Surah yusuf Ayat 100 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ﴾
[ يوسف: 100]
اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب یوسفؑ کے آگے سجدہ میں گر پڑے اور (اس وقت) یوسف نے کہا ابا جان یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے (بچپن میں) دیکھا تھا۔ میرے پروردگار نے اسے سچ کر دکھایا اور اس نے مجھ پر (بہت سے) احسان کئے ہیں کہ مجھ کو جیل خانے سے نکالا۔ اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا۔ آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بےشک میرا پروردگار جو چاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے۔ وہ دانا (اور) حکمت والا ہے
Surah yusuf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ سوتیلی ماں اور سگی خالہ تھیں کیونکہ یوسف ( عليه السلام ) کی حقیقی ماں بنیامین کی ولادت کے بعد فوت ہوگئی تھیں۔ حضرت یعقوب ( عليه السلام ) نے اس کی وفات کے بعد اس کی ہمشیرہ سے نکاح کر لیا تھا یہی خالہ اب حضرت یعقوب ( عليه السلام ) کے ساتھ مصر میں گئی تھیں ( فتح القدیر ) لیکن امام ابن جریرطبری نے اس کے برعکس یہ کہا ہے کہ یوسف ( عليه السلام ) کی والدہ فوت نہیں ہوئی تھیں اور وہی حقیقی والدہ تھیں۔ ( ابن کثیر )
( 2 ) بعض نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ ادب و تعظیم کے طور پر یوسف ( عليه السلام ) کے سامنے جھک گئے۔ لیکن «وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا» ( یوسف:100 ) کے الفاظ بتلاتے ہیں کہ وہ زمین پر یوسف ( عليه السلام ) کے سامنے سجدہ ریز ہوئے، یعنی یہ سجدہ، سجدہ ہی کے معنی میں ہے۔ تاہم یہ سجدہ، سجدہ تعظیمی ہے سجدہ عبادت نہیں اور سجدہ تعظیمی حضرت یعقوب ( عليه السلام ) کی شریعت میں جائز تھا۔ اسلام میں شرک کے سد باب کے لئے سجدہ تعظیمی کو بھی حرام کر دیا گیا ہے، اور اب سجدہ تعظیمی بھی کسی کے لئے جائز نہیں۔
( 3 ) یعنی حضرت یوسف ( عليه السلام ) نے جو خواب میں دیکھا تھا اتنی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بالآخر اس کی تعبیر سامنے آئی کہ اللہ تعالٰی نے حضرت یوسف ( عليه السلام ) کو تخت شاہی پر بٹھایا اور والدین سمیت تمام بھائیوں نے اسے سجدہ کیا۔
( 4 ) اللہ کے احسنات میں کنویں سے نکلنے کا ذکر نہیں کیا تاکہ بھائی شرمندہ نہ ہوں۔ یہ اخلاق نبوی ہے۔
( 5 ) مصر جیسے متمدن علاقے کے مقابلے میں کنعان کی حیثیت ایک صحرا کی تھی، اس لئے اسے بَدُوْ سے تعبیر کیا۔
( 6 ) یہ بھی اخلاق کریمانہ کا ایک نمونہ کہ بھائیوں کو ذرا مورد الزام نہیں ٹھہرایا اور شیطان کو اس کارستانی کا باعث قرار دیا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بھائیوں پر حضرت یوسف ؑ نے اپنے آپ کو ظاہر کر کے فرمایا تھا کہ ابا جی کو اور گھر کے سب لوگوں کو یہیں لے آؤ۔ بھائیوں نے یہی کیا، اس بزرگ قافلے نے کنعان سے کوچ کیا جب مصر کے قریب پہنچے تو نبی اللہ حضرت یوسف ؑ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ یہ بھی مروی ہے کہ خود شاہ مصر بھی استقبال کے لئے چلے اور حکم شاہی سے شہر کے تمام امیر امرا اور ارکان دولت بھی آپ کے ساتھ تھے۔ یہ مروی ہے کہ خود شاہ مصر بھی استقبال کے لئے شہر سے باہر آیا تھا۔ اس کے بعد جو جگہ دینے وغیرہ کا ذکر ہے اس کی بابت بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس کی عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے یعنی آپ نے ان سے فرمایا تم مصر میں چلو، انشاء اللہ پر امن اور بےخطر رہو گے اب شہر میں داخلے کے بعد آپ نے اپنے والدین کو اپنے پاس جگہ دی اور انہیں اونچے تخت پر بٹھایا۔ لیکن امام ابن جریر ؒ نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں سدی ؒ کا قول بالکل ٹھیک ہے جب پہلے ہی ملاقات ہوئی تو آپ نے انہیں اپنے پاس کرلیا اور جب شہر کا دروازہ آیا تو فرمایا اب اطمینان کے ساتھ یہاں چلئے۔ لیکن اس میں بھی ایک بات رہ گئی ہے۔ ایوا اصل میں منزل میں جگہ دینے کو کہتے ہیں جیسے اوؤ الیہ احاہ میں ہے۔ اور حدیث میں بھی ہے من اوی محدثا پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کا مطلب یہ بیان نہ کریں کہ ان کے آجانے کے بعد انہیں جگہ دینے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا کہ تم امن کے ساتھ مصر میں داخل ہو یعنی یہاں قحط وغیرہ کی مصیبتوں سے محفوظ ہو کر با آرام رہو سہو، مشہور ہے کہ اور جو قحط سالی کے سال باقی تھے، وہ حضرت یعقوب ؑ کی تشریف آوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دور کر دئے۔ جیسے کہ اہل مکہ کی قحط سالی سے تنگ آکر ابو سفیان نے آپ سے شکایت کی اور بہت روئے پیٹے اور سفارش چاہی۔ عبد الرحمن کہتے ہیں حضرت یوسف ؑ کی والدہ کا تو پہلے ہی انتقال ہوچکا تھا۔ اس وقت آپ کے والد صاحب کے ہمراہ آپ کی خالہ صاحبہ آئی تھیں۔ لیکن امام ابن جریر اور امام محمد بن اسحاق ؒ کا قول ہے کہ آپ کی والدہ خود ہی زندہ موجود تھیں، ان کی موت پر کوئی صحیح دلیل نہیں اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ اس بات کو چاہتے ہیں کہ آپ کی والدہ ماجدہ زندہ موجود تھیں، یہی بات ٹھیک بھی ہے۔ آپ نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ تخت شاہی پر بٹھا لیا۔ اس وقت ماں باپ بھی اور گیارہ بھائی کل کے کل آپ کے سامنے سجدے میں گرپڑے۔ آپ نے فرمایا ابا جی لیجئے میرے خواب کی تعبیر ظاہر ہوگئی یہ ہیں گیارہ ستارے اور یہ ہیں سورج چاند جو میرے سامنے سجدے میں ہیں۔ ان کی شرع میں یہ جائز تھی کہ بڑوں کو سلام کے ساتھ سجدہ کرتے تھے بلکہ حضرت آدم ؑ سے حضرت عیسیٰ ؑ تک یہ بات جائز ہی رہی لیکن اس ملت محمدیہ میں اللہ تبارک وتعالی نے کسی اور کے لئے سوائے اپنی ذات پاک کے سجدے کو مطلقا حرام کردیا۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی نے اسے اپنے لئے ہی مخصوص کرلیا۔ حضرت قتادہ ؒ وغیرہ کے قول کا ماحصل مضمون یہی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت معاذ ؓ ملک شام گئے، وہاں انہوں نے دیکہا کہ شامی لوگ اپنے بڑوں کو سجدے کرتے ہیں یہ جب لوٹے تو انہوں نے حضور ﷺ کو سجدہ کیا، آب نے پوچھا، معاذ یہ کیا بات ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ میں نے اہل شام کو دیکھا کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہیں تو آپ تو اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ آپ نے فرمایا اگر میں کسی کے لئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے۔ بہ سبب اس کے بہت بڑے حق کے جو اس پر ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ حضرت سلمان ؓ نے اپنے اسلام کے ابتدائی زمانے میں راستے میں حضور ﷺ کو دیکھ کر آپ کے سامنے سجدہ کیا تو آپ نے فرمایا سلمان مجھے سجدہ نہ کرو۔ سجدہ اس اللہ کو کرو جو ہمیشہ کی زندگی والا ہے جو کبہی نہ مرے گا۔ الغرض چونکہ اس شریعت میں جائز تھا اس لئے انہوں نے سجدہ کیا تو آپ نے فرمایا لیجئے ابا جی میرے خواب کا ظہور ہوگیا۔ میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا۔ اس کا انجام ظاہر ہوگیا۔ چناچہ اور آیت میں قیامت کے دن کے لئے بھی یہی لفظ بولا گیا ہے آیت ( یوم یاتی تاویلہ ) پس یہ بھی اللہ کا مجھ پر ایک احسان عظیم ہے کہ اس نے میرے خواب کو سچا کر دکھایا اور جو میں نے سوتے سوتے دیکھا تھا، الحمد للہ مجھے جاکنے میں بھی اس نے دکھا دیا۔ اور احسان اس کا یہ بھی ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نجات دی اور تم سب کو صحرا سے یہاں لا کر مجھ سے ملا دیا۔ آپ چونکہ جانوروں کے پالنے والے تھے، اس لئے عموما بادیہ میں ہی قیام رہتا تھا، فلسطین بھی شام کے جنگلوں میں ہے اکثر اوقات پڑاؤ رہا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ اولاج میں حسمی کے نیچے رہا کرتے تھے اور مویشی پالتے تھے، اونٹ بکریاں وغیرہ ساتھ رہتی تھیں۔ بھر فرماتے ہیں اس کے بعد کہ شیطان نے ہم میں پھوٹ ڈلوا دی تھی، اللہ تعالیٰ جس کام کا ارادہ کرتا ہے، اس کے ویسے ہی اسباب مہیا کردیتا ہے اور اسے آسان اور سہل کردیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں کو خوب جانتا ہے اپنے افعال اقوال قضا و قدر مختار و مراد میں وہ باحکمت ہے۔ سلیمان کا قول ہے کہ خواب کے دیکھنے اور اس کی تاویل کے ظاہر ہونے میں چالیس سال کا وقفہ تھا۔ عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں خواب کی تعبیر کے واقع ہونے میں اس سے زیادہ زمانہ لگتا بھی نہیں یہ آخری مدت ہے۔ حضرت حسن ؒ سے روایت ہے کہ باپ بیٹے اسی برس کے بعد ملے تم خیال تو کرو کہ زمین پر حضرت یعقوب ؑ سے زیادہ اللہ کا کوئی محبوب بندہ نہ تھا۔ پھر بھی اتنی مدت انہیں فراق یوسف میں گزری، ہر وقت آنکھوں سے آنسو جاری رہتے اور دل میں غم کی موجیں اٹھتیں اور روایت میں ہے کہ یہ مدت تراسی سال کی تھی۔ فرماتے ہیں جب حضرت یوسف ؑ کنویں میں ڈالے گئے اس وقت آپ کی عمر سترہ سال کی تھی۔ اسی برس تک آپ باپ کی نظروں سے اوجھل رہے۔ پھر ملاقات کے بعد تیئس برس زندہ رہے اور ایک سو بیس برس کی عمر میں انتقال کیا۔ بقول قتادہ ؒ ترپن برس کے بعد باپ بیٹا ملے۔ ایک قول ہے کہ اٹھارہ سال ایک دوسرے سے دور رہے اور ایک قول ہے کہ چالیس سال کی جدائی رہی اور پھر مصر میں باپ سے ملنے کے بعد سترہ سال زندہ رہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ بنو اسرائیل جب مصر پہنچے ہیں ان کی تعداد صرف تریسٹھ کی تھی اور جب یہاں سے نکلے ہیں اس وقت ان کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار کی تھی۔ مسروق کہتے ہیں آنے کے وقت یہ مع مرد و عورت تین سو نوے تھے، عبداللہ بن شداد کا قول ہے کہ جب یہ لوگ آئے کل چھیاسی تھے یعنی مرد عورت بوڑھے بچے سب ملا کر اور جب نکلے ہیں اس وقت ان کی گنتی چھ لاکھ سے اوپر اوپر تھی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 100 وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًایہ سجدۂ تعظیمی تھا جو پہلی شریعتوں میں جائز تھا۔ شریعت محمدی میں جہاں دین کی تکمیل ہوگئی وہاں توحید کا معاملہ بھی آخری درجے میں تکمیل کو پہنچا دیا گیا۔ چناچہ یہ سجدۂ تعظیمی اب حرام مطلق ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں یا قبروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ صریح شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ سابقہ انبیاء کرام کے حالات و واقعات سے آج اس کے لیے کوئی دلیل اخذ کرنا قطعاً درست نہیں۔وَقَالَ يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ حضرت یوسف کے اس خواب کا ذکر آیت 4 میں ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ اس میں گیارہ بھائی ستاروں کی مانند جبکہ والدین سورج اور چاند کے حکم میں ہیں۔وَجَاۗءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ آپ لوگوں کو صحرا کی پر مشقت زندگی سے نجات دلا کر یہاں مصر کے متمدن اور ترقی یافتہ ماحول میں پہنچا دیا ‘ جہاں زندگی کی ہر سہولت میسر ہے۔ اِنَّ رَبِّيْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق باریک بینی سے تدبیر کرتا ہے اور اس کی تدبیر بالآخر کامیاب ہوتی ہے۔ اس کے بعد حضرت یوسف اللہ کے حضور دعا کرتے ہیں :
ورفع أبويه على العرش وخروا له سجدا وقال ياأبت هذا تأويل رؤياي من قبل قد جعلها ربي حقا وقد أحسن بي إذ أخرجني من السجن وجاء بكم من البدو من بعد أن نـزغ الشيطان بيني وبين إخوتي إن ربي لطيف لما يشاء إنه هو العليم الحكيم
سورة: يوسف - آية: ( 100 ) - جزء: ( 13 ) - صفحة: ( 247 )Surah yusuf Ayat 100 meaning in urdu
(شہر میں داخل ہونے کے بعد) اس نے اپنے والدین کو اٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جھک گئے یوسفؑ نے کہا "ابا جان، یہ تعبیر ہے میرے اُس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے حقیقت بنا دیا اس کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے قید خانے سے نکالا، اور آپ لوگوں کو صحرا سے لا کر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا واقعہ یہ ہے کہ میرا رب غیر محسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے، بے شک و ہ علیم اور حکیم ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کی مثال بری ہے اور انہوں
- اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کے پاس جو پیغمبر آتا وہ اس کو جادوگر
- اور کیا اہلِ شہر اس سے نڈر ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے
- (مشرکو!) کیا تمہارے لئے تو بیٹے اور خدا کے لئے بیٹیاں
- ان کو دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت
- جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے۔ اور
- اور خدا کی قسم جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے
- اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس
- اور اگر ہم اس کو کسی غیر اہل زبان پر اُتارتے
- محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور
Quran surahs in English :
Download surah yusuf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah yusuf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter yusuf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers