Surah Taubah Ayat 108 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ توبہ کی آیت نمبر 108 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Taubah ayat 108 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا ۚ لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ ۚ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ﴾
[ التوبة: 108]

Ayat With Urdu Translation

تم اس (مسجد) میں کبھی (جاکر) کھڑے بھی نہ ہونا۔ البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اس قابل ہے کہ اس میں جایا (اور نماز پڑھایا) کرو۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو کہ پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ اور خدا پاک رہنے والوں کو ہی پسند کرتا ہے

Surah Taubah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) یعنی آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے وہاں جاکر نماز پڑھنے کا جو وعدہ فرمایا، اس کے مطابق وہاں جاکر نماز نہ پڑھیں چنانچہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نہ صرف یہ کہ وہاں نماز نہیں پڑھی بلکہ اپنے چند ساتھیوں کو بھیج کر مسجد گرا دی اور اسے ختم کر دیا اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ جو مسجد اللہ کی عبادت کی بجائے، مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی غرض سے بنائی جائے، وہ مسجد ضرار ہے، اس کو ڈھا دیا جائے تاکہ مسلمانوں میں تفریق و انتشار پیدا نہ ہو۔
( 2 ) اس سے مراد کونسی مسجد ہے؟ اس میں اختلاف بعض نے اسے مسجد قبا اور بعض نے مسجد نبوی ( صلى الله عليه وسلم ) قرار دیا ہے، سلف کی ایک جماعت دونوں کی قائل رہی ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ آیت سے اگر مسجد قبا مراد ہے تو بعض احادیث میں مسجد نبوی کو «أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى» کا مصداق قرار دیا گیا ہے ان دونوں کے درمیان کوئی منافات نہیں۔ اس لئے کہ اگر مسجد قبا کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے کہ اول یوم سے ہی اس کی بنیاد تقوٰی پر رکھی گئی ہے تو مسجد نبوی تو بطریق اولی اس صفت کی حال اور اس کی مصداق ہے۔`
( 3 ) حدیث میں آتا ہے کہ اس سے مراد اہل قبا ہیں۔ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے ان سے پوچھا کہ اللہ تعالٰی نے تمہاری طہارت کی تعریف فرمائی ہے، تم کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم ڈھیلے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ پانی بھی استعمال کرتے ہیں۔ ( بحوالہ ابن کثیر ) امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایسی قدیم مسجد میں نماز پڑھنا مستحب ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی غرض سے تعمیر کی گئی ہوں، نیز صالحین کی جماعت اور ایسے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنا مستحب ہے جو مکمل وضو کرنے اور طہارت و پاکیزگی کا صحیح صحیح اہتمام کرنے والے ہوں۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


ایک قصہ ایک عبرت، مسجد ضرار۔ ان پاک آیتوں کا سبب نزول سنئے ! رسول اللہ ﷺ مکہ شریف سے ہجرت کر کے مدینے پہنچے۔ اس سے پہلے مدینے میں ایک شخص تھا جس کا نام ابو عامر راہب تھا۔ یہ خزرج کے قبیلے میں سے تھا۔ جاہلیت کے زمانے میں نصرانی بن گیا تھا، اہل کتاب کا علم بھی پڑھا تھا۔ عابد بھی تھا اور قبیلہ خزرج اس کی بزرگی کا قائل تھا۔ جب حضور ﷺ یہاں آئے، مسلمانوں کا اجتماع آپ ﷺ کے پاس ہونے لگا۔ یہ قوت پکڑنے لگے یہاں تک کہ بدر کی لڑائی ہوئی اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں غالب رکھا تو یہ جل بھن گیا۔ کھلم کھلا مخالفت و عداوت کرنے لگا اور یہاں سے بھاگ کر کفار مکہ سے مل گیا۔ اور انہیں مسلمانوں سے لڑائی کرنے پر آمادہ کرنے لگا۔ یہ تو عداوت اسلام میں پاگل ہو رہے تھے، تیار ہوگئے اور اپنے ساتھ عرب کے اور بھی بہت سے قبائل کو ملا کر جنگ کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے اور میدان احد میں جم کر لڑے۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کا جو حال ہوا وہ ظاہر ہے۔ انکا پورا امتحان ہوگیا۔ گو انجام کار مسلمانوں کا ہی بھلا ہوا اور عاقبت اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے ہی ہے۔ اسی فاسق نے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان بہت سے گڑھے کھود رکھے تھے، جن میں سے ایک میں اللہ کے رسول محترم ﷺ گرپڑے، چہرے پر زخم آئے۔ سامنے سے نیچے کی طرف کے چار دانت ٹوٹ گئے۔ سر بھی زخمی ہوا۔ صلوات اللہ وسلم ہ علیہ۔ شروع لڑائی کے وقت ہی ابو عامر فاسق اپنے قوم کے پاس گیا اور بہت ہی خوشامد اور چاپلوسی کی کہ تم میری مدد اور موافقت کرو۔ لیکن انہوں نے بالاتفاق جواب دیا کہ اللہ تیری آنکھیں ٹھنڈی نہ کرے تو نامراد ہے۔ اے بدکار اے اللہ کے دشمن تو ہمیں راہ حق سے بہکانے کو آیا ہے، الغرض برا بھلا کہہ کر ناامید کردیا گیا۔ یہ لوٹا اور یہ کہتا ہوا کہ میری قوم تو میرے بعد بہت ہی شریر ہوگئی ہے۔ مدینے میں اس ناہنجار کو رسول اللہ ﷺ نے بہت سمجھایا تھا قرآن پڑھ پڑھ کر نصیحت کی تھی اور اسلام کی رغبت دلائی تھی لیکن اس نے نہ مانا تھا۔ تو حضور ﷺ نے اسکے لئے بد دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے کہیں دور دراز ذلت و حقارت کے ساتھ موت دے۔ جب اس نے دیکھا کہ احد میں بھی اس کی چاہت پوری نہ ہوئی اور اسلام کا کلمہ بلندی پر ہی ہے تو یہ یہاں سے شاہ روم ہرقل کے پاس پہنچا اور اسے رسول اللہ ﷺ سے لڑائی کے لئے آمادہ کیا۔ اس نے بھی اس سے وعدہ کرلیا اور تمنائیں دلائیں۔ اس وقت اس نے اپنے ہم خیال لوگوں کو جو منافقانہ رنگ میں مدینے شریف میں رہتے سہتے تھے اور جن کے دل اب تک شک و شبہ میں تھے لکھا کہ اب میں مسلمانوں کی جڑیں کاٹ دونگا، میں نے ہرقل کو آمادہ کردیا ہے وہ لشکر جرار لے کر چڑھائی کرنے والا ہے۔ مسلمانوں کو ناک چنے جبوا دے گا اور ان کا بیج بھی باقی نہ رکھے گا۔ تم ایک مکان مسجد کے نام سے تعمیر کرو تاکہ میرے قاصد جو آئیں وہ وہیں ٹھہریں، وہیں مشورے ہوں اور ہمارے لئے وہ پناہ کی اور گھاٹ لگانے کی محفوظ جگہ بن جائے۔ انہوں نے مسجد قبا کے پاس ہی ایک اور مسجد کی تعمیر شروع کردی اور تبوک کی لڑائی کے لئے آنحضرت ﷺ کی روانگی سے پہلے ہی اسے خوب مضبوط اور پختہ بنا لیا اور آ کر آنحضرت ﷺ سے کہنے لگے کہ آپ ﷺ ہماری مسجد میں تشریف لائیے اور نماز ادا کیجئے تاکہ ہمارے لئے یہ بات حجت ہوجائے اور ہم وہاں نماز شروع کردیں۔ ضعیف اور کمزور لوگوں کو دور جانے میں بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ خصوصاً جاڑے کی راتوں میں کمزور، بیمار اور معذور لوگ دور دراز کی مسجد میں بڑی دقت سے پہنچتے ہیں اس لئے ہم نے قریب ہی یہ مسجد بنا لی ہے۔ آپ نے فرمایا اس وقت تو سفر درپیش ہے پا بہ رکاب ہوں انشاء اللہ واپسی میں سہی۔ اس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس کفر کے مورچے سے بچا لیا۔ جب میدان تبوک سے آپ سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے، ابھی مدینے شریف سے ایک دن یا کچھ کم کے فاصلے پر تھے کہ اللہ کی وحی نازل ہوئی اور اس مسجد ضرار کی حقیقت آپ پر ظاہر کردی گئی۔ اور اس کے بانیوں کی نیت کا بھی علم آپ کو کرا دیا گیا۔ اور وہاں کی نماز سے روک کر مسجد قبا میں جس کی بنیاد اللہ کے خوف پر رکھی گئی تھی، نماز پڑھنے کا حکم صادر ہوا۔ پس آپ نے وہیں سے مسلمانوں کو بھیج دیا کہ جاؤ میرے پہنچنے سے پہلے اس مسجد کو توڑ دو۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں " ابو عامر خبیث ان انصاریوں سے کہہ گیا تھا کہ تم مسجد کے نام سے عمارت بنا لو اور جو تم سے ہو سکے تیاری رکھو، ہتھیار وغیرہ مہیا کرلو، میں شاہ روم قیصر کے پاس جا رہا ہوں اور اس سے مدد لے کر محمد اور اس کے ساتھیوں کو یہاں سے نکال دوں گا۔ پس یہ لوگ جب یہ مسجد تیار کرچکے حضور ﷺ سے کہا کہ ہماری چاہت ہے کہ آپ ہماری اس مسجد میں تشریف لائیں، وہاں نماز پڑھیں اور ہمارے لئے برکت کی دعا کریں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ اس مسجد میں ہرگز کھڑے بھی نہ ہونا۔ اور روایت میں ہے کہ جب آپ ذی اور اوان میں اترے اور مسجد کی اطلاع ملی آپ نے مالک بن و خشم ؓ اور معن بن یزید ؓ کو بلایا، ان کے بھائی عمر بن عدی کو بلوایا اور حکم دیا کہ ان ظالموں کی مسجد میں جاؤ اور اسے گرا دو بلکہ جلا دو۔ یہ دونوں بزرگ تابڑ توڑ جلدی جلدی چلے۔ سالم بن عوف کے محلے میں جا کر حضرت مالک نے حضرت معن سے فرمایا آپ یہیں ٹھہرئیے، یہ میرے قبیلے کے لوگوں کے مکان ہیں یہاں سے آگ لاتا ہوں۔ چناچہ گئے اور ایک کھجور کا سلگتا ہوا تنا لے آئے اور سیدھے اس مسجد ضرار میں پہنچ کر اس میں آگ لگا دی اور کدال چلانی شروع کردی۔ وہاں جو لوگ تھے ادھر ادھر بھاگ گئے اور ان بزرگوں نے اس عمارت کو جڑ سے کھود ڈالا۔ پس اس بارے میں یہ آیتیں اتری ہیں۔ اس کے بانی بارہ شخص تھے۔ خدام بن خالد بنو عبد بن زید میں سے جو بنی عمرو بن عوف میں سے ہیں اسی کے گھر میں سے مسجد شقاق نکلی تھی۔ اور ثعلبہ بن حاطب جو بنی عبید میں سے تھا اور بنو امیہ کے موالی جو ابو لبابہ بن عبدالمنذر کے قبیلے میں سے تھے۔ قرآن فرماتا ہے کہ یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہماری نیت نیک تھی۔ لوگوں کے آرام کی غرض سے ہم نے اسے بنایا ہے۔ لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔ بلکہ انہوں نے مسجد قبا کو ضرر پہنچانے اور اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور مومنوں میں جدائی ڈالنے اور اللہ و رسول کے دشمنوں کو پناہ دینے کے لئے اسے بنایا ہے۔ یہ کمین گاہ ہے ابو عامر فاسق کی جو لوگوں میں راہب مشہور ہے۔ اللہ کی لعنتیں اس پر نازل ہوں۔ فرمان ہے کہ " تو ہرگز اس مسجد میں نہ کھڑا ہونا۔ " اس فرمان میں آپ کی امت بھی داخل ہے۔ انہیں بھی اس مسجد میں نماز پڑھنی حرام قرار دی گئی۔ پھر رغبت دلائی جاتی ہے کہ مسجد قبا میں نماز ادا کرو۔ جس کی بنیاد اللہ کے ڈر پر اور رسول کی اطاعت پر رکھی گئی ہے اور مسلمانوں کے اتفاق پر اور ان کی خیر خواہی پر بنائی گئی ہے۔ اسی مسجد میں تمہارا نمازیں پڑھنا درست اور حق بجانب ہے چناچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سوار اور پیدل اس مسجد میں آیا کرتے تھے۔ " اور حدیث میں ہے کہ جب آپ ہجرت کر کے مدینے شریف پہنچے اور بنی عمر بن عوف میں ٹھہرے اور اس پاک مسجد کی بنیاد رکھی اس وقت خود حضرت جبرائیل ؑ نے قبلہ کی جہت معین کی تھی۔ واللہ اعلم۔ ابو داؤد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ( آیت فیہ رجال ) مسجد قبا والوں کے بارے میں اتری ہے، وہ پانی سے استنجاء کیا کرتے تھے۔ یہ مسجد ضعیف ہے۔ امام ترمذی اسے غریب بتلاتے ہیں۔ طبرانی میں ہے " اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے عویم بن ساعدہ کے پاس آدمی بھیج کر دریافت فرمایا کہ آخر یہ کون سے طہارت ہے جس کی ثناء اللہ رب العزت بیان فرما رہا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم میں سے جو مرد عورت پاخانے سے نکلتا ہے وہ پانی سے استنجاء کیا کرتا ہے۔ اس نے فرمایا بس یہی وہ طہارت ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ آنحضرت ﷺ ان کے پاس مسجد قبا میں تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہاری مسجد کے بیان میں تمہاری طہارت کی آج تعریف کی ہے تو بتلاؤ کہ تمہاری وہ طہارت کیسے ہے ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ہمیں اور تو کچھ معلوم نہیں ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ہم نے اپنے پڑوسی یہودیوں کی نسبت جب سے یہ معلوم کیا کہ وہ پاخانے سے نکل کر پانی سے پاکی کرتے ہیں، ہم نے اس وقت سے اپنا یہی وطیرہ بنا لیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے یہ سوال حضرت عویم بن عدی ؓ سے کیا تھا۔ حضرت خزیمہ بن ثابت ؓ کا فرمان ہے کہ پانی سے طہارت کرنا ہی وہ پاکیزگی تھی جس کی تعریف اللہ عزوجل نے کی۔ اور روایت میں ان کے جواب میں ہے کہ ہم توراۃ کے حکم کی رو سے پانی سے استنجاء کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔ الغرض جس مسجد کا اس آیت میں ذکر ہے وہ مسجد قبا ہے۔ اس کی تصریح بہت سے سلف صالحین نے کی ہے۔ لیکن ایک صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ تقوے پر بننے والی مسجد مسجد نبوی ہے جو مدینے شریف کے درمیان ہے۔ غرض ان دونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں جب کہ مسجد قبا شروع دن سے تقوے کی بنیادوں پر ہے تو مسجد نبوی اس وصف کی اس سے بھی زیادہ مستحق ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ جو مسجد اللہ کے ڈر پر بنائی گئی ہے وہ یہ میری مسجد ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ دو شخصوں میں اس بارے میں اختلاف ہوا کہ اس آیت میں کونسی مسجد مراد ہے، حضور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ میری یہ مسجد ہے۔ ان دونوں میں سے ایک کا قول تھا کہ یہ مسجد مسجد قبا ہے اور دوسرے کا قول تھا کہ یہ مسجد مسجد نبوی ہے۔ یہ حدیث ترمذی نسائی وغیرہ میں ہے۔ ان دونوں شخصوں میں سے ایک تو بنو خدرہ قبیلے کا تھا اور دوسرا بنو عمرو بن عوف میں سے تھا۔ خدری کا دعویٰ تھا کہ یہ مسجد نبوی ہے اور عمری کہتا تھا مسجد قبا ہے۔ حضرت ابو سعید ؓ رسول اکرم ﷺ کے گھر جا کر دریافت فرماتے ہیں کہ وہ مسجد کہاں ہے جس کی بنیادیں شروع سے ہی پرہیزگاری پر ہیں ؟ آپ نے کچھ کنکر اٹھا کر انہیں زمین پر پھینک کر فرمایا وہ تمہاری یہی مسجد ہے۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے۔ سلف کی اور خلف کی ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد یہ دونوں مسجدیں ہیں، واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ثابت ہوا کہ جن اگلی مسجدوں کی پہلے دن سے بنیاد اللہ کے تقوے پر رکھی گئی ہو وہاں نماز پڑھنا مستحب ہے۔ اور جہاں اللہ کے نیک بندوں کی جماعت ہو جو دین کے حامل ہوں، وضو اچھی طرح کرنے والے ہوں، کامل طہارت کے ساتھ رہنے والے ہوں، گندگیوں سے دور ہوں ان کے ساتھ نماز پڑھنا مستحب ہے۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو صبح کی نماز پڑھائی جس میں سورة روم پڑھی۔ اس میں آپ کو کچھ وہم سا ہوگیا نماز سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا قرآن کریم کی قرأت میں خلط ملط ہوجانے کا باعث تم میں سے وہ لوگ ہیں جو ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوتے ہیں لیکن وضو اچھی طرح نہیں کرتے ہمارے ساتھ کے نمازیوں کو وضو نہایت عمدہ کرنا چاہئے۔ اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ طہارت کا کمال اللہ کی عبادتوں کے بجا لانے انہیں پوری کرنے اور کامل کر کے اور شرعی حیثیت سے بجا لانے میں سہولت پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ پانی سے استنجا کرنا بیشک طہارت ہے۔ لیکن اعلیٰ طہارت گناہوں سے بجنا ہے۔ حضرت اعمش فرماتے ہیں گناہوں سے توبہ کرنا اور شرک سے بچنا پوری پاکیزگی ہے۔ اوپر حدیث گزر چکی کہ جب اہل قبا سے ان کی اس اللہ کی پسندیدہ طہارت کی نسبت رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا تو انہوں نے اپنے جواب میں پانی سے استنجا کرنا بیان کیا۔ پس یہ آیت ان کے حق میں اتری ہے۔ بزار ٰمیں ہے کہ انہوں نے کہا ہم پتھروں سے صفائی کر کے پھر پانی سے دھوتے ہیں۔ لیکن اس روایت میں محمد بن عبدالعزیز کا زہری سے تفرد ہے اور ان سے بھی ان کے بیٹے کے سوا اور کوئی راوی نہیں۔ اس حدیث کو ان لفظوں سے میں نے یہاں صرف اس لئے وارد کیا ہے کہ فقہاء میں یہ مشہور ہے لیکن محدثین کل کے کل اسے معروف نہیں بتاتے خصوصاً متاخرین لوگ واللہ اعلم۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 108 لاَ تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا ط مسجد بنانے کے بعد یہ منافقین حضور ﷺ کے پاس یہ درخواست لے کر آئے تھے کہ آپ ﷺ مسجد میں تشریف لے آئیں تو بڑی برکت ہوگی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بروقت روک دیا کہ آپ ﷺ وہاں تشریف نہ لے جائیں۔لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ ط یقیناً وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقویٰ پر رکھی گئی تھی ‘ وہ زیادہ مستحق ہے کہ آپ ﷺ اس میں کھڑے ہوں نماز پڑھیں اس سے مراد مسجد قبا ہے جو قریب ہی تھی اور جس کی بنیاد رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے رکھی تھی۔ یہ مقام اس وقت کے مدینہ کی آبادی سے تین میل کے فاصلے پر تھا۔ جب آپ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو یہ آپ ﷺ کا پہلا پڑاؤ تھا۔ آپ ﷺ نے اس مقام پر قیام فرمایا تھا اور یہاں اس مسجد کی بنیاد رکھی تھی۔فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَہَّرُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَ مسجد قبا والے مسلمانوں سے پوچھا گیا کہ آپ لوگوں کے کس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی طہارت کی تعریف فرمائی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ قضائے حاجت کے بعد ڈھیلے بھی استعمال کرتے ہیں اور پھر پانی سے بھی طہارت حاصل کرتے ہیں۔ چناچہ عام طور پر یہی سمجھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں طہارت کے اس معیار کی تعریف فرمائی ہے۔

لا تقم فيه أبدا لمسجد أسس على التقوى من أول يوم أحق أن تقوم فيه فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين

سورة: التوبة - آية: ( 108 )  - جزء: ( 11 )  -  صفحة: ( 204 )

Surah Taubah Ayat 108 meaning in urdu

تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عباد ت کے لیے) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. وہ لوگوں کو (اس طرح) اکھیڑے ڈالتی تھی گویا اکھڑی ہوئی کھجوروں کے تنے ہیں
  2. کیا خدا اپنے بندوں کو کافی نہیں۔ اور یہ تم کو ان لوگوں سے جو
  3. اور جن لوگوں نے اپنے پروردگار سے انکار کیا ان کے لئے جہنم کا عذاب
  4. تو کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان اسے
  5. کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے آسمان سے مینہ برسایا۔ تو ہم نے
  6. پھر ان سے کہا جائے گا کہ وہ کہاں ہیں جن کو تم (خدا کے)
  7. جس دن عذاب اُن کو اُن کے اُوپر سے اور نیچے سے ڈھانک لے گا
  8. ہم نے تم میں مرنا ٹھہرا دیا ہے اور ہم اس (بات) سے عاجز نہیں
  9. یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے
  10. بےشک نیک لوگ چین میں ہوں گے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Taubah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Taubah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Taubah Complete with high quality
surah Taubah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Taubah Bandar Balila
Bandar Balila
surah Taubah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Taubah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Taubah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Taubah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Taubah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Taubah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Taubah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Taubah Fares Abbad
Fares Abbad
surah Taubah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Taubah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Taubah Al Hosary
Al Hosary
surah Taubah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Taubah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Wednesday, December 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers