Surah Saff Ayat 4 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ﴾
[ الصف: 4]
جو لوگ خدا کی راہ میں (ایسے طور پر) پرے جما کر لڑتے کہ گویا سیسہ پلائی دیوار ہیں وہ بےشک محبوب کردگار ہیں
Surah Saff Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ جہاد کا ایک انتہائی نیک عمل بتلایا گیا جو اللہ کو بہت محبوب ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ایفائے عہد ایمان کی علامت ہے اور صف اتحاد کی علامت پہلی آیت کی تفسیر کئی بار گذر چکی ہے اب پھر اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر ان لوگوں کا ذکر ہوتا ہے جو کہیں اور نہ کریں، وعدہ کریں اور وفا نہ کریں، بعض علمائ، سلف نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ وعدہ کا پورا کرنا مطلقاً واجب ہے جس سے وعدہ کیا ہے خواہ وہ تاکید کرے یا نہ کرے، ان کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافق کی تین عادتیں ہوتی ہیں ( 1 ) جب وعدہ کرے خلاف کرے ( 2 ) جب بات کرے جھوٹ بولے ( 3 ) جب امانت دیا جائے خیانت کے، دوسری صحیح حدیث میں ہے چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار میں سے ایک ہو اس میں ایک خصلت نفاق کی ہے جب تک اسے نہ چھوڑے۔ ان میں ایک عادت وعدہ خلافی کی ہے، شرح صحیح بخاری کی ابتدا میں ہم نے ان دونوں احادیث کی پوری شرح کردی ہے۔ فالحمد اللہ۔ اسی لئے یہاں بھی اس کی تاکید میں فرمایا گیا اللہ تعلیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو، مسند احمد اور ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ آئے میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا کھیل کود کے لئے جانے لگا تو میری والدہ نے مجھے آواز دے کر کہا ادھر آ کچھ دوں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کچھ دینا بھی چاہتی ہو ؟ میری والدہ نے کہا ہاں حضور ﷺ کھجوریں دوں گی آپ نے فرمایا پھر تو خیر ورنہ یاد رکھو کچھ نہ دینے کا ارادہ ہوتا اور یوں کہتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھا جاتا، حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ جب وعدے کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کی تاکید کا تعلق ہو تو اس وعدے کو فوا کرنا واجب ہوجاتا ہے، مثلاً کسی شخص نے کسی سے کہہ دیا کہ تو نکاح کرلے اور اتنا اتنا ہر روز میں تجھے دیتا رہوں گا اس نے نکاح کرلیا تو جب نکاح باقی ہے اس شخص پر واجب ہے کہ اسے اپنے وعدے کے مطابق دیتا رہے اس لئے کہ اس میں آدمی کے حق کا تعلق ثابت ہوگیا جس پر اس سے باز پرس سختی کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ایفاء عہد مطلق واجب ہی نہیں، اس آیت کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ جب لوگوں نے جہاد کی فرضیت کی خواہش کی اور فرض ہوگیا تو اب بعض لوگ دیکھنے لگے جس پر یہ آیت اتری، جیسے اور جگہ ہے۔ الخ یعنی کیا تو نے انہیں نہ دیکھا جن سے کہا گیا تم اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز و زکوٰۃ کا خیال رکھو، پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں ایسے لوگ بھی نکل آئے جو لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ کہنے لگے پروردگار تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ؟ کیوں ہمیں ایک وقت مقرر تک اس حکم کو موخر نہ کیا جو قریب ہی تو ہے۔ تو کہہ دے کہ اسباب دنیا تو بہت ہی کم ہیں ہاں پرہیزگاروں کے لئے آخرت بہترین چیز ہے۔ تم پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا تم کہیں بھی ہو تمہیں موت ڈھونڈ نکالے گی گو تم مضبوط محلوں میں ہو، اور جگہ ہے الخ، یعنی مسلمان کہتے ہیں کیوں کوئی سورت نہیں اتاری جاتی ؟ پھر جب کوئی محکمہ سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر ہوتا ہے تو دیکھے گا کہ بیمار دل والے تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے وہ دیکھتا ہے جس پر موت کی بیہوشی ہو، اسی طرح کی یہ آیت بھی ہے، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ بعض مومنوں نے جہاد کی فرضیت سے پہلے کا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اللہ تعالیٰ ہمیں وہ عمل بتاتا جو اسے سب سے زیادہ پسند ہوتا تاکہ ہم اس پر عامل ہوتے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو خبر کی کہ سب سے زیادہ پسندیدہ عمل میرے نزدیک ایمان ہے جو شک شبہ سے پاک ہو اور بےایمانوں سے جہاد کرنا ہے تو بعض مسلمانوں پر یہ گراں گزرا جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ وہ باتیں زبان سے کیوں نکالتے ہو جنہیں کرتے نہیں، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں، حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں کہ مسلمانوں نے کہا اگر ہمیں معلوم ہوجاتا کہ کس عمل کو اللہ تعالیٰ بہت پسند فرماتا ہے تو ہم ضرور وہ عمل بجا لاتے اس پر اللہ عزوجل نے وہ عمل بتایا کہ میری راہ میں صفیں باندھ کر مضبوطی کے ساتھ جم کر جہاد کرنے والوں کو میں بہت پسند فرماتا ہوں پھر احد والے دن ان کی آزمائش ہوگئی اور لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے جس پر یہ فرمان الیشان اترا کہ کیوں وہ کہتے ہو جو کہ نہیں دکھاتے ؟ بعض حضرات فرماتے ہیں یہ ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہیں ہم نے جہاد کیا اور حالانکہ جہاد نہ کیا ہو منہ سے کہیں کہ ہم زخمی ہوئے اور زخمی نہ ہوئے ہوں کہیں کہ ہم پر مار پڑی اور مار نہ پڑی ہو منہ سے کہیں کہ ہم قید کئے گئے اور قید نہ کئے گئے ہوں، ابن زید فرماتے ہیں اس سے مراد منافق ہیں کہ مسلمانوں کی مدد کا وعدہ کرتے لیکن وقت پر پورا نہ کرتے، زید بن اسلم جہاد مراد لیتے ہیں، حضرت مجاہد فرماتے ہیں ان کہنے والوں میں حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری ؓ بھی تھے جب آیت اتری اور معلوم ہوا کہ جہاد سب سے زیادہ عمدہ عمل ہے تو آپ نے عہد کرلیا کہ میں تو اب سے لے کر مرتے دم تک اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو وقف کرچکا چناچہ اسی پر قائم بھی رہے یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہید ہوگئے، حضرت ابو موسیٰ ؓ نے بصرہ کے قاریوں کو ایک مرتبہ بلوایا تو تین سو قاری ان کے پاس آئے جن میں سے ہر ایک قاری قرآن تھا۔ پھر فرمایا تم اہل بصرہ کے قاری اور ان میں سے بہترین لوگ ہو سنو ہم ایک سورت پڑھتے تھے جو مسبحات کی سورتوں کے مشابہ تھی پھر ہم اسے بھلا دیئے گئے ہاں مجھے اس میں سے اتنا یاد رہ گیا۔ ( آیت ) یعنی اے ایمان والو وہ کیوں کہو جو نہ کرو پھر وہ لکھا جائے اور تمہاری گردونوں میں بطور گواہ کے لٹکا دیا جائے پھر قیامت کے دن اس کی بابت باز پرس ہو۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے محبوب وہ لوگ ہیں جو صفیں باندھ کر دشمنان اللہ کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں تاکہ اللہ کا بول بالا ہو اسلام کی حفاظت ہو اور دین کا غلبہ ہو، مسند میں ہے تین قسم کے لوگوں کی تین حالتیں ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور ہنس دیتا ہے رات کو اٹھ کر تہجد پڑھنے والے نماز کے لئے صفیں باندھنے والے، میدان جنگ میں صف بندی کرنے والے، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت مطرف فرماتے ہیں مجھے یہ روایت حضرت ابوذر ؓ ایک حدیث پہنچی تھی میرے جی میں تھا کہ خود حضرت ابوذر سے مل کر یہ حدیث آمنے سامنے سن لوں چناچہ ایک مرتبہ جا کر آپ سے ملاقات کی اور واقعہ بیان کیا آپ نے خوشنودی کا اظہار فرما کر کہا وہ حدیث کیا ہے ؟ میں نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ تین شخصوں کو دشمن جانتا ہے اور تین کو دوست رکھتا ہے فرمایا ہاں میں نے اپنے خلیل حضرت محمد ﷺ پر جھوٹ نہیں بول سکتا فی الواقع آپ نے ہم سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے، میں نے پوچھا وہ تین کون ہیں ؟ جنہیں اللہ تعالیٰ محبوب جانتا ہے فرمایا ایک تو وہ جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے خالص خوشنودی اللہ کی نیت سے نکلے دشمن سے جب مقابلہ ہو تو دلیرانہ جہاد کرے تم اس کی تصدیق خود کتاب اللہ میں بھی دیکھ سکتے ہو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور پھر پوری حدیث بیان کی، ابن ابی حاتم میں یہ حدیث اسی طرح ان ہی الفاظ میں اتنی ہی آئی ہے ہاں ترمذی اور نسائی میں پوری حدیث ہے اور ہم نے بھی اسے دوسری جگہ مکمل وارد کیا ہے، فالحمد اللہ۔ حضرت کعب احبار سے ابن ابی حاتم میں منقول ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے فرماتا ہے آپ میرے بندے متوکل اور پسندیدہ ہیں بدخلق بد زبان بازاروں میں شور و غل کرنے والے نہیں برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ درگذر کر کے معاف کردیتے ہیں۔ آپ کی جائے پیدائش مکہ ہے، جائے ہجرت طابہ ہے، ملک آپ کا شام ہے، امت آپ کی بکثرت حمد اللہ کرنے والی ہے، ہر حال میں اور ہر منزل میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کرتے رہتے ہیں۔ صبح کے وقت ذکر اللہ میں ان کی پست آوازیں برابر سنائی دیتی ہیں جیسے شہد کی مکھیوں کی بھن بھناہٹ اپنے ناخن اور مچھیں کترتے ہیں اور اپنے تہمد اپنی آدھی پنڈلیوں تک باندھتے ہیں ان کی صفیں میدان جہاد میں ایسی ہوتی ہیں جیسی نماز میں، پھر حضرت کعب نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا سورج کی نگہبانی کرنے والے جہاں وقت نماز آجائے نماز ادا کرلینے والے گو سواری پر ہوں، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں جب تک حضور ﷺ نہ بنوا لیتے دشمن سے لڑائی شروع نہیں کرتے تھے، پس صف بندی کی تعلیم مسلمانوں کو اللہ کی دی ہوئی ہے ایک دوسرے سے ملے کھڑے رہیں، ثابت قدم رہیں اور ٹلیں نہیں تم نہیں دیکھتے کہ عمارت کا بنانے والا نہیں چاہتا کہ اس کی عمارت میں کہیں اونچ نیچ ہو ٹیڑھی ترچھی ہو یا سوراخ رہ جائیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے امر میں اختلاف ہو میدان جنگ میں اور بوقت نماز مسلمانوں کی صف بندی خود اس نے کی ہے پس تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو جو احکام بجا لائے گا یہ اس کے لئے عصمت اور بچاؤ ثابت ہے۔ ابو بحریہ فرماتے ہیں مسلمان گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑنا پسند نہیں کرتے تھے انہیں تو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ زمین پر پیدل صفیں بنا کر آمنے سامنے کا مقابلہ کریں، آپ فرماتے ہیں جب تم مجھے دیکھو کہ میں نے صف میں سے ادھر ادھر توجہ کی تو تم جو چاہو ملامت کرنا اور برا بھلا کہنا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 4 { اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ۔ } ” اللہ کو تو محبوب ہیں وہ بندے جو اس کی راہ میں صفیں باندھ کر قتال کرتے ہیں ‘ جیسے کہ وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں۔ “ آج کے زمانے میں ” بنیانِ مرصوص “ reinforced concrete wall کو کہا جائے گا۔ ایسی دیواریں بڑے بڑے dams کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ البتہ پرانے زمانے میں اگر کسی دیوار کو غیر معمولی طور پر مضبوط کرنا مقصود ہوتا توچنائی کرنے کے بعد اس کے اندر پگھلا ہوا تانبا ڈالا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں عام طور پر ” بنیانِ مرصوص “ کا ترجمہ ” سیسہ پلائی ہوئی دیوار “ کے الفاظ میں کیا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں اس طریقہ سے ” سیسہ پلائی ہوئی دیوار “ بنانے کا تصورسورۃ الکہف کی آیت 96 میں بھی ملتا ہے۔ ذوالقرنین بادشاہ نے یاجوج ماجوج کے حملوں سے حفاظت کے لیے لوہے کے تختوں کی مدد سے دیوار کھڑی کرنے کے بعد حکم دیا تھا : { اٰ تُوْنِیْٓ اُفْرِغْ عَلَیْہِ قِطْرًا۔ } ” اب لائو میں اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دوں “۔ بہرحال یہاں ” بنیانِ مرصوص “ سے مراد میدانِ جنگ میں مجاہدین کی ایسی صفیں ہیں جن میں کوئی رخنہ یا خلا نہ ہو اور ایک ایک مجاہد اپنی جگہ پر اس قدر مضبوطی سے کھڑا ہو کہ دشمن کے لیے صف کے کسی ایک حصے کو بھی دھکیلنا ممکن نہ ہو۔ یہاں ضمنی طور پر یہ مسئلہ بھی سمجھ لیں کہ نماز کے لیے ہماری صف بندی کی بھی یہی کیفیت ہونی چاہیے۔ ایک صف کے تمام نمازیوں کو کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونا چاہیے اور ان کے پیروں کے محاذات بھی ایک ہونے چاہئیں ‘ یعنی تمام لوگوں کے پائوں ایک سیدھ میں ہوں تاکہ صف سیدھی رہے۔ دو آدمیوں کے درمیان خلا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جماعت کی صف میں دو نمازیوں کے درمیان خلا کی جگہ سے شیطان گزر جاتا ہے۔ جماعت کے لیے صف بندی کا اہتمام کرانا دراصل امام کی ذمہ داری ہے ‘ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہمارے اکثر ائمہ مساجد اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتے۔ البتہ اس ضمن میں ضرورت سے زیادہ شدت بھی مناسب نہیں ‘ جیسے بعض لوگ غیر معمولی طور پر ٹانگیں پھیلا کر دوسرے نمازی کے پائوں پر اپنا پائوں چڑھا دیتے ہیں اور دوسروں کے لیے کو فت کا باعث بنتے ہیں۔ بہرحال ہمارے لیے اس آیت کا اصل پیغام یہ ہے کہ اسلام میں سب سے بڑی نیکی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل ” قتال فی سبیل اللہ “ ہے۔ فلسفے کی اصطلاح میں سب سے اعلیٰ خیر یا نیکی کو summum bonum کہتے ہیں۔ ہر فلسفہ اخلاق میں ایک ” خیر اعلیٰ “ summum bonum یا بلند ترین نیکی highest virtue کا تصور ہوتا ہے۔ چناچہ اس آیت کے اصل پیغام کو اگر فلسفہ کی زبان میں بیان کریں تو یوں کہیں گے کہ اسلام کے نظام فکر اور اس کے نظریہ اخلاق میں بلند ترین نیکی یا ” خیر اعلیٰ “ summum bonum قتال فی سبیل اللہ ہے۔ چناچہ جو کوئی اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہو اسے اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی اپنی جان اس کی راہ میں قربانی کے لیے پیش کرنا ہوگی۔ جو شخص اس قربانی کے لیے تیار نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت و قربت کا دعویٰ بھی نہ کرے۔ بقول غالب ؔ ع ” جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں ! “ یہاں سورت کے پہلے حصے کا مطالعہ مکمل ہوگیا۔ اب آئندہ چار آیات میں بنی اسرائیل کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبروں کے ساتھ ان کا طرزعمل کیا تھا۔ یہود کی تاریخ کے حوالے سے دراصل مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ قول و عمل کا تضاد اور ایمان کے عملی تقاضوں کی ادائیگی سے پہلوتہی ہی وہ اصل جرم تھا جس کی پاداش میں یہود اس مقام اور منصب سے معزول کردیے گئے جس پر اب تم فائز کیے گئے ہو۔
إن الله يحب الذين يقاتلون في سبيله صفا كأنهم بنيان مرصوص
سورة: الصف - آية: ( 4 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 551 )Surah Saff Ayat 4 meaning in urdu
اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کے لئے بہشت کے باغ مہمانی
- یہاں تک کہ جب ہم نے پر عذاب شدید کا دروازہ کھول دیا تو اس
- کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجے میں ہوں
- (یہ تمام احکام) خدا کی حدیں ہیں۔ اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر
- (اور حکم دیا) کہ فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو رہا ہے
- اور اپنے پاس شفقت اور پاکیزگی دی تھی۔ اور پرہیزگار تھے
- جب اس کے پاس پہنچے تو میدان کے دائیں کنارے سے ایک مبارک جگہ میں
- جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی تعریف کے ساتھ جواب دو
- خدا نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے۔ اور نہ تمہاری عورتوں
- (اے محمدﷺ! ان سے کہہ دو کہ) تمہارے (پاس) پروردگار کی طرف سے (روشن) دلیلیں
Quran surahs in English :
Download surah Saff with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Saff mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Saff Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers