Surah Saad Ayat 10 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿أَمْ لَهُم مُّلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبَابِ﴾
[ ص: 10]
یا آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان (سب) پر ان ہی کی حکومت ہے۔ تو چاہیئے کہ رسیاں تان کر (آسمانوں) پر چڑھ جائیں
Surah Saad Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی آسمان پر چڑھ کر اس وحی کا سلسلہ منقطع کر دیں جو محمد ( صلى الله عليه وسلم ) پر نازل ہوتی ہے۔ اسباب، سبب کی جمع ہے۔ اس کے لغوی معنی ہر اس چیز کے ہیں جس کے ذریعے سے مطلوب تک پہنچا جائے، چاہے وہ کوئی سی بھی چیز ہو۔ اس لئے اس کے مختلف معنی کیے گئے ہیں۔ رسیوں کے علاوہ ایک ترجمہ دروازے کا بھی کیا گیا ہے، جن سے فرشتے زمین پر اترتے ہیں۔ یعنی سیڑھیوں کے ذریعے سے آسمان کے دروازوں تک پہنچ چائیں اور وحی بند کر دیں۔ ( فتح القدیر )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مشرکین کا نبی اکرم ﷺ پر تعجب۔حضور ﷺ کی رسالت پر کفار کے حماقت آمیز تعجب کا اظہار ہو رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( اَكَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ڼ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ ) 10۔ يونس:2) ، کیا لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ان میں سے ایک انسان کی طرف ہم نے وحی کی تاکہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے اور ایمانداروں کو اس بات کی خوش خبری سنا دے کہ اس کے پاس ان کے لئے بہترین لائحہ عمل ہے۔ کافر تو ہمارے رسول کو کھلا جادوگر کہنے لگے۔ یہیں پر یہ ذکر ہے کہ انہی میں سے انہی جیسے ایک انسان کے رسول بن کر آنے پر انہیں تعجب ہوا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور کذاب ہے۔ رسول ﷺ کی رسالت پر تعجب کے ساتھ ہی اللہ کی وحدانیت پر بھی انہیں تعجب معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ اور سنو اتنے سارے معبودوں کے بدلے یہ تو کہتا ہے کہ اللہ ایک ہی ہے اور اس کا کوئی کسی طرح کا شریک ہی نہیں ان بیوقوفوں کو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی جس شرک و کفر کی عادت تھی اس کے خلاف آواز سن کر ان کے دل دکھنے اور رکنے لگے اور وہ توحید کو ایک انوکھی اور انجان چیز سمجھنے لگے۔ ان کے بڑوں اور سرداروں نے تکبر کے ساتھ منہ موڑتے ہوئے اعلان کیا کہ اپنے قدیمی مذہب پر جمے رہو۔ اس کی بات نہ مانو اور اپنے معبودوں کی عبادت کرتے رہو۔ یہ تو صرف اپنے مطلب کی باتیں کہتا ہے۔ یہ اس بہانے اپنی جما رہا ہے کہ یہ تمہارا سب کا بڑا بن جائے اور تم اس کے تابع فرمان ہوجاؤ۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے کہ ایک بار قریشیوں کے شریف اور سردار رؤسا ایک مرتبہ جمع ہوئے ان میں ابو جہل بن ہشام عاص بن وائل اسود بن المطلب اسود بن عبد یغوث وغیرہ بھی تھے اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چل کر آج ابو طالب سے آخری فیصلہ کرلیں وہ انصاف کے ساتھ ایک بات ہمارے ذمہ ڈال دے اور ایک اپنے بھتیجے کے ذمے۔ کیونکہ یہ اب انتہائی عمر کو پہنچ چکے ہیں چراغ سحری ہو رہے ہیں اگر مرگئے اور ان کے بعد ہم نے محمد ﷺ کو کوئی مصیبت پہنچائی تو عرب میں طعنہ دیں گے کہ بڈھے کی موجودگی تک تو کچھ نہ چلی اور ان کی موت کے بعد بہادری آگئی۔ چناچہ ایک آدمی بھیج کر ابو طالب سے اجازت مانگی ان کی اجازت پر سب گھر میں گئے اور کہا سنئے جناب ! آپ ہمارے سردار ہیں بزرگ ہیں بڑے ہیں۔ ہم آپ کے بھتیجے سے اب بہت تنگ آگئے ہیں آپ انصاف کے ساتھ ہم میں اور اس میں فیصلہ کر دیجئے۔ دیکھئے ہم آپ سے انصاف چاہتے ہیں وہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں اور نہ ہم انہیں ستائیں وہ مختار ہیں جس کی چاہیں عبادت کریں لیکن ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں۔ ابو طالب نے آدمی بھیج کر اللہ کے رسول ﷺ کو بلوایا اور کہا جان پدر دیکھتے ہو آپ کی قوم کے سردار اور بزرگ سب جمع ہوئے ہیں اور آپ سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے معبودوں کی توہین اور برائی کرنے سے باز آجائیں اور یہ آپ کو آپ کے دین پر چلنے میں آزادی دے رہے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا چچا جان کیا میں انہیں بہترین اور بڑی بھلائی کی طرف نہ بلاؤں ؟ ابو طالب نے کہا وہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ ایک کلمہ کہہ دیں صرف اس کے کہنے کی وجہ سے سارا عرب ان کے ماتحت ہوجائے گا اور سارے عجم پر ان کی حکومت ہوجائے گی۔ ابو جہل ملعون نے سوال کیا کہ اچھا بتاؤ وہ ایسا کونسا کلمہ ہے ؟ ایک نہیں ہم دس کہنے کو تیار ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہو لا الہ الا اللہ بس یہ سننا تھا کہ شور و غل کردیا اور کہنے لگے اس کے سوا جو تو مانگے ہم دینے کو تیار ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم سورج کو بھی لاکر میرے ہاتھ پر رکھ دو تو بھی تو تم سے اس کلمے کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ سارے کے سارے مارے غصے اور غضب کے بھنا کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے واللہ ہم تجھے اور تیرے اللہ کو گالیاں دیں گے جس نے تجھے یہ حکم دیا ہے۔ اب یہ چلے اور ان کے سردار یہ کہتے رہے کہ جاؤ اپنے دین پر اور اپنے معبودوں کی عبادت پر جمے رہو۔ معلوم ہوگیا کہ اس شخص کا تو ارادہ ہی اور ہے یہ تو بڑا بننا چاہتا ہے ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان کے بھاگ جانے کے بعد حضور نے اپنے چچا سے کہا کہ آپ ہی اس کلمے کو پڑھ لیجئے اس نے کہا نہیں میں تو اپنے باپ دادوں اور قوم کے بڑوں کے دین پر ہی رہوں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو فرمایا کہ جسے تو چاہے ہدایت نہیں کرسکتا اور روایت میں ہے کہ اس وقت ابو طالب بیمار تھے اور اسی وجہ سے وہ مرا بھی۔ جس وقت حضور ﷺ تشریف لائے اس وقت ابو طالب کے پاس ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ خالی تھی باقی تمام گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا تو ابو جہل خبیث نے خیال کیا کہ اگر آپ ﷺ آ کر اپنے چچا کے پاس بیٹھ گئے تو زیادہ اثر ڈال سکیں گے اس لئے یہ ملعون کود کر وہاں جا بیٹھا اور حضور ﷺ کو دروازہ کے پاس ہی بیٹھنا پڑا۔ حضور ﷺ نے جب ایک کلمہ کہنے کو کہا تو سب نے جواب دیا کہ ایک نہیں دس ہم سب منتظر ہیں فرمایئے وہ کیا کلمہ ہے ؟ اور جب کلمہ توحید آپ کی زبانی سنا تو کپڑے جھاڑتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے لو اور سنو یہ تو سارے معبودوں کا ایک معبود بنا رہا ہے۔ اس پر یہ آیتیں، عذاب تک، اتریں۔ امام ترمذی اس روایت کو حسن کہتے ہیں۔ ہم نے تو یہ بات نہ اپنے دین میں دیکھی نہ نصرانیوں کے دین میں۔ یہ بالکل غلط اور جھوٹ اور بےسند بات ہے۔ یہ کیسے کچھ تعجب کی بات ہے کہ اللہ میاں کو کوئی اور نظر ہی نہ آیا اور اس پر قرآن اتار دیا۔ جیسے ایک اور آیت میں ان کا قول ہے ( وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ 31 ) 43۔ الزخرف:31) یعنی ان دونوں شہروں میں کے کسی بڑے آدمی پر یہ قرآن کیوں نہ اتارا گیا ؟ جس کے جواب میں جناب باری کا ارشاد ہوا کہ کیا یہی لوگ رب کی رحمت کی تقسیم کرنے والے ہیں ؟ یہ تو اس قدر محتاج ہیں کہ ان کی اپنی روزیاں اور درجے بھی ہم تقسیم کرتے ہیں۔ الغرض یہ اعتراض بھی ان کی حماقت کا غرہ تھا۔ اللہ فرماتا ہے، یہ ہے ان کے شک کا نتیجہ اور وجہ یہ ہے کہ اب تک یہ چکنی چپڑی کھاتے رہے ہیں ہمارے عذابوں سے سابقہ نہیں پڑا۔ کل قیامت کے دن جبکہ دھکے دے کر جہنم میں گرائے جائیں گے۔ اس وقت اپنی اس سرکشی کا مزہ پائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا قبضہ اور اپنی قدرت ظاہر فرماتا ہے کہ جو وہ چاہے کرے، جسے چاہے جو چاہے دے، عزت ذلت اس کے ہاتھ ہے، ہدایت ضلالت اس کی طرف سے ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے وحی نازل فرمائے اور جس کے دل پر چاہے اپنی مہر لگا دے بندوں کے اختیار میں کچھ نہیں وہ محض بےبس بالکل لاچار اور سراسر مجبور ہیں۔ اسی لئے فرمایا کیا ان کے پاس اس بلند جناب غالب، وہاب اللہ کی رحمت کے خزانے ہیں ؟ یعنی نہیں ہیں جیسے فرمایا ( اَمْ لَھُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا 53ۙ ) 4۔ النساء:53) ، اگر اللہ کی حکمرانی کا کوئی حصہ ان کے ہاتھ میں ہوتا تو یہ بخیل تو کسی کو ٹکڑا بھی نہ کھانے دیتے۔ اور انہیں لوگوں کے ہاتھوں میں اللہ کا فضل دیکھ کر حسد آ رہا ہے ؟ ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور بہت بڑی سلطنت دی تھی۔ ان میں سے بعض تو ایمان لائے اور بعض ایمان سے رکے رہے جو بھڑکتی جہنم کے لقمے بنیں گے وہ آگ ہی انہیں کافی ہے اور آیت میں ہے ( قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا01000ۧ ) 17۔ الإسراء :100)۔ یعنی اگر میرے رب کی رحمتوں کے خزانے تمہاری ملکیت میں ہوتے تو تم تو کمی سے ڈر کر خرچ کرنے سے رک جاتے انسان ہے ہی ناشکرا۔ قوم صالح نے بھی اپنے نبی ﷺ سے یہی کہا تھا کہ الخ، کیا ہم سب کو چھوڑ کر اسی پر ذکر اتارا گیا ؟ نہیں بلکہ یہ کذاب اور شریر ہے۔ اللہ فرماتا ہے کل معلوم کرلیں گے کہ ایسا کون ہے ؟ پھر فرمایا کیا زمین آسمان اور اس کے درمیان کی چیزوں پر ان کا اختیار ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر آسمانوں کی راہوں پر چڑھ جائیں ساتویں آسمان پر پہنچ جائیں۔ یہ یہاں کا لشکر بھی عنقریب ہزیمت و شکست اٹھائے گا اور مغلوب و ذلیل ہوگا۔ جیسے اور بڑے بڑے گروہ حق سے ٹکرائے اور پاش پاش ہوگئے، جیسے اور آیت میں ہے ( اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَــصِرٌ 44 ) 54۔ القمر:44) ، یعنی کیا ان کا قول ہے کہ ہم بڑی جماعت ہیں اور ہم ہی فتح یاب رہیں گے ؟ سنو انہیں ابھی ابھی شکست فاش ہوگی اور پیٹھ دکھاتے ہوئے بزدلی کے ساتھ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوں گے چناچہ بدر والے دن اللہ کی فرماں روائی نے اللہ کی باتوں کی سچائی انہیں اپنی آنکھوں سے دکھائی اور ابھی ان کے عذابوں کے وعدے کا دن تو آخرت کا دن ہے جو سخت کڑوا اور نہایت دہشت ناک اور وحشت والا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 10 { اَمْ لَہُمْ مُّلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَاقف } ” کیا ان کے پاس ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اس سب کی ؟ “ { فَلْیَرْتَقُوْا فِی الْاَسْبَابِ } ” تو چاہیے کہ یہ چڑھ جائیں رسیاں تان کر آسمان پر۔ “ اگر تمہارے لیے ممکن ہے تو اپنے تمام وسائل و ذرائع بروئے کار لا کر آسمان پر چڑھ جائو اور ربّ العالمین کی رحمت کے خزانوں اور اس کے اقتدار واختیار میں تصرف کر کے دکھائو !
أم لهم ملك السموات والأرض وما بينهما فليرتقوا في الأسباب
سورة: ص - آية: ( 10 ) - جزء: ( 23 ) - صفحة: ( 453 )Surah Saad Ayat 10 meaning in urdu
کیا یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کے مالک ہیں؟ اچھا تو یہ عالم اسباب کی بلندیوں پر چڑھ کر دیکھیں!
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرر کیا
- اور رات کو بڑی رات تک سجدے کرو اور اس کی پاکی بیان کرتے رہو
- کہہ دو کہ ہر شخص اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے۔ سو تمہارا پروردگار
- تو جس وقت تم کو شام ہو اور جس وقت صبح ہو خدا کی تسبیح
- اور جو شخص خدا کے ساتھ اور معبود کو پکارتا ہے جس کی اس کے
- اور تم ان کو خیال کرو کہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوتے ہیں۔ اور
- جب انہوں نے آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم (یہاں) ٹھہرو
- انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا اور (لوگوں کو) خدا کے راستے سے
- اور بائیں ہاتھ والے (افسوس) بائیں ہاتھ والے کیا (ہی عذاب میں) ہیں
- اور ان ہی میں سے ان میں ایک پیغمبر بھیجا (جس نے ان سے کہا)
Quran surahs in English :
Download surah Saad with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Saad mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Saad Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers