Surah Tahreem Ayat 10 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ﴾
[ التحريم: 10]
خدا نے کافروں کے لئے نوحؑ کی بیوی اور لوطؑ کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ہے۔ دونوں ہمارے دو نیک بندوں کے گھر میں تھیں اور دونوں نے ان کی خیانت کی تو وہ خدا کے مقابلے میں اور ان عورتوں کے کچھ بھی کام نہ آئے اور ان کو حکم دیا گیا کہ اور داخل ہونے والوں کے ساتھ تم بھی دوزخ میں داخل ہو جاؤ
Surah Tahreem Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) مثل کا مطلب ہے کسی ایسی حالت کا بیان کرنا جس میں ندرت وغرابت ہوتا کہ اس کے ذریعے سے ایک دوسری حالت کا تعارف ہو جائے جو ندرت وغرابت میں اس کے مماثل ہو مطلب یہ ہوا کہ ان کافروں کے حال کے لیے اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے جو نوح اور لوط علیہما السلام کی بیوی کی ہے۔
( 2 ) یہاں خیانت سے مراد ہے کہ یہ اپنے خاوندوں پر ایمان نہیں لائیں نفاق میں مبتلا رہیں اور ان کی ہمدردیاں اپنی کافر قوموں کے ساتھ رہیں چنانچہ نوح ( عليه السلام ) کی بیوی، حضرت نوح ( عليه السلام ) کی بابت لوگوں سے کہتی کہ یہ مجنون ہے اور لوط ( عليه السلام ) کی بیوی اپنی قوم کو گھر میں آنے والے مہمانوں کی اطلاع پہنچاتی تھی بعض کہتے ہیں کہ یہ دونوں اپنی قوم کے لوگوں میں اپنے خاوندوں کی چغلیاں کھاتی تھیں۔
( 3 ) یعنی نوح اور لوط علیہما السلام دونوں، باوجود اس بات کے کہ وہ اللہ کے پیغمبر تھے، جو اللہ کے مقرب ترین بندوں میں سے ہوتے ہیں، اپنی بیویوں کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکے۔
( 4 ) یہ انہیں قیامت والے دن کہا جائے گا یا موت کے وقت انہیں کہا گیا کافروں کی یہ مثال بطور خاص یہاں ذکر کرنے سے مقصود ازواج مظہرات کو تنبیہ کرنا ہے کہ وہ بیشک اس رسول کے حرم کی زینت ہیں جو تمام مخلوق میں سب سے بہتر ہے لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے رسول کی مخالفت کی یا انہیں تکلیف پہنچائی تو وہ بھی اللہ کی گرفت میں آسکتی ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر کوئی ان کو بچانے والا نہیں ہوگا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
تحفظ قانون کے لئے حکم جہاد اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ کافروں سے جہاد کر ہتھیاروں کے ساتھ اور منافقوں سے جہاد کر حدود اللہ جاری کرنے کے ساتھ، ان پر دنیا میں سختی کرو، آخرت میں بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بدترین باز گشت ہے، پھر مثال دے کر سمجھایا کہ کافروں کا مسلمانوں سے ملنا جلنا خلط ملط رہنا انہیں ان کے کفر کے باوجود اللہ کے ہاں کچھ نفع نہیں دے سکتا، دیکھو دو پیغمبروں کی عورتیں حضرت نوح ؑ کی اور حضرت لوط ؑ کی جو ہر وقت ان نبیوں کی صحبت میں رہنے والی اور دن رات ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی اور ساتھ ہی کھانے پینے بلکہ سونے جاگنے والی تھیں، لیکن چونکہ ایمان میں ان کی ساتھی نہ تھیں اور اپنے کفر پر قائم تھیں، پس پیغمبروں کی آٹھ پہر کی صحبت انہیں کچھ کام نہ آئی، انبیاء اللہ انہیں آخروی نفع نہ پہنچا سکے اور نہ آخروی نقصان سے بچا سکے، بلکہ ان عورتوں کو بھی دوزخیوں کے ساتھ جہنم میں جانے کو کہہ دیا گیا۔ یہ یاد رہے کہ خیانت کرنے سے مراد بدکاری نہیں، انبیاء ( علیہم السلام ) کی حرمت و عصمت اس سے بہت اعلیٰ اور بالا ہے کہ ان کی گھر والیاں فاحشہ ہوں، ہم اس کا پورا بیان سورة نور کی تفسیر میں کرچکے ہیں، بلکہ یہاں داد خیانت فی الدین یعنی دین میں اپنے خاوندوں کی خیانت کی ان کا ساتھ نہ دیا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ان کی خیانت زنا کاری نہتھی بلک ہیہ تھی کہ حضرت نوح ؑ کی بیوی تو لوگوں سے کہا کرتی تھی کہ یہ مجنوں ہیں اور لوط ؑ کی بیوی جو مہمان حضرت لوط کے ہاں آتے تو کافروں کو خبر کردیتی تھیں، یہ دونوں بد دین تھیں نوح ؑ کی راز داری اور پوشیدہ طور پر ایمان لانے والوں کے نام کافروں پر ظاہر کردیا کرتی تھیں، اسی طرح حضرت لوط ؑ کی بیوی بھی اپنے خاوند اللہ کے رسول ؑ کی مخالف تھیں اور جو لوگ آپ کے ہاں مہمان بن کر ٹھہرتے یہ جا کر اپنی کافر قوم کو خبر کردیتی جنہیں بد عمل کی عادت تھی، بلکہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ کسی پیغمبر کی کسی عورت نے کبھی بدکاری نہیں کی، اسی طرح حضرت عکرمہ حضرت سعید بن جیر حضرت ضحاک وغیرہ سے بھی مروی ہے، اس سے استدلال کر کے بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ جو عام لوگوں میں مشہور ہے کہ حدیث میں ہے جو شخص کسی ایسے کے ساتھ کھائے جو بخشا ہوا ہو اسے بھی بخش دیا جاتا ہے، یہ حدیث بالکل ضعیف ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ حدیث محض بےاصل ہے، ہاں ایک بزرگ سے مروی ہے کہ انہوں نے خواب میں آنحضرت ﷺ کی زیارت کی اور پوچھا کہ کیا حضور ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں لیکن اب میں کہتا ہوں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
ان آیات میں عورتوں کا معاملہ ایک اور پہلو سے زیربحث آ رہا ہے۔ واضح رہے کہ ان دونوں سورتوں الطلاق اور التحریم کی ایک مشترک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان دونوں میں عورتوں کے معاملات بیان ہوئے ہیں۔ چناچہ اب عورتوں پر واضح کیا جا رہا ہے کہ وہ خود کو اپنے شوہروں کے تابع سمجھتے ہوئے آخرت کے حساب سے نچنت نہ ہوجائیں۔ اسلام میں عورت اور مرد کا درجہ انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہے۔ لہٰذا عورتیں اپنے دین و ایمان اور اعمال و فرائض کی خود ذمہ دار ہیں۔ اگر ان کا ایمان درست ہوگا اور اعمال صالحہ کا پلڑا بھاری ہوگا تبھی نجات کی کوئی صورت بنے گی۔ ان کے شوہر خواہ اللہ کے کتنے ہی برگزیدہ بندے کیوں نہ ہوں اس معاملے میں وہ ان کے کچھ کام نہیں آسکیں گے۔ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے ان آیات میں چار خواتین کی مثالیں دی گئی ہیں :آیت 10{ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ } ” اللہ نے مثال بیان کی ہے کافروں کے لیے نوح علیہ السلام کی بیوی اور لوط علیہ السلام کی بیوی کی۔ “ { کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ } ” وہ دونوں ہمارے دو بہت صالح بندوں کے عقد میں تھیں “ { فَخَانَتٰــھُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْھُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا } ” تو انہوں نے ان سے خیانت کی ‘ تو وہ دونوں اللہ کے مقابل میں ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے “ وہ جلیل القدر پیغمبر علیہ السلام اپنی بیویوں کو اللہ کے عذاب سے نہ تو دنیا میں بچاسکے اور نہ ہی آخرت میں بچا سکیں گے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی سیلاب میں غرق ہوگئی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ پتھرائو کے عذاب سے ہلاک ہوئی۔ واضح رہے کہ یہاں جس خیانت کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد کردار کی خیانت نہیں ہے ‘ اس لیے کہ کسی نبی علیہ السلام کی بیوی کبھی بدچلن اور بدکار نہیں رہی ہے۔ ان کی خیانت اور بےوفائی دراصل دین کے معاملے میں تھی کہ وہ دونوں اپنے شوہروں کی جاسوسی کرتی تھیں اور ان کے راز اپنی قوم کے لوگوں تک پہنچاتی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک شادی شدہ عورت کی عصمت اس کے شوہر کی عزت و ناموس ہے جس کی حفاظت کرنا شوہر کی طرف سے اس پر فرض ہے ‘ لیکن اس کے علاوہ ایک بیوی اپنے شوہر کے رازوں اور اس کے مال وغیرہ کی محافظ بھی ہوتی ہے۔ سورة النساء کی آیت 34 میں نیک اور مثالی بیویوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں ایک صفت حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بھی ہے۔ اس کا مفہوم یہی ہے کہ نیک بیویاں اپنے شوہروں کی غیر حاضری میں ان کے گھر بار اور حقوق کی محافظ ہوتی ہیں۔ اب ظاہر ہے اس حفاظت میں شوہر کی عزت و ناموس کے ساتھ ساتھ اس کے مال اور اس کے رازوں وغیرہ کی حفاظت بھی شامل ہے۔ چناچہ یہاں خیانت سے صرف عزت و ناموس ہی کی خیانت مراد لینا درست نہیں۔ { وَّقِیْلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ۔ } ” اور آخرت میں کہہ دیاجائے گا کہ تم دونوں داخل ہوجائو آگ میں دوسرے سب داخل ہونے والوں کے ساتھ۔ “ ان دو عبرت انگیز مثالوں سے یہ حقیقت واضح ہوجانی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے وہ اولوا العزم پیغمبر علیہ السلام جنہوں نے ساڑھے نو سو سال اللہ تعالیٰ کے پیغام کی دعوت میں صرف کیے وہ اگر اپنی بیوی کو برے انجام سے نہیں بچا سکے تو اور کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے کسی عزیز رشتے دار کی سفارش کرسکے گا ؟ نبی اکرم ﷺ نے اپنی دعوت کے آغاز میں قبیلہ قریش بالخصوص اپنے قریبی عزیز و اقارب کو جمع کر کے فرمایا تھا : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ! اشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ مِنَ اللّٰہِ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ‘ یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ! لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ! لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ! لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ! سَلِیْنِیْ بِمَا شِئْتِ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا 1” اے قریش کے لوگو ! اپنے آپ کو اللہ کی گرفت سے بچانے کی کوشش کرو ‘ میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ اے بنی عبدالمطلب ! میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ اے صفیہ ‘ اللہ کے رسول کی پھوپھی ! میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ اے فاطمہ ‘ اللہ کے رسول ﷺ کی بیٹی ! تم مجھ سے میرے مال میں سے جو چاہو طلب کرلو ‘ لیکن میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ “ایک روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں : یَافَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ ﷺ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ ‘ فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا 1” اے محمد ﷺ کی لخت جگر فاطمہ رض ! اپنے آپ کو آگ سے بچائو ‘ کیونکہ مجھے تمہارے بارے میں اللہ کے ہاں کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ “
ضرب الله مثلا للذين كفروا امرأة نوح وامرأة لوط كانتا تحت عبدين من عبادنا صالحين فخانتاهما فلم يغنيا عنهما من الله شيئا وقيل ادخلا النار مع الداخلين
سورة: التحريم - آية: ( 10 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 561 )Surah Tahreem Ayat 10 meaning in urdu
اللہ کافروں کے معاملے میں نوحؑ اور لوطؑ کی بیویوں کو بطور مثال پیش کرتا ہے وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں، مگر انہوں نے اپنے ان شوہروں سے خیانت کی اور وہ اللہ کے مقابلہ میں ان کے کچھ بھی نہ کام آ سکے دونوں سے کہہ دیا گیا کہ جاؤ آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جاؤ
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ہم نے تم سے پہلے (بہت سے) پیغمبر بھیجے۔ ان میں کچھ تو ایسے
- مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا
- اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا
- اور ہم نے آدم (سے کہا کہ) تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو سہو
- پس جان رکھو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی
- اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے، تاکہ تم ہدایت حاصل
- اور خار دار جھاڑ کے سوا ان کے لیے کوئی کھانا نہیں (ہو گا)
- (کہہ دو) ہم فرشتوں کو نازل نہیں کیا کرتے مگر حق کے ساتھ اور اس
- انہوں نے کہا اے قوم مجھ میں کسی طرح کی گمراہی نہیں ہے بلکہ میں
- مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔
Quran surahs in English :
Download surah Tahreem with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Tahreem mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Tahreem Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers