Surah Anfal Ayat 74 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ﴾
[ الأنفال: 74]
اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی۔ یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے (خدا کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے
Surah Anfal Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
- یہ مہاجرین وانصار کے انہی دو گروہوں کاتذکرہ ہے، جو پہلے بھی گزرا ہے ۔ یہاں دوبارہ ان کا ذکر ان کی فضیلت کے سلسلے میں ہے ۔ جب کہ پہلے ان کا ذکر ہے جو ایک دوسرے کی حمایت ونصرت کا وجوب بیان کرنے کے لئے تھا ۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مہاجر اور انصار میں وحدت مومنوں کا دنیوی حکم ذکر فرما کر اب آخرت کا حال بیان فرما رہا ہے ان کے ایمان کی سچائی ظاہر کر رہا ہے جیسے کہ سورت کے شروع میں بیان ہوا ہے انہیں بخشش ملے گی ان کے گناہ معاف ہوں گے انہیں عزت کی پاک روزی ملے گی جو برکت والی ہمیشگی والی طیب و طاہر ہوگی قسم قسم کی لذیذ عمدہ اور نہ ختم ہونے والی ہوگی۔ ان کی اتباع کرنے والے ایمان و عمل صالح میں ان کا ساتھ دینے والے آخرت میں بھی درجوں میں ان کے ساتھ ہی ہوں گے۔ ( وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ01000 ) 9۔ التوبة:100) اور ( وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ 10ۧ ) 59۔ الحشر:10) میں ہے۔ متفق علیہ بلکہ متواتر حدیث میں ہے کہ انسان اس کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے جو کسی قوم سے محبت رکھے وہ ان میں سے ہی ہے۔ ایک روایت میں ہے اس کا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہوگا۔ مسند احمد کی حدیث گذر چکی ہے کہ مہاجر و انصار آپس میں ایک دوسری کے ولی ہیں فتح مکہ کے بعد مسلمان قریشی اور ثقیف کے آزاد شدہ آپس میں ایک ہیں، قیامت تک یہ سب آپس میں ولی ہیں۔ پھر اولو الارحام کا بیان ہوا یہاں ان سے مراد وہی قرابت دار نہیں جو علماء فرائض کے نزدیک اس نام سے یاد کئے جاتے ہیں یعنی جن کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور جو عصبہ بھی ہوں جیسے خالہ ماموں پھوپھی تو اسے نواسیاں بھانجے بھانجیاں وغیرہ۔ بعض کا یہی خیال ہے آیت سے حجت پکڑتے ہیں اور اسے اس بارے میں صراحت والی بتاتے ہیں۔ یہ نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے تمام قرابت داروں کو شامل ہے جیسے کہ ابن عباس مجاہد عکرمہ حسن قتادہ وغیرہ کہتے ہیں کہ یہ ناسخ ہے آپس کی قسموں پر وارث بننے کی اور بھائی چارے پر وارث بننے کی جو پہلے دستور تھا پس یہ علماء فرائض کے ذوی الارحام کو شامل ہوگی خاص نام کے ساتھ۔ اور جو انہیں وارث نہیں بناتے ان کے پاس کئی دلیلیں ہیں سب سے قوی یہ حدیث ہے کہ اللہ نے ہر حق دار کو اس کا حق دلوادیا ہے پس کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بھی حقدار ہوتے تو ان کے بھی حصے مقرر ہوجاتے جب یہ نہیں تو وہ بھی نہیں واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 74 وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاط لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ یہاں پر مہاجرین اور انصار کے ان دونوں گروہوں کا اکٹھے ذکر کر کے ان مؤمنین صادقین کی خصوصیات کے حوالے سے ایک حقیقی مؤمن کی تعریف definition کے دوسرے رخ کی جھلک دکھائی گئی ہے ‘ جبکہ اس کے پہلے حصے یا رخ کے بارے میں ہم اسی سورت کی آیت 2 اور 3 میں پڑھ آئے ہیں۔ لہٰذا آگے بڑھنے سے پہلے مذکورہ آیات کے مضمون کو ایک دفعہ پھر ذہن میں تازہ کرلیجئے۔ اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ۔۔ ‘ یعنی کلمۂ شہادت ‘ نماز ‘ روزہ ‘ حج اور زکوٰۃ۔ یہ پانچ ارکان مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہیں ‘ لیکن حقیقی مؤمن ہونے کے لیے ان میں دو چیزوں کا مزید اضافہ ہوگا ‘ جن کا ذکر ہمیں سورة الحجرات کی آیت 15 میں ملتا ہے : یقین قلبی اور جہاد فی سبیل اللہ۔ یعنی ایمان میں زبان کی شہادت کے ساتھ یقین قلبیکا اضافہ ہوگا اور اعمال میں نماز ‘ روزہ ‘ حج اور زکوٰۃ کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا۔ گویا یہ سات چیزیں یا سات شرطیں پوری ہوں گی تو ایک شخص بندۂ مؤمن کہلائے گا۔ اس بندۂ مؤمن کی شخصیت کا جو نقشہ اس سورت کی آیت 2 اور 3 میں دیا گیا ہے اس کے مطابق اس کے دل میں یقین والا ایمان ہے ‘ اللہ کی یاد سے اس کا دل لرز اٹھتا ہے ‘ آیات قرآنی پڑھتا ہے یا سنتا ہے تو دل میں ایمان بڑھ جاتا ہے۔ وہ ہر معاملے میں اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ رکھتا ہے ‘ نماز قائم کرتا ہے ‘ زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اِن خصوصیات کے ساتھ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط کی مہر لگا دی گئی اور اس مہر کے ساتھ وہاں پر آیت 4 مؤمن کی شخصیت کا ایک رخ یا ایک صفحہ مکمل ہوگیا۔ اب بندۂ مؤمن کی شخصیت کا دوسرا صفحہ یا رخ آیت زیر نظر میں یوں بیان ہوا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ لازمی شرط کے طور پر اس میں شامل کردیا گیا اور پھر اس پر بھی وہی مہر ثبت کی گئی ہے : اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط چناچہ یہ دونوں رخ مل کر بندۂ مؤمن کی تصویر مکمل ہوگئی۔ ایک شخصیت کی تصویر کے یہ دو رخ ایسے ہیں جن کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دو صفحے ہیں جن سے مل کر ایک ورق بنتا ہے۔ صحابہ کرام رض کی شخصیتوں کے اندر یہ دونوں رخ ایک ساتھ پائے جاتے تھے ‘ مگر جیسے جیسے امت زوال پذیر ہوئی ‘ بندۂ مؤمن کی شخصیت کی خصوصیات کے بھی حصے بخرے کردیے گئے۔ بقول علامہ اقبالؔ : اڑائے کچھ ورق لالے نے ‘ کچھ نرگس نے ‘ کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری آج مسلمانوں کی مجموعی حالت یہ ہے کہ اگر کچھ حلقے ذکر کے لیے مخصوص ہیں تو ان کو جہاد اور فلسفۂ جہاد سے کوئی سروکار نہیں۔ دوسری طرف جہادی تحریکیں ہیں تو ان کو روحانی کیفیات سے شناسائی نہیں۔ لہٰذا آج امت کے دکھوں کے مداوا کرنے کے لیے ایسے اہل ایمان کی ضرورت ہے جن کی شخصیات میں یہ دونوں رنگ اکٹھے ایک ساتھ جلوہ گر ہوں۔ جب تک مؤمنین صادقین کی ایسی شخصیات وجود میں نہیں آئیں گی ‘ جن میں صحابہ کرام رض کی طرح دونوں پہلوؤں میں توازن ہو ‘ اس وقت تک مسلمان امت کی بگڑی تقدیر نہیں سنور سکتی۔ اگرچہ صحابہ کرام رض جیسی کیفیات کا پیدا ہونا تو آج نا ممکنات میں سے ہے ‘ لیکن کسی نہ کسی حد تک ان ہستیوں کا عکس اپنی شخصیات میں پیدا کرنے اور ایک ہی شخصیت کے اندر ان دونوں خصوصیات کا کچھ نہ کچھ توازن پیدا کرنے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے۔ مثلاً ان میں سے ایک کیفیت ایک شخصیت کے اندر 25 فیصد ہو اور دوسری کیفیت بھی 25 فیصد کے لگ بھگ ہو تو قابل قبول ہے۔ اور اگر ایسا ہو کہ روحانی کیفیت تو 70 فیصد ہو مگر جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ صفر ہے یا جہاد کا جذبہ تو 80 فیصد ہے مگر روحانیت کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی تو ایسی شخصیت نظریاتی لحاظ سے غیر متوازن ہوگی۔ بہر حال ایک بندۂ مؤمن کی شخصیت کی تکمیل کے لیے یہ دونوں رخ ناگزیر ہیں۔ ان کو اکٹھا کرنے اور ایک شخصیت میں توازن کے ساتھ جمع کرنے کی آج کے دور میں سخت ضرورت ہے۔
والذين آمنوا وهاجروا وجاهدوا في سبيل الله والذين آووا ونصروا أولئك هم المؤمنون حقا لهم مغفرة ورزق كريم
سورة: الأنفال - آية: ( 74 ) - جزء: ( 10 ) - صفحة: ( 186 )Surah Anfal Ayat 74 meaning in urdu
جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ان کے ساتھ دو اور جوان بھی داخل زندان ہوئے۔ ایک نے ان میں
- حٰم
- وہ زندہ ہے (جسے موت نہیں) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو
- ہاں جو مرد اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کر
- بےشک اس (قصے) میں اہل فراست کے لیے نشانی ہے
- گنہگار اپنے چہرے ہی سے پہچان لئے جائیں گے تو پیشانی کے بالوں اور پاؤں
- جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا دوست خدا ہے کہ اُن کو اندھیرے سے
- دیکھو یہ اپنی جھوٹ بنائی ہوئی (بات) کہتے ہیں
- اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس
- سو انہوں نے اپنے کاموں کی سزا کا مزہ چکھ لیا اور ان کا انجام
Quran surahs in English :
Download surah Anfal with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Anfal mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Anfal Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers