Surah Zukhruf Ayat 31 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ﴾
[ الزخرف: 31]
اور (یہ بھی) کہنے لگے کہ یہ قرآن ان دونوں بستیوں (یعنی مکّے اور طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا؟
Surah Zukhruf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) دونوں بستیوں سے مراد مکہ اور طائف ہے اور بڑے آدمی سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک مکے کا ولید بن مغیرہ اور طائف کا عروہ بن مسعود ثقفی ہے۔ بعض نے کچھ اور لوگوں کے نام ذکر کیے ہیں تاہم مقصد اس سے ایسے آدمی کا انتخاب ہے جو پہلے سے ہی عظیم جاہ ومنصب کا حامل، کثیر المال اور اپنی قوم میں مانا ہوا ہو، یعنی قرآن اگر نازل ہوتا تو دونوں بستیوں میں سے کسی ایسی ہی شخصیت پر نازل ہوتا نہ کہ محمد ( صلى الله عليه وسلم ) پر، جن کا دامن دولت دنیا سے بھی خالی ہے، اور اپنی قوم میں قیادت وسیادت کے منصب پر بھی فائز نہیں ہیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
امام الموحدین کا ذکر اور دنیا کی قیمت قریشی کفار نیکی اور دین کے اعتبار سے چونکہ خلیل اللہ امام الحنفا حضرت ابراہیم ( علیہ الصلوۃ والسلام ) کی طرف منسوب تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے سنت ابراہیمی ان کے سامنے رکھی کہ دیکھو جو اپنے بندے آنے والے تمام نبیوں کے باپ اللہ کے رسول امام الموحدین تھے انہوں نے کھلے لفظوں میں نہ صرف اپنی قوم سے بلکہ اپنے سگے باپ سے بھی کہہ دیا کہ مجھ میں تم کوئی تعلق نہیں۔ میں سوائے اپنے سچے اللہ کے جو میرا خالق اور ہادی ہے تمہارے ان معبودوں سے بیزار ہوں سب سے بےتعلق ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی اس جرات حق گوئی اور جوش توحید کا بدلہ یہ دیا کہ کلمہ توحید کو ان کی اولاد میں ہمیشہ کے لئے باقی رکھ لیا ناممکن ہے کہ آپ کی اولاد میں اس پاک کلمے کے قائل نہ ہوں انہی کی اولاد اس توحید کلمہ کی اشاعت کرے گی اور سعید روحیں اور نیک نصیب لوگ اسی گھرانے سے توحید سیکھیں گے۔ غرض اسلام اور توحید کا معلم یہ گھرانہ قرار پا گیا۔ پھر فرماتا ہے بات یہ ہے کہ یہ کفار کفر کرتے رہے اور میں انہیں متاع دنیا دیتا رہا یہ اور بہکتے گئے اور اس قدر بد مست بن گئے کہ جب ان کے پاس دین حق اور رسول حق آئے تو انہوں نے جلانا شروع کردیا کہ کلام اللہ اور معجزات انبیاء جادو ہیں اور ہم ان کے منکر ہیں۔ سرکشی اور ضد میں آکر کفر کر بیٹھے عناد اور بغض سے حق کے مقابلے پر اتر آئے اور باتیں بنانے لگے کہ کیوں صاحب اگر یہ قرآن سچ مچ اللہ ہی کا کلام ہے تو پھر مکہ اور طائف کے کسی رئیس پر کسی بڑے آدمی پر کسی دنیوی وجاہت والے پر کیوں نہ اترا ؟ اور بڑے آدمی سے ان کی مراد ولید بن مغیرہ، عروہ بن مسعود، عمیر بن عمرو، عتبہ بن ربیعہ، حبیب بن عمرو مابن عبطدیالیل، کنانہ بن عمرو وغیرہ سے تھی۔ غرض یہ تھی کہ ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے مرتبے کے آدمی پر قرآن نازل ہونا چاہیے تھا اس اعتراض کے جواب میں فرمان باری سرزد ہوتا ہے کہ کیا رحمت الہٰی کے یہ مالک ہے جو یہ اسے تقسیم کرنے بیٹھے ہیں ؟ اللہ کی چیز اللہ کی ملکیت وہ جسے چاہے دے پھر کہاں اس کا علم اور کہاں تمہارا علم ؟ اسے بخوبی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسالت کا حقدار صحیح معنی میں کون ہے ؟ یہ نعمت اسی کو دی جاتی ہے جو تمام مخلوق سے زیادہ پاک دل ہو۔ سب سے زیادہ پاک نفس ہو سب سے بڑھ کر اشرف گھر کا ہو اور سب سے زیادہ پاک اصل کا ہو پھر فرماتا ہے کہ یہ رحمت اللہ کے تقسیم کرنے والے کہاں سے ہوگئے ؟ اپنی روزیاں بھی ان کے اپنے قبضے کی نہیں وہ بھی ان میں ہم بانٹتے ہیں اور فرق و تفاوت کے ساتھ جسے جب جتنا چاہیں دیں۔ جس سے جب جو چاہیں چھین لیں عقل و فہم قوت طاقت وغیرہ بھی ہماری ہی دی ہوئی ہے اور اس میں بھی مراتب جداگانہ ہیں اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے سے کام لے کیونکہ اس کی اسے اور اس کی اسے ضرورت اور حاجت رہتی ہے ایک ایک کے ماتحت رہے پھر ارشاد ہوا کہ تم جو کچھ دنیا جمع کر رہے ہو اس کے مقابلہ میں رب کی رحمت بہت ہی بہتر اور افضل ہے زاں بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ مال کو میرا فضل اور میری رضامندی کی دلیل جان کر مالداروں کے مثل بن جائیں تو میں تو کفار کو یہ دنیائے دوں اتنی دیتا کہ ان کے گھر کی چھتیں بلکہ ان کے کوٹھوں کی سیڑھیاں بھی چاندی کی ہوتیں جن کے ذریعے یہ اپنے بالا خانوں پر پہنچتے۔ اور ان کے گھروں کے دروازے ان کے بیٹھنے کے تخت بھی چاندی کے ہوتے اور سونے کے بھی میرے نزدیک دنیا کوئی قدر کی چیز نہیں یہ فانی ہے زائل ہونے والی ہے اور ساری مل بھی جائے جب بھی آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے ان لوگوں کی اچھائیوں کے بدلے انہیں یہیں مل جاتے ہیں۔ کھانے پینے رہنے سہنے برتنے برتانے میں کچھ سہولتیں بہم پہنچ جاتی ہیں۔ آخرت میں تو محض خالی ہاتھ ہوں گے ایک نیکی باقی نہ ہوگی جو اللہ سے کچھ حاصل کرسکیں جیسے کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے اور حدیث میں ہے اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو یہاں پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا پھر فرمایا آخرت کی بھلائیاں صرف ان کے لئے نہیں جو دنیا میں پھونک پھونک کے قدم رکھتے رہے ڈر ڈر کر زندگی گزارتے رہے وہاں رب کی خاص نعمتیں اور مخصوص رحمتیں جو انہیں ملیں گی ان میں کوئی اور ان کا شریک نہ ہوگا۔ چناچہ جب حضرت عمر رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ کے بالا خانہ میں گئے اور آپ نے اس وقت اپنی ازواج مطہرات سے ایلا کر رکھا تھا تو دیکھا کہ آپ ایک چٹائی کے ٹکڑے پر لیٹے ہوئے ہیں جس کے نشان آپ کے جسم مبارک پر نمایاں ہیں تو رو دئیے اور کہا یا رسول اللہ ﷺ قیصرو کسرٰی کس آن بان اور کس شان و شوکت سے زندگی گزار رہے ہیں اور آپ اللہ کی برگذیدہ پیارے رسول ﷺ ہو کر کس حال میں ہیں ؟ حضور ﷺ یا تو تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے یا فوراً تکیہ چھوڑ دیا اور فرمانے لگے اے ابن خطاب کیا تو شک میں ہے ؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں جلدی سے یہیں انہیں مل گئیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ کیا تو اس سے خوش نہیں کہ انہیں دنیا ملے اور ہمیں آخرت۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سونے چاندی کے برتنوں میں نہیں کھاؤ پیو یہ دنیا میں ان کے لئے ہیں اور آخرت میں ہمارے لئے ہیں اور دنیا میں یہ ان کے لئے یوں ہیں کی رب کی نظروں میں دنیا ذلیل و خوار ہے۔ ترمذی وغیرہ کی ایک حسن صحیح حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمایا اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت رکھتی تو کسی کافر کو کبھی بھی اللہ تعالیٰ ایک گھونٹ پانی کا نہ پلاتا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 31 { وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ } ” اور کہنے لگے کہ کیوں نہیں اتارا گیا یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی عظیم شخص پر ؟ “ یہاں اصل مرکب اضافی ” رَجُلٍ عَظِیْمٍ “ ہے ‘ لیکن ان دو الفاظ کے درمیان ” مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ “ آجانے سے ” رجل “ کی صفت عظیم آخر پر چلی گئی ہے۔ قرآن کے اسلوب کے مطابق الفاظ کی یہ تقدیم و تاخیر مخصوص صوتی آہنگ کے باعث ہوتی ہے جس کی مثالیں قرآن میں جا بجا ملتی ہیں۔ مکہ اور طائف نزولِ قرآن کے زمانے میں پاکستان کے راولپنڈی اور اسلام آباد کی طرح جڑواں شہر twin cities سمجھے جاتے تھے۔ دونوں شہروں کے لوگوں کے آپس میں گہرے مراسم تھے۔ مکہ کے اکثر سرداروں کی طائف میں بڑی بڑی جائیدادیں تھیں۔ ان میں ولید بن مغیرہ کا ذکر روایات میں خاص طور پر آتا ہے کہ طائف میں اس کے بہت سے باغات اور مکانات تھے۔ مذکورہ جملہ دراصل اس پس منظر میں کسا گیا تھا کہ ان دونوں شہروں کی بڑی شخصیات کو چھوڑ کر اللہ کو رسول بنانے اور اس پر اپنی کتاب نازل کرنے کے لیے آخر قریش کا ایک یتیم ہی کیوں پسند آیا ہے !
وقالوا لولا نـزل هذا القرآن على رجل من القريتين عظيم
سورة: الزخرف - آية: ( 31 ) - جزء: ( 25 ) - صفحة: ( 491 )Surah Zukhruf Ayat 31 meaning in urdu
کہتے ہیں، یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہ نازل کیا گیا؟
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جو لوگ کتاب کو مضبوط پکڑے ہوئے ہیں اور نماز کا التزام رکھتے ہیں
- اور جو عمل تم کرتے رہے تھے ان کے بدلے میں مزے سے کھاؤ اور
- تمہیں اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیرخواہی کرتا ہوں اور مجھ کو
- اور اگر تم خدا کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو گن نہ سکو۔ بےشک
- اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے دریافت کرلو
- کیا (یہ نہیں کہ) ہم (آئندہ کبھی) مرنے کے نہیں
- اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لئے سبب معیشت
- جب جادوگر آئے تو موسیٰ نے ان سے کہا تم کو جو ڈالنا ہے ڈالو
- اور ہم نے ان کو اونچی جگہ اُٹھا لیا تھا
- تو جب زمین کی بلندی کوٹ کوٹ کو پست کر دی جائے گی
Quran surahs in English :
Download surah Zukhruf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Zukhruf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Zukhruf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers