Surah Taubah Ayat 112 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾
[ التوبة: 112]
توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیک کاموں کا امر کرنے والے، بری باتوں سے منع کرنے والے، خدا کی حدوں کی حفاظت کرنے والے، (یہی مومن لوگ ہیں) اور اے پیغمبر مومنوں کو (بہشت کی) خوش خبری سنادو
Surah Taubah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ انہیں مومنین کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں جن کی جانوں اور مالوں کا سودا اللہ نے کر لیا ہے، وہ توبہ کرنے والے، یعنی گناہوں اور فواحش سے بچتے اور اپنے رب کی عبادت کرنے والے، زبان سے اللہ کی حمد اور ثنا بیان کرنے والے اور دیگر ان صفات کے حامل ہیں جو آیت میں مذکور ہیں۔ سیاحت سے مراد اکثر مفسرین نے روزے لیے ہیں اور اسی کو ابن کثیر نے صحیح ترین اور مشہور ترین قول قرار دیا ہے۔ اور بعض نے اس سے جہاد مراد لیا ہے۔ تاہم سیاحت سے زمین کی سیاحت مراد نہیں ہے جس طرح کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے۔ اسی طرح اللہ کی عبادت کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں غاروں اور سنسان بیابانوں میں جاکر ڈیرے لگا لینا بھی اس سے مراد نہیں ہے۔ کیونکہ یہ رہبانیت اور جوگی پن کا ایک حصہ ہے جو اسلام میں نہیں ہے۔ البتہ فتنوں کے ایام میں اپنے دین کو بچانے کے لیے شہروں اور آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں اور بیابانوں میں جاکر رہنے کی اجازت حدیث میں دی گئی ہے۔ ( صحیح بخاری۔ کتاب الایمان، باب من الدین الفرار من الفتن و کتاب الفتن باب التعرب۔ ای السکنی مع الاعراب۔ فی الفتنة )
( 2 ) مطلب یہ ہے کہ مومن کامل وہ ہے جو قول اور عمل اسلام کی تعلیمات کا عمدہ نمونہ ہو اور ان چیزوں سے بچنے والا ہو جن سے اللہ نے اسے روک دیا ہے اور یوں اللہ کی حدوں کو پامال نہیں، بلکہ ان کی حفاظت کرنے والا ہو۔ ایسے ہی کامل مومن خوشخبری کے مستحق ہیں یہ وہ بات ہے جسے قرآن میں «اٰ مَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ» کے الفاظ میں بار بار بیان کیا گیا ہے۔ یہاں اعمال صالحہ کی قدرے تفصیل بیان کر دی گئی ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مومنین کی صفات جن مومنوں کا اوپر ذکر ہوا ہے ان کی پاک اور بہترین صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ تمام گناہوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں، برائیوں کو چھوڑتے جاتے ہیں، اپنے رب کی عبادت پر جمے رہتے ہیں، ہر قسم کی عبادتوں میں خاص طور پر قابل ذکر چیز اللہ کی حمد و ثنا ہے اس لئے وہ اس کی حمد بکثرت ادا کرتے ہیں اور فعلی عبادتوں میں خصوصیت کے ساتھ افضل عبادت روزہ ہے اس لیے وہ اسے بھی اچھائی سے رکھتے ہیں۔ کھانے پینے کو، جماع کو ترک کردیتے ہیں۔ یہی مراد لفظ سائحون سے یہاں ہے۔ یہی وصف آنحضرت ﷺ کی بیویوں کا قرآن نے بیان فرمایا ہے اور یہی لفظ سائحات وہاں بھی ہے۔ رکوع سجود کرتے رہتے ہیں۔ یعنی نماز کے پابند ہیں۔ اللہ کی ان عبادتوں کے ساتھ ہی ساتھ مخلوق کے نفع سے بھی غافل نہیں۔ اللہ کی اطاعت کا ہر ایک کو حکم کرتے ہیں۔ برائیوں سے روکتے رہتے ہیں۔ خود علم حاصل کر کے بھلائی برائی میں تمیز کر کے اللہ کے احکام کے حفاظت کر کے پھر اوروں کو بھی اس کی رغبت دیتے ہیں۔ حق تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مخلوق کی حفاظت دونوں زیر نظر رکھتے ہیں۔ یہی باتیں ایمان کی ہیں اور یہی اوصاف مومنوں کے ہیں۔ انہیں خو شخبریاں ہوں۔ حضرت ابن مسعود ؓ سیاحت سے مراد روزہ لیتے ہیں۔ اسی طرح ابن عباس ؓ بھی بلکہ آپ سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے وہاں یہی مطلب ہے۔ ضحاک بھی یہی کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں۔ کہ اس امت کی سیاحت روزہ ہے۔ مجاہد، سعید، عطاء، عبدالرحمن، ضحاک سفیان وغیرہ کہتے ہیں کہ مراد سائحون سے صائمون ہے۔ یعنی جو روزے رمضان کے رکھیں۔ ابو عمرو کہتے ہیں روزہ پر دوام کرنے والے۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ مراد سائحون سے روزے دار ہیں لیکن اس حدیث کا موقف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس لفظ کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے یہ فرمایا۔ تمام اقوال سے زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور تو یہی قول ہے۔ اور ایسی دلیلیں بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مراد سیاحت سے اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ مجھے سیاحت کی اجازت دیجئے۔ آپ نے فرمایا میری امت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں سیاحت کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے اپنی راہ کا جہاد اور ہر اونچائی پر اللہ اکبر کہنا عطا فرمایا ہے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں اور مراد اس سے علم دین کے طالب علم ہیں۔ عبدالرحمن فرماتے ہیں اللہ کی راہ کے مہاجر ہیں۔ بعض لوگ صوفیہ طبقہ کے جو اس سے مراد لیتے ہیں کہ زمین کی سیر کرنا، سفر میں رہنا، ادھر ادھر جانا آنا، پہاڑوں، دوروں، جنگلوں اور بندوں میں پھرنا اس کا نام سیاحت ہے، یہ محض غلط فہمی ہے، یہ سیاحت مشروع نہیں۔ ہاں اللہ نہ کرے اگر بستی میں رہنے سے دین میں کوئی فتنہ پڑنے کا اندیشہ ہو تو اور بات ہے۔ جیسے کہ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں قریب ہے کہ مومن کا سب سے بہتر مال بکریاں بن جائیں جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں میں پڑا رہے، اپنے دین کو لے کر فتنوں سے بھاگتا اور بچتا رہے۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے یعنی بقول ابن عباس اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رہنے والے بقول حسن بصری فرائض کی پابندی کرنے والے، اللہ تعالیٰ کے حکم کے بجا لانے والے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 112 اَلتَّآءِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآءِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ ’ سَاءِحُوْنَ ‘ کا معنی ہے سیاحت کرنے والے۔ لیکن اس سے مرادمحض سیر و سیاحت نہیں بلکہ عبادت و ریاضت کے لیے گھربار چھوڑ کر نکل کھڑے ہونا ہے۔ پچھلی امتوں میں روحانی ترقی کے لیے لوگ لذات دنیوی کو ترک کر کے اور انسانی آبادیوں سے لا تعلق ہو کر جنگلوں میں چلے جاتے تھے اور رہبانیت اختیار کرلیتے تھے ‘ مگر ہمارے دین میں ایسی سیاحت اور رہبانیت کی اجازت نہیں۔ چناچہ حضور ﷺ نے فرمایا : لاَ رَہْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ وَلَا سِیَاحَۃَ 1 اسلام میں نہ رہبانیت ہے نہ سیاحت۔ سابقہ ادیان کے برعکس اسلام نے سیاحت اور رہبانیت کا جو تصور متعارف کرایا ہے اس کے لیے ابوامامہ باہلی رض سے مروی یہ حدیث ملاحظہ کیجیے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ سِیَاحَۃَ وَاِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ‘ وَاِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ رَہْبَانِیَّۃٌ وَرَھْبَانِیَّۃُ اُمَّتِی الرِّبَاطُ فِیْ نُحُوْرِ الْعَدُوِّ 2 ہر امت کے لیے سیاحت کا ایک طریقہ تھا اور میری امت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے ‘ اور ہر امت کی ایک رہبانیت تھی ‘ جبکہ میری امت کی رہبانیت دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا ہے ایک صحابی رض نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ‘ مجھے سیاحت کی اجازت دیجیے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ 3گویا ہماری امت کے لیے ’ سیاحت ‘ کا اطلاق جہاد و قتال کے لیے گھر سے نکلنے اور اس راستے میں صعوبتیں اٹھانے پر ہوگا۔یہ چھ اوصاف جو اوپر گنوائے گئے ہیں ان کا تعلق انسانی شخصیت کے نظریاتی پہلو سے ہے۔ اب اس کے بعد تین ایسی خصوصیات کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو انسان کی عملی جدوجہد سے متعلق ہیں اور دعوت و تحریک کی صورت میں معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔الْاٰمِرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ امر بالمعروف گویا دین کے لیے عملی جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ یہ جدوجہد جب آگے بڑھ کر نہی عن المنکر بالید کے مرحلے تک پہنچتی ہے تو پھر ان خدائی فوجداروں کی ضرورت پڑتی ہے جن کو یہاں وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِط کا لقب دیا گیا ہے۔ یہ لوگ اگر پوری طرح منظم ہوں تو اپنی تنظیمی طاقت کے بل پر کھڑے ہو کر اعلان کریں کہ اب ہم اپنے معاشرے میں منکرات کا سکہ نہیں چلنے دیں گے اور کسی کو اللہ کی حدود کو توڑنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اللّٰھم رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! منہج انقلاب نبوی ﷺ میں اس مرحلے کے ضمن میں آج اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ حالات میں نہی عن المنکر بالید کے لیے اجتماعی اور منظم جدوجہد کی صورت کیا ہوگی۔
التائبون العابدون الحامدون السائحون الراكعون الساجدون الآمرون بالمعروف والناهون عن المنكر والحافظون لحدود الله وبشر المؤمنين
سورة: التوبة - آية: ( 112 ) - جزء: ( 11 ) - صفحة: ( 205 )Surah Taubah Ayat 112 meaning in urdu
اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے، اُس کے بندگی بجا لانے والے، اُس کی تعریف کے گن گانے والے، اُس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اُس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے، اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے، (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے خرید و فروخت کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ ان مومنوں کو خوش خبری دے دو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (یہ) بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں کہ (کسی طرح سیدھے رستے کی طرف) لوٹ
- ان کی آنکھیں جھک رہی ہوں گی اور ذلت ان پر چھا رہی ہوگی۔ یہی
- اور تم کو قرآن (خدائے) حکیم وعلیم کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے
- اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے
- تو خدا نے اس کا انجام یہ کیا کہ اس روز تک کے لیے جس
- مگر اس کو جو جہنم میں جانے والا ہے
- ہاں جس نے ظلم کیا پھر برائی کے بعد اسے نیکی سے بدل دیا تو
- اس دن سچی بادشاہی خدا ہی کی ہوگی۔ اور وہ دن کافروں پر (سخت) مشکل
- ایک دوسرے کو سامنے دیکھ رہے ہوں گے (اس روز) گنہگار خواہش کرے گا کہ
- چند ہی سال میں پہلے بھی اور پیچھے بھی خدا ہی کا حکم ہے اور
Quran surahs in English :
Download surah Taubah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Taubah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Taubah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers