Surah qalam Ayat 12 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ﴾
[ القلم: 12]
مال میں بخل کرنے والا حد سے بڑھا ہوا بدکار
Surah qalam UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
زیادہ قسمیں کھانے والے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ جو نعمتیں ہم نے تجھے دیں جو صراط مستقیم اور خلق عظیم ہم نے تجھے عطا فرمایا اب تجھے چاہئے کہ ہماری نہ ماننے والوں کی تو نہ مان، ان کی تو عین خوشی ہے کہ آپ ذرا بھی نرم پڑیں تو یہ کھل کھیلیں اور یہ بھی مطلب ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے معبودان باطل کی طرف کچھ تو رخ کریں حق سے ذرا سا تو ادھر ادھر ہوجائیں، پھر فرماتا ہے کہ زیادہ قسمیں کھانے والے کمینے شخص کی بھی نہ مان چونکہ جھوٹے شخص کو اپنی ذلت اور کذب بیانی کے ظاہر ہوجانے کا ڈر رہتا ہے، اس لئے وہ قسمیں کھا کھا کر دوسرے کو اپنا یقین دلانا چاہتا ہے لگاتار قسموں پر قسمیں کھائے چلا جاتا ہے اور اللہ کے ناموں کو بےموقعہ استعمال کرتا پھرتا ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ( مھین ) سے مراد کاذب ہے۔ مجاہد کہتے ہیں ضعیف دل والا۔ حسن کہتے ہیں ( حلاف ) مکابرہ کرنے والا اور ( مہین ) ضعیف، ( ھماز ) غیب کرنے والا، چغل خور جو ادھر کی ادھر لگائے اور ادھر کی ادھر تاکہ فساد ہوجائے۔ طبیعتوں میں نفرت اور دل میں دشمنی آجائے، رسول اللہ ﷺ کے راستے میں دو قبریں آگئیں آپ نے فرمایا ان دونوں کو عذاب ہو رہا اور کسی بڑے امر پر نہیں ایک تو پیشاب کرنے میں پردے کا خیال نہ رکھتا تھا۔ دوسرا چغل خور تھا ( بخاری و مسلم ) فرماتے ہیں چغل خور جنت میں نہ جائے گا ( مسند ) دوسری روایت میں ہے کہ حضرت حذیفہ نے یہ حدیث اس وقت سنائی تھی جب آپ سے کہا گیا کہ یہ شخص خفیہ پولیس کا آدمی ہے، مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ تم میں سب سے بھلا شخص کون ہے ؟ لوگوں نے کہا ضرور ارشاد فرمایئے، فرمایا وہ کہ جب انہیں دیکھا جائے اللہ یاد آجائے اور سن لو سب سے بدتر شخص وہ ہے جو چغل خور ہو دوستوں میں فساد ڈلوانے والا ہو پاک صاف لوگوں کو تہمت لگانے والا ہو، ترمذی میں بھی یہ روایت ہے، پھر ان بدلوگوں کے ناپاک خصائل بیان ہو رہے ہیں کہ بھلائیوں سے باز رہنے والا اور باز رکھنے والا ہے، حلال چیزوں اور حلال کاموں سے ہٹ کر حرام خوری اور حرام کاری کرتا ہے، گنہگار، بدکردار، محرمات کو استعمال کرنے والا، بدخو، بدگو جمع کرنے والا اور نہ دینے والا ہے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا جنتی لوگ گرے پڑے عاجز و ضعیف ہیں جو اللہ کے ہاں اس بلند مرتبہ پر ہیں کہ اگر وہ قسم کھا بیٹھیں تو اللہ پوری کر دے اور جہنمی لوگ سرکش متکبر اور خودبین ہوتے ہیں اور حدیث میں ہے جمع کرنے والے اور نہ دینے والے بدگو اور سخت خلق، ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا آیت ( عتل زنیم ) کون ہے ؟ فرمایا بد خلق خوب کھانے پینے والا لوگوں پر ظلم کرنے والا پیٹو آدمی، لیکن اس روایت کو اکثر راویوں نے مرسل بیان کیا ہے، ایک اور حدیث میں ہے اس نالائق شخص پر آسمان روتا ہے جسے اللہ نے تندرستی دی پیٹ بھر کھانے کو دیا مال و جاہ بھی عطا فرمائی پھر بھی لوگوں پر ظلم و ستم کر رہا ہے، یہ حدیث بھی دو مرسل طریقوں سے مروی ہے، غرض ( عتل ) کہتے ہیں جس کا بدن صحیح ہو طاقتور ہو اور خوب کھانے پینے والا زور دار شخص ہو۔ ( زنیم ) سے مراد بدنام ہے جو برائی میں مشہور ہو، لغت عرب میں ( زنیم ) اسے کہتے ہیں جو کسی قوم میں سمجھا جاتا ہو لیکن دراصل اس کا نہ ہو، عرب شاعروں نے اسے اسی معنی میں باندھا ہے یعنی جس کا نسب صحیح نہ ہو، کہا گیا ہے کہ مراد اس سے اخنس بن شریق ثقفی ہے جو بنو زہرہ کا حلیف تھا اور بعض کہتے ہیں یہ اسود بن عبد یغوث زہری ہے، عکرمہ فرماتے ہیں ولد الزنا مراد ہے، یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جس طرح ایک بکری جو تمام بکریوں میں سے الگ تھلگ اپنا چرا ہوا کان اپنی گردن پر لٹکائے ہوئے ہو تو یہ یک نگاہ پہچان لی جاتی ہے اسی طرح کافر مومنوں میں پہچان لیا جاتا ہے، اسی طرح کے اور بھی بہت سے اقوال ہیں لیکن خلاصہ سب کا صرف اسی قدر ہے کہ زنیم وہ شخص ہے جو برائی سے مشہور ہو اور عموماً ایسے لوگ ادھر ادھر سے ملے ہوئے ہوتے ہیں جن کے صحیح نسب کا اور حقیقی باپ کا پتہ نہیں ہوتا ایسوں پر شیطان کا غلبہ بہت زیادہ رہا کرتا ہے، جیسے حدیث میں ہے زنا کی اولاد جنت میں نہیں جائے گی، اور روایت میں ہے کہ زنا کی اولاد تین برے لوگوں کی برائی کا مجموعہ ہے، اگر وہ بھی اپنے ماں باپ کے سے کام کرے۔ پھر فرمایا اس کی ان شرارتوں کی وجہ یہ ہے کہ یہ مالدار اور بیٹوں کا باپ بن گیا ہے ہماری اس نعمت کا گن گانا تو کہاں ہماری آیتوں کو جھٹلاتا ہے اور توہین کر کے کہتا پھرتا ہے کہ یہ تو پرانے افسانے ہیں اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت ( ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا 11 ۙ ) 74۔ المدّثر:11) مجھے چھوڑ دے اور اسے جسے میں نے یکتا پیدا کیا ہے اور بہت سا مال دیا ہے اور حاضر باش لڑکے دیئے ہیں اور بھی بہت کشادگی دے رکھی ہے پھر بھی اس کی طمع ہے کہ میں اسے اور دوں ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا یہ تو میری آیتوں کا مخالف ہے میں اسے عنقریب بدترین مصیبت میں ڈالوں گا اس نے غور و فکر کے اندازہ لگایا یہ تباہ ہو۔ کتنی بری تجویز اس نے سوچی میں پھر کہتا ہوں، یہ برباد ہو اس نے کیسی بری تجویز کی اس نے پھر نظر ڈالی اور ترش رو ہو کہ منہ بنا لیا، پھر منہ پھیر کر اینٹھنے لگا اور کہ دیا کہ یہ کلام اللہ تو پرانا نقل کیا ہوا جادو ہے، صاف ظاہر ہے کہ یہ انسانی کلام ہے، اس کی اس بات پر میں بھی اسے ( سقر ) میں ڈالوں گا تجھے کیا معلوم کہ ( سقر ) کیا ہے نہ وہ باقی رکھے نہ چھوڑے بدن پر لپیٹ جاتی ہے اس پر انتیس فرشتے متعین ہیں، اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ اس کی ناک پر ہم داغ لگائیں گے یعنی اسے ہم اس قدر رسوا کریں گے کہ اس کی برائی کسی پر پوشیدہ نہ رہے ہر ایک اسے جان پہچان لے جیسے نشاندار ناک والے کو بیک نگاہ ہزاروں میں لوگ پہچان لیتے ہیں اور جو داغ چھپائے نہ چھپ سکے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ بدر والے دن اس کی ناک پر تلوار لگے گی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیامت والے دن جہنم کی مہر لگے گی یعنی منہ کالا کردیا جائے گا تو ناک سے مراد پورا چہرہ ہوا۔ امام ابو جعفر ابن جریر نے ان تمام اقوال کو وارد کر کے فرمایا ہے کہ ان سب میں تطبیق اس طرح ہوجاتی ہے کہ یہ کل امور اس میں جمع ہوجائیں یہ بھی ہو وہ بھی ہو، دنیا میں رسوا ہو سچ مچ ناک پر نشان لگے آخرت میں بھی نشاندار مجرم بنے فی الواقع یہ بہت درست ہے، ابن ابی حاتم میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ بندہ ہزارہا برس تک اللہ کے ہاں مومن لکھا رہتا ہے لیکن مرتا اس حالت میں ہے کہ اللہ اس پر ناراض ہوتا ہے اور بندہ اللہ کے ہاں کافر ہزارہا سال تک لکھا رہتا ہے پھر مرتے وقت اللہ اس سے خوش ہوجاتا ہے جو شخص عیب گوئی اور چغل خوری کی حالت میں مرے جو لوگوں کو بدنام کرنے والا ہو قیامت کے دن اس کی ناک پر دونوں ہونٹوں کی طرف سے نشان لگا دیا جائے جو اس مجرم کی علامت بن جائے گا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 10{ وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ۔ } ” اور آپ ﷺ مت مانیے کسی ایسے شخص کی بات جو بہت قسمیں کھانے والا انتہائی گھٹیا ہے۔ “ ان دونوں خصوصیات کا آپس میں فطری تعلق ہے۔ اپنی شخصیت کے ہلکے پن کی تلافی کرنے کے لیے بات بات پر قسمیں کھانا ہر گھٹیا آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لفظ ” مَہِیْن “ ذلیل و حقیر اور گھٹیا آدمی کے لیے بولا جاتا ہے۔
Surah qalam Ayat 12 meaning in urdu
بھلائی سے روکتا ہے، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے، سخت بد اعمال ہے، جفا کار ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- وہ بولے کہ تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم کو اذیتیں پہنچتی رہیں اور آنے
- بےشک فیصلہ کا دن مقرر ہے
- وہ کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ بات شایان نہ تھی کہ تیرے سوا
- پھر اگر تم احکام روشن پہنچ جانے کے بعد لڑکھڑاجاؤ تو جان جاؤ کہ خدا
- اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس
- جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کے لیے خوشحالی اور عمدہ ٹھکانہ
- اور (سب) لوگ (پہلے) ایک ہی اُمت (یعنی ایک ہی ملت پر) تھے۔ پھر جدا
- اور کامل دانائی (کی کتاب بھی) لیکن ڈرانا ان کو کچھ فائدہ نہیں دیتا
- اور کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ۔ تو وہ اُن کو پکاریں گے
- اور ان کے پاس ان ہی میں سے ایک پیغمبر آیا تو انہوں نے اس
Quran surahs in English :
Download surah qalam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah qalam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter qalam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers