Surah Ghafir Ayat 55 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ﴾
[ غافر: 55]
تو صبر کرو بےشک خدا کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور صبح وشام اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو
Surah Ghafir Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) گناہ سے مراد وہ چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہیں، جو بہ تقاضائے بشریت سرزد ہوجاتی ہیں۔ جن کی اصلاح بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کر دی جاتی ہے۔ یا استغفار بھی ایک عبادت ہی ہے۔ اجر وثواب کی زیادتی کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا ہے، یا مقصد امت کی رہنمائی ہے کہ وہ استغفار سے بےنیاز نہ ہوں۔
( 2 ) عَشِيٌّ سے،دن کا آخری اور رات کا ابتدائی حصہ اور أَبْكَارٌ سے رات کا آخری اور دن کا ابتدائی حصہ مراد ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
رسولوں اور اہل ایمان کو دنیا و آخرت میں مدد کی بشارت۔آیت میں رسولوں کی مدد کرنے کا اللہ کا وعدہ ہے، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض رسولوں کو ان کی قوموں نے قتل کردیا، جیسے حضرت یحییٰ ، حضرت زکریا، حضرت شعیب صلوات اللہ علیہم وسلامہ، اور بعض انبیاء کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا، جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام۔ اور حضرت عیسیٰ کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف ہجرت کرائی۔ پھر کیا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ وعدہ پورا کیوں نہیں ہوا ؟ اس کے دو جواب ہیں ایک تو یہ کہ یہاں گو عام خبر ہے لیکن مراد بعض سے ہے، اور یہ لعنت میں عموماً پایا جاتا ہے کہ مطلق ذکر ہو اور مراد خاص افراد ہوں۔ دوسرے یہ کہ مدد کرنے سے مراد بدلہ لینا ہو۔ پس کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جسے ایذاء پہنچانے والوں سے قدرت نے زبردست انتقام نہ لیا ہو۔ چناچہ حضرت یحییٰ ، حضرت زکریا، حضرت شعیب کے قاتلوں پر اللہ نے ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا اور انہوں نے انہیں زیر و زبر کر ڈالا، ان کے خون کی ندیاں بہا دیں اور انہیں نہایت ذلت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا۔ نمرود مردود کا مشہور واقعہ دنیا جانتی ہے کہ قدرت نے اسے کیسی پکڑ میں پکڑا ؟ حضرت عیسیٰ کو جن یہودیوں نے سولی دینے کی کوشش کی تھی۔ ان پر جناب باری عزیز و حکیم نے رومیوں کو غالب کردیا۔ اور ان کے ہاتھوں ان کی سخت ذلت و اہانت ہوئی۔ اور ابھی قیامت کے قریب جب آپ اتریں گے تب دجال کے ساتھ ان یہودیوں کی جو اس کے لشکری ہوں گے قتل کریں گے۔ اور امام عادل اور حاکم باانصاف بن کر تشریف لائیں گے صلیب کو توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ باطل کردیں گے بجز اسلام کے اور کچھ قبول نہ فرمائیں گے۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان مدد اور یہی دستور قدرت ہے جو پہلے سے ہے اور اب تک جاری ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کی دنیوی امداد بھی فرماتا ہے اور ان کے دشمنوں سے خود انتقام لے کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا ہے جو شخص میرے نبیوں سے دشمنی کرے اس نے مجھے لڑائی کیلئے طلب کیا۔ دوسری حدیث میں ہے میں اپنے دوستوں کی طرف سے بدلہ ضرور لے لیا کرتا ہوں جیسے کہ شیر بدلہ لیتا ہے اسی بناء پر اس مالک الملک نے قوم نوح سے، عاد سے، ثمودیوں سے، اصحاب الرس سے، قوم لوط سے، اہل مدین سے اور ان جیسے ان تمام لوگوں سے جنہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور حق کا خلاف کیا تھا بدلہ لیا۔ ایک ایک کو چن چن کر تباہ برباد کیا اور جتنے مومن ان میں تھے ان سب کو بچا لیا۔ امام سدی فرماتے ہیں جس قوم میں اللہ کے رسول ﷺ آئے یا ایمان دار بندے انہیں پیغام الٰہی پہنچانے کیلئے کھڑے ہوئے اور اس قوم نے ان نبیوں کی یا ان مومنوں کی بےحرمتی کی اور انہیں مارا پیٹا قتل کیا ضرور بالضرور اسی زمانے میں عذاب الٰہی ان پر برس پڑے۔ نبیوں کے قتل کے بدلے لینے والے اٹھ کھڑے ہوئے اور پانی کی طرح ان کے خون سے پیاسی زمین کو سیراب کیا۔ پس گو انبیاء اور مومنین یہاں قتل کئے گئے لیکن ان کا خون رنگ لایا اور ان کے دشمنوں کا بھس کی طرح بھرکس نکال دیا۔ ناممکن ہے کہ ایسے بندگان خاص کی امداد و اعانت نہ ہو اور ان کے دشمنوں سے پورا انتقام نہ لیا گیا ہو۔ اشرف الانبیاء حبیب اللہ ﷺ کے حالات زندگی دنیا اور دنیا والوں کے سامنے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو غلبہ دیا اور دشمنوں کی تمام تر کوششوں کو بےنتیجہ رکھا۔ ان تمام پر آپ کو کھلا غلبہ عطا فرمایا۔ آپ کے کلمے کو بلند وبالا کیا آپ کا دین دنیا کے تمام ادیان پر چھا گیا۔ قوم کی زبردست مخالفتوں کے وقت اپنے نبی کو مدینے پہنچا دیا اور مدینے والوں کو سچا جاں نثار بنا کر پھر مشرکین کا سارا زور بدر کی لڑائی میں ڈھا دیا۔ ان کے کفر کے تمام وزنی ستون اس لڑائی میں اکھیڑ دیئے۔ سرداران مشرک یا تو ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گئے یا مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدی بن کر نامرادی کے ساتھ گردن جھکائے نظر آنے لگے قید و بند میں جکڑے ہوئے ذلت و اہانت کے ساتھ مدینے کی گلیوں میں کسی کے ہاتھوں پر اور کسی کے پاؤں پر دوسرے کی گرفت تھی۔ اللہ کی حکمت نے ان پر پھر احسان کیا اور ایک مرتبہ پھر موقعہ دیا فدیہ لے کر آزاد کردیئے گئے لیکن پھر بھی جب مخالفت رسول ﷺ سے باز نہ آئے اور اپنے کرتوتوں پر اڑے رہے۔ تو وہ وقت بھی آیا کہ جہاں سے نبی ﷺ کو چھپ چھپا کر رات کے اندھیرے میں پاپیادہ ہجرت کرنی پڑی تھی وہاں فاتحانہ حیثیت سے داخل ہوئے اور گردن پر ہاتھ باندھے دشمنان رسول سامنے لائے گئے۔ اور بلاد حرم کی عظمت و عزت رسول محترم کی وجہ سے پوری ہوئی۔ اور تمام شرک و کفر اور ہر طرح کی بےادبیوں سے اللہ کا گھر پاک صاف کردیا گیا۔ بالآخر یمن بھی فتح ہوا اور پورا جزیرہ عرب قبضہ رسول ﷺ میں آگیا۔ اور جوق کے جوق لوگ اللہ کے دین میں داخل ہوگئے۔ پھر رب العالمین نے اپنے رسول رحمتہ العالمین کو اپنی طرف بلا لیا اور وہاں کی کرامت و عظمت سے اپنی مہمانداری میں رکھ کر نوازا ﷺ۔ پھر آپ کے بعد آپ کے نیک نہاد صحابہ کو آپ کا جانشین بنایا۔ جو محمدی جھنڈا لئے کھڑے ہوگئے اور اللہ کی توحید کی طرف اللہ کی مخلوق کو بلانے لگے۔ جو روڑا راہ میں آیا اسے الگ کیا۔ جو خار چمن میں نظر پڑا اسے کاٹ ڈالا گاؤں گاؤں شہر شہر ملک ملک دعوت اسلام پہنچا دی جو مانع ہوا اسے منع کا مزہ چکھایا اسی ضمن میں مشرق و مغرب میں سلطنت اسلامی پھیل گئی۔ زمین پر اور زمین والوں کے جسموں پر ہی صحابہ کرام نے فتح حاصل نہیں کی بلکہ ان کے دلوں پر بھی فتح پالی اسلامی نقوش دلوں میں جما دیئے اور سب کو کلمہ توحید کے نیچے جمع کردیا۔ دین محمد نے زمین کا چپہ چپہ اور کونا کو نا اپنے قبضے میں کرلیا۔ دعوت محمدیہ بہرے کانوں تک بھی پہنچ چکی۔ صراط محمدی اندھوں نے بھی دیکھ لیا۔ اللہ اس پاکباز جماعت کو ان کی اولو العزمیوں کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے۔ آمین ! الحمد للہ کا اور اس کے رسول کا کلام موجود ہے۔ اور آج تک ان کے سروں پر رب کا ہاتھ ہے۔ اور قیامت تک یہ وطن مظفر و منصور ہی رہے گا اور جو اس کے مقابلے پر آئے گا منہ کی کھائے گا اور پھر کبھی منہ نہ دکھائے گا یہی مطلب ہے اس مبارک آیت کا۔ قیامت کے دن بھی دینداروں کی مدد و نصرت ہوگی اور بہت بڑی اور بہت اعلیٰ پیمانے تک۔ گواہوں سے مراد فرشتے ہیں، دوسری آیت میں یوم بدل ہے پہلی آیت کے اسی لفظ سے۔ بعض قرأتوں میں یوم ہے تو یہ گویا پہلے یوم کی تفسیر ہے۔ ظالموں سے مراد مشرک ہیں ان کا عذر و فدیہ قیامت کے دن مقبول نہ ہوگا وہ رحمت رب سے اس دن دور دھکیل دیئے جائیں گے۔ ان کیلئے برا گھر یعنی جہنم ہوگا۔ ان کی عاقبت خراب ہوگی، حضرت موسیٰ کو ہم نے ہدایت ونور بخشا۔ بنی اسرائیل کا انجام بہتر کیا۔ فرعون کے مال و زمین کا انہیں وارث بنایا کیونکہ یہ اللہ کی اطاعت اور اتباع رسول میں ثابت قدمی کے ساتھ سختیاں برداشت کرتے رہے تھے۔ جس کتاب کے یہ وارث ہوئے وہ عقلمندوں کیلئے سرتاپا باعث ہدایت و عبرت تھی، اے نبی ﷺ آپ صبر کیجئے اللہ کا وعدہ سچا ہے آپ کا ہی بول بالا ہوگا انجام کے لحاظ سے آپ والے ہی غالب رہیں گے۔ رب اپنے وعدے کے خلاف کبھی نہیں کرتا بلاشک و شبہ دین اللہ کا اونچا ہو کر ہی رہے گا۔ تو اپنے رب سے استغفار کرتا رہ۔ آپ کو حکم دے کر دراصل آپ کی امت کو استغفار پر آمادہ کرنا ہے۔ دن کے آخری اور رات کے انتہائی وقت خصوصیت کے ساتھ رب کی پاکیزگی اور تعریف بیان کیا کر، جو لوگ باطل پر جم کر حق کو ہٹا دیتے ہیں دلائل کو غلط بحث سے ٹال دیتے ہیں ان کے دلوں میں بجز تکبر کے اور کچھ نہیں ان میں اتباع حق سے سرکشی ہے۔ یہ رب کی باتوں کی عزت جانتے ہی نہیں۔ لیکن جو تکبر اور جو خودی اور جو اپنی اونچائی وہ چاہتے ہیں وہ انہیں ہرگز حاصل نہیں ہونے کی۔ ان کے مقصود باطل ہیں۔ ان کے مطلوب لاحاصل ہیں۔ اللہ کی پناہ طلب کر کہ ان جیسا حال کسی بھلے آدمی کا نہ ہو۔ اور ان نخوت پسند لوگوں کی شرارت سے بھی اللہ کی پناہ چاہ کر۔ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ کہتے تھے دجال انہی میں سے ہوگا اور اس کے زمانے میں یہ زمانے کے بادشاہ ہوجائیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا کہ فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ طلب کیا کرو۔ وہ سمیع وبصیر ہے۔ لیکن آیت کو یہودیوں کے بارے میں نازل شدہ بتانا اور دجال کی بادشاہی اور اس کے فتنے سے پناہ کا حکم۔ سب چیزیں تکلف سے پر ہیں۔ مانا کہ یہ تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے مگر یہ قول ندرت سے خالی نہیں۔ ٹھیک یہی ہے کہ عام ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 55 { فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ} ” تو اے نبی ﷺ ! آپ صبر کیجیے ! یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے “ { وَّاسْتَغْفِرْ لِذَنبِْکَ } ” اور اپنے قصور کی معافی چاہیں “ اگر آپ خیال کرتے ہیں کہ کسی درجے میں بھی آپ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اللہ سے استغفار کیجیے۔ یہاں پر حضور ﷺ کے حوالے سے لفظ ” ذنب “ کے مفہوم اور اس کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ انبیاء کرام علیہ السلام کی روحانی کیفیات اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ مستقل استحضار کا مخصوص انداز اور معیار ہے۔ اگر استحضار کے اس مخصوص معیار میں کسی لمحے کوئی کمی آجائے تو اپنے احساس کی شدت کی وجہ سے انہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ یہ گویا ” حَسَنَاتُ الابرَارِ سِیِّـــٔاتُ المُقرَّبین “ والا معاملہ ہے۔ یعنی مقربین ِبارگاہ کا مقام اتنا بلند ہے کہ عام آدمی کے معیار کی نیکی ان کے معاملے میں شاید کوتاہی شمار ہوجائے۔ { وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِبْکَارِ } ” اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجیے شام کو بھی اور صبح کو بھی۔ “
فاصبر إن وعد الله حق واستغفر لذنبك وسبح بحمد ربك بالعشي والإبكار
سورة: غافر - آية: ( 55 ) - جزء: ( 24 ) - صفحة: ( 473 )Surah Ghafir Ayat 55 meaning in urdu
پس اے نبیؐ، صبر کرو، اللہ کا وعدہ بر حق ہے، اپنے قصور کی معافی چاہو اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جس بستی میں ہم (ٹھہرے) تھے وہاں سے (یعنی اہل مصر سے) اور جس
- قارون موسٰی کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدّی کرتا تھا۔ اور ہم
- (یہ وہ دن ہے کہ) اس سے تو غافل ہو رہا تھا۔ اب ہم نے
- اور اے قوم! میں اس (نصیحت) کے بدلے تم سے مال وزر کا خواہاں نہیں
- اور ہم نے اس کو اسی طرح کا قرآن عربی نازل کیا ہے اور اس
- اور انہیں دیکھتے رہو۔ یہ بھی عنقریب (کفر کا انجام) دیکھ لیں گے
- اور جو لوگ عذاب الیم سے ڈرتے ہیں ان کے لئے وہاں نشانی چھوڑ دی
- ہم نے ان کو اپنی نشانیاں دیں اور وہ ان سے منہ پھرتے رہے
- کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم
- اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی۔ کہ خدا کا شکر کرو۔ اور جو شخص
Quran surahs in English :
Download surah Ghafir with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Ghafir mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Ghafir Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers