Surah Al Israa Ayat 26 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا﴾
[ الإسراء: 26]
اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو۔ اور فضول خرچی سے مال نہ اُڑاؤ
Surah Al Israa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) قرآن کریم کے ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ غریب رشتہ داروں، مساکین اور ضرورت مند مسافروں کی امداد کر کے، ان پر احسان نہیں جتلانا چاہیے کیونکہ یہ ان پر احسان نہیں ہے، بلکہ مال کا وہ حق ہے جو اللہ تبارک و تعالٰی نے اصحاب مال کے مالوں میں مذکورہ ضرورت مندوں کا رکھا ہے، اگر صاحب مال یہ حق ادا نہیں کرے گا تو عند اللہ مجرم ہوگا۔ گویا یہ حق کی ادائیگی ہے، نہ کہ کسی پر احسان ۔علاوہ ازیں رشتے داروں کے پہلے ذکر سے ان کی اولیت اور اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو، صلہ رحمی کہا جاتا ہے، جس کی اسلام میں بڑی تاکید ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ماں باپ سے حسن سلوک کی تاکید ماں باپ سے پھر جو زیادہ قریب ہو اور جو زیادہ قریب ہو، اور حدیث میں ہے جو اپنے رزق کی اور اپنی عمر کی ترقی چاہتا ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے۔ بزاز میں ہے اس آیت کے اترتے ہی رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ کو بلا کر فدک عطا فرمایا۔ اس حدیث کی سند صحیح نہیں۔ اور واقعہ بھی کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لئے کہ یہ آیت مکیہ ہے اور اس وقت تک باغ فدک حضور ﷺ کے قبضے میں نہ تھا۔ r007ھ میں خیبر فتح ہوا تب باغ آپ کے قبضے میں آیا پس یہ قصہ اس پر پورا نہیں اترتا۔ مساکین اور مسافرین کی پوری تفسیر سورة برات میں گزر چکی ہے یہاں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ خرچ کا حکم کر کے پھر اسراف سے منع فرماتا ہے۔ نہ تو انسان کو بخیل ہونا چأہیے نہ مسرف بلکہ درمیانہ درجہ رکھے۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا 67 ) 25۔ الفرقان:67) یعنی ایماندار اپنے خرچ میں نہ تو حد سے گزرتے ہیں نہ بالکل ہاتھ روک لیتے ہیں۔ پھر اسراف کی برائی بیان فرماتا ہے کہ ایسے لوگ شیطان جیسے ہیں۔ تبذیر کہتے ہیں غیر حق میں خرچ کرنے کو۔ اپنا کل مال بھی اگر راہ للہ دے دے تو یہ تبدیر و اسراف نہیں اور غیر حق میں تھوڑا سا بھی دے تو مبذر ہے بنو تمیم کے ایک شخص نے حضور ﷺ سے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں مالدار آدمی ہوں اور اہل و عیال کنبے قبیلے والا ہوں تو مجھے بتائیے کہ میں کیا روش اختیار کروں ؟ آپ نے فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ الگ کر، اس سے تو پاک صاف ہوجائے گا۔ اپنے رشتے داروں سے سلوک کر سائل کا حق پہنچاتا رہ اور پڑوسی اور مسکین کا بھی۔ اس نے کہا حضور ﷺ اور تھوڑے الفاظ میں پوری بات سمجھا دیجئے۔ آپ نے فرمایا قرابت داروں مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کر اور بےجا خرچ نہ کر۔ اس نے کہا حسبی اللہ اچھا حضور ﷺ جب میں آپ کے قاصد کو زکوٰۃ ادا کر دوں تو اللہ و رسول کے نزدیک میں بری ہوگیا ؟ آپ نے فرمایا ہاں جب تو نے میرے قاصد کو دے دیا تو تو بری ہوگیا اور تیرے لئے جو اجر ثابت ہوگیا۔ اب جو اسے بدل ڈالے اس کا گناہ اس کے ذمے ہے۔ یہاں فرمان ہے کہ اسراف اور بیوقوفی اور اللہ کی اطاعت کے ترک اور نافرمانی کے ارتکاب کی وجہ سے مسرف لوگ شیطان کے بھائی بن جاتے ہیں۔ شیطان میں یہی بد خصلت ہے کہ وہ رب کی نعمتوں کا شکر اس کی اطاعت کا تارک اسی کی نافرمانی اور مخالفت کا عامل ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ان قرابت داروں، مسکینوں، مسافروں میں سے کوئی کبھی تجھ سے کچھ سوال کر بیٹھے اور اس وقت تیرے ہاتھ تلے کچھ نہ ہو اور اس وجہ سے تجھے ان سے منہ پھیرلینا پڑے تو بھی جواب نرم دے کہ بھائی جب اللہ ہمیں دے گا انشاء اللہ ہم آپ کا حق نہ بھولیں گے وغیرہ۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 26 وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًاتبذیر کے معنی بلاضرورت مال اڑانے کے ہیں اور یہ اسراف سے بڑا جرم ہے۔ اسراف تو یہ ہے کہ کسی ضرورت میں ضرورت سے زائد خرچ کیا جائے۔ مثلاً کھانا کھانا ایک ضرورت ہے اور یہ ضرورت دو روٹیوں اور تھوڑے سے سالن سے بخوبی پوری ہوجاتی ہے مگر اسی ضرورت کے لیے اگر کئی کئی کھانوں پر مشتمل دستر خوان سجا دیے جائیں تو یہ اسراف ہے۔ اسی طرح کپڑا انسان کی ضرورت ہے جس کے لیے ایک دو جوڑے کافی ہیں۔ اب اگر الماریوں کی الماریاں طرح طرح کے جوڑوں سوٹوں اور پوشاکوں سے بھری پڑی رہیں تو یہ اسراف کے زمرے میں آئے گا۔ اسراف کے مقابلے میں تبذیر سے مراد ایسے بےتحاشا اخراجات ہیں جن کی سرے سے ضرورت ہی نہ ہو مثلاً شادی بیاہ کی رسموں پر بےحساب خرچ کرنا اور نام و نمود کے لیے طرح طرح کے مواقع پیدا کر کے ان پر مال و دولت کو ضائع کرنا تبذیر ہے۔
وآت ذا القربى حقه والمسكين وابن السبيل ولا تبذر تبذيرا
سورة: الإسراء - آية: ( 26 ) - جزء: ( 15 ) - صفحة: ( 284 )Surah Al Israa Ayat 26 meaning in urdu
رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق فضول خرچی نہ کرو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- مومنو! تمہارے غلام لونڈیاں اور جو بچّے تم میں سے بلوغ کو نہیں پہنچے تین
- وہی خدا (تمام مخلوقات کا) خالق۔ ایجاد واختراع کرنے والا صورتیں بنانے والا اس کے
- خدا وہی تو ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان جیسا کہ تم دیکھتے ہو
- بےشک ان کو ہمارے پاس لوٹ کر آنا ہے
- اور طور سینین کی
- اور ان کے دلوں سے غصہ دور کرے گا اور جس پر چاہے گا رحمت
- کیا لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر اور معبود بنالئے ہیں۔ کہہ دو کہ (اس
- اور جب شیطانوں نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کر کے دکھائے اور کہا
- اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا۔ یہی سیدھا رستہ ہے
Quran surahs in English :
Download surah Al Israa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Israa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Israa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers