Surah Anfal Ayat 1 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ انفال کی آیت نمبر 1 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Anfal ayat 1 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾
[ الأنفال: 1]

Ayat With Urdu Translation

(اے محمد! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ (کیا حکم ہے) کہہ دو کہ غنیمت خدا اور اس کے رسول کا مال ہے۔ تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو

Surah Anfal Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) ” أَنْفَالٌ “ نَفَلٌ کی جمع ہے جس کے معنی زیادہ کے ہیں، یہ اس مال واسباب کو کہا جاتا ہے، جو کافروں کے ساتھ جنگ میں ہاتھ لگے، جسے غنیمت بھی کہا جاتا ہے اسے نفل ( زیادہ ) اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو پچھلی امتوں پر حرام تھیں۔ یہ گویا امت محمدیہ پر ایک زائد چیز حلال کی گئی ہے یا اس لیے کہ یہ جہاد کے اجر سے ( جو آخرت میں ملے گا ) ایک زائد چیز ہے جو بعض دفعہ دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔
( 2 ) یعنی اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ اللہ کا رسول، اللہ کے حکم سے اسے تقسیم فرمائے گا۔ نہ کہ تم آپس میں جس طرح چاہو اسے تقسیم کرلو۔
( 3 ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں باتوں پر عمل کے بغیر ایمان مکمل نہیں۔ اس سے تقویٰ، اصلاح ذات البین اور اللہ اور رسول کی اطاعت کی اہمیت واضح ہے۔ خاص طور پر مال غنیمت کی تقسیم میں ان تینوں امور پر عمل نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ مال کی تقسیم میں باہمی فساد کا بھی شدید اندیشہ رہتا ہے، اس کے علاج کے لیے اصلاح ذات البین پر زور دیا۔ ہیراپھیری اور خیانت کا بھی امکاں رہتا ہے اس کے لیے تقویٰ کا حکم دیا۔ اس کے باوجود بھی کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا حل اللہ اور رسول کی اطاعت میں مضمر ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


بخاری شریف میں ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سورة انفال غزوہ بدر کے بارے میں اتری ہے۔ فرماتے ہیں انفال سے مراد غنیمتیں ہیں جو صرف رسول اللہ ﷺ کے لئے ہی تھیں ان میں سے کوئی چیز کسی اور کیلئے نہ تھی۔ آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا گھوڑا بھی انفال میں سے ہے اور سامان بھی۔ سائل نے پھر پوچھا آپ نے پھر یہی جواب دیا اس نے پھر پوچھا کہ جس انفال کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ غرض پوچھتے پوچھتے آپ کو تنگ کردیا تو آپ نے فرمایا اس کا یہ کرتوت اس سے کم نہیں جسے حضرت عمر نے مارا تھا۔ حضرت فاروق اعظم سے جب سوال ہوتا تو آپ فرماتے نہ تجھے حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں، ابن عباس فرماتے ہیں واللہ حق تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے والا حکم فرمانے والا حلال حرام کی وضاحت کرنے والا ہی بنا کر بھیجا ہے۔ آپ نے اس سائل کو جواب دیا کہ کسی کسی کو بطور نفل ( مال غنیمت ) گھوڑا بھی ملتا اور ہتھیار بھی۔ دو تین دفعہ اس نے یہی سوال کیا جس سے آپ غضبناک ہوگئے اور فرمانے لگے یہ تو ایسا ہی شخص ہے جسے حضرت عمر نے کوڑے لگائے تھے یہاں تک کہ اس کی ایڑیاں اور ٹخنے خون آلود ہوگئے تھے۔ اس پر سائل کہنے لگا کہ خیر آپ سے تو اللہ نے عمر کا بدلہ لے ہی لیا۔ الغرض ابن عباس کے نزدیک تو یہاں نفل سے مراد پانچویں حصے کے علاوہ وہ انعامی چیزیں ہیں جو امام اپنے سپاہیوں کو عطا فرمائے۔ واللہ اعلم۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس پانچویں حصے کا مسئلہ پوچھا جو چار ایسے ہی حصوں کے بعد رہ جائے۔ پس یہ آیت اتری۔ ابن مسعود وغیرہ فرماتے ہیں لڑائی والے دن اس سے زیادہ امام نہیں دے سکتا بلکہ لڑائی کے شروع سے پہلے اگر چاہے دے دے۔ عطا فرماتے ہیں کہ یہاں مراد مشرکوں کا وہ مال ہے جو بےلڑے بھڑے مل جائے خواہ جانور ہو خواہ لونڈی غلام یا اسباب ہو پس وہ آنحضرت ﷺ کے لئے ہی تھا آپ کو اختیار تھا کہ جس کام میں چاہیں لگا لیں تو گویا ان کے نزدیک مال فے انفال ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد لشکر کے کسی رسالے کو بعوض ان کی کارکردگی یا حوصلہ افزائی کے امام انہیں عام تقسیم سے کچھ زیادہ دے اسے انفال کہا جاتا ہے۔ مسند احمد میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ بدر والے دن جب میرے بھائی عمیر قتل کئے گئے میں نے سعید بن عاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار لے لی جسے ذوالکتیعہ کہا جاتا تھا سے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا جاؤ اسے باقی مال کے ساتھ رکھ آؤ۔ میں نے حکم کی تعمیل تو کرلی لیکن اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس وقت میرے دل پر کیا گذری۔ ایک طرف بھائی کق قتل کا صدمہ دوسری طرف اپنا حاصل کردہ سامان واپس ہونے کا صدمہ۔ ابھی میں چند قدم ہی چلا ہوں گا جو سورة انفال نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا جاؤ اور وہ تلوار جو تم ڈال آئے ہو لے جاؤ۔ مسند میں حضرت سعد بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکوں سے بچا لیا اب آپ یہ تلوار مجھے دے دیجئے آپ نے فرمایا سنو نہ یہ تمہاری ہے نہ میری ہے۔ اسے بیت المال میں داخل کردو میں نے رکھ دی اور میرے دل میں خیال آیا کہ آج جس نے مجھ جیسی محنت نہیں کی اسے یہ انعام مل جائے گا یہ کہتا ہوا جا ہی رہا تھا جو آواز آئی کہ کوئی میرا نام لے کر میرے پیچھے سے مجھے پکار رہا ہے لوٹا اور پوچھا کہ حضور کہیں میرے بارے میں کوئی وحی نہیں اتری ؟ آپ نے فرمایا ہاں تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی اس وقت وہ میری نہ تھی اب وہ مجھے دے دی گئی اور میں تمہیں دے رہا ہوں، پس آیت ( يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۠ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ )الأنفال:1) اس بارے میں اتری ہے جو ابو داؤد طیالسی میں انہی سے مروی ہے کہ میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ مجھے بدر والے دن ایک تلوار ملی میں اسے لے کر سرکار رسالت مآب میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ تلوار آپ مجھے عنایت فرمائیے آپ نے فرمایا جاؤ جہاں سے لی ہے وہیں رکھ دو۔ میں نے پھر طلب کی آپ نے پھر یہی جواب دیا۔ میں نے پھر مانگی آپ نے پھر یہی فرمایا۔ اسی وقت یہ آیت اتری۔ یہ پوری حدیث ہم نے آیت ( وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا ۭ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۭ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) 29۔ العنكبوت:8) کی تفسیر میں وارد کی ہے۔ پس ایک تو یہ آیت دوسری آیت ( وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14؀ ) 31۔ لقمان:14) تیسری آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 90؀ ) 5۔ المآئدہ :90) ، چوتھی آیت وصیت ( صحیح مسلم شریف ) سیرت ابن اسحاق میں ہے حضرت ابو سعید مالک بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں مجھے سیف بن عاند کی تلوار ملی جسے مرزبان کہا جاتا تھا۔ جب نبی ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ جو کچھ جس کسی کے پاس ہو وہ جمع کرا دے، میں بھی گیا اور وہ تلوار رکھ آیا۔ آنحضرت ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ اگر کوئی آپ سے کچھ مانگتا تو آپ انکار نہ کرتے۔ حضرت ارقم بن ارقم خزاعی ؓ نے اس تلوار کو دیکھ کر آپ سے اسی کا سوال کیا آپ نے انہیں عطا فرما دی۔ اس آیت کے نزول کا سبب مسند امام احمد میں ہے کہ حضرت ابو امامہ نے حضرت عبادہ سے انفال کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا ہم بدریوں کے بارے میں ہے جبکہ ہم مال کفار کے بارے میں باہم اختلاف کرنے لگے اور جھگڑے بڑھ گئے تو یہ آیت اتری اور یہ رسول اللہ ﷺ کے سپرد ہوگئی اور حضور نے اس مال کو برابری سے تقسیم فرمایا۔ مسند احمد میں ہے کہ ہم غزوہ بدر میں حضور ﷺ کے ساتھ نکلے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی ہماری ایک جماعت نے تو ان کا تعاقب کیا کہ پوری ہزیمت دے دے دوسری جماعت نے مال غنیمت میدان جنگ سے سمیٹنا شروع کیا اور ایک جماعت اللہ کے نبی ﷺ کے اردگرد کھڑی ہوگئی کہ کہیں کوئی دشمن آپ کو کوئی ایذاء نہ پہنچائے۔ رات کو سب لوگ جمع ہوئے اور ہر جماعت اپنا حق اس مال پر جتانے لگی۔ پہلی جماعت نے کہا دشمنوں کو ہم نے ہی ہر ایا ہے۔ دوسری جماعت نے کہا مال غنیمت ہمارا ہی سمیٹا ہوا ہے۔ تیسری جماعت نے کہا ہم نے حضور کی چوکیداری کی ہے پس یہ آیت اتری اور حضور نے خود اس مال کو ہم میں تقسیم فرمایا۔ آپ کی عادت مبارک تھی کہ حملے کی موجودگی میں چوتھائی بانٹتے اور لوٹتے وقت تہائی آپ انفال کو مکروہ سمجھتے۔ ابن مردویہ میں ہے کہ بدر والے دن رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ جو ایسا کرے اسے یہ انعام اور جو ایسا کرے اسے یہ انعام۔ اب نوجوان تو دوڑ پڑے اور کار نمایاں انجام دیئے۔ بوڑھوں نے مورچے تھامے اور جھنڈوں تلے رہے۔ اب جوانوں کا مطالبہ تھا کہ کل مال ہمیں ملنا چاہئے بوڑھے کہتے تھے کہ لشکر گاہ کو ہم نے محفوظ رکھا تم اگر شکست اٹھاتے تو یہیں آتے۔ اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری۔ مروی ہے کہ حضور کا اعلان ہوگیا تھا کہ جو کسی کافر کو قتل کرے اسے اتنا ملے گا اور جو کسی کافر کو قید کرے اسے اتنا ملے گا۔ حضرت ابو الیسر ؓ دو قیدی پکڑ لائے اور حضرت کو وعدہ یاد دلایا اس پر حضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ پھر تو ہم سب یونہی رہ جائیں گے۔ بزدلی یا بےطاقتی کی وجہ سے ہم آگے نہ بڑھے ہوں یہ بات نہیں بلکہ اس لئے کہ پچھلی جانب سے کفار نہ آپڑیں، حضور کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اس لئے ہم آپ کے ارد گرد رہے، اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری اور آیت ( وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 41؀ )الأنفال:41) بھی اتری، امام ابو عبید اللہ قاسم بن سلام نے اپنی کتاب احوال الشرعیہ میں لکھا ہے کہ انفال غنیمت ہے اور حربی کافروں کے جو مال مسلمانوں کے قبضے میں آئیں وہ سب ہیں پس انفال آنحضرت ﷺ کی ملکیت میں تھے بدر والے دن بغیر پانچواں حصہ نکالے جس طرح اللہ نے آپ کو سمجھایا آپ نے مجادین میں تقسیم کیا اس کے بعد پانچواں حصہ نکالنے کے حکم کی آیت اتری اور یہ پہلا حکم منسوخ ہوگیا لیکن ابن زید وغیرہ اسے منسوخ نہیں بتلاتے بلکہ محکم کہتے ہیں۔ انفال غنیمت کی جمع ہے مگر اس میں سے پانجواں حصہ مخصوص ہے۔ اس کی اہل کیلئے جیسے کہ کتاب اللہ میں حکم ہے اور جیسے کہ سنت رسول اللہ جاری ہوئی ہے۔ انفال کے معنی کلام عرب میں ہر اس احسان کے ہیں جسے کوئی بغیر کسی پابندی یا وجہ کے دوسرے کے ساتھ کرے۔ پہلے کی تمام امتوں پر یہ مال حرام تھے اس امت پر اللہ نے رحم فرمایا اور مال غنیمت ان کے لئے حلال کیا۔ چناچہ بخاری و مسلم میں ہے حضور فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں پھر ان کے ذکر میں ایک یہ ہے کہ آپ نے فرمایا میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں مجھ سے پہلے کسی کو حلال نہ تھیں۔ امام ابو عبید فرماتے ہیں کہ امام جن لشکریوں کو کوئی انعام دے جو اس کے مقررہ حصہ کے علاوہ ہو اسے نفل کہتے ہیں غنیمت کے انداز اور اس کے کار نامے کے صلے کے برابر یہ ملتا ہے۔ اس نفل کی چار صورتیں ہیں ایک تو مقتول کا مال اسباب وغیرہ جس میں سے پانچواں حصہ نہیں نکالا جاتا۔ دوسرے وہ نفل جو پانچواں حصہ علیحدہ کرنے کے بعد دیا جاتا ہے۔ مثلاً امام نے کوئی چھوٹا سا لشکر کسی دشمن پر بھیج دیا وہ غنیمت یا مال لے کر پلٹا تو امام اس میں سے اسے چوتھائی یا تہائی بانٹ دے تیسرے صورت یہ کہ جو پانچواں حصہ نکال کر باقی کا تقسیم ہوچکا ہے، اب امام بقدر خزانہ اور بقدر شخصی جرات کے اس میں سے جسے جتنا چاہے دے۔ چوتھی صورت یہ کہ امام پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے ہی کسی کو کچھ دے مثلاً چرواہوں کو، سائیسوں کو، بہشتیوں کو وغیرہ۔ پھر ہر صورت میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے جو سامان اسباب مقتولین کا مجاہدین کو دیا جائے وہ انفال میں داخل ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا اپنا حصہ پانچویں حصے میں سے پانچواں جو تھا اس میں سے آپ جسے چاہیں جتنا چاہیں عطا فرمائیں یہ نفل ہے۔ پس امام کو چاہئے کہ دشمنوں کی کثرت مسلمانوں کی قلت اور ایسے ہی ضروری وقتوں میں اس سنت کی تابعیداری کرے۔ ہاں جب ایسا موقع نہ ہو تو نفل ضروری نہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ امام ایک چھوٹی سی جماعت کہیں بھیجتا ہے اور ان سے کہہ دیتا ہے کہ جو شخص جو کچھ حاصل کرے پانچواں حصہ نکال کر باقی سب اسی کا ہے تو وہ سب انہی کا ہے کیونکہ انہوں نے اسی شرط پر غزوہ کیا ہے اور یہ رضامندی سے طے ہوچکی ہے۔ لیکن ان کے اس بیان میں جو کہا گیا ہے کہ بدر کی غنیمت کا پانچواں حصہ نہیں نکالا گیا۔ اس میں ذرا کلام ہے۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ دو اونٹنیاں وہ ہیں جو انہیں بدر کے دن پانچویں حصے میں ملی تھیں میں نے اس کا پورا بیان کتاب السیرہ میں کردیا ہے۔ فالحمد للہ۔ تم اپنے کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو، آپس میں صلح و صفائی رکھو، ظلم، جھگڑے اور مخالفت سے باز آجاؤ۔ جو ہدایت و علم اللہ کی طرف سے تمہیں ملا ہے اس کی قدر کرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو، عدل و انصاف سے ان مالوں کو تقسیم کرو۔ پرہیزگاری اور صلاحیت اپنے اندر پیدا کرو۔ مسند ابو یعلی میں ہے کہ حضور بیٹھے بیٹھے ایک مرتبہ مسکرائے اور پھر ہنس دیئے۔ حضرت عمر نے دریافت کیا کہ آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، کیسے ہنس دیئے ؟ آپ نے فرمایا میری امت کے دو شخص اللہ رب العزت کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوگئے ایک نے کہا اللہ میرے بھائی سے میرے ظلم کا بدلہ لے اللہ نے اس سے فرمایا ٹھیک ہے اسے بدلہ دے اس نے کہا اللہ میرے پاس تو نیکیاں اب باقی نہیں رہیں اس نے کہا پھر اللہ میری برائیاں اس پر لا دھ دے۔ اس وقت حضور کے آنسو نکل آئے اور فرمانے لگے وہ دن بڑا ہی سخت ہے لوگ چاہتے ہوں گے تلاش میں ہوں گے کہ کسی پر ان کا بوجھ لادھ دیا جائے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے طالب اپنی نگاہ اٹھا اور ان جنتیوں کو دیکھ وہ دیکھے گا اور کہے گا چاندی کے قلعے اور سونے کے محل میں دیکھ رہا ہوں جو لؤ لؤ اور موتیوں سے جڑاؤ کئے ہوئے ہیں پروردگار مجھے بتایا جائے کہ یہ مکانات اور یہ درجے کسی نبی کے ہیں یا کسی صدیق کے یا کسی شہید کے ؟ اللہ فرمائے گا یہ اس کے ہیں جو ان کی قیمت ادا کر دے۔ وہ کہے گا اللہ کس سے ان کی قیمت ادا ہو سکے گی ؟ فرمائے گا تیرے پاس تو اس کی قیمت ہے وہ خوش ہو کر پوچھے گا کہ پروردگار کیا ؟ اللہ فرمائے گا یہی کہ تیرا جو حق اس مسلمان پر ہے تو اسے معاف کر دے، بہت جلد کہے گا کہ اللہ میں نے معاف کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ اب اس کا ہاتھ تھام لے اور تم دونوں جنت میں چلے جاؤ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کا آخری حصہ تلاوت فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور آپس کی اصلاح کرو دیکھو اللہ تعالیٰ خود قیامت کے دن مومنوں میں صلح کرائے گا۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 1 یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ ط قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ ج فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْص وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ یہاں مال غنیمت کے لیے لفظ انفال استعمال کیا گیا ہے۔ انفال جمع ہے نفل کی اور نفل کے معنی ہیں اضافی شے۔ مثلاً نماز نفل ‘ جسے ادا کرلیں تو باعث ثواب ہے اور اگر ادا نہ کریں تو مواخذہ نہیں۔ اسی طرح جنگ میں اصل مطلوب شے تو فتح ہے جب کہ مال غنیمت ایک اضافی انعام ہے۔ جیسا کہ تمہیدی گفتگو میں بتایا جا چکا ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد مسلمانوں میں مال غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ سنجیدہ صورت اختیار کر گیا تھا۔ یہاں ایک مختصر قطعی اور دو ٹوک حکم کے ذریعے سے اس مسئلہ کی جڑ کاٹ دی گئی ہے اور بہت واضح انداز میں بتادیا گیا ہے کہ انفال کل کے کل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ملکیت ہیں۔ اس لیے کہ یہ فتح تمہیں اللہ کی خصوصی مدد اور اللہ کے رسول ﷺ کے ذریعے سے نصیب ہوئی ہے۔ لہٰذا انفال کے حق دار بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی ہیں۔ اس قانون کے تحت یہ تمام غنیمتیں اسلامی ریاست کی ملکیت قرار پائیں اور تمام مجاہدین کو حکم دے دیا گیا کہ انفرادی طور جو چیز جس کسی کے پاس ہے وہ اسے لا کر بیت المال میں جمع کرا دے۔ اس طریقے سے سب لوگوں کو zero level پر لا کر کھڑا کردیا گیا اور یوں یہ مسئلہ احسن طور پر حل ہوگیا۔ اس کے بعد جس کو جو دیا گیا اس نے وہ بخوشی قبول کرلیا۔اگلی آیات اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ ان میں بندۂ مومن کی شخصیت کے کچھ خدوخال بیان ہوئے ہیں۔ مگر ان خدوخال کے بارے میں جاننے سے پہلے یہ نکتہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ مؤمن اور مسلمان دو مترادف الفاظ یا اصطلاحات نہیں ہیں۔ قرآن ان دونوں میں واضح فرق کرتا ہے۔ یہ فرق سورة الحجرات کی آیت 14 میں اس طرح بیان ہوا ہے : قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط اے نبی ﷺ ! یہ بدو لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ‘ ان سے کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو ‘ بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں جبکہ ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ اسلام اور ایمان کا یہ فرق اچھی طرح سمجھنے کے لیے ارکان اسلام کی تفصیل ذہن میں تازہ کرلیجئے جو قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا کا مرحلۂ اولیٰ طے کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ : شَھَادَۃِ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقَام الصَّلَاۃِ وَاِیْتَاء الزَّکَاۃِ وَحَجِّ الْبَیْتِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ 1 اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ‘ نماز قائم کرنا ‘ زکوٰۃ ادا کرنا ‘ بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔یہ پانچ ارکان اسلام ہیں ‘ جن سے ہر مسلمان واقف ہے۔ مگر جب ایمان کی بات ہوگی تو ان پانچ ارکان کے ساتھ دو مزید ارکان اضافی طور پر شامل ہوجائیں گے ‘ اور وہ ہیں دل کا یقین اور عمل میں جہاد۔ چناچہ ملاحظہ ہو سورة الحجرات کی اگلی آیت میں بندۂ مؤمن کی شخصیت کا یہ نقشہ : اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط اُولٰٓءِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ مؤمن تو بس وہ ہیں جو ایمان لائیں اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ‘ پھر ان کے دلوں میں شک باقی نہ رہے اور وہ جہاد کریں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔ صرف وہی لوگ اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں۔ یعنی کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد انسان قانونی طور پر مسلمان ہوگیا اور تمام ارکان اسلام اس کے لیے لازمی قرار پائے۔ مگر حقیقی مؤمن وہ تب بنے گا جب اس کے دل کو گہرے یقین ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا والا ایمان نصیب ہوگا اور عملی طور پر وہ جہاد میں بھی حصہ لے گا۔ بندۂ مؤمن کی اسی تعریف definition کی روشنی میں اہل ایمان کی کیفیت یہاں سورة الأنفال میں دو حصوں میں الگ الگ بیان ہوئی ہے۔ وہ اس طرح کہ حقیقی ایمان والے حصے کی کیفیت کو آیت 2 اور 3 میں بیان کیا گیا ہے ‘ جبکہ اس کے دوسرے جہاد والے حصے کی کیفیات کو سورت کی آخری آیت سے پہلے والی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک پرکار compass کو کھول دیا گیا ہو ‘ جس کی ایک نوک سورت کے آغاز پر ہے پہلی آیت چھوڑ کر جبکہ دوسری نوک سورت کے آخر پر ہے آخری آیت چھوڑ کر۔ اس وضاحت کے بعد اب ملاحظہ ہو بندۂ مؤمن کی تعریف definition کا پہلا حصہ :

يسألونك عن الأنفال قل الأنفال لله والرسول فاتقوا الله وأصلحوا ذات بينكم وأطيعوا الله ورسوله إن كنتم مؤمنين

سورة: الأنفال - آية: ( 1 )  - جزء: ( 9 )  -  صفحة: ( 177 )

Surah Anfal Ayat 1 meaning in urdu

تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں؟ کہو “یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسُولؐ کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو"


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہمارے نشانیوں میں سے عجیب
  2. اور محمد (صلی الله علیہ وسلم) تو صرف (خدا کے) پیغمبر ہیں ان سے پہلے
  3. اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے
  4. (اے محمد) بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے ان کو کتنی کھلی نشانیاں دیں۔
  5. اور بہشت جب قریب لائی جائے گی
  6. اور وہ عنقریب خوش ہو جائے گا
  7. (لوگو) جو (کتاب) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں نازل ہوئی ہے اس کی پیروی
  8. یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت ان پر ناگہاں آموجود ہو اور
  9. کہہ دو کہ اگر آخرت کا گھر اور لوگوں (یعنی مسلمانوں) کے لیے نہیں اور
  10. عٓسٓقٓ

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Anfal with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Anfal mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Anfal Complete with high quality
surah Anfal Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Anfal Bandar Balila
Bandar Balila
surah Anfal Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Anfal Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Anfal Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Anfal Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Anfal Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Anfal Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Anfal Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Anfal Fares Abbad
Fares Abbad
surah Anfal Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Anfal Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Anfal Al Hosary
Al Hosary
surah Anfal Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Anfal Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Wednesday, December 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers