Surah Abasa Ayat 12 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ عبس کی آیت نمبر 12 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Abasa ayat 12 best quran tafseer in urdu.
  
   
Verse 12 from surah Abasa

﴿فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ﴾
[ عبس: 12]

Ayat With Urdu Translation

پس جو چاہے اسے یاد رکھے

Surah Abasa Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) یعنی جو اس میں رغبت کرے، وہ اس سے نصیحت حاصل کرے، اسے یاد کرے اور اس کے موجبات پر عمل کرے۔ اور جو اس اعراض سے کرے اور بے رخی برتے، جیسے اشراف قریش نے کیا، تو ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


تبلیغ دین میں فقیر و غنی سب برابر بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ قریش کے سرداروں کو اسلامی تعلیم سمجھا رہے تھے اور مشغولی کے ساتھ ان کی طرف متوجہ تھے دل میں خیال تھا کہ کیا عجب اللہ انہیں اسلام نصیب کر دے ناگہاں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ آپ ﷺ کے پاس آئے، پرانے مسلمان تھے عموماً حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور دنیا اسلام کی تعلیم سیکھتے رہتے تھے اور مسائل دریافت کیا کرتے تھے، آج بھی حسب عادت آتے ہی سوالات شروع کئے اور آگے بڑھ بڑھ کر حضور ﷺ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا آپ ﷺ چونکہ اس وقت ایک اہم امر دینی میں پوری طرح مشغول تھے ان کی طرف توجہ نہ فرمائی بلکہ ذرا گراں خاطر گزرا اور پیشانی پر بل پڑگئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ آپ ﷺ کی بلند شان اور اعلیٰ اخلاق کے لائق یہ بات نہ تھی کہ اس نابینا سے جو ہمارے خوف سے دوڑتا بھاگتا آپ ﷺ کی خدمت میں علم دین سیکھنے کے لئے آئے اور آپ ﷺ اس سے منہ پھیر لیں اور ان کی طرف متوجہ ہیں جو سرکش ہیں اور مغرور و متکبر ہیں، بہت ممکن ہے کہ یہی پاک ہوجائے اور اللہ کی باتیں سن کر برائیوں سے بچ جائے اور احکام کی تعمیل میں تیار ہوجائے، یہ کیا کہا آپ ﷺ ان بےپرواہ لوگوں کی جانب تمام تر توجہ فرما لیں ؟ آپ ﷺ پر کوئی ان کو راہ راست پر لا کھڑا کرنا ضروری تھوڑے ہی ہے ؟ وہ اگر آپ ﷺ کی باتیں نہ مانیں تو آپ ﷺ پر ان کے اعمال کی پکڑ ہرگز نہیں، مطلب یہ ہے کہ تبلیغ دین میں شریف و ضعیف، فقیر و غنی، آزاد و غلام، مرد و عورت، چھوٹے بڑے سب برابر ہیں، آپ ﷺ سب کو یکساں نصیحت کیا کریں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے، وہ اگر کسی کو راہ راست سے دور رکھے تو اس کی حکمت وہی جانتا ہے جسے اپنی راہ لگا لے اسے بھی وہی خوب جانتا ہے، حضرت ابن ام مکتوم کے آنے کے وقت حضور ﷺ کا مخاطب ابی بن خلف تھا اس کے بعد حضور ﷺ ابن ام مکتوم کی بڑی تکریم اور آؤ بھگت کیا کرتے تھے ( مسند ابو یعلی ) حضرت انس ؓ فرماتے ہیں میں نے ابن ام مکتوم کو قادسیہ کی لڑائی میں دیکھا ہے، زرہ پہنے ہوئے تھے اور سیاہ جھنڈا لئے ہوئے تھے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب یہ آئے اور کہنے لگے کہ حضرت محمد ﷺ مجھے بھلائی کی باتیں سکھایئے اس وقت رؤساء قریش آپ ﷺ کی جلس میں تھے آپ ﷺ نے ان کی طرف پوری توجہ نہ فرمائی انہیں سمجھاتے جاتے تھے اور فرماتے تھے کہو میری بات ٹھیک ہے وہ کہتے جاتے تھے ہاں حضرت درست ہے، ان لوگوں میں عتبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام، عباس بن عبدالمطلب تھے آپ ﷺ کی بڑی کوشش تھی اور پوری حرص تھی کہ کس طرح یہ لوگ دین حق کو قبول کرلیں ادھر یہ آگئے اور کہنے لگے حضور ﷺ قرآن پاک کی کوئی آیت مجھے سنایئے اور اللہ کی باتیں سکھایئے، آپ ﷺ کو اس وقت ان کی بات ذرا بےموقع لگی اور منہ پھیرلیا اور ادھر ہی متوجہ رہے، جب ان سے باتیں پوری کر کے آپ ﷺ گھر جانے لگے تو آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اور سر نیچا ہوگیا اور یہ آیتیں اتریں، پھر تو آپ ﷺ ان کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور پوری توجہ سے کان لگا کر ان کی باتیں سنا کرتے تھے آتے جاتے ہر وقت پوچھتے کہ کچھ کام ہے کچھ حاجت ہے کچھ کہتے ہو کچھ مانگتے ہو ؟ ( ابن جریر وغیرہ ) یہ روایت غریب اور منکر ہے اور اس کی سند میں بھی کلام ہے، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ بلال رات رہتے ہوئے اذان دیا کرتے ہیں تو تم سحری کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سنو یہ وہ نابینا ہیں جن کے بارے میں آیت ( عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ ۙ اَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى ۭ ) عبس اتری تھی، یہ بھی موذن تھے بینائی میں نقصان تھا جب لوگ صبح صادق دیکھ لیتے اور اطلاع کرتے کہ صبح ہوئی تب یہ اذان کہا کرتے تھے ( ابن ابی حاتم ) ابن ام مکتوم کا مشہور نام تو عبداللہ ہے بعض نے کہا ہے ان کا نام عمرو ہے، واللہ اعلم، انھا تذکرہ یعنی یہ نصیحت ہے اس سے مراد یا تو یہ سورت ہے یا یہ مساوات کہ تبلیغ دین میں سب یکساں ہیں مراد ہے، سدی کہتے ہیں مراد اس سے قرآن ہے، جو شخص چاہے اسے یاد کرلے یعنی اللہ کو یاد کرے اور اپنے تمام کاموں میں اس کے فرمان کو مقدم رکھے، یا یہ مطلب ہے کہ وحی الٰہی کو یاد کرلے، یہ سورت اور یہ وعظ و نصیحت بلکہ سارے کا سارا قرآن موقر معزز اور معتبر صحیفوں میں ہے جو بلند قدر اور اعلیٰ مرتبہ والے ہیں جو میل کچیل اور کمی زیادتی سے محفوظ اور پاک صاف ہیں، جو فرشتوں کے پاس ہاتھوں میں ہیں اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ اصحاب رسول ﷺ کے پاکیزہ ہاتھوں میں ہے۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد قاری ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ نبطی زبان کا لفظ ہے معنی ہیں قاری، امام ابن جریر فرماتے ہیں صحیح بات یہی ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان سفیر ہیں، سفیر اسے کہتے ہیں کہ جو صلح اور بھلائی کے لیے لوگوں میں کوشش کرتا پھرے، عرب شاعر کے شعر میں بھی یہی معنی پائے جاتے ہیں، امام بخاری ؒ فرماتے ہیں اس سے مراد فرشتے ہیں جو فرشتے اللہ کی جانب سے وحی وغیرہ لے کر آتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے لوگوں میں صلح کرانے والے سفیر ہوتے ہیں، وہ ظاہر باطن میں پاک ہیں، وجیہ خوش رو شریف اور بزرگ ظاہر میں، اخلاق و افعال کے پاکیزہ باطن میں۔ یہاں سے یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ قرآن کے پڑھنے والوں کو اعمال و اخلاق اچھے رکھنے چاہئیں، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو قرآن کو پڑھے اور اس کی مہارت حاصل کرے وہ بزرگ لکھنے والے فرشتوں کیساتھ ہوگا اور جو باوجود مشقت کبھی پڑھے اسے دوہرا اجر ملے گا۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 12{ فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ۔ } ” تو جو چاہے اس سے نصیحت اخذ کرلے۔ “ آپ ﷺ ان لوگوں کے پیچھے خود کو ہلکان نہ کریں ‘ اگر ابوجہل اور ابولہب اس ہدایت سے مستفید نہیں ہونا چاہتے تو نہ ہوں آپ ﷺ بھی ان کی پروا نہ کریں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ جیسے سورة الكهف میں فرمایا گیا :{ وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْج تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰٹہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۔ } ” اور اپنے آپ کو روکے رکھیے ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے رب کو پکارتے ہیں صبح وشام ‘ وہ اللہ کی رضا کے طالب ہیں اور آپ ﷺ کی نگاہیں ان سے ہٹنے نہ پائیں ‘ جس سے لوگوں کو یہ گمان ہونے لگے کہ آپ ﷺ دُنیوی زندگی کی آرائش و زیبائش چاہتے ہیں ! اور مت کہنا مانیے ایسے شخص کا جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہے اور اس کا معاملہ حد سے متجاوز ہوچکا ہے۔ “ ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا سردارانِ قریش کی طرف التفات معاذ اللہ ‘ ثم معاذ اللہ ! کسی ذاتی غرض کی وجہ سے تو نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ اسلام کی تقویت کے لیے ان کے قبول اسلام کے آرزومند تھے۔۔۔ لیکن ان کی موجودگی میں اپنے کسی ساتھی سے بےاعتنائی لوگوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرسکتی تھی کہ آپ ﷺ ان لوگوں کی دولت و ثروت کی وجہ سے ان کی طرف ملتفت ہیں اور اپنے نادار ساتھیوں سے مغائرت برت رہے ہیں۔ اگلی آیات عظمت قرآن کے ذکر کے حوالے سے پورے قرآن میں منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ سیاق وسباق کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان آیات کے بین السطور میں یہ پیغام بھی ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ فریضہ رسالت کی ادائیگی کے لیے ان ” بڑے لوگوں “ کے پیچھے اپنے آپ ﷺ کو جس انداز میں ہلکان کر رہے ہیں اور یہ لوگ جس ” بےنیازی “ سے قرآن کو نظر انداز کر رہے ہیں اس سے قرآن کے استخفاف کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ ان لوگوں کے پیچھے پڑ کر انہیں دعوت مت دیں۔ ظاہر ہے یہ پیغام قیامت تک کے داعیانِ حق کے لیے بھی ہے۔ اس ضمن میں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ گو معاشرے کے صاحب حیثیت لوگوں کا کسی جماعت میں شامل ہونا اس جماعت کے مشن کی ترویج و ترقی کے لیے بہت مفید ہے ‘ لیکن ایسے لوگوں کو خصوصی اہتمام سے دعوت دینے اور پھر خصوصی اہتمام سے اپنی جماعت میں خوش آمدید کہنے کا انداز ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے اپنے ” نظریے “ کی بےتوقیری کا تاثر ملے یا پرانے کارکنوں کے دلوں میں مغائرت کا احساس پیدا ہو۔ لہٰذا کسی بھی جماعت کے امیر کے لیے اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر صاحب حیثیت لوگوں کو اپنی جماعت کی طرف راغب کرنے کی کوشش دراصل اس ُ پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بال سے باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے خود داری اور تکبر کے درمیان یا خوش اخلاقی اور خوشامد کے مابین بہت باریک سا فرق ہے ‘ لیکن اگر کوئی انسان اس باریک سے فرق کو ملحوظ نہ رکھے تو اس کی ایک بہت اعلیٰ صفت کو لوگ اس کی بہت بڑی خامی پر بھی محمول کرسکتے ہیں۔ لہٰذا حکمت ِتبلیغ کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے حساس ّفرض کی ادائیگی دو انتہائوں کے درمیان رہتے ہوئے بہت محتاط انداز میں سرانجام دی جائے۔

فمن شاء ذكره

سورة: عبس - آية: ( 12 )  - جزء: ( 30 )  -  صفحة: ( 585 )

Surah Abasa Ayat 12 meaning in urdu

جس کا جی چاہے اِسے قبول کرے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان
  2. اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) لوٹ کر لاؤ اس میں سے
  3. اور یہ بھی غرض ہے کہ جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے وہ جان
  4. اور گنہگارو! آج الگ ہوجاؤ
  5. اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے
  6. (سب) ایک روز مقرر کے وقت پر جمع کئے جائیں گے
  7. اور (کفر کرنے والوں کی) کوئی بستی نہیں مگر قیامت کے دن سے پہلے ہم
  8. ہاں جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اپنی حالت درست کر لی تو
  9. کافروں کی) سرگوشیاں تو شیطان (کی حرکات) سے ہیں (جو) اس لئے (کی جاتی ہیں)
  10. اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں۔ اور خدا غالب (اور) حکمت

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Abasa with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Abasa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Abasa Complete with high quality
surah Abasa Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Abasa Bandar Balila
Bandar Balila
surah Abasa Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Abasa Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Abasa Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Abasa Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Abasa Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Abasa Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Abasa Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Abasa Fares Abbad
Fares Abbad
surah Abasa Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Abasa Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Abasa Al Hosary
Al Hosary
surah Abasa Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Abasa Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Thursday, November 21, 2024

Please remember us in your sincere prayers