Surah shams Ayat 10 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا﴾
[ الشمس: 10]
اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا
Surah shams Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی جس نے اسے گمراہ کر لیا، وہ خسارے میں رہا۔ دَسٌّ، تَدْسِيسٌ سے ہے، جس کے معنی ہیں۔ ایک چیز کو دوسری چیز میں چھپا دینا۔ دَسَّاهَا کے معنی ہوں گے جس نے اپنے نفس کو چھپا دیا اور اسے بے کار چھوڑ دیا اور اسے اللہ کی اطاعت اور عمل صالح کے ساتھ مشہور نہیں کیا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
کامیابی کے لیے کیا ضروری ہے ؟ :حضرت مجاہد فرماتے ہیں " ضحا سے مراد روشنی ہے " قتادہ فرماتے ہیں " پورا دن مراد ہے " امام جریر فرماتے ہیں کہ ٹھیک بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کی اور دن کی قسم کھائی ہے اور چاند جبکہ اس کے پیچھے آئے یعنی سورج چھپ جائے اور چاند چمکنے لگے، ابن زید فرماتے ہیں کہ مہینہ کے پہلے پندرہ دن میں تو چاند سورج کے پیچھے رہتا ہے اور پچھلے پندرہ دنوں میں آگے ہوتا ہے، زید بن اسلم فرماتے ہیں مراد اس سے لیلۃ القدر ہے۔ پھر دن کی قسم کھائی جبکہ وہ منور ہوجائے یعنی سورج دن کو گھیر لے، بعض عربی دانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دن جبکہ اندھیرے کو روشن کر دے لیکن اگر یوں کہا جاتا کہ پھیلاوٹ کو وہ جب چمکا دے تو اور اچھا ہوتا ہے تاکہ یغشاہا میں بھی یہ معنی ٹھی بیٹھتے، اسی لیے حضرت مجاہد فرماتے ہیں دن کی قسم جبکہ وہ اسے روشن کر دے، امام ابن جریر اس قوم کو پسند فرماتے ہیں کہ ان سب میں ضمیر ھاکا مرجع شمس ہے کیونکہ اسی کا ذکر چل رہا ہے، رات جبکہ اسے ڈھانپ لے یعنی سورج کو ڈھانپ لے اور چاروں طرف اندھیرا پھیل جائے، یزید بن ذی حمایہ کہتے ہیں کہ جب رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے میرے بندوں کو میری ایک بہت بڑی خلق نے چھپالیا پس مخلوق رات سے ہیبت کرتی ہے حالانکہ اس کے پیدا کرنے والے سے زیادہ ہیبت کرنی چاہیے، ( ابن ابی حاتم ) پھر آسمان کی قسم کھاتا ہے یہاں جو ما ہے یہ مصدیہ بھی ہوسکتا ہے، یعنی آسمان اور اس کی بناوٹ کی قسم، حضرت قتادہ کا قول یہی ہے اور یہ مامعنی میں من کے بھی ہوسکتا ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ آسمان کی قسم اور اس کے بنانے والے کی قسم، یعنی خود اللہ کی، مجاہد یہی فرماتے ہیں یہ دونوں معنی ایک دوسرے کو لازم ملزوم ہیں بنا کے معنی بلندی کے ہیں جیسے اور جگہ ہے والسماء بنینٰھا بایدٍالخ، یعنی آسمان کو ہم نے قوت کے ساتھ بنایا اور ہم کشادگی والے ہیں ہم نے زمین کو بچھایا اور کیا ہی اچجا ہم بچھانے والے ہیں، اس طرح یہاں بھی فرمایا کہ زمین کی اور اس کی ہمواری کی اسے بچھانے، پھیلانے کی اس کی تقسیم کی، اس کی مخلوق کی قسم زیادہ مشہور قول اس کی تفسیر میں پھیلانے کا ہے، اہل لغت کے نزدیک بھی یہی معروف ہے، جوہری فرماتے ہیں طحو تہ مثل وحولۃ کے ہے اور اس کے معنی پھیلانے کے ہیں اکثر مفسرین کا یہی قول ہے پھر فرمایا نفس کی اور اسے ٹھیک ٹھاک بنانے کی قسم یعنی اسے پیدا کیا اور آنحالیکہ یہ ٹھیک ٹھاک اور فطرت پر قائم تھا جیسے اور جگہ ہے فاقم وجھک الخ، اپنے چہرے کو قائم رکھ دین حنیف کے لیے فطرت ہے، اللہ کی جس پر لوگوں کو بنایا اللہ کی خلق کی تبدیل نہیں، حدیث میں ہے ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے چوپائے جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے کوئی ان میں کن کٹا نہ پاؤ گے ( بخاری و مسلم ) صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندے کو یکسوئی والے پیدا کئے ان کے پاس شیطان پہنچا اور دین سے ورغلالیا، پھر فرماتا ہے کہ اللہ نے اس کے لیے بدکارری و پرہیزگاری کو بیان کردیا اور جو چیز اس کی قسمت میں تھی اس کی طرف اس کی رہبری ہوئی، ابن عباس فرماتے ہیں یعنی خیرو شر ظاہر کردیا، ابن جریر میں ہے حضرت ابو الاسود فرماتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین ؓ نے پوچھا ذرا بتاؤ تو لوگ جو کچھ اعمال کرتے ہیں اور تکلیفیں اٹھا رہے ہیں یہ کیا ان کے لیے اللہ کی جانب سے مقرر ہوچکی ہیں اور ان کی تقدیر میں لکھی جا چکی ہیں یا یہ خود آئندہ کے لیے اپنے طور پر کر رہے ہیں اس بنا پر کہ انبیاء کے پاس آچکے اور اللہ کی حجت ان پر پوری ہوئی میں جواب میں کہا نہیں نہیں بلکہ یہ چیز پہلے سے فیصل شدہ ہے اور مقدر ہوچکی ہے حضرت عمران نے کہا پھر یہ طلم تو نہ ہوگا میں تو اسے سن کر کانپ اٹھا اور گھبرا کر کہا کہ ہر چیز کا خالق مالک وہی اللہ ہے تمام ملک اسی کے ہاتھ میں ہے اس کے افعال کی باز پرس کوئی نہیں کرسکتا وہ سب سے سوال کرسکتا ہے میرا یہ جواب سن کر حضرت عمران بہت خوش ہوئے اور کہا اللہ تجھے دسرتگی عنایت فرمائے میں نے تو یہ سوالات اسی لیے کئے تھے کہ امتحان ہوجائے، سنو ایک شخص مزینہ جھینہ قبیلے کا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہی سوال کیا جو میں نے پہلے تم سے کیا اور حضور ﷺ نے بھی وہی جواب دیا جو تم نے دیا تو اس نے کہا پھر ہمارے اعمال سے کیا ؟ آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ جس کسی کو اللہ تبارک وتعالیٰٰ نے جس منزل کے لیے پیدا کیا ہے اس سے ویسے ہی کام ہو کر رہیں گے اگر جنتی ہے تو اعمال جنت اور دوزخی لکھا گیا ہے تو ویسے ہی اعمال اس پر آسان ہوں گے سنو قرآن میں اس کی تصدیق موجود ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ونفس وما سواھا فالھمھا فجورھا وتقوٰھایہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے، مسند احمد میں بھی ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور بامراد ہوا، یعنی اطاعت رب میں لگا رہا نکنکمے اعمال رذیل اخلاق چھوڑ دئیے جیسے اور جگہ ہے قد افلح من تزکی وذکرا سم ربٖہ فصلی جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام دیا کیا پھر نماز پڑھی اس نے کامیابی پالی اور جس نے اپنے ضمیر کا ستیاناس کیا اور ہدایت سے ہٹا کر اسے برباد کیا، نافرمانیوں میں پڑگیا اطاعت اللہ کو چھوڑ بیٹھا یہ ناکام اور نامراد ہوا۔ اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جس کے نفس کو اللہ تعالیٰ نے پاک کیا اور بامراد ہوا اور جس کے نفس کو اللہ نے نیچے گرادیاوہ برباد، خائب اور خاسر رہا، عوفی اور علی بن ابو طلحہ حضرت ابن عباس سے یہی روایت کرتی ہیں ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے آیت قد افلح من زکھا پڑھ کر فرمایا کہ جس نفس کو اللہ نے پاک کیا اس نے چھٹکارا پالیا لیکن اس حدیث میں ایک علت تو یہ ہے کہ جویبربن سعید متروک الحدیث ہے دوسری علت یہ ہے کہ ضحاک جو حضرت عبداللہ سے روایت کرتے ہیں ان کی ملاقات ثابت نہیں، طبرانی کی حدیث میں ہے کہ فالھمھا فجورھا وتقوٰھاپڑھ کر آپ نے یہ دعا پڑھی اللھم ائت نفسی تقوٰھا انت ولیھا ومولاھا وخیر من زکاھا ابن ابی حاتم کی حدیث میں یہ دعا یوں وارد ہوئی ہے اللھم ائت نفسی تقوٰھا وزکھا انت خیر من زکاھا انت ولیھا ومولاھاکم سند احمد کی حدیث میں ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رات کو ایک مرتبہ میری آنکھ کھلی میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ اپنے بستر پر نہیں اندھیرے کی وجہ سے میں گھر میں اپنے ہاتھوں سے ٹٹولنے لگی تو یرے ہاتھ آپ پر پڑے آپ اس وقت سجدے میں تھے اور یہ دعا پڑھ رہے تھے رب اعط نفسی تقوٰھا وزکھا انت خیر من زکاھا انت ولیھا ومولاھاکیہ حدیث صرف مسھد احمد میں ہی ہے، مسلم شریف اور مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا مانگتے تھے اللھم انی اعو ذبک من العجز والکسل والھرم والجبن والبخل و عذاب القبر اللھم ائت نفسی تقوھا وزکھا انت خیر من زکاھا انت ولیھا ومولاھا اللھم انی اوذبک من قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع وعلم لا ینفع ودعوۃ لا یستجاب لھا کیا اللہ میں عاجزی، بےچارگی، سستی تھکاوٹ بڑھاپے نامردی سے اور بخیلی اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ میرے دل کو اس کا تقویٰ عطا فرما اور اسے پاک کر دے تو ہی اسے بہتر پاک کرنے والا ہے تو ہی اس کا والی اور مولیٰ ہے، اے اللہ مجھے ایسے دل سے بچا جس میں تیرا ڈر نہ ہو اور ایسے نفس سے بچا جو آسودہ نہ ہو اور ایسے علم سے بچا جو نفع نہ دے اور ایسی دعا سے بچا جو قبول نہ کی جائے، راوی حدیث میں حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلعم نے ہمیں یہ دعا سکھائی اور ہم تمہیں سکھاتے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 10{ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰٹہَا۔ } ” اور ناکام ہوگیا جس نے اسے مٹی میں دفن کردیا۔ “ یہ اس سورت کا مرکزی مضمون ہے۔ ان دو آیات میں انتہائی اختصار کے ساتھ انسان کی حقیقی کامیابی اور ناکامی کا معیار بیان کردیا گیا ہے۔ دَسَّ یَدُسُّ کے معنی کسی چیز کو مٹی میں دفن کردینے کے ہیں۔ سورة النحل آیت 59 میں ہم پڑھ چکے ہیں : { اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ھُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِط } اس آیت میں قبل از اسلام زمانے کے عربوں کی ایک خاص ذہنیت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے جس شخص کے گھر بیٹی پیدا ہوتی ہے وہ یا تو اسے ذلت آمیز طریقے سے زندہ رکھتا ہے یا زندہ دفن کردیتا ہے۔ یہاں ” دَسّٰی “ دراصل دَسَّسَ باب تفعیل ہے ‘ اس کے آخری سین کو یا سے بدل دیا گیا ہے۔ تو جس انسان نے اپنے نفس کو مٹی میں دفن کردیا اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ جس نے اپنی روح کو اپنے خاکی وجود کے اندر دبا دیا۔ یعنی جس کی حیوانی خواہشات و شہوات اس کی روح پر غالب آگئیں تو وہ ناکام رہا۔ البتہ جیسا کہ سورة الاعلیٰ کے مطالعہ کے دوران بھی نشان دہی کی گئی ہے ‘ زیر مطالعہ سورتوں کے مضامین میں سے اکثر کا تعلق سورة الاعلیٰ کے مضامین کے ساتھ ہے۔ چناچہ سورة الاعلیٰ میں { قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی۔ } کے الفاظ میں جو مضمون انتہائی مختصر انداز میں آیا تھا ‘ یوں سمجھیں کہ اب آیات زیر مطالعہ میں اس مضمون کی مزید تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اس مضمون پر قسموں کی صورت میں یہاں مزید گواہیاں بھی لائی گئی ہیں اور زیر مطالعہ آیت کے الفاظ { وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰٹہَا۔ } میں تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھایا گیا ہے۔ دراصل انسان کا نفس اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اس امانت کو پاک صاف رکھنا اس کی ذمہ داری ہے۔ نفس کو پاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ‘ یعنی اپنی شخصیت کو تمام رذائل اور باطنی بیماریوں سے پاک کر کے بہترین انسانی خوبیوں کا مرقع بنائے۔ اس کے لیے ہمارے ہاں عام طور پر تزکیہ نفس ‘ تعمیر ِسیرت ‘ تعمیر خودی وغیرہ اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی نظر میں کامیاب انسان وہی ہے جو اپنے نفس کو پاک کرنے اور پاک رکھنے میں کامیاب ہوگیا ‘ خواہ دنیا والوں کی نظروں میں وہ حقیر ‘ فقیر اور بےنام ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے برعکس جس انسان نے اپنے نفس کو رذائل و خبائث سے آلودہ کرلیا ‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ناکام ہے ‘ دنیا میں خواہ وہ غیر معمولی عزت ‘ شہرت اور دولت کا مالک ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ اصل اور حقیقی کامیابی اور ناکامی کا تعلق انسان کے ظاہر سے نہیں بلکہ اس کی ” ذات “ سے ہے۔ انسان کی ” ذات “ سے کیا مراد ہے ؟ فرائڈ نے اسے انسان کی self اَنا کا نام دیا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنی self کو id اور libido کے تسلط سے آزاد کرا کے اسے مثبت انداز میں ترقی دے۔ علامہ اقبال نے اسے خودی کا نام دیا ہے اور انسان کی ” کامیابی “ کو اس کی خودی کی تعمیر و ترقی سے مشروط کیا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ انسان محض ایک جسم یا ہاتھ پائوں ‘ سر ‘ دھڑ وغیرہ کے مجموعے کا نام نہیں ہے۔ انسان کہتا ہے میرا ہاتھ ‘ میرا پائوں ‘ میرا سر وغیرہ۔ یہ تمام اعضاء بیشک اس کے ہیں ‘ لیکن وہ انسان جو ان اعضاء کو اپنا بتارہا ہے وہ خود کیا ہے ؟ اور کہاں ہے ؟ ظاہر ہے اصل انسان اس جسم یا وجود کے اندر ہے۔ اس کو ایسے سمجھیں کہ جس طرح آم کی گٹھلی کے اندر آم کا پورا درخت موجود ہے ‘ اسی طرح انسانی جسم کے اندر اصل انسان ایک لطیف شخصیت کی صورت میں موجود ہے۔ یہ لطیف شخصیت عبارت ہے اس روح سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے حیوانی یا خاکی وجود کے اندر پھونکی ہے : { وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ } الحجر : 29۔ روح یا انسان کی انا کا ذکر اپنشد کے اس فقرے میں بھی ہے ‘ جس کا حوالہ میں پہلے بھی دے چکا ہوں : Man in his ignorance identifies himself with the material sheeths that encompass his real self.گویا انسان کی self یا انا یا خودی یا روح اس کے حیوانی وجود کی مٹی کے اندر دفن ایک خزانہ ہے۔ اب جو انسان اس خزانے کو مٹی سے نکال کر کام میں لے آئے گا ‘ یعنی اپنی روح کو صیقل کرلے گا ‘ اس کا نفس پاک ہوجائے گا روح کی پاکیزگی نفس کی پاکیزگی کا باعث بنتی ہے۔ دونوں کا تعلق انسان کے باطن سے ہے اور وہ کامیابی یا فلاح کے راستے پر گامزن ہوجائے گا۔ فلاح کا لفظ قرآن مجید میں ایک جامع اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اس اصطلاح کے مفہوم کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورة المؤمنون کی پہلی آیت کی تشریح۔ زیر مطالعہ آیات کے حوالے سے یہ نکتہ خصوصی طور پر پیش نظر رہنا چاہیے کہ انسان کی روح اور اس کا نفس دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ان آیات میں انسانی روح کا نہیں بلکہ انسانی نفس کا ذکر ہوا ہے۔ روحِ انسانی دراصل عالم امر کی چیز ہے اور یہ معرفت خداوندی اور محبت خداوندی کی امین ہے ‘ جبکہ نفس انسانی کا تعلق عالم خلق سے ہے۔ اسی لیے اس کے ذکر سے پہلے جن چیزوں کی یہاں قسمیں کھائی گئی ہیں ان سب سورج ‘ چاند ‘ دن ‘ رات ‘ آسمان ‘ زمین کا تعلق بھی عالم خلق سے ہے۔ روح تمام مخلوقات میں سے صرف انسان کو عطا ہوئی ہے ‘ جبکہ نفس گدھے ‘ گھوڑے اور چمپنیزی وغیرہ سب جانوروں میں ہوتا ہے۔ البتہ انسان کی خصوصیت اس حوالے سے یہ ہے کہ دوسرے جانوروں کے مقابلے میں نفس انسانی کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی ارتقائی درجات سے نوازا ہے اور اس کے اندر اخلاقی حس اور نیکی و بدی کی وہ تمیز الہام کردی ہے جو دوسرے جانوروں کے نفس میں نہیں پائی جاتی۔ اسی حس اور تمیز کی وجہ سے انسانی فطرت آفاقی سطح پر نیکی کو اچھا اور بدی کو برا سمجھتی ہے۔ دنیا میں کسی معاشرے ‘ کسی مذہب اور کسی نسل کا انسان ہو وہ سچ بولنے کو اچھا اور جھوٹ بولنے کو برا سمجھتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن میں معروف اور منکر کی اصطلاحات کثرت سے استعمال ہوتی ہیں۔ معروف وہ چیزیں یا افعال یا اعمال ہیں جو نفس انسانی کے لیے مانوس ہیں۔ انہیں دیکھ کر یا اپنا کر نفس انسانی کو راحت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں منکرات وہ چیزیں یا اعمال یا افعال ہیں جنہیں نفس انسانی برا سمجھتا ہے اور جن کی صحبت و معیت میں وہ اجنبیت اور کوفت محسوس کرتا ہے ‘ بلکہ وہ انسان کو ایسے اعمال و افعال سے ٹوکتا ہے۔ اسی لیے انسان غلطی کرنے کے بعد اکثر یہ کہتا پایا جاتا ہے کہ ” میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے “ my conscience is pinching me۔ نفس انسانی کی اسی خصوصیت کی وجہ سے سورة القیامہ کی آیت 2 میں اسے نفس لوامہ ملامت کرنے والا نفس کا نام دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے آیات زیر مطالعہ کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ نفس انسانی کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی اور بدی کی تمیز کا بنیادی بیج ڈال دیا گیا ہے۔ اب انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اس بیج کی حفاظت کرے ‘ اسے سازگار ماحول فراہم کرے اور عمل صالح کے پانی سے اس کی آبیاری کرے۔ سورة فاطر آیت 10 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗط } کہ کسی بھی اچھی بات یا اچھے کلام میں اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن عمل صالح اس کی اس صلاحیت کو اور بڑھا دیتا ہے۔ چناچہ انسان جب تزکیہ نفس اور اعمالِ صالحہ کے حوالے سے محنت کرے گا تو اسے ایمان کی حلاوت بھی نصیب ہوگی ‘ وہ ایمان کے ان ثمرات سے بھی بہرہ مند ہوگا جن کا ذکر ہم سورة التغابن میں پڑھ آئے ہیں اور اسے کامیابی کی ضمانت بھی ملے گی۔ اس کے برعکس جس انسان نے اپنے نفس کو حیوانی وجود کے تابع کیے رکھا اور وہ اس کی آواز کو دبا کر زندگی بھر جسمانی تقاضے پورے کرنے میں لگا رہا وہ گویا خائب و خاسر ہو کر رہ گیا۔ اب اگلی آیات میں ایک قوم یا ایک معاشرے کے اجتماعی ضمیر کے حوالے سے ایک مثال دی گئی ہے۔ ظاہر ہے جس طرح ایک انسان کے اندر نیکی اور بدی کی تمیز ہوتی ہے اسی طرح ہر معاشرے میں اجتماعی طور پر بھی اخلاقی حس پائی جاتی ہے ‘ اور جس طرح ایک انسان میں اچھے برے داعیات ہوتے ہیں اسی طرح ہر معاشرے کے اندر بھی نیکی کے علمبردار اور شر پھیلانے والے عناصر موجود ہوتے ہیں۔ غرض جس طرح ایک فرد کا ضمیر ہوتا ہے اسی طرح معاشروں اور قوموں کا اجتماعی ضمیر بھی ہوتا ہے۔ چناچہ اگر کسی قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہو ‘ اس کی صفوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ احسن طریقہ سے ادا کیا جا رہا ہو تو اس قوم کے مجموعی حالات بہتر طور پر چلتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر کسی قوم کا اجتماعی ضمیر مردہ ہوجائے اور اس کی اخلاقی حس بحیثیت مجموعی اس قدر کمزور ہوجائے کہ اس کے ماحول میں برائی کو برائی کہنے والا بھی کوئی نہ رہے تو ایسی قوم اپنے زندہ رہنے کا جواز کھو دیتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں اسی اجتماعی بےحسی کی تصویر پیش کی ہے : ؎وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ! اس حوالے سے اب ملاحظہ ہو قوم ثمود کی مثال :
Surah shams Ayat 10 meaning in urdu
اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اناج جس کے ساتھ بھس ہوتا ہے اور خوشبودار پھول
- اور ہمارے نزدیک منتخب اور نیک لوگوں میں سے تھے
- اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا۔ بےشک باطل نابود ہونے والا
- لوگو خدا کے جو تم پر احسانات ہیں ان کو یاد کرو۔ کیا خدا کے
- اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے (خدا سے) پانی مانگا تو ہم نے
- کیا جو باتیں موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں ان کی اس کو خبر نہیں پہنچی
- اور ہم نے بہت سی بستیوں کو جو ستمگار تھیں ہلاک کر مارا اور ان
- اور اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے مجھ پر ہاتھ چلائے گا تو میں
- اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے
- جس وقت وہ ان کو دور سے دیکھے گی (تو غضبناک ہو رہی ہوگی اور
Quran surahs in English :
Download surah shams with the voice of the most famous Quran reciters :
surah shams mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter shams Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers