Surah An Nahl Ayat 128 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ﴾
[ النحل: 128]
کچھ شک نہیں کہ جو پرہیزگار ہیں اور جو نیکوکار ہیں خدا ان کا مددگار ہے
Surah An Nahl UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
قصاص اور حصول قصاص قصاص میں اور حق کے حاصل کرنے میں برابری اور انصاف کا حکم ہو رہا ہے۔ امام ابن سیرین ؒ وغیرہ فرماتے ہیں اگر کوئی تم سے کوئی چیز لے لے تو تم بھی اس سے اسی جیسی لے لو۔ ابن زید ؒ فرماتے ہیں کہ پہلے تو مشرکوں سے درگزر کرنے کا حکم تھا۔ جب ذرا حیثیت دار لوگ مسلمان ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اگر اللہ کی طرف سے بدلے کی رخصت ہوجائے تو ہم بھی ان کتوں سے نبڑ لیا کریں اس پر یہ آیت اتری آخر یہ بھی جہاد سے منسوخ ہوگئی۔ حضرت عطا بن یسار ؒ فرماتے ہیں سورة نحل پوری مکہ شریف میں اتری ہے مگر اس کی تین آخری آیتیں مدینے شریف میں اتری ہیں۔ جب کہ جنگ احد میں حضرت حمزہ ؓ شہید کر دئے گئے اور آپ کے اعضائے جسم بھی شہادت کے بعد کاٹ لئے گئے جس پر رسول اللہ ﷺ کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ اب جب مجھے اللہ تعالیٰ ان مشرکوں پر غلبہ دے تو میں ان میں سے تیس شخصوں کے ہاتھ پاؤں اسی طرح کاٹوں گا۔ مسلمانوں کے کان میں جب اپنے محترم نبی ﷺ کے یہ الفاظ پڑے تو ان کے جوش بہت بڑھ گئے اور کہنے لگے کہ واللہ ہم ان پر غالب آ کر ان کی لاشوں کے وہ ٹکڑے ٹکڑے کریں گے کہ عربوں نے کبھی ایسا دیکھا ہی نہ ہوگا اس پر یہ آیتیں اتریں ( سیرت ابن اسحاق ) لیکن یہ روایت مرسل ہے اور اس میں ایک راوی ایسا بھی ہے جن کا نام ہی نہیں لیا گیا، مبہم چھوڑا گیا۔ ہاں دوسری سند سے یہ متصل بھی مروی ہے۔ بزار میں ہے کہ جب حضرت حمزہ بن عبد المطلب ؒ شہید کر دئے گئے۔ آپ پاس کھڑے ہو کر دیکھنے لگے آہ ! اس سے زیادہ دل دکھانے والا منظر اور کیا ہوگا کہ محترم چچا کی لاش کے ٹکڑے آنکھوں کے سامنے بکھرے پڑے ہیں۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلا کہ آپ پر اللہ کی رحمت ہو، جہاں تک میرا علم ہے، میں جانتا ہوں کہ آپ رشتے ناتے کے جوڑنے والے نیکیوں کو لپک کر کرنے والے تھے۔ واللہ دوسرے لوگوں کے درد و غم کا خیال نہ ہوتا تو میں تو آپ کے اس جسم کو یونہی چھوڑ دیتا یہاں تک کہ آپ کو اللہ تعالیٰ درندوں کے پیٹوں میں سے نکالتا یا اور کوئی ایسا ہی کلمہ فرمایا جب ان مشرکوں نے یہ حرکت کی ہے تو واللہ میں بھی ان میں کے ستر شخصوں کی یہی بری حالت بناؤں گا۔ اسی وقت حضرت جبرائیل ؑ وحی لے کر آئے اور یہ آیتیں آتری تو آپ اپنی قسم کے پورا کرنے سے رک گئے اور قسم کا کفارہ ادا کردیا۔ لیکن سند اس کی بھی کمزور ہے۔ اس کے راوی صالح بشیر مری ہیں جو ائمہ اہل حدیث کے نزدیک ضعیف ہیں بلکہ امام بخاری ؒ تو انہیں منکر الحدیث کہتے ہیں۔ شعبی اور ابن جریج کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی زبان سے نکلا تھا کہ ان لوگوں نے جو ہمارے شہیدوں کی بےحرمتی کی ہے اور ان کے اعضاء بدن کاٹ دئیے ہیں واللہ ہم بھی ان سے اس کا بدلہ لے کر ہی چھوڑیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیتیں اتاریں۔ مسند احمد میں ہے کہ جنگ احد میں ساٹھ انصاری شہید ہوئے اور چھ مہاجر ؓ اجمعین تو اصحاب رسول ﷺ کی زبان سے نکل گیا کہ جب ہم ان مشرکوں پر غلبہ پائیں تو ہم بھی ان کے ٹکڑے کئے بغیر نہ رہیں گے۔ چناچہ فتح مکہ والے دن ایک شخص نے کہا کہ آج کے دن کے بعد قریش پہچانے بھی نہ جائیں گے۔ اسی وقت ندا ہوئی اللہ کے رسول ﷺ تمام لوگوں کو پناہ دیتے ہیں سوائے فلاں فلاں کے ( جن کے نام لئے گئے ہیں ) اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ نبی ﷺ نے اسی وقت فرمایا کہ ہم صبر کرتے ہیں اور بدلہ نہیں لیتے۔ اس آیت کریمہ کی مثالیں قرآن کریم میں اور بھی بہت سی ہیں۔ اس میں عدل کی مشروعیت بیان ہوئی ہے اور افضل طریقے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جیسے آیت ( جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ ۭ مَا لَھُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ 27 ) 10۔ يونس:27) میں کہ برائی کا بدلہ لینے کی رخصت عطا فرما کر پھر فرمایا ہے کہ جو درکزر کرلے اور اصلاح کرلے اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے اسی طرح آیت ( والجروح قصاص ) میں بھی زخموں کا بدلہ لینے کی اجازت دے کر فرمایا ہے کہ جو بطور صدقہ معاف کر دے یہ معافی اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گی۔ اسی طرح اس آیت میں بھی برابر بدلہ لینے کے جواز کا ذکر فرما کر پھر ارشاد ہوا ہے کہ اگر صبر کرلو تو یہ بہت ہی بہتر ہے۔ پھر صبر کی مزید تاکید کی اور ارشاد فرمایا کہ یہ ہر ایک کے بس کا کام نہیں یہ ان ہی سے ہوسکتا ہے جن کی مدد پر اللہ ہو اور جنہیں اس کی جانب سے توفیق نصیب ہوئی ہو۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے مخالفین کا غم نہ کھا، ان کی قسمت میں ہی مخالفت لکھ دی گئی ہے نہ ان کے فن فریب سے آزردہ خاطر ہو۔ اللہ تجھے کافی ہے، وہی تیرا مددگار ہے، وہی تجھے ان سب پر غالب کرنے والا ہے اور ان کی مکاریوں اور چلاکیوں سے بچانے والا ہے۔ ان کی عداوت اور ان کے برے ارادے تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ملائیکہ اور مجاہدین اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی تائید ہدایات اور اس کی توفیق ان کے ساتھ ہے، جن کے دل اللہ کے ڈر سے اور جن کے اعمال احسان کے جوہر سے مال مال ہوں۔ چناچہ جہاد کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی اتاری تھے کہ آیت ( اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭسَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ 12ۭ ) 8۔ الأنفال:12) میں تمہارے ساتھ ہوں پس تم ایمانداروں کو ثابت قدم رکھو، اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ( علیہما السلام ) سے فرمایا تھا آیت ( قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى 46۔ ) 20۔ طه:46) تم خوف نہ کھاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں، دیکھتا سنتا ہوں۔ غار میں رسول کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے فرمایا تھا آیت ( اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا 40 ) 9۔ التوبة:40) غم نہ کرو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ پس یہ ساتھ تو خاص تھا۔ اور مراد اس سے تائید و نصرت الہٰی کا ساتھ ہونا ہے۔ اور عام ساتھ کا بیان آیت ( وھو معکم اینما کنتم واللہ بما تعملون بصیر ) اور آیت ( يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا ) 58۔ المجادلة :7) اور آیت ( وما یکون فی شان ) الخ میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو اور وہ تمہارے اعمال دیکھنے والا ہے اور جو تین شخص کوئی سرگوشی کرنے لگیں ان میں چوتھا اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور پانچ میں چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم و بیش میں بھی جہاں وہ ہوں، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور تم کسی حال میں ہو یا تلاوت قرآن میں ہو یا تم اور کوئی کام میں لگے ہوئے ہو ہم تم پر شاہد ہوتے ہیں پس ان آیتوں میں ساتھ سے مراد سننے دیکھنے کا ساتھ ہے تقویٰ کے معنی ہیں حرام کاموں اور گناہ کے کاموں کو اللہ کے فرمان پر ترک کردینے کے۔ اور احسان کے معنی ہیں پروردگار کی اطاعت و عبادت کو بجا لانا۔ جن لوگوں میں یہ دونوں صفتیں ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی حفظ وامان میں رہتے ہیں، جناب باری ان کی تائید اور مدد فرماتا رہتا ہے۔ ان کے مخالفین اور دشمن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں ان سب پر کامیابی عطا فرماتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں حضرت محمد بن حاطب ؒ سے مروی ہے حضرت عثمان ؓ ان لوگوں میں سے تھے جو باایمان پرہیزگار اور نیک کار ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 128 اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کرتے ہوئے درجۂ احسان پر فائز ہوگئے ہیں اللہ کی معیت نصرت اور تائید ان کے شامل حال رہے گی۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہوگا تو یہ مشرکین آپ کو کچھ گزند نہیں پہنچا سکتے۔ کیا ڈر ہے اگر ساری خدائی ہے مخالف کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے ! بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالایات والذِّکر الحکیم
Surah An Nahl Ayat 128 meaning in urdu
اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (بات) یہ (ہے) کچھ شک نہیں کہ خدا کافروں کی تدبیر کو کمزور کر دینے
- (اور) بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے
- اور زبان اور دو ہونٹ (نہیں دیئے)
- اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا اور ہم کو سب مقدور ہے
- جب آسمان پھٹ جائے گا
- وہ دل پسند عیش میں ہو گا
- اور یہ (قرآن) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے اور (لوگو) تم
- جو خدا سے بن دیکھے ڈرتا ہے اور رجوع لانے والا دل لے کر آیا
- سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی
- اور ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جس کو ہم نے
Quran surahs in English :
Download surah An Nahl with the voice of the most famous Quran reciters :
surah An Nahl mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter An Nahl Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers