Surah Al Araaf Ayat 106 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قَالَ إِن كُنتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ﴾
[ الأعراف: 106]
فرعون نے کہا اگر تم نشانی لے کر آئے ہو تو اگر سچے ہو تو لاؤ (دکھاؤ)
Surah Al Araaf UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
موسیٰ ؑ اور فرعون حضرت موسیٰ ؑ کے اور فرعون کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اللہ کے کلیم نے فرمایا کہ اے فرعون میں رب العالمین کا رسول ہوں۔ جو تمام عالم کا خالق ومالک ہے۔ مجھے یہی لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں وہی باتیں کہوں جو سراسر حق ہوں " ب " اور " علی " یہ متعاقب ہوا کرتے ہیں جیسے رمیت بالقوس اور رمیت علی القوس وغیرہ۔ اور بعض مفسرین کہتے ہیں حقیقی کے معنی حریض کے ہیں۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ مجھ پر واجب اور حق ہے کہ اللہ ذوالمنین کا نام لے کر وہی خبر دوں جو حق و صداقت والی ہو کیونکہ میں اللہ عزوجل کی عظمت سے واقف ہوں۔ میں اپنی صداقت کی الٰہی دلیل بھی ساتھ ہی لایا ہوں۔ تو قوم بنی اسرائیل کو اپنے مظام سے آزاد کر دے، انہیں اپنی زبردستی کی غلامی سے نکال دے، انہیں ان کے رب کی عبادت کرنے دے، یہ ایک زبردست بزرگ پیغمبر کی نسل سے ہیں یعنی حضرت یعقوب بن اسحاق بن حضرت ابراہیم خلیل اللہ ( علیہ الصلوۃ والسلام ) کی اولاد ہیں۔ فرعون نے کہا میں تجھے سچا نہیں سمجھتا نہ تیری طلب پوری کروں گا اور اگر تو اپنے دعوے میں واقعہ ہی سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کر۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 105 حَقِیْقٌ عَلٰٓی اَنْ لآَّ اَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ الاَّ الْحَقَّ ط فرعون کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوئی اجنبی آدمی نہیں تھے۔ آپ علیہ السلام اس کے ساتھ ہی شاہی محل میں پلے بڑھے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت جو فرعون برسر اقتدار تھا وہ اس فرعون کا باپ تھا اور اسی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بچپن میں بچایا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے آپ علیہ السلام کو ایک صندوق میں بند کر کے دریائے نیل میں ڈال دیا تھا۔ وہ صندوق فرعون کے محل کے پاس ساحل پر آ لگا تھا اور محل کے ملازمین نے اسے اٹھا لیا تھا۔ فرعون کو پتا چلا تو وہ اسرائیلی بچہ سمجھ کر آپ علیہ السلام کے قتل کے درپے ہوا ‘ مگر اس کی بیوی نے اسے یہ کہہ کر باز رکھا تھا کہ ہم اس کو اپنا بیٹا بنالیں گے ‘ یہ ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگا : قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَ ط القصص : 9 کیونکہ اس وقت تک ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ چناچہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ بعد میں اس کے ہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا بیٹا تقریباً ہم عمر تھے ‘ وہ دونوں اکٹھے محل میں پلے بڑھے تھے اور ان کے درمیان حقیقی بھائیوں جیسی محبت تھی ‘ بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حیثیت بڑے بھائی کی تھی۔ جب بڑا فرعون بوڑھا ہوگیا تو اس نے اپنی زندگی میں ہی اقتدار اپنے بیٹے کے سپرد کردیا تھا۔ چناچہ جس فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا یہ وہی تھا جس کے ساتھ آپ علیہ السلام شاہی محل میں پلے بڑھے تھے۔ ابھی کچھ ہی برس پہلے آپ علیہ السلام یہاں سے مدین گئے تھے اور پھر مدین سے واپس آ رہے تھے تو آپ علیہ السلام کو نبوت اور رسالت ملی اس کی پوری تفصیل آگے جا کر سورة طٰہٰ اور سورة القصص میں آئے گی۔ اس پس منظر میں فرعون کے ساتھ آپ علیہ السلام کا بات کرنے کا انداز بھی کسی عام آدمی جیسا نہیں تھا۔ آپ علیہ السلام نے بڑے واضح اور بےباک انداز میں فرعون کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو ! میرا یہ منصب نہیں اور یہ بات میرے شایان شان نہیں کہ میں تم سے کوئی لایعنی اور جھوٹی بات کروں۔قَدْ جِءْتُکُمْ بِبَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ بنی اسرائیل حضرت یوسف علیہ السلام کی وساطت سے فلسطین سے آکر مصر میں اس وقت آباد ہوئے تھے جب یہاں ایک عربی النسل خاندان کی حکومت تھی۔ اس خاندان کے بادشاہ چروا ہے بادشاہ Hiksos Kings کہلاتے تھے۔ ان کے دور حکومت میں حضرت یوسف علیہ السلام کے احترام کی وجہ سے بنی اسرائیل کو معاشرے میں ایک خصوصی مقام حاصل رہا اور وہ صدیوں تک عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہے۔ اس کے بعد کسی دور میں مصر کے اندر قوم پرست عناصر کے زیر اثر انقلاب آیا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں حکمران خاندان کو ملک بدر کردیا گیا اور یہاں قبطی قوم کی حکومت قائم ہوگئی۔ یہ لوگ مصر کے اصل باشندے تھے۔ بنی اسرائیل کے لیے یہ تبدیلی بڑی منحوس ثابت ہوئی۔ سابق شاہی خاندان کے چہیتے ہونے کی وجہ سے وہ قبطی حکومت کے زیر عتاب آگئے اور ان کی حیثیت اور زندگی بتدریج پست سے پست اور سخت سے سخت ہوتی چلی گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں یہ لوگ مصر میں غلامانہ زندگی گزار رہے تھے ‘ بلکہ فرعونوں کی طرف سے آئے روز ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ یہ وہ حالات تھے جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا تاکہ وہ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلا کر واپس فلسطین لائیں۔ چناچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے مطالبہ کیا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دیا جائے۔
قال إن كنت جئت بآية فأت بها إن كنت من الصادقين
سورة: الأعراف - آية: ( 106 ) - جزء: ( 9 ) - صفحة: ( 164 )Surah Al Araaf Ayat 106 meaning in urdu
فرعون نے کہا "اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور عاد اور فرعون اور لوط کے بھائی
- اور ایوب کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے
- اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس
- جو رنگ کی سفید اور پینے والوں کے لئے (سراسر) لذت ہوگی
- (جب انہوں نے یہ بات یعقوب سے آ کر کہی تو) انہوں نے کہا کہ
- اور چارپایوں میں بوجھ اٹھانے والے (یعنی بڑے بڑے) بھی پیدا کئے اور زمین سے
- اور جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھیں پھر اپنے قول سے رجوع کرلیں
- یا تمہیں کچھ فائدے دے سکتے یا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟
- ایسے لوگوں کے لیے (نیچے) بچھونا بھی (آتش) جہنم کا ہوگا اور اوپر سے اوڑھنا
- بھلا جب ہم مرگئے اور مٹی اور ہڈیاں ہوگئے تو کیا پھر اٹھائے جائیں گے؟
Quran surahs in English :
Download surah Al Araaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Araaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Araaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers