Surah Al Insan Ayat 12 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَجَزَاهُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا﴾
[ الإنسان: 12]
اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت (کے باغات) اور ریشم (کے ملبوسات) عطا کرے گا
Surah Al Insan Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) صبر کا معنی ہے دین کے راستے میں جو تکلفیں آئیں انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اللہ کی اطاعت میں نفس کی خواہشات اور لذات کو قربان کرنا اور معصیتوں سے اجتناب کرنا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
زنجیریں طوق اور شعلے یہاں اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس کی مخلوق میں سے جو بھی اس سے کفر کرے اس کے لئے زنجیریں طوق اور شعلوں والی بھڑکتی ہوئی تیز آگ تیار ہے، جیسے اور جگہ ہے اذالاغلال فی اعنافھم والسلاسل یسحبون فی الحمیم ثم فی النار یسجرون جبکہ طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور بیڑیاں ان کے پاؤں میں ہوں گی اور یہ حمیم میں گھسیٹے جائیں گے پھر جہنم میں جلائے جائیں گے، ان بدنصیبوں کی سزا کا ذکر کر کے اب نیک لوگوں کی جزا کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہیں وہ جام پلائے جائیں گے جن کا مشروب کا فور نامی نہر کے پانی کا ہوگا، ذائقہ بھی اعلیٰ ، خوشبو بھی عمدہ اور فائدہ بھی بہتر کا فور کی سی ٹھنڈک اور سونٹھ کی سو خوشبو، کا فور ایک نہر کا نام ہے جس سے اللہ کے خاص بندے پانی پیتے ہیں اور صرف اسی سے آسودگی حاصل کرتے ہیں اسی لئے یہاں اسے " ب " سے متعدی کیا اور تمیز کی بنا پر عیناً پر نصب دیا، یہ پانی اپنی خوشبو میں مثل کا فور کے ہے یا یہ ٹھیک کا فور ہی ہے اور عیناً کا زبر یشرب کی وجہ سے ہے پھر اس نہر تک انہیں آنے کی ضرورت نہیں یہ اپنے باغات مکانات، مجلسوں اور بیٹھکوں میں جہاں بھی جائیں گے اس لے جائیں گے اور وہیں وہ پہنچ جائے گی، تفجیر کے معنی روانی اور اجرا کے ہیں، جیسے آیت حتی تفجرلنا میں اور فجرنا خلالھما میں۔ پھر ان لوگوں کی نیکیاں بیان ہو رہی ہیں کہ جو عبادت اللہ کی طرف سے ان کے ذمہ تھی وہ بجا لاتے تھے بلکہ جو چیز یہ اپنے اوپر کرلیتے اسے بھی بجا لاتے یعنی نذر بھی پوری کرتے۔ حدیث میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانے وہ پوری کرے اور جو نافرمانی کی نذر مانے اسے پورا نہ کرے۔ امام بخاری نے اسے امام مالک کی روایت سے بیان فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بھاگتے رہتے ہیں، کیونکہ قیامت کے دن کا ڈر ہے جس کی گھبراہٹ عام طور پر سب کو گھیر لے گی اور ہر ایک الجھن میں پڑجائے گا مگر جس پر اللہ کا رحم و کرم ہو، زمین و آسمان تک ہول رہے ہوں گے، استطار کے معنی ہی ہیں پھیل جانے والی اور اطراف کو گھیر لینے والی کے ہیں، یہ نیکو کار اللہ کی محبت میں مستحق لوگوں پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ بھی کرتے رہتے تھے اور لا کی ضمیر کا مرجع بعض لوگوں نے طعام کو بھی کہا ہے لفظاً زیادہ ظاہر بھی یہی ہے، یعنی باوجود طعام کی محبت اور خواہش ضرورت کے باوجود راہ اللہ غرباء اور حاجت مندوں کو دے دیتے ہیں۔ جیسے اور جگہ ہے واتی المال علی حبہ یعنی مال کی چاہت کے باوجود اسے راہ اللہ دیتے رہتے ہیں اور فرمان ہے لن تنالوالبر حتی تنفقوا مما تحبون یعنی تم ہرگز بھلائی حاصل نہیں کرسکتے جب تک اپنی چاہت کی چیزیں راہ اللہ خرچ نہ کرو، حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ بیمار ہوئے آپ کی بیماری میں انگور کا موسم آیا جب انگور بکنے لگے تو آپ کا دل بھی چاہا کہ میں انگور کھاؤں، آپ کی بیوی صاحبہ حضرت صفیہ نے ایک درہم کے انگور منگائے، آدمی لے کر آیا اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک سائل بھی آگیا اور اس نے آواز دی کہ میں سائل ہوں حضرت عبد اللہ نے فرمایا یہ سب اسی کو دے دو ، چناچہ دے دیئے گئے پھر دوبارہ آدمی گیا اور انگور خرید لایا اب کی مرتبہ بھی سائل آگیا اور اس کے سوال پر اسی کو سب کے سب انگور دے دیئے گئے، لیکن اب کی مرتبہ حضرت صفیہ نے سائل کو کہلوا بھیجا کہ اگر اب آئے تو تمہیں کچھ نہ ملے گا چناچہ تیسری مرتبہ ایک درہم کے انگور منگوائے گے ( بیہقی ) اور صحیح حدیث میں ہے کہ افضل صدقہ وہ ہے جو تو اپنی صحت کی حالت میں مال کی محبت امیری کی چاہت اور افلاس کے خوف کے باوجود راہ اللہ دے، یعنی مال کی حرص، حب بھی اور چاہت و ضرورت بھی ہو پھر بھی راہ اللہ اسے قربان کر دے۔ یتیم اور مسکین کسے کہتے ہیں ؟ اس کا مفصل بیان پہلے گذر چکا ہے، قیدی کی نسبت حضرت سعید وغیرہ تو فرماتے ہیں مسلمان اہل قبلہ قیدی مراد ہے، لیکن ابن عباس وغیرہ کا فرمان ہے اس وقت قیدیوں میں سوائے مشرکین کے اور کوئی مسلم نہ تھا، اور اسی کی تائید اس حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ حضور ﷺ نے بدری قیدیوں کے بارے میں اپنے اصحاب کو فرمایا تھا کہ ان کا اکرام کرو چناچہ کھانے پینے میں صحابہ خود اپنی جان سے بھی زیادہ ان کا خیال رکھتے تھے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں اس سے مراد غلام ہیں، امام ابن جریر ؒ بہ سبب آیت کے عام ہونے کے اسی کو پسند کرتے ہیں اور مسلم مشرک سب کو شامل کرتے ہیں، غلاموں اور ماتحتوں کے ساتھ احسان و سلوک کرنے کی تاکید بہت سی احادیث میں آئی ہے، بلکہ رسول اکرم محمد مصطفیٰ ﷺ کی آخری وصیت اپنی امت کو یہی ہے کہ نمازوں کی نگہبانی کرو اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ان کا پورا خیال رکھو۔ یہ اس نیک سلوک کا نہ تو ان لوگوں سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ، بلکہ اپنے حال سے گویا اعلان کردیتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف راہ اللہ دیتے ہیں اس میں ہماری ہی بہتری ہے کہ اس سے رضائے رب اور مرضی مولا ہمیں حاصل ہوجائے، ہم ثواب اور اجر کے مستحق ہوجائیں، حضرت سعید ؒ فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہ بات وہ لوگ منہ سے نہیں نکالتے یہ دلی ارادہ ہوتا ہے جس کا علم اللہ کو ہے تو اللہ نے اس ظاہر فرما دیا کہ اور لوگوں کی رغبت کا باعث بنے، یہ پاک باز جماعت خیرات و صدقات کر کے اس دن کے عذاب اور ہولناکیوں سے بچنا چاہتی ہے جو ترش رو تنگ و تاریک اور طول طویل ہے، ان کا عقیدہ ہے کہ اس بنا پر اللہ ان پر رحم کرے گا اور اس محتاجی اور بےکسی والے دن ہماری نیکیاں ہمارے کام آئیں گی، حضرت ابن عباس سے عبوس کے معنی تنگی والا اور قمطریر کے معنی طویل طویل مروی ہے، عکرمہ فرماتے ہیں کافر کا منہ اس دن بگڑ جائے گا اس کے تیوری چڑھ جائے گی اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان سے عرق بہنے لگے گا جو مثل روغن گندھک کے ہوگا، مجاہد فرماتے ہیں ہونٹ چڑھ جائیں گے اور چہرہ سمٹ جائے گا، حضرت سعید اور حضرت قتادہ کا قول ہے کہ بوجہ گھبراہٹ اور ہولناکیوں کے صورت بگڑ جائے گی پیشانی تنگ ہوجائے گی، ابن زید فرماتے ہیں برائی اور سختی والا دن ہوگا، لیکن سب سے واضح بہتر نہایت مناسب بالکل ٹھیک قول حضرت ابن عباس کا ہے ؓ ، قمطریر کے لغوی معنی امام ابن جریر نے شدید کے کئے ہیں یعنی بہت سختی والا۔ ان کی اس نیک نیتی اور پاک عمل کی وجہ سے اللہ نے انہیں اس دن کی برائی سے بال بال بچا لیا اور اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں بجائے ترش روئی کے خندہ پیشانی اور بجائے دل کی ہولناکی کے اطمینان و سرور قلب عطا فرمایا، خیال کیجئے کہ یہاں عبارت میں کس قدر بلیغ تجانس کا استعمال کیا گیا ہے اور جگہ ہے وجوہ یومئذ مستفرۃ ضاحکتہ مستبشرہ اس دن بہت سے چہرے چمکدار ہوں گے، جو ہنستے ہوئے اور خوشیاں مناتے ہوئے ہوں گے، یہ ظار ہے کہ جب دل مسرور ہوگا تو چہرہ کھلا ہوا ہوگا، حضرت کعب بن مالک کی لمبی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ کو جب کبھی کوئی خوشی ہوتی تو آپ کا چہرہ چمکنے لگتا اور ایسا معلوم ہوتا گویا چاند کا ٹکڑا ہے، حضرت عائشہ کی لمبی حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ میرے پاس آئے چہرہ خوشی سے منور ہو رہا تھا اور کھڑے مبرک کی رگیں چمک رہی تھیں، الخ۔ پھر فرماتا ہے ان کے صبر کے اجر میں انہیں رہنے سہنے کو وسیع جنت پاک زندگی اور پہننے اوڑھنے کو ریشمی لباس ملا، ابن عساکر میں ہے کہ ابو سلیمان دارانی کے سامنے اس سورت کی کی تلاوت ہوئی جب قاری نے اس آیت کو پڑھا تو آپ نے فرمایا انہوں نے دنیاوی خواہشوں کو چھوڑ رکھا تھا پھر یہ اشعار پڑھے۔ افسوس شہوت نفس نے اور بھلائیوں کے خلا برائیوں کی چاہت نے بہت سے گواہوں کا گلا گھونٹ دیا اور کئی ایک کو پابجولاں کردیا، نفسانی خواہشیں ہی ہیں جو انسان کو بدترین ذلت و رسوائی اور بلا و مصیبت میں ڈال دیتی ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 12{ وَجَزٰٹہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا۔ } ” اور بدلے میں دے گا انہیں ان کے صبر کے سبب جنت اور ریشم کا لباس۔ “ دنیا میں وہ لوگ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری میں لگے رہے۔ انہوں نے فاقوں سے رہنا گوارا کرلیا لیکن حرام کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے انہوں نے اپنی جانیں تک قربان کردیں۔ ان کے اس صبر کے بدلے میں اللہ تعالیٰ انہیں رہنے کے لیے جنت اور پہننے کے لیے ریشم کی پوشاکیں عطا کرے گا۔
Surah Al Insan Ayat 12 meaning in urdu
اور اُن کے صبر کے بدلے میں اُنہیں جنت اور ریشمی لباس عطا کریگا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی
- پھر اُس کو درست کیا پھر اس میں اپنی (طرف سے) روح پھونکی اور تمہارے
- اور جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے
- اور جو ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا اس کے لئے بہت اچھا
- جن لوگوں نے ایمان کے بدلے کفر خریدا وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے
- اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا
- کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بےاولاد رہے گا
- اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا، تو اس میں باہم جھگڑنے لگے۔
- اور انہوں نے فرشتوں کو کہ وہ بھی خدا کے بندے ہیں (خدا کی) بیٹیاں
- جو خوف رکھتا ہے وہ تو نصیحت پکڑے گا
Quran surahs in English :
Download surah Al Insan with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Insan mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Insan Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers