Surah Saffat Ayat 97 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ﴾
[ الصافات: 97]
وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ پھر اس کو آگ کے ڈھیر میں ڈال دو
Surah Saffat UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بت کدہ آذر اور حضرت ابراہیم ؑ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی قوم سے یہ اس لیے فرمایا کہ وہ جب اپنے میلے میں چلے جائیں تو یہ ان کے عبادت خانے میں تنہارہ جائیں اور ان کے بتوں کو توڑ نے کا تنہائی میں موقعہ مل جائے۔ اسی لیے ایک ایسی بات کہی جو درحقیقت سچی بات تھی لیکن ان کی سمجھ میں جو مطلب اس کا آیا اس سے آپ نے اپنا دینی کام نکال لیا۔ وہ تو اپنے اعتقاد کے موجب حضرت ابراہیم ؑ کو سچ مچ بیمار سمجھ بیٹھے اور انہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔ حضرت فتادہ ؓ فرماتے ہیں۔ جو شخص کسی امر میں غور و فکر کرے تو عرب کہتے ہیں اس نے ستاروں پر نظریں ڈالیں۔ مطلب یہ ہے کہ غور وفکر کے ساتھ تاروں کی طرف نگاہ اٹھائی۔ اور سوچنے لگے کہ میں انہیں کس طرح ٹالوں۔ سوچ سمجھ کر فرمایا کہ میں سقم ہوں یعنی ضعیف ہوں۔ ایک حدیث میں آیا کہ ابراہیم ؑ نے صرف تین ہی جھوٹ بولے ہیں جن میں سے دو تو اللہ کے دین کے لیے ان کا فرمان ( فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ 89 ) 37۔ الصافات:89) اور ان کا فرمان ( قَالَ بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ 63 ) 21۔ الأنبیاء :63) اور ایک ان کا حضرت سارہ کو اپنی بہن کہنا۔ تو یاد رہے کہ دراصل ان میں حقیقی جھوٹ ایک بھی نہیں۔ انہیں تو صرف مجازاً جھوٹ کہا گیا ہے کلام میں ایسی تعریفیں کسی شرعی مقصد کے لیے کرنا جھوٹ میں داخل نہیں، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ تعریض جھوٹ سے الگ ہے اور اس سے بےنیاز کردیتی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ حضرت خلیل اللہ ؑ کے ان تینوں کلمات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس سے حکمت عملی کے ساتھ دین اللہ کی بھلائی مقصود نہ ہو۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں میں بیمار ہوں سے مطلب مجھے طاعون ہوگیا ہے۔ اور وہ لوگ ایسے مریض سے بھاگتے تھے۔ حضرت سعید کا بیان ہے کہ اللہ کے دین کی تبلیغ ان کے جھوٹے معبودوں کی تردید کے لیے خلیل اللہ کی یہ ایک حکمت عملی تھی کہ ایک ستارے کو طلوع ہوتے دیکھ کر فرمادیا کہ میں مقیم ہوں۔ اوروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں یعنی یقینا ایک مرتبہ مرض الموت آنے والا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مریض ہوں یعنی میرا دل تمہارے ان بتوں کی عبادت سے بیمار ہے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں جب آپ کی قوم میلے میں جانے لگی تو آپ کو بھی مجبور کرنے لگی آپ ہٹ گئے اور فرما دیا کہ میں مقیم ہوں اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ جب وہ انہیں تنہا چھوڑ کر چل دئیے تو آپ نے بہ فراغت ان کے معبودوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ وہ تو سب اپنی عید میں گئے آپ چپکے چپکے اور جلدی جلدی ان کے بتوں کے پاس آئے۔ پہلے تو فرمایا کیوں جی تم کھاتے کیوں نہیں ؟ یہاں آکر خلیل اللہ نے دیکھا کہ جو چڑھا وے ان لوگوں نے ان بتوں پر چڑھا رکھے تھے وہ سب رکھے ہوئے تھے ان لوگوں نے تبرک کی نیت سے جو قربانیاں یہاں کی تھیں وہ سب یونہی پڑی ہوئی تھیں یہ بت خانہ بڑا وسیع اور مزین تھا دروازے کے متصل ایک بہت بڑا بت تھا اور اس کے اردگرد اس سے چھوٹے پھر ان سے چھوٹے یونہی تمام بت خانہ بھرا ہوا تھا۔ ان کے پاس مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے جو اس اعتقاد سے رکھے گئے تھے کہ یہاں رہنے سے متبرک ہوجائیں گے پھر ہم کھالیں گے۔ ابراہیم نے اپنی بات کا جواب نہ پاکر پھر فرمایا یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ بولتے کیوں نہیں۔ اب تو پوری قوت سے دائیں ہاتھ سے مار کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ ہاں بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ اس پر بدگمانی کی جاسکے، جیسا کہ سورة انبیاء میں گذر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بیان ہوچکی ہے بت پرست جب اپنے میلے سے واپس ہوئے بت خانے میں گھسے تو دیکھا کہ ان کے سب خدا اڑنگ بڑنگ پڑے ہوئے ہیں کسی کا ہاتھ نہیں کسی کا پاؤں نہیں کسی کا سر نہیں کسی کا دھڑ نہیں حیران ہوگئے کہ یہ کیا ہوا ؟ آخر سوچ سمجھ کر بحث مباحثے کے بعد معلوم کرلیا کہ ہو نہ ہو یہ کام ابراہیم کا ہے ( علیہ الصلوۃ والسلام ) اب سارے کے سارے مل جل کر خلیل ؑ کے پاس دوڑے، بھاگے، دانت پیستے، تلملائے کو ستے گئے۔ خلیل اللہ کو تبلیغ کا اور انہیں قائل معقول کرنے کا اور سمجھانے کا اچھا موقعہ ملا فرمانے لگے کیوں ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جنہیں خود تم بناتے ہو ؟ اپنے ہاتھوں گھڑتے اور تراشتے ہو ؟ حالانکہ تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق اللہ ہی ہے۔ ممکن ہے کہ اس آیت میں ما مصدریہ ہو اور ممکن ہے کہ الذی کے معنی میں ہو، لیکن دونوں معنی میں تلازم ہے۔ گو اول زیادہ ظاہر ہے۔ چناچہ امام بخاری ؒ کی کتاب افعال العباد میں ایک مرفوع حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صانع اور اس کی صنعت کو پیدا کرتا ہے۔ پھر بعض نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ چونکہ اس پاک صاف بات کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا تو تنگ آکر دشمنی پر اور سفلہ پن پر اتر آئے اور کہنے لگے ایک بنیان بناؤ اس میں آگ جلاؤ اور اسے اس میں ڈال دو۔ چناچہ یہی انہوں نے کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو اس سے نجات دی۔ انہی کو غلبہ دیا اور انہی کی مدد فرمائی۔ گو انہوں نے انہیں برائی پہچانی چاہی لیکن اللہ نے خود انہیں ذلیل کردیا۔ اس کا پورا بیان اور کامل تفسیر سورة انبیاء میں گذر چکی ہے وہیں دیکھ لی جائے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 97{ قَالُوا ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْہُ فِی الْْجَحِیْمِ } ” انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ایک عمارت بنائو ‘ پھر اس کو شعلے مارتی ہوئی آگ میں جھونک دو۔ “
Surah Saffat Ayat 97 meaning in urdu
انہوں نے آپس میں کہا "اس کے لیے ایک الاؤ تیار کرو اور اسے دہکتی ہوئی آگ کے ڈھیر میں پھینک دو"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جو ریا کاری کرتے ہیں
- بےشک یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار (کے دیدار) سے اوٹ میں ہوں گے
- پھر ان پر چھایا جو چھایا
- تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ ہم تم کو
- آخر انہوں نے اونٹی (کی کونچوں) کو کاٹ ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے
- (وہ یہ تھا) کہ اسے (یعنی موسیٰ کو) صندوق میں رکھو پھر اس (صندوق) کو
- اور جب تم لوگ نماز کے لیے اذان دیتے ہو تو یہ اسے بھی ہنسی
- (فرعون نے) کہا ہاں (ضرور) اور (اس کے علاوہ) تم مقربوں میں داخل کرلیے جاؤ
- اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی (ہلاک کر دیا) اور اُن کے پاس
- اور کافر کہنے لگے کہ اس قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور (جب پڑھنے
Quran surahs in English :
Download surah Saffat with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Saffat mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Saffat Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers