا بگڑتی کیوں ہو ؟ تمہارا نفقہ کھانا پینا ہمارے ذمہ نہیں، یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں آپ نے فرمایا ٹھیک ہے تیرا نفقہ اس پر نہیں۔ مسلم میں ہے نہ تیرے رہنے سہنے کا گھر اور ان سے فرمایا کہ تم ام شریک کے گھر اپنی عدت گذارو، پھر فرمایا وہاں تو میرے اکثر صحابہ جایا آیا کرتے ہیں تم عبداللہ بن ام مکتوم کے ہاں اپنی عدت کا زمانہ گذارو وہ ایک نابینا آدمی ہیں تم وہاں آرام سے اپنے کپڑے بھی رکھ سکتی ہو، مسند احمد میں ہے کہ ان کے خاوند کو حضور ﷺ نے کسی جہاد پر بھیجا تھا انہوں نے وہیں سے انہیں طلاق بھیج دی ان کے بھائی نے ان سے کہا کہ ہمارے گھر سے چلی جاؤ انہوں نے کہا نہیں جب تک عدت ختم نہ ہوجائے میرا کھانا پینا اور رہنا سہنا میرے خاوند کے ذمہ ہے اس نے انکار کیا آخر حضور ﷺ کے پاس یہ معاملہ پہنچا جب آپ کو معلوم ہوا کہ یہ آخری تیسری طلاق ہے تب آپ نے حضرت فاطمہ سے فرمایا نان نفقہ گھر بار خاوند کے ذمہ اس صورت میں ہے کہ اسے حق رجعت حاصل ہو جب یہ نہیں تو وہ بھی نہیں تم یہاں سے چلی جاؤ اور فلاں عورت کے گھر اپنی عدت گذارو پھر فرمایا وہاں تو صحابہ کی آمد و رفت ہے تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت کا زمانہ گذارو وہ نابینا ہیں تمہیں دیکھ نہیں سکتے۔ طبرانی میں ہے یہ حضرت فاطمہ بنت قیس ضحاک بن قیس قرشی کی بہن تھیں ان کے خاوند مخزومی قبیلہ کے تھے، طلاق کی خبر کے بعد ان کے نفقطہ طلب کرنے پر ان کے خاوند کے اولیاء نے کہا تھا نہ تو تمہارے میاں نے کچھ بھیجا ہے نہ ہمیں دینے کو کہا ہے اور حضور ﷺ کے فرمان میں یہ بھی مروی ہے کہ جب عورت کو وہ طلاق مل جائے جس کے بعد وہ اپنے اگلے خاوند پر حرام ہو جتای ہے جب تک دوسرے سے نکاح اور پھر طلاق نہ ہوجائے تو اس صورت میں عدت کا نان نفقہ اور رہنے کا مکان اس کے خاوند کے ذمہ نہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 1{ یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ } ” اے نبی ﷺ ! جب آپ لوگ اپنی عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے حساب سے طلاق دو اور عدت کا پورا لحاظ رکھو۔ “ نوٹ کیجیے ! حضور ﷺ کو صیغہ واحد میں مخاطب کرنے کے بعد فوراً جمع کا صیغہ طَلَّقْتُمْ آگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ خود حضور ﷺ کی ذات سے نہیں ‘ عام اہل ایمان سے متعلق ہے اور آپ ﷺ کو اہل ایمان کے نمائندہ ‘ معلم اور ہادی کی حیثیت سے مخاطب کیا گیا ہے۔ عدت کے حساب سے طلاق دینے اور عدت کا لحاظ رکھنے کے بہت سے پہلو ہیں۔ مجموعی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نازک اور حساس معاملے میں شریعت کی طے کردہ حدود وقیود کا لحاظ رکھو اور متعلقہ قوانین کی سختی سے پابندی کرو۔ مثلاً حیض کی حالت میں طلاق نہ دو ‘ تینوں طلاقیں اکٹھی نہ دو ‘ ہر طلاق کی عدت کا حساب رکھو ‘ عدت کے دوران عورت کا نکاح نہ کرو۔ میاں بیوی کے درمیان ایک یا دو طلاقوں کے بعد ہونے والی علیحدگی کی صورت میں ان دونوں کے آپس میں دوبارہ نکاح کے حق کو تسلیم کرو ‘ وغیرہ وغیرہ۔ { وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّـکُمْ } ” اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جو تمہارا ربّ ہے۔ “ { لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْم بُیُوْتِہِنَّ } ” انہیں مت نکال باہر کرو ان کے گھروں سے “ ایسا نہ ہو کہ غصے میں طلاق دی اور کہا کہ نکل جائو میرے گھر سے ‘ ابھی اور اسی وقت ! یہ طریقہ قطعاً غلط ہے۔ { وَلَا یَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّـبَـیِّنَۃٍط } ” اور وہ خود بھی نہ نکلیں ‘ سوائے اس کے کہ وہ ارتکاب کریں کسی کھلی بےحیائی کا۔ “ عام حالات میں تو طلاق کے فوراً بعد عورت کو گھر سے نہیں نکالا جاسکتا ‘ اور نہ ہی اسے از خود نکلنے کی اجازت ہے۔ لیکن اس دوران اگر وہ بدکاری وغیرہ میں ملوث ہوجائے تو ایسی صورت میں اسے اس گھر سے نکالا جاسکتا ہے۔ { وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ } ” اور یہ اللہ کی حدود ہیں۔ “ { وَمَنْ یَّـتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ } ” اور جو کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا۔ “ { لَا تَدْرِیْ لَـعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا۔ } ” تمہیں نہیں معلوم کہ شاید اس کے بعد اللہ کوئی نئی صورت پیدا کردے۔ “ طلاق کے بعد اگر عورت شوہر کے گھر میں ہی عدت گزار رہی ہو تو حالات بہتر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کیا معلوم اللہ تعالیٰ ان دونوں میں بہتری کی کوئی صورت پیدا کر دے اور وہ پہلی طلاق کے بعد ہی رجوع کرلیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی مشیت سے حالات ہمیشہ کے لیے سازگار ہوجائیں۔
ياأيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن وأحصوا العدة واتقوا الله ربكم لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن إلا أن يأتين بفاحشة مبينة وتلك حدود الله ومن يتعد حدود الله فقد ظلم نفسه لا تدري لعل الله يحدث بعد ذلك أمرا
سورة: الطلاق - آية: ( 1 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 558 )Surah Talaq Ayat 1 meaning in urdu
اے نبیؐ، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو اُنہیں اُن کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے (زمانہ عدت میں) نہ تم اُنہیں اُن کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کر دے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جو کفر کرے تو اُس کا کفر تمہیں غمناک نہ کردے ان کو ہماری
- (حقیقت حال) یوں (تھی) اور جو کچھ اس کے پاس تھا ہم کو سب کی
- اور ایک اور چیز جس کو تم بہت چاہتے ہو (یعنی تمہیں) خدا کی طرف
- اور زکریا (کو یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار مجھے
- (یعنی) بہشت جاودانی (میں) جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے (اور
- اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو رزق خدا نے تم کو دیا
- جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکا گا اور نہ بیٹے
- اے پروردگار تو نے جن جن چیزوں کے ہم سے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے
- اور جس دن ہم ہر اُمت میں سے گواہ (یعنی پیغمبر) کھڑا کریں گے تو
- جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتےہیں اور غصے
Quran surahs in English :
Download surah Talaq with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Talaq mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Talaq Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers