Surah al imran Ayat 118 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ﴾
[ آل عمران: 118]
مومنو! کسی غیر (مذہب کے آدمی) کو اپنا رازداں نہ بنانا یہ لوگ تمہاری خرابی اور (فتنہ انگیزی کرنے) میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو) تمہیں تکلیف پہنچے ان کی زبانوں سے تو دشمنی ظاہر ہوہی چکی ہے اور جو (کینے) ان کے سینوں میں مخفی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دی ہیں
Surah al imran Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ مضمون پہلے بھی گزرچکا ہے - یہاں اس کی اہمیت کے پیش نظر پھر دہرایا جا رہا ہے۔ بطانہ، دلی دوست اور راز دار کو کہا جاتا ہے۔ کافر اور مشرک مسلمانوں کے بارے میں جو جذبات وعزائم رکھتے ہیں، ان میں سے جن کا وہ اظہار کرتے اور جنہیں اپنے سینوں میں مخفی رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سب کی نشاندہی فرما دی ہے یہ اور اس قسم کی دیگر آیات کے پیش نظر ہی علما وفقہا نے تحریر کیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو کلیدی مناصب پر فائز کرنا جائز نہیں ہے۔ مروی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ( رضي الله عنه ) نے ایک ذمی ( غیر مسلم ) کو کاتب ( سیکرٹری ) رکھ لیا، حضرت عمر ( رضي الله عنه ) کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے انہیں سختی سے ڈانٹا اور فرمایا کہ ( تم انہیں اپنے قریب نہ کرو جب کہ اللہ نے انہیں دور کر دیا ہے، ان کو عزت نہ بخشو جب کہ اللہ نے انہیں ذلیل کر دیا ہے اور انہیں امین ورازدار مت بناؤ جب کہ اللہ نے انہیں خائن قراردیا ہے )۔ حضرت عمر ( رضي الله عنه ) نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں۔ ( اس زمانے میں اہل کتاب کو سیکرٹری اور امین بنانے کی وجہ سے احوال بدل گئے ہیں اور اسی وجہ سے غبی لوگ سردار اور امرا بن گئے ہیں ) ( تفسیر قرطبی )۔ بدقسمتی سے آج کے اسلامی ممالک میں بھی قرآن کریم کے اس نہایت اہم حکم کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے اور اس کے برعکس غیر مسلم بڑے بڑے اہم عہدوں اور کلیدی مناصب پر فائز ہیں جن کے نقصانات واضح ہیں۔ اگر اسلامی ممالک اپنی داخلی اور خارجی دونوں پالیسیوں میں اس حکم کی رعایت کریں تو یقیناً بہت سے مفاسد اور نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
( 2 ) لا يَأْلُونَ کوتاہی اور کمی نہیں کریں گےخَبَالاکے معنی فساد اور ہلاکت کے ہیں مَا عَنِتُّمْ ( جس سے تم مشقت اور تکلیف میں پڑو )عَنَتٌ بمعنی مَشَقّةٍ
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
کافر اور منافق مسلمان کے دوست نہیں انہیں اپنا ہم راز نہ بناؤ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو کافروں اور منافقوں کی دوستی اور ہم راز ہونے سے روکتا ہے کہ یہ تو تمہارے دشمن ہیں ان کی چکنی چپڑی باتوں میں خوش نہ ہوجانا اور ان کے مکر کے پھندے میں پھنس نہ جانا ورنہ موقعہ پا کر یہ تمہیں سخت ضرر پہنچائیں گے اور اپنی باطنی عداوت نکالیں گے تم انہیں اپنا راز دار ہرگز نہ سمجھنا راز کی باتیں ان کے کانوں تک ہرگز نہ پہنچانا بطانہ کہتے ہیں انسان کے راز دار دوست کو اور من دو نکم سے مراد جس خلیفہ کو مقرر کیا اس کیلئے دو بطانہ مقرر کئے ایک تو بھلائی کی بات سمجھانے والا اور اس پر رغبت دینے والا اور دوسرا برائی کی رہبری کرنے والا اور اس پر آمادہ کرنے والا بس اللہ جسے بچائے وہی بچ سکتا ہے، حضرت عمر بن خطاب ؓ سے کہا گیا کہ یہاں پر حیرہ کا ایک شخص بڑا اچھا لکھنے والا اور بہت اچھے حافظہ والا ہے آپ اسے اپنا محرر اور منشی مقرر کرلیں آپ نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ غیر مومن کو بطانہ بنا لوں گا جو اللہ نے منع کیا ہے، اس واقعہ کو اور اس آیت کو سامنے رکھ کر ذہن اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ذمی کفار کو بھی ایسے کاموں میں نہ لگانا چاہئے ایسا نہ ہو کہ وہ مخالفین کو مسلمانوں کے پوشیدہ ارادوں سے واقف کر دے اور ان کے دشمنوں کو ان سے ہوشیار کر دے کیونکہ انکی تو چاہت ہی مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی ہوتی ہے، ازہر بن راشد کہتے ہیں کہ لوگ حضرت انس ؓ سے حدیثیں سنتے تھے اگر کسی حدیث کا مطلب سمجھ میں نہ آتا تو حضرت حسن بصری سے جا کر مطلب حل کرلیتے تھے ایک دن حضرت انس ؓ نے یہ حدیث بیان کی کہ مشرکوں کی آگ سے روشنی طلب نہ کرو اور اپنی انگوٹھی میں عربی نقش نہ کرو انہوں نے آکر حسن بصری سے اس کی تشریح دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ پچھلے جملہ کا تو یہ مطلب ہے کہ انگوٹھی پر محمد ﷺ نہ کھدواؤ اور پہلے جملہ کا یہ مطلب ہے کہ مشرکوں سے اپنے کاموں میں مشورہ نہ لو، دیکھو کتاب اللہ میں بھی ہے کہ ایمان دارو اپنے سوا دوسروں کو ہمراز نہ بناؤ لیکن حسن بصری کی یہ تشریح قابل غور ہے حدیث کا ٹھیک مطلب غالباً یہ ہے کہ محمد رسول اللہ عربی خط میں اپنی انگوٹھیوں پر نقش نہ کراؤ، چناچہ اور حدیث میں صاف ممانعت موجود ہے یہ اس لئے تھا کہ حضور ﷺ کی مہر کے ساتھ مشابہت نہ ہو اور اول جملے کا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کی بستی کے پاس نہ رہو اس کے پڑوس سے دور رہو ان کے شہروں سے ہجرت کر جاؤ جیسے ابو داؤد میں ہے کہ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان کی لڑائی کی آگ کو کیا تم نہیں دیکھتے اور حدیث میں ہے جو مشرکوں سے میل جول کرے یا ان کے ساتھ رہے بسے وہ بھی انہی جیسا ہے پھر فرمایا ان کی باتوں سے بھی ان کی عداوت ٹپک رہی ہے ان کے چہروں سے بھی قیافہ شناس ان کی باطنی خباثتوں کو معلوم کرسکتا ہے پھر جو ان کے دلوں میں تباہ کن شرارتیں ہیں وہ تو تم سے مخفی ہیں لیکن ہم نے تو صاف صاف بیان کردیا ہے عاقل لوگ ایسے مکاروں کی مکاری میں نہیں آتے پھر فرمایا دیکھو کتنی کمزوری کی بات ہے کہ تم ان سے محبت رکھو اور وہ تمہیں نہ چاہیں، تمہارا ایمان کل کتاب پر ہو اور یہ شک شبہ میں ہی پڑے ہوئے ہیں ان کی کتاب کو تم تو مانو لیکن یہ تمہاری کتاب کا انکار کریں تو چاہئے تو یہ تھا کہ تم خود انہیں کڑی نظروں سے دیکھتے لیکن برخلاف اس کے یہ تمہاری عداوت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ سامنا ہوجائے تو اپنی ایمانداری کی داستان بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں لیکن جب ذرا الگ ہوتے ہیں تو غیظ و غضب سے جلن اور حسد سے اپنی انگلیاں چباتے ہیں پس مسلمانوں کو بھی ان کی ظاہرداری سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے یہ چاہے جلتے بھنتے رہیں لیکن اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کو ترقی دیتا رہے گا مسلمان دن رات ہر حیثیت میں بڑھتے ہی رہیں گے گو وہ مارے غصے کے مرجائیں۔ اللہ ان کے دلوں کے بھیدوں سے بخوبی واقف ہے ان کے تمام منصوبوں پر خاک پڑے گی یہ اپنی شرارتوں میں کامیاب نہ ہوسکیں گے اپنی چاہت کے خلاف مسلمانوں کی دن دوگنی ترقی دیکھیں گے اور آخرت میں بھی انہیں نعمتوں والی جنت حاصل کرتے دیکھیں گے برخلاف ان کے یہ خود یہاں بھی رسوا ہوں گے اور وہاں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے، ان کی شدت عداوت کی یہ کتنی بڑی دلیل ہے کہ جہاں تمہیں کوئی نفع پہنچتا ہے یہ کلیجہ مسوسنے لگے اور اگر ( اللہ نہ کرے ) تمہیں کوئی نقصان پہنچ گیا تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں بغلیں بجانے اور خوشیاں منانے لگتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کی مدد ہوئی یہ کفار پر غالب آئے انہیں غنیمت کا مال ملا یہ تعداد میں بڑھ گے تو وہ جل بجھے اور اگر مسلمانوں پر تنگی آگئی یا دشمنوں میں گھر گئے تو ان کے ہاں عید منائی جانے لگی۔ اب اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو خطاب کر کے فرماتا ہے کہ ان شریروں کی شرارت اور ان بدبختوں کے مکر سے اگر نجات چاہتے ہو تو صبرو تقویٰ اور توکل کرو اللہ عزوجل خود تمہارے دشمنوں کو گھیر لے گا کسی بھلائی کے حاصل کرنے کسی برائی سے بچنے کی کسی میں طاقت نہیں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوسکتا جو اس پر توکل کرے اسے وہ کافی ہے۔ اسی مناسبت سے اب جنگ احد کا ذکر شروع ہوتا ہے جس پر مسلمانوں کے صبرو تحمل کا بیان ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کی آزمائش کا پورا نقشہ ہے اور جس میں مومن و منافق کی ظاہری تمیز ہے سنئے ارشاد ہوتا ہے
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 118 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ یعنی جس شخص کے بارے میں اطمینان ہو کہ صاحب ایمان ہے ‘ مسلمان ہے ‘ اس کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا بھیدی اور محرم راز نہ بناؤ۔ یہودی ایک عرصے سے مدینہ میں رہتے تھے اور اوس و خزرج کے لوگوں کی ان سے دوستیاں تھیں ‘ پرانے تعلقات اور روابط تھے۔ اس کی وجہ سے بعض اوقات سادہ لوح مسلمان اپنی سادگی میں راز کی باتیں بھی انہیں بتا دیتے تھے۔ اس سے انہیں روکا گیا۔لاَ یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالاً ط وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ ج قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ ج ان کا کلام ایسا زہر آلود ہوتا ہے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی ٹپکی پڑتی ہے۔ یہ اپنی زبانوں سے آتش برساتے ہیں۔ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ ط ۔جو کچھ ان کی زبانوں سے ظاہر ہوتا ہے وہ تو پھر بھی کم ہے ‘ ان کے دلوں کے اندر دشمنی اور حسد کی جو آگ بھڑک رہی ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ یعنی اپنے طرز عمل پر غور کرو اور اس سے باز آجاؤ !
ياأيها الذين آمنوا لا تتخذوا بطانة من دونكم لا يألونكم خبالا ودوا ما عنتم قد بدت البغضاء من أفواههم وما تخفي صدورهم أكبر قد بينا لكم الآيات إن كنتم تعقلون
سورة: آل عمران - آية: ( 118 ) - جزء: ( 4 ) - صفحة: ( 65 )Surah al imran Ayat 118 meaning in urdu
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک (پھنسے
- اس کتاب کا اُتارا جانا خدائے غالب (اور) دانا (کی طرف) سے ہے
- اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ان کو خوشخبری سنا دو
- اور کتاب (قرآن) میں مریم کا بھی مذکور کرو، جب وہ اپنے لوگوں سے الگ
- سو (اب آگ کے) مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اُس دن کے آنے
- اور آسمان کی اور اس ذات کی جس نے اسے بنایا
- ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کو آخرت کا خوف ہی نہیں
- وہاں جو چاہیں گے ان کے لئے میسر ہوگا ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہ
- اور ان (کے مارنے ٹھوکنے) کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہوں گے
- اور مجھے نعمت کی بہشت کے وارثوں میں کر
Quran surahs in English :
Download surah al imran with the voice of the most famous Quran reciters :
surah al imran mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter al imran Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers