Surah Maidah Ayat 101 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ المائدہ کی آیت نمبر 101 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Maidah ayat 101 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾
[ المائدة: 101]

Ayat With Urdu Translation

مومنو! ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (ان کی حقیقتیں) تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر قرآن کے نازل ہونے کے ایام میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر بھی کر دی جائیں گی (اب تو) خدا نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور خدا بخشنے والا بردبار ہے

Surah Maidah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) یہ ممانعت نزول قرآن کے وقت تھی۔ خود نبی ( صلى الله عليه وسلم ) بھی صحابہ ( رضي الله عنهم ) کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا ” مسلمانوں میں وہ سب سے بڑا مجرم ہے جس کے سوال کرنے کی وجہ سے کوئی چیز حرام کردی گئی درآں حالیکہ اس سے قبل وہ حلال تھی “۔ ( صحيح البخاري نمبر 7289، وصحيح مسلم، كتاب الفضائل باب توقيره صلی اللہ عليه وسلم وترك إكثار سؤاله )

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


رزق حلال کم ہو تو برکت حرام زیادہ بھی ہو تو بےبرکت اور کثرت سوالات مقصد یہ ہے کہ حلال گو تھوڑا ہو وہ بہتر ہے حرام سے گو بہت سارا ہو جیسے وارد ہے کہ جو کم ہو اور کفایت کرے وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دے، ابن حاطب نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا فرمائے آپ نے فرمایا کم مال جس کا شکریہ تو ادا کرے یہ بہتر ہے اس زیادہ سے جس کی تو طاقت نہ رکھے، اے عقلمند لوگو اللہ سے ڈرو حرام سے بچو حلال پر اکتفا کرو قناعت کیا کرو تاکہ دین و دنیا میں کامیاب ہوجاؤ، پھر اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ادب سکھاتا ہے کہ بےفائدہ سوالات مت کیا کرو، کرید میں نہ پرو، ایسے نہ ہو کہ پھر ان کا جواب اور ان امور کا اظہار تم پر شاق گزرے، صحیح حدیث میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا مجھے کوئی کسی کی برائی کی بات نہ پہنچائے، میں چاہتا ہوں کہ تمہاری طرف اس حالت میں آؤں کہ میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی برائی نہ ہو، صحیح بخاری شریف میں حصرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضور ﷺ نے ہمیں خطبہ سنایا، ایسا بےمثل کہ ہم نے کبھی ایسا خطبہ نہ سنا تھا اسی میں فرمایا کہ اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے، یہ سن کر اصحاب رسول منہ ڈھانپ کر رونے لگے اسی اثنا میں ایک شخص آپ سے پوچھ بیٹھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا فلاں، اس پر یہ آیت اتری بخاری مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضور سے بہ کثرت سوالات شروع کردیئے چناچہ آپ منبر پر آگئے اور فرمایا آؤ اب جس کسی کو جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو جو پوچھو گے جواب پاؤ گے، صحابہ کانپ اٹھے کہ ایسا نہ ہو اس کے پیچھے کوئی اہم امر ظاہر ہو جتنے بھی تھے سب اپنے اپنے چہرے کپڑوں سے ڈھانپ کر رونے لگے، ایک شخص تھے جن سے مذاق کیا جاتا تھا اور جنہیں لوگ ان کے باپ کے سوا دو سرے کی طرف نسبت کر کے بلاتے تھے اس نے کہا حضور میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا خزافہ، پھر حضرت عمر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور آپ کے سوال ہونے پر راضی ہوگئے ہم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، آپ نے فرمایا آج کی طرح میں نے بھلائی برائی کبھی نہیں دیکھی جنت دوزخ میرے سامنے اس دیوار کے پیچھے بطور نقشے کے پیش کردی گئی تھی اور روایت میں ہے یہ سوال کرنے والے حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ تھے۔ ان سے ان کی والدہ نے کہا تجھ سے بڑھ کر ماں باپ کا نافرمان میں نے نہیں دیکھا۔ تجھے کیا خبر تھی جاہلیت میں کس چیز کا پرہیز تھا۔ فرض کرو اگر میں بھی کسی معصیت میں اس وقت آلودہ ہوگئی ہوتی تو آج اللہ کے رسول کی زبانی میری رسوائی ہوتی اور سب کے سامنے بےآبروئی ہوتی، آپ نے فرمایا سنو ماں اگر رسول اللہ کی زبانی مجھے معلوم ہوتا کہ فلاں حبشی غلام کا میں بیٹا ہوں تو واللہ میں اسی سے مل جاتا، ابن جریر میں ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ سخت غصے کی حالت میں آئے منبر پر جڑھ گئے آپ کا چہرہ مبارک اس وقت سرخ ہو رہا تھا ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا میں کہاں جاؤں گا ؟ آپ نے فرمایا جہنم میں دوسرے نے پوچھا میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا حذافہ، حضرت عمر نے کھڑے ہو کر فرمایا ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر محمد ﷺ کے نبی ہونے پر، قرآن کے امام ہونے پر راضی ہیں یا رسول اللہ جاہلیت اور شرک میں ہم ابھی ابھی آپ کی طرف آئے ہیں، اللہ ہی جانتا ہے کہ میرے آباؤ اجداد کون ہیں ؟ اس سے آپ کا غصہ کم ہوا اور یہ آیت اتری، ایک مرسل حدیث میں ہے کہ اس دن حضور نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا جو چاہو پوچھو، جو پوچھو گے، بتاؤں گا، یہ شخص جس نے اپنے باپ کا نام پوچھا تھا یہ قریش کے قبیلے بنو سہم میں سے تھا، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جناب عمر نے حضور کے قدم چوم کر یہ عرض کیا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ ہم سے درگزر فرمائیے اللہ تعالیٰ آپ سے درگزر فرمائے، اسی دن حضور نے یہ قاعدہ مقرر فرمایا تھا کہ اولاد اسے ملے گی جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زانی کو پتھر ملیں گے، بخاری شریف میں ہے کہ بعض لوگ از روئے مذاق حضور سے اپنے باپ کا نام اور اپنی گم شدہ اونٹینیوں کی جگہ وغیرہ دریافت کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری، مسند احمد میں ہے کہ جب آیت ( وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا )آل عمران:97) نازل ہوئی یعنی صاحب مقدور لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ خاموش ہو رہے انہوں نے پھر دوبارہ یہی سوال کیا آپ نے پھر سکوت فرمایا انہوں نے تیسری دفعہ پھر یہی پوچھا آپ نے فرمایا ہر سال نہیں اور اگر میں ہاں کہ دیتا تو ہر سال واجب ہوجاتا اور تم ادا نہ کرسکتے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے، امام ترمذی فرماتے ہیں یہ روایت اس سند سے غریب ہے اور میں نے امام بخاری سے سنا ہے کہ اس کے راوی ابو الخجزی نے حضرت علی سے ملاقات نہیں کی، ابن جریر کی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ میری ہاں کے بعد اگر تم اسے چھوڑ دیتے تو یقینات کافر ہوجاتے، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ پوچھنے والے محصن اسدی تھے، دوسری روایت میں ان کا نام عکاشہ بن محصن مروی ہے، یہی زیادہ ٹھیک ہے اور روایت میں ہے کہ سائل ایک اعرابی تھے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا تم سے اگلے لوگ ائمہ حرج کے ایسے ہی سوالوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے واللہ تمہاری حالت تو یہ ہے کہ اگر میں ساری زمین تمہارے لئے حلال کر دوں اور صرف ایک موزے کے برابر کی جگہ حرام کر دوں تو تم اسی حرمت والی زمین پر گرو گے، اس کی سند بھی ضعیف ہے، ظاہر آیت کے الفاظ کا مطلب تو صاف ہے یعنی ان باتوں کا پوچھنا منع ہے جن کا ظاہر ہونا برا ہو، پس اولی یہ ہے کہ ایسے سوالات ترک کردیئے جائیں اور ان سے اعراض کرلیا جائے، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضور نے اپنے صحابہ سے فرما دیا دیکھو مجھے کسی کی کوئی برائی نہ پہنچائے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس صاف سینہ لے کر آؤں، پھر فرماتا ہے کہ جن چیزوں کے سوال سے تمہیں روکا جا رہا ہے اگر تم نے ان کی بابت پوچھ گچھ کی اور تم دیکھ رہے ہو کہ وحی نازل ہو رہی ہے تو تمہارے سوالات کا جواب آجائے گا اور جس چیز کا ظاہر ہونا تمہیں برا معلوم ہوتا تھا وہ ظاہر ہوجائے گی، اس سے پہلے کے ایسے سوالات سے تو اللہ تعالیٰ نے درگزر فرما لیا۔ اللہ ہے ہی بخشش والا اور حلم و بردباری والا۔ مطلب یہ ہے کہ سوالات ترک کردو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سوال کی وجہ سے کوئی آسانی سختی میں بدل جائے۔ حدیث شریف میں ہے مسلمانوں میں سب سے بڑا گنہگار وہ ہے جس نے کسی چیز کی نسبت دریافت کیا جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام ہوگئی، یہ بات اور ہے کہ قرآن شریف میں کوئی حکم آئے اس میں اجمال ہو اس کی تفصیل دریافت کی جائے، اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا ذکر اپنی پاک کتاب میں نہیں کیا اس سے خود اس نے درگزر فرما لیا ہے، پس تمہیں بھی اس سے خاموشی اختیار کرنی چاہیے جیسے کہ خود اللہ تعالیٰ نے کی ہے، صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم بھی مجھے چھوڑ رکھو، یاد رکھو کہ تم سے اگلے لوگوں کی حالت کی وجہ صرف کثرت سوال اور انبیاء پر اختلاف ہی ہوئی ہے اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر کردیئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو حدیں باندھ دی ہیں انہیں نہ توڑو، جو چیزیں حرام کردی ہیں ان کی حرمت کو سنبھالو جن چیزوں سے خاموشی کی ہے صرف تم پر رحم کھا کر نہ کہ بھول کر تم بھی اس کو پوچھ گچھ نہ کرو، پھر فرماتا ہے ایسے ہی مسائل تم سے اگلے لوگوں نے بھی دریافت کئے انہیں بتائے گئے پھر وہ ان پر ایمان نہ لائے بلکہ ان کے باعث کافر بن گئے ان پر وہ باتیں بیان کی گئیں ان سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا کیونکہ ان کے سوال ہی سرکشی پر تھے نہ کہ سمجھنے اور ماننے کیلئے، ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں میں اعلان کیا پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کردیا ہے، بنو اسد قبیلے کا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ کیا ہر سال ؟ آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہوجاتا اور اگر ایسا ہوتا تو اس پر عمل تمہاری طاقت سے باہر تھا اور جب عمل نہ کرتے تو کافر ہوجاتے پس جب تک میں نہ کہوں تم بھی نہ پوچھو میں خود جب تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ، پاس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور صحابہ کو ممانعت کردی کہ کہیں وہ بھی نصرانیوں کی طرح آسمانی دستر خوان طلب نہ کریں جس کے طلب کرنے کے بعد اور آنے کے بعد پھر وہ کافر ہوگئے پس منع کردیا اور صاف فرما دیا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر قرآن میں ان کی بابت سخت احکام نازل ہوں تو تمہیں برے لگیں بلکہ تم منتظر رہو قرآن اتر رہا ہے جو پوچھنا چاہتے ہو سب کا بیان اس میں پاؤ گے۔ بہ روایت مجاہد حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے وہ جانور ہیں جن کا ذکر اس آیت کے بعد ہی ہے، عکرمہ فرماتے ہیں مراد معجزات کی طلبی ہے جیسے کہ قریشیوں نے کہا تھا کہ عرب میں نہریں جاری ہوجائیں اور صفا پہاڑ سونے کا ہوجائے وغیرہ اور جیسے یہود نے کہا تھا کہ خود ان پر آسمان سے کتاب اترے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ ) 17۔ الإسراء:59) یعنی معجزوں کے ظاہر کرنے سے مانع تو کچھ بھی نہیں مگر یہ کہ اگلے لوگوں نے بھی اسے جھٹلایا ہم نے ثمود کو اونٹنی کا نشان دیا تھا جس پر انہوں نے ظلم کیا ہم تو نشانات صرف دھمکانے کیلئے بھیجتے ہیں اور آیت میں ہے آیت ( وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ ۙ اَنَّهَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ )الأنعام:109) بڑی زور دار قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ آگیا تو ضرور ایمان لائیں گے تو جواب دے کہ یہ تو اللہ کے قبضے کی چیز ہے ہوسکتا ہے کہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں ہم ان کے دلوں کو اور آنکھوں کو الٹ دیں گے جیسے کہ پہلی دفعہ قرآن پر ایمان نہیں لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں ہی پڑے رہنے دیں گے بھٹکتے پھریں اگر ہم ان پر آسمان سے فرشتے بھی اتارتے اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگتے اور تمام چیزیں یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تب بھی تو اللہ کی چاہت کے بغیر انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا۔ ان میں سے اکثر ہیں ہی بےعلم۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 101 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَسْءَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ ج rُیہ ایک خاص قسم کی مذہبی ذہنیت کا تذکرہ ہے۔ بعض لوگ بلا ضرورت ہر بات کو کھودنے ‘ کریدنے اور بال کی کھال اتارنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اگر کسی چیز کے بارے میں اللہ ‘ تعالیٰ نے خود خاموشی اختیار فرمائی ہے تو اس بارے میں خواہ مخواہ سوال کرنا اپنی ذمہ داری کو بڑھانے والی بات ہے۔ چناچہ حج کے بارے میں جب سورة آل عمران آیت 97 میں حکم نازل ہوا تو ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضور کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ ﷺ نے سوال سن لیا لیکن رُخِ مبارک دوسری طرف کرلیا۔ اب وہ صاحب ادھر تشریف لے آئے اور پھر عرض کیا ‘ حضور کیا حج ہر سال فرض ہے ؟ حضور ﷺ نے پھر اعراض فرمایا۔ جب انہوں نے یہی سوال تیسری مرتبہ کیا تو پھر آپ ﷺ ناراض ہوئے اور فرمایا کہ دیکھو اگر میں ہاں کہہ دوں تو تم لوگوں پر قیامت تک کے لیے ہر سال حج فرض ہوجائے گا۔ جس چیز میں اللہ تعالیٰ نے احتمال رکھا ہے اس میں تمہاری بہتری ہے۔ جو شخص ہر سال کرسکتا ہو وہ ہر سال کرلے ‘ لیکن فرضیت کے ساتھ ہر سال کی قید اللہ نے نہیں لگائی ہے۔ بےجا سوال کر کے تم اپنے لیے تنگی پیدا نہ کرو۔ جیسے گائے کے معاملے میں بنی اسرائیل نے کیا تھا کہ اس کا رنگ کیساہو ؟ اس کی عمر کیا ہو ؟ اور کیسی گائے ہو ؟ وغیرہ وغیرہ ‘ جتنے سوالات کرتے گئے اتنی ہی شرائط لاگو ہوتی گئیں۔ اس نوعیت کے سارے سوال اسی ضمن میں آتے ہیں۔وَاِنْ تَسْءَلُوْا عَنْہَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَلَکُمْ ط اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت کئی چیزوں کو پردے میں رکھا ہے ‘ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ان کو ظاہر کرنے میں تمہارے لیے تنگی ہوجائے گی ‘ بوجھ زیادہ ہوجائے گا ‘ یہ تم پر گراں گزریں گی۔ لیکن اگر سوال کرو گے تو پھر ان کو ظاہر کردیا جائے گا۔ عَفَا اللّٰہُ عَنْہَاط واللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ بعض چیزوں کے بارے میں جو اللہ نے تم پر نرمی کی ہے اور تمہیں تنگی سے بچایا ہے ‘ وہ اس لیے ہے کہ وہ غفور اور حلیم ہے۔ یہ کسی نسیان ‘ بھول یا غلطی کی وجہ سے نہیں ہوا معاذ اللہ !

ياأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم وإن تسألوا عنها حين ينـزل القرآن تبد لكم عفا الله عنها والله غفور حليم

سورة: المائدة - آية: ( 101 )  - جزء: ( 7 )  -  صفحة: ( 124 )

Surah Maidah Ayat 101 meaning in urdu

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی اب تک جو کچھ تم نے کیا اُسے اللہ نے معاف کر دیا، وہ درگزر کرنے والا اور برد بار ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے
  2. تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے اور آخرت کے آنے کو جھوٹ
  3. ان میں سب میوے دو دو قسم کے ہیں
  4. یہی تو پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا (اور) غالب اور رحم والا (خدا) ہے
  5. (موسیٰ نے) کہا کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذہ نہ کیجیئے اور
  6. اور ہم نے ابراہیمؑ کو پہلے ہی سے ہدایت دی تھی اور ہم ان کے
  7. اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو خدا پورا پورا صلہ
  8. ہم ہی نے روشن آیتیں نازل کیں ہیں اور خدا جس کو چاہتا ہے سیدھے
  9. پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں
  10. اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Maidah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Maidah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Maidah Complete with high quality
surah Maidah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Maidah Bandar Balila
Bandar Balila
surah Maidah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Maidah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Maidah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Maidah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Maidah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Maidah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Maidah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Maidah Fares Abbad
Fares Abbad
surah Maidah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Maidah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Maidah Al Hosary
Al Hosary
surah Maidah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Maidah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Wednesday, December 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers