Surah baqarah Ayat 112 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾
[ البقرة: 112]
ہاں جو شخص خدا کے آگے گردن جھکا دے، (یعنی ایمان لے آئے) اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس کا صلہ اس کے پروردگار کے پاس ہے اور ایسے لوگوں کو (قیامت کے دن) نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) «أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ» کا مطلب ہے محض اللہ کی رضا کے لئے کام کرے اور«وَهُوَ مُحْسِنٌ» کا مطلب ہے اخلاص کے ساتھ پیغمبر آخرالزمان ( صلى الله عليه وسلم ) کی سنت کے مطابق۔ قبولیت عمل کے لئے یہ دو بنیادی اصول ہیں اور نجات اخروی ان ہی اصولوں کے مطابق کئےگئے اعمال صالحہ پر مبنی ہے، نہ کہ محض آرزوؤں پر۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
شیطان صفت مغرور یہودی یہاں پر یہودیوں اور نصرانیوں کے غرور کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو کچھ بھی نہیں سمجھتے اور صاف کہتے ہیں کہ ہمارے سوا جنت میں کوئی نہیں جائے گا سورة مائدہ میں ان کا ایک قول یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں جس کے جواب میں قرآن نے کہا کہ پھر تم پر قیامت کے دن عذاب کیوں ہوگا ؟ اسی طرح کے مفہوم کا بیان پہلے بھی گزرا ہے کہ ان کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ ہم چند دن جہنم میں رہیں گے جس کے جواب میں ارشاد باری ہوا کہ یہ دعویٰ بھی محض بےدلیل ہے اسی طرح یہاں ان کے ایک دعویٰ کی تردید کی اور کہا کہ لاؤ دلیل پیش کرو، انہیں عاجز ثابت کر کے پھر فرمایا کہ ہاں جو کوئی بھی اللہ کا فرمانبردار ہوجائے اور خلوص و توحید کے ساتھ نیک عمل کرے اسے پورا پورا اجر وثواب ملے گا، جیسے اور جگہ فرمایا کہ یہ اگر جھگڑیں تو ان سے کہ دو کہ میں اور میرے ماننے والوں نے اپنے چہرے اللہ کے سامنے متوجہ کردیئے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ اخلاص اور مطابقت سنت ہر عمل کی قبولیت کے لئے شرط ہے تو اسلم وجھہ سے مراد خلوص اور وھو محسن سے مراد اتباع سنت ہے نرا خلوص بھی عمل کو قمبول نہیں کرا سکتا جب تک سنت کی تابعداری نہ ہو حدیث شریف میں ہے جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے ( مسلم ) پس رہبانیت کا عمل گو خلوص پر مبنی ہو لیکن تاہم اتباع سنت نہ ہونے کی وجہ سے وہ مردود ہے ایسے ہی اعمال کی نسبت قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت ( وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا ) 25۔ الفرقان:23) یعنی انہوں نے جو اعمال کئے تھے ہم نے سب رد کردیئے دوسری جگہ فرمایا کافروں کے اعمال ریت کے چمکیلے تودوں کی طرح ہیں جنہیں پیاسا پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس جاتا ہے تو کچھ نہیں پاتا اور جگہ ہے کہ قیامت کے دن بہت سے چہروں پر ذلت برستی ہوگی جو عمل کرنے والے تکلیفیں اٹھانے والے ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے اور گرم کھولتا ہوا پانی انہیں پلایا جائے گا۔ حضرت امیر المومنین عمر بن خطاب نے اس آیت کی تفسیر میں مراد یہود و نصاریٰ کے علماء اور عابد لئے ہیں یہ بھی یاد رہے کہ کوئی عمل گو بظاہر سنت کے مطابق ہو لیکن عمل میں اخلاص نہ ہو مقصود اللہ کی خوشنودی نہ ہو تو وہ عمل بھی مردود ہے ریا کار اور منافق لوگوں کے اعمال کا بھی یہی حال ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں دھوکہ دیتا ہے اور نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرتے ہیں اور فرمایا آیت ( فویل للمصلین ) ان نمازیوں کے لئے ویل ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی روکتے پھرتے ہیں اور جگہ ارشاد ہے آیت ( فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا ) 18۔ الكهف:110) جو شخص اپنے رب کی ملاقات کا آرزو مند ہو اسے نیک عمل کرنا چاہئے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا چاہئے پھر فرمایا انہیں ان کا رب اجر دے گا اور ڈر خوف سے بچائے گا آخرت میں انہیں ڈر نہیں اور دنیا کے چھوڑنے کا ملال نہیں۔ پھر یہود و نصاریٰ کی آپس کی بغض و عداوت کا ذکر فرمایا، نجران کے نصرانیوں کا وفد جب نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تو ان کے پاس یہودیوں کے علماء بھی آئے اس وقت ان لوگوں نے انہیں اور انہوں نے ان کو گمراہ بتایا حالانکہ دونوں اہل کتاب ہیں توراۃ میں انجیل کی تصدیق اور انجیل میں توراۃ کی تصدیق موجود ہے پھر ان کا یہ قول کس قدر لغو ہے، اگلے یہود و نصاریٰ دین حق پر قائم تھے لیکن پھر بدعتوں اور فتنہ پردازیوں کی وجہ سے دین ان سے چھن گیا اب نہ یہود ہدایت پر تھے نہ نصرانی پھر فرمایا کہ نہ جاننے والوں نے بھی اسی طرح کہا اس میں بھی اشارہ انہی کی طرف ہے اور بعض نے کہا مراد اس سے یہود و نصاریٰ سے پہلے کے لوگ ہیں۔ بعض کہتے ہیں عرب لوگ مراد ہیں امام ابن جریر اس سے عام لوگ مراد لیتے ہیں گویا سب شامل ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے۔ واللہ اعلم۔ پھر فرمایا کہ اختلاف کا فیصلہ قیامت کو خود اللہ تعالیٰ کرے گا جس دن کوئی ظلم و زور نہیں ہوگا اور یہی مضمون دوسری جگہ بھی آیا ہے سورة حج میں ارشاد ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ) 22۔ الحج:17) یعنی مومنوں اور یہودیوں اور صابیوں اور نصرانیوں اور مجوسیوں اور مشرکوں میں قیامت کے دن اللہ فیصلہ فرمائے گا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ اور موجود ہے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بالْحَقِّ ۭ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـيْمُ ) 34۔ سبأ :26) کہہ دے کر ہمارا رب ہمیں جمع کرے گا پھر حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا وہ باخبر فیصلے کرنے والا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 112 بَلٰی ق مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ اس کا سر تسلیم خم کردینے کا رویہ صدق و سچائی اور حسن کردار پر مبنی ہو۔ سر کا جھکانا منافقانہ انداز میں نہ ہو ‘ اس کی اطاعت جزوی نہ ہو کہ کچھ مانا کچھ نہیں مانا۔ َ ّ فَلَہٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖص تو اس کے لیے اس کا اجر محفوظ ہے اس کے رب کے پاس۔ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ یہ دوسری آیت ہے کہ جس سے کچھ لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ نجات اخروی کے ‘ لیے ایمان بالرسالت ضروری نہیں ہے۔ اس کا جواب پہلے عرض کیا جا چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ :اوّلًا قرآن حکیم میں ہر مقام پر ساری چیزیں بیان نہیں کی جاتیں۔ کوئی شے ایک جگہ بیان کی گئی ہے تو کوئی کہیں دوسری جگہ بیان کی گئی ہے۔ اس سے ہدایت حاصل کرنی ہے تو اس کو پورے کا پورا ایک کتاب کی حیثیت سے لینا ہوگا۔ ثانیاً یہ سارا سلسلۂ کلام دو بریکٹوں کے درمیان آ رہا ہے اور اس سے پہلے یہ الفاظ واضح طور پر آ چکے ہیں : وَاٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ ص چناچہ یہ عبارت ضرب کھا رہی ہے اس پورے کے پورے سلسلۂ مضامین سے جو ان دو بریکٹوں کے درمیان آ رہا ہے۔
بلى من أسلم وجهه لله وهو محسن فله أجره عند ربه ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون
سورة: البقرة - آية: ( 112 ) - جزء: ( 1 ) - صفحة: ( 17 )Surah baqarah Ayat 112 meaning in urdu
دراصل نہ تمہاری کچھ خصوصیت ہے، نہ کسی اور کی حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے، اس کے لیے اس کے رب کے پاس اُس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل
- جب انہوں نے (اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو) ڈالا تو موسیٰ نے کہا کہ جو
- اور جو نیک بخت ہوں گے، وہ بہشت میں داخل کیے جائیں گے اور جب
- پھر ان کی رگ گردن کاٹ ڈالتے
- اور ہم اپنے پیغمبروں کو اور مومنوں کو نجات دیتے رہے ہیں۔ اسی طرح ہمارا
- جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی۔ ان کے لیے
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- وہی (رات کے اندھیرے سے) صبح کی روشنی پھاڑ نکالتا ہے اور اسی نے رات
- تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کیا کروں۔ ہرگز نہیں۔ یہ
- اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers