Surah rahman Ayat 18 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ﴾
[ الرحمن: 18]
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
Surah rahman UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
انسان اور جنات کی پیدائش میں فرق یہاں بیان ہو رہا ہے کہ انسان کی پیدائش بجنے والی ٹھیکری جیسی مٹی سے ہوئی ہے اور جنات کی پیدائش آگ کے شعلے سے ہوئی ہے جو خالص اور احسن تھا مسند کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں فرشتے نور سے جنات نار سے اور انسان اس مٹی سے جس کا ذکر تمہارے سامنے ہوچکا ہے پیدا کئے گئے ہیں پھر اپنی کسی نعمت کے جھٹلانے کی ہدایت کر کے فرماتا ہے جاڑے اور گرمی کے دو سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے مقامات کا رب اللہ ہی ہے دو سے مراد سورج نکلنے اور ڈوبنے کی دو مختلف جگہیں ہیں کہ وہاں سے سورج چڑھتا اترتا ہے اور موسم کے لحاظ سے یہ بدلتی جگہیں رہتی ہیں ہر دن انقلاب لاتا ہے جیسے دوسری آیت میں مشرق و مغرب کا رب وہی ہے تو اسی کو اپنا وکیل سمجھ تو یہاں مراد جنس مشرق و مغرب ہے اور دوسری مشرق مغرب سے مراد طلوع و غرب کی دو جگہ ہیں، اور چونکہ طلوع و غروب کی جگہ کے جدا جدا ہونے میں انسانی منفعت اور اس کی مصلحت بینی تھی اس لئے پھر فرمایا کہ کیا اب بھی تم اپنے رب کی نعمتوں کے منکر ہی رہو گے ؟ اس کی قدرت کا مظاہرہ دیکھو کہ دو سمندر برابر چل رہے ہیں ایک کھاری پانی کا ہے دوسرا میٹھے پانی کا لیکن نہ اس کا پانی اس میں مل کر اسے کھاری کرتا ہے نہ اس کا میٹھا پانی اس میں مل کر اسے میٹھا کرسکتا ہے بلکہ دونوں اپنی رفتار سے چل رہے ہیں دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے نہ وہ اس میں مل سکے نہ وہ اس میں جاسکے یہ اپنی حد میں ہے وہ اپنی حد میں اور قدرتی فاصلہ انہیں الگ الگ کئے ہوئے ہے حالانکہ دونوں پانی ملے ہوئے ہیں۔ سورة فرقان کی آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ۚ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا 53 ) 25۔ الفرقان:53) ، کی تفسیر میں اس کی پوری تشریح گذر چکی ہے امام ابن جریر یہ بھی فرماتے ہیں کہ آسمان میں جو پانی کا قطرہ ہے اور صدف جو زمین کے دریا میں ہے ان دونوں سے مل کر لؤلؤ پیدا ہوتا ہے واقعہ تو یہ ٹھیک ہے لیکن اس آیت کی تفسیر اس طرح کرنی کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتی اس لئے کہ آیت میں ان دونوں کے درمیان برزخ یعنی آڑ کا ہونا بیان فرمایا گیا ہے جو اس کو اس سے اور اس کو اس سے روکے ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں زمین میں ہی ہیں بلکہ ایک دوسرے سے لگے لگے چلتے ہیں مگر قدرت انہیں جدا رکھتی ہے آسمان و زمین کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ برزخ اور حجر نہیں کہا جاتا اس لئے صحیح قول یہی ہے کہ یہ زمین کے دو دریاؤں کا ذکر ہے نہ کہ آسمان اور زمین کے دریا کا۔ ان دونوں میں سے یعنی دونوں میں سے ایک میں سے۔ جیسے اور جگہ جن و انس کو خطاب کر کے سوال ہوا ہے کہ کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ ظاہر ہے کہ رسول صرف انسان میں سے ہی ہوئے ہیں جنات میں کوئی جن رسول نہیں آیا تو جیسے یہاں اطلاع صحیح ہے حالانکہ وقوع ایک میں ہی ہے اسی طرح اس آیت میں بھی اطلاق دونوں دریا پر ہے اور وقوع ایک میں ہی ہے لؤلؤ یعنی موتی کو کہتے ہیں کہ اور کہا گیا ہے کہ بہترین اور عمدہ موتی کو مرجان کہتے ہیں بعض کہتے ہیں سرخ رنگ جواہر کو کہتے ہیں، بعض کہتے ہیں سرخ مہرے کا نام ہے اور آیت میں ہے ( وَمِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحـْـمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 12 ) 35۔ فاطر:12) یعنی تم ہر ایک میں سے نکلا ہوا گوشت کھاتے ہو جو تازہ ہوتا ہے اور پہننے کے زیور نکالتے ہو تو خیر مچھلی تو کھاری اور میٹھے دونوں پانی سے نکلتی ہے اور موتی مونگے صرف کھاری پانی میں سے نکلتے ہیں میٹھے میں سے نہیں نکلتے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ آسمان کا جو قطرہ سمندر کی سیپ کے منہ میں سیدھا جاتا ہے وہ لؤلؤ بن جاتا ہے اور جب صدف میں نہیں جاتا تو اس سے عنبر پیدا ہوتا ہے مینہ برستے وقت سیپ اپنا منہ کھول دیتی ہے پس اس نعمت کو بیان فرما کر پھر دریافت فرماتا ہے کہ ایسی ہی بیشمار نعمتیں جس رب کی ہیں تم بھلا کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے ؟ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ سمندر میں چلنے والے بڑے بڑے بادبانوں والے جہاز جو دور سے نظر پڑتے ہیں اور پہاڑوں کی طرح کھڑے دکھائی دیتے ہیں جو ہزاروں من مال اور سینکڑوں انسانوں کو ادھر سے ادھر لے آتے ہیں یہ بھی تو اس اللہ کی ملکیت میں ہیں اس عالیشان نعمت کو یاد دلا کر پھر پوچھتا ہے کہ اب بتاؤ انکار کئے کیسے بن آئے گی ؟ حضرت عمیری بن سوید فرماتے ہیں میں اللہ کے شیر حضرت علی مرتضٰی کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے پر تھا ایک بلند وبالا بڑا جہاز آ رہا تھا اسے دیکھ کر آپ نے اس کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے پہاڑوں جیسی ان کشتیوں کو امواج سمندر میں جاری کیا ہے نہ میں نے عثمان غنی کو قتل کیا نہ ان کے قتل کا ارادہ کیا نہ قاتلوں کے ساتھ شریک ہوا نہ ان سے خوش نہ ان پر نرم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 18 { فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ } ” تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟ “
Surah rahman Ayat 18 meaning in urdu
پس اے جن و انس، تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو جھٹلاؤ گے؟
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- ان میں ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے فائدے ہیں پھر ان کو خانہٴ قدیم
- اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو خدا
- اور ہماری مخلوقات میں سے ایک وہ لوگ ہیں جو حق کا رستہ بتاتے ہیں
- جو خوف رکھتا ہے وہ تو نصیحت پکڑے گا
- جو لوگ پرہیزگار اور برے کاموں سے بےخبر اور ایمان دار عورتوں پر بدکاری کی
- تمہارے لیے دو گروہوں میں جو (جنگ بدر کے دن) آپس میں بھڑ گئے (قدرت
- کہہ دو کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آیا۔ اور میں نہیں جانتا کہ میرے
- جو نماز کی طرف سے غافل رہتے ہیں
- اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا۔ (کیونکہ) ان کو اور
- اور یہ (قرآن) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے اور (لوگو) تم
Quran surahs in English :
Download surah rahman with the voice of the most famous Quran reciters :
surah rahman mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter rahman Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers