Surah Talaq Ayat 11 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا﴾
[ الطلاق: 11]
(اور اپنے) پیغمبر (بھی بھیجے ہیں) جو تمہارے سامنے خدا کی واضح المطالب آیتیں پڑھتے ہیں تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے ہیں ان کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے آئیں اور جو شخص ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا ان کو باغہائے بہشت میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہیں ہیں ابد الاآباد ان میں رہیں گے۔ خدا نے ان کو خوب رزق دیا ہے
Surah Talaq Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) رسول، ذکر سے بدل ہے، بطور مبالغہ رسول کو ذکر سے تعبیر فرمایا، جیسے کہتے ہیں، وہ تو مجسم عدل ہے۔ یا ذکر سے مراد قرآن ہے اور رسولاً سے پہلے أَرْسَلْنَا محذوف ہے یعنی ذکر ( قرآن ) کو نازل کیا اور رسول کو ارسال کیا۔
( 2 ) یہ رسول کا منصب اور فریضہ بیان کیا گیا کہ وہ قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو اخلاقی پستیوں سے شرک وضلالت کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان وعمل صالح کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔ رسول سے یہاں مراد الرسول یعنی حضرت محمد رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) ہیں۔
( 3 ) عمل صالح میں دونوں باتیں شامل ہیں، احکام وفرائض کی ادائیگی اور معصیات ومنہیات سے اجتناب۔ مطلب ہے کہ جنت میں وہی اہل ایمان داخل ہوں گے، جنہوں نے صرف زبان سے ہی ایمان کا اظہار نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے ایمان کے تقاضوں کے مطابق فرائض پر عمل اور معاصی سے اجتناب کیاتھا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
شریعت پر چلنا ہی۔۔ روشنی کا انتخاب ہے جو لوگ اللہ کے امر کا خلاف کریں اس کے رسول ﷺ کو نہ مانیں اس کی شریعت پر نہ چلیں انہیں ڈانٹا جا رہا ہے کہ دیکھو گزشتہ لوگوں میں سے بھی جو اس روش پر چلے وہ تباہ و برباد ہوگئے جنہوں نے سرتابی سرکشی اور تکبر کیا حکم اللہ اور اتباع رسول ﷺ سے بےپرواہی برتی آخرش انہیں سخت حساب دینا پڑا اور اپنی بد کرداری کا مزہ چکھنا پڑا۔ انجام کار نقصان اٹھایا اس وقت نادم ہنے لگے لیکن اب ندامت کس کام کی ؟ پھر دنیا کے اس عذاب سے ہی اگر پلا پاک ہوجاتا تو جب بھی ایک بات تھی، نہیں تو پھر ان کے لئے آخرت میں بھی سخت تر عذاب اور بےپناہ مار ہے، اب اے سوچ سمجھ والوں چاہئے کہ ان جیسے نہ بنو اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کرو، اے عقلمند ایماندارو اللہ نے تمہاری طرف قرآن کریم نازل فرما دیا ہے، ذکر سے مراد قرآن ہے جیسے اور جگہ فرمایا ( ترجمہ ) الخ، ہم نے اس قرآن کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں اور بعض نے کہا ہے ذکر سے مراد یہاں رسول ہے چناچہ ساتھ ہی فرمایا ہے رسولاً تو یہ بدل اشتمال ہے، چونکہ قرآن کے پہنچانے والے رسول اللہ ﷺ ہی ہیں تو اس مناسبت سے آپ کو لفظ ذکر سے یاد کیا گیا، حضرت امام ابن جریر بھی اسی مطلب کو درست بتاتے ہیں، پھر رسول ﷺ کی حالت بیان فرمائی کہ وہ اللہ کی واضح اور روشن آیتیں پڑھ سناتے ہیں تاکہ مسلمان اندھیروں سے نکل آئیں اور روشنیوں میں پہنچ جائیں، جیسے اور جگہ ہے ( الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ ۙ ) 14۔ ابراھیم :1) اس کتاب کو ہم نے تجھے دیا ہے تاکہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی میں لائے ایک اور جگہ ارشاد ہے ( اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ڛ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ02507ۧ ) 2۔ البقرة :257) ، اللہ ایمان والوں کا کار ساز ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف لاتا ہے، یعنی کفر و جہالت سے ایمان و علم کی طرف، چناچہ اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ وحی کو نور فرمایا ہے کیونکہ اس سے ہدایت اور راہ راست حاصل ہوتی ہے اور اسی کا نام روح بھی رکھا ہے کیونکہ اس سے دلوں کی زندگی ملتی ہے، چناچہ ارشاد باری ہے۔ ( ترجمہ ) یعنی ہم نے اسی طرح تیری طرف اپنے حکم سے روح کی وحی کی تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے اور ایمان کیا ہے ؟ لیکن ہم نے اسے نور کردیا جس کے ساتھ ہم اپنے جس بندے کو چاہیں ہدایت کرتے ہیں یقینا تو صحیح اور سچی راہ کی رہبری کرتا ہے، پھر ایمانداروں اور نیک اعمال والوں کا بدلہ بہتی نہروں والی ہمیشہ رہنے والی جنت بیان ہوا ہے جس کی تفسیر بارہا گذر چکی ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 1 1{ رَّسُوْلًا یَّـتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُـبَـیِّنٰتٍ لِّـیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ } ” یعنی ایک رسول ﷺ جو اللہ کی آیات بینات تم لوگوں کو پڑھ کر سنا رہا ہے ‘ تاکہ وہ نکالے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے اندھیروں سے نور کی طرف۔ “ یہاں وضاحت کردی گئی کہ ذکر سے مراد اللہ کا رسول ﷺ اور اللہ کی کتاب اٰیٰتِ اللّٰہِ مُـبَـیِّنٰتٍ ہے۔ سورة البینہ میں اس موضوع کی مزید وضاحت آئی ہے۔ { وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا } ” اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے “ دین کے تقاضوں کا درست فہم نہ ہونے کی وجہ سے آج ہمارے ہاں ” اعمالِ صالحہ “ کا تصور بھی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اعمالِ صالحہ سے اصل مراد یہ ہے کہ ایک بندئہ مومن ایمان کے جملہ تقاضوں کو پورا کرے۔ مکی دور میں جبکہ ابھی شراب ‘ جوا ‘ سود وغیرہ کی حرمت نہیں آئی تھی اور نماز ‘ روزہ ‘ جہاد و قتال وغیرہ کا حکم نہیں آیا تھا ‘ اس دور میں اہل ایمان کے لیے ” اعمالِ صالحہ “ یہی تھے کہ وہ ایمان کی دعوت دیں اور اس راستے پر جو تکلیفیں اور آزمائشیں آئیں انہیں استقامت سے برداشت کریں۔ پھر مدنی دور میں جیسے جیسے مزیداحکام آتے گئے ویسے ویسے ایمان کے تقاضے بھی بڑھتے گئے اور رفتہ رفتہ نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ ‘ عشر ‘ حج ‘ انفاق ‘ جہاد و قتال وغیرہ بھی اعمالِ صالحہ میں شامل ہوگئے۔ گویا جس وقت ایمان کا جو تقاضا ہو اسے پورا کرنے کا نام ” عمل صالحہ “ ہے۔ آج ایک عام مسلمان جب قرآن میں ” عمل صالحہ “ کی اصطلاح پڑھتا ہے تو اس سے اس کے ذہن میں صرف نماز ‘ روزہ اور ذکر اذکار کا تصور ہی آتا ہے ‘ جبکہ منکرات کے خلاف جدوجہد اور اقامت دین کے لیے محنت جیسے اہم تقاضوں کو آج اعمالِ صالحہ کی فہرست سے ہی خارج کردیا گیا ہے۔ تو جو کوئی ایمان لانے کے بعد ایمان کے تقاضوں کو بھی پورا کرے گا : { یُّدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَـآ اَبَدًا } ” وہ اسے داخل کرے گا ان باغات میں جن کے نیچے ندیاں بہتی ہوں گی ‘ جن میں وہ لوگ رہیں گے ہمیشہ ہمیش۔ “ { قَدْ اَحْسَنَ اللّٰہُ لَـہٗ رِزْقًا۔ } ” اللہ نے اس کے لیے بہت عمدہ رزق فراہم کیا ہے۔ “
رسولا يتلو عليكم آيات الله مبينات ليخرج الذين آمنوا وعملوا الصالحات من الظلمات إلى النور ومن يؤمن بالله ويعمل صالحا يدخله جنات تجري من تحتها الأنهار خالدين فيها أبدا قد أحسن الله له رزقا
سورة: الطلاق - آية: ( 11 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 559 )Surah Talaq Ayat 11 meaning in urdu
ایک ایسا رسو ل جو تم کو اللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات سناتا ہے تاکہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے جو کوئی اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اللہ اُسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق رکھا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو ان سے اس کا جواب کچھ نہ بن پڑا اور بولے تو یہ بولے
- منافقوں کی) مثال شیطان کی سی ہے کہ انسان سے کہتا رہا کہ کافر ہوجا۔
- جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے امن بخشا
- (کہہ دو کہ ہم نے) خدا کا رنگ (اختیار کر لیا ہے) اور خدا سے
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے پروردگار (کی
- اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی خدا ہی کو ہے اور خدا ہر چیز پر
- جو (قیامت کو) بڑی (تیز) آگ میں داخل ہو گا
- کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ (بےآزمائش) چھوڑ دیئے جاؤ گے اور ابھی
- اسی نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا
Quran surahs in English :
Download surah Talaq with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Talaq mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Talaq Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers