Surah al imran Ayat 121 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾
[ آل عمران: 121]
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب تم صبح کو اپنے گھر روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لیے مورچوں پر (موقع بہ موقع) متعین کرنے لگے اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
Surah al imran Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد جنگ احد کا واقعہ ہے جو شوال ہجری میں پیش آیا۔ اس کا پس منظر مختصراً یہ ہے کہ جب جنگ بدر ہجری میں کفار کو عبرت ناک شکست ہوئی، ان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید ہوئے تو ان کفار کے لئے یہ بڑی بدنامی کا باعث اور ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک زبردست انتقامی جنگ کی تیاری کی جس میں عورتیں بھی شریک ہوئیں۔ ادھر مسلمانوں کو جب اس کا علم ہوا کہ کافر تین ہزار کی تعداد میں احد پہاڑ کے قریب خیمہ زن ہوگئے تو نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) نے صحابہ ( رضي الله عنهم ) سے مشورہ کیا کہ وہ مدینہ میں ہی رہ کر لڑیں یا مدینہ سے باہر نکل کرمقابلہ کریں، بعض صحابہ ( رضي الله عنهم ) نے اندر رہ کر ہی مقابلہ کا مشورہ دیا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے برعکس بعض پرجوش صحابہ ( رضي الله عنهم ) نے جنہیں جنگ بدر میں حصہ لینے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی، مدینہ سے باہر جاکر لڑنے کی حمایت کی۔ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) اندر حجرے میں تشریف ہتھیار پہن کرباہر آئے، دوسری رائے والوں کوندامت ہوئی کہ شاید ہم نے رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کو آپ کی خواہش کے برعکس باہر نکلنے پر مجبور کرکے ٹھیک نہیں کیا چنانچہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ( صلى الله عليه وسلم ) آپ اگر اندر رہ کر مقابلہ کرنا پسند فرمائیں تو اندر ہی رہیں۔ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا کہ لباس حرب پہن لینے کے بعد کسی نبی کے لائق نہیں ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے کے بغیر واپس ہو یا لباس اتارے۔ چنانچہ مسلمان ایک ہزار کی تعداد میں روانہ ہوگئے مگر صبح دم جب مقام شوط پر پہنچے توعبداللہ بن ابی اپنے تین سوساتھیوں سمیت یہ کہہ کر واپس آگیا کہ اس کی رائے نہیں مانی گئی۔ خواہ مخواہ جان دینے کا کیا فائدہ؟ اس کے اس فیصلے سے وقتی طور پر بعض مسلمان بھی متاثر ہوگئے اور انہوں نے بھی کمزوری کا مظاہرہ کیا۔ ( ابن کثیر )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
غزوہ احد کی افتاد یہ احد کے واقعہ کا ذکر ہے بعض مفسرین نے اسے جنگ خندق کا قصہ بھی کہا ہے لیکن ٹھیک یہ ہے کہ واقعہ جنگ احد کا ہے جو سن 3 ہجری 11 شوال بروز ہفتہ پیش آیا تھا، جنگ بدر میں مشرکین کو کامل شکست ہوئی تھی انکے سردار موت کے گھاٹ اترے تھے، اب اس کا بدلہ لینے کیلئے مشرکین نے بڑی بھاری تیاری کی تھی وہ تجارتی مال جو بدر والی لڑائی کے موقعہ پر دوسرے راستے سے بچ کر آگیا تھا وہ سب اس لڑائی کیلئے روک رکھا تھا اور چاروں طرف سے لوگوں کو جمع کرکے تین ہزار کا ایک لشکر جرار تیار کیا اور پورے سازو سامان کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کی، ادھر رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کی نماز کے بعد مالک بن عمرو کے جنازے کی نماز پڑھائی جو قبیلہ بنی النجار میں سے تھے پھر لوگوں سے مشورہ کیا کہ ان کی مدافعت کی کیا صورت تمہارے نزدیک بہتر ہے ؟ تو عبداللہ بن ابی نے کہا کہ ہمیں مدینہ سے باہر نہ نکلنا چاہئے اگر وہ آئے اور ٹھہرے تو گویا ہمارے جیل خانہ میں آگئے رکے اور کھڑے رہیں اور اگر مدینہ میں گھسے تو ایک طرف سے ہمارے بہادروں کی تلواریں ہوں گی دوسری جانب تیر اندازوں کے بےپناہ تیر ہوں گے پھر اوپر سے عورتوں اور بچوں کی سنگ باری ہوگی اور اگر یونہی لوٹ گئے تو بربادی اور خسارے کے ساتھ لوٹیں گے لیکن اس کے برخلاف بعض صحابہ جو جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے ان کی رائے تھی کہ مدینہ کے باہر میدان میں جا کر خوب دل کھول کر ان کا مقابلہ کرنا چاہئے، رسول اللہ ﷺ گھر میں تشریف لے گئے اور ہتھیار لگا کر باہر آئے ان صحابہ کو اب خیال ہوا کہ کہیں ہم نے اللہ کے نبی کی خلاف منشاء تو میدان کی لڑائی پر زور نہیں دیا اس لئے یہ کہنے لگے کہ حضور ﷺ اگر یہیں ٹھہر کر لڑنے کا ارادہ ہو تو یونہی کیجئے ہماری جانب سے کوئی اصرار نہیں، آپ نے فرمایا اللہ کے نبی کو لائق نہیں کہ وہ ہتھیار پہن کر اتارے اب تو میں نہ لوٹوں گا جب تک کہ وہ نہ جائے جو اللہ عزوجل کو منظور ہو چنانجہ ایک ہزار کا لشکر لے کر آپ مدینہ شریف سے نکل کھڑے ہوئے، شوط پر پہنچ کر اس منافق عبداللہ بن ابی نے دغا بازی کی اور اپنی تین سو کی جماعت کو لے کر واپس مڑ گیا یہ لوگ کہنے لگے ہم جانتے ہیں کہ لڑائی تو ہونے کی نہیں خواہ مخواہ زحمت کیوں اٹھائیں ؟ آنحضرت ﷺ نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور صرف سات سو صحابہ کرام کو لے کر میدان میں اترے اور حکم دیا کہ جب تک میں نہ کہوں لڑائی شروع نہ کرنا پچاس تیر انداز صحابیوں کو الگ کر کے ان کا امیر حضرت عبداللہ بن جبیر کو بنایا اور ان سے فرما دیا کہ پہاڑی پر چڑھ جاؤ اور اس بات کا خیال رکھو کہ دشمن پیچھے سے حملہ آور نہ ہو دیکھو ہم غالب آجائیں یا ( اللہ نہ کرے ) مغلوب ہوجائیں تم ہرگز اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، یہ انتظامات کر کے خود آپ بھی تیار ہوگئے دوہری زرہ پہنی حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو جھنڈا دیا آج چند لڑکے بھی لشکر محمدی میں نظر آتے تھے یہ چھوٹے سپاہی بھی جانبازی کیلئے ہمہ تن مستعد تھے بعض اور بچوں کو حضور ﷺ نے ساتھ لیا تھا انہیں جنگ خندق کے لشکر میں بھرتی کیا گیا جنگ خندق اس کے دو سال بعد ہوئی تھی، قریشی کا لشکر بڑے ٹھاٹھے سے مقابلہ پر آڈٹا یہ تین ہزار سپاہیوں کا گروہ تھا ان کے ساتھ دو سو کو تل گھوڑے تھے جنہیں موقعہ پر کام آنے کیلئے ساتھ رکھا تھا ان کے داہنے حصہ پر خالد بن ولید تھا اور بائیں حصہ پر عکرمہ بن ابو جہل تھا (یہ دونوں سردار بعد میں مسلمان ہوگئے تھے ؓ ان کا جھنڈے بردار قبیلہ بنو عبدالدار تھا، پھر لڑائی شروع ہوئی جس کے تفصیلی واقعات انہی آیتوں کی موقعہ بہ موقعہ تفسیر کے ساتھ آتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ الغرض اس آیت میں اسی کا بیان ہو رہا ہے کہ حضور ﷺ مدینہ شریف سے نکلے اور لوگوں کو لڑائی کے مواقعہ کی جگہ مقرر کرنے لگے میمنہ میسرہ لشکر کا مقرر کیا اللہ تعالیٰ تمام باتوں کو سننے والا اور سب کے دلوں کے بھید جاننے والا ہے، روایتوں میں یہ آچکا ہے کہحضور ﷺ جمعہ کے دن مدینہ شریف سے لڑائی کیلئے نکلے اور قرآن فرماتا ہے صبح ہی صبح تم لشکریوں کی جگہ مقرر کرتے تھے تو مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے دن تو جا کر پڑاؤ ڈال دیا باقی کاروائی ہفتہ کی صبح شروع ہوئی۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں ہمارے بارے میں یعنی بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ تمہارے دو گروہوں بزدلی کا ارادہ کیا تھا گو اس میں ہماری ایک کمزوری کا بیان ہے لیکن ہم اپنے حق میں اس آیت کو بہت بہتر جانتے ہیں کیونکہ اس میں یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ اللہ ان دونوں کا ولی ہے پھر فرمایا کہ دیکھو میں نے بدر والے دن بھی تمہیں غالب کیا حالانکہ تم سب ہی کم اور بےسرد سامان تھے، بدر کی لڑائی سن 2 ہجری 17 رمضان بروز جمعہ ہوئی تھی۔ اسی کا نام یوم الفرقان رکھا گیا اس دن اسلام اور اہل اسلام کی عزت ملی شرک برباد ہوا محل شرک ویران ہوا حالانکہ اس دن مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے ان کے پاس صرف دو گھوڑے تھے فقط ستر اونٹ تھے باقی سب پیدل تھے ہتھیار بھی اتنے کم تھے کہ گویا نہ تھے اور دشمن کی تعداد اس دن تین گنہ تھی ایک ہزار میں کچھ ہی کم تھے ہر ایک زرہ بکتر لگائے ہوئے ضرورت سے زیادہ وافر ہتھیار عمدہ عمدہ کافی سے زیادہ مالداری گھوڑے نشان زدہ جن کو سونے کے زیور پہنائے گئے تھے اس موقعہ پر اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو عزت اور غلبہ دیا حالات کے بارے میں ظاہر و باطن وحی کی اپنے نبی اور آپ کے ساتھیوں کو سرخرو کیا اور شیطان اور اس کے لشکریوں کو ذلیل و خوار کیا اب اپنے مومن بندوں اور جنتی لشکریوں کو اس آیت میں یہ احسان یاد دلاتا ہے کہ تمہاری تعداد کی کمی اور ظاہری اسباب کی غیر موجودگی کے باوجود تم ہی کو غالب رکھا تاکہ تم معلوم کرلو کہ غلبہ ظاہری اسباب پر موقوف نہیں، اسی لئے دوسری آیت میں صاف فرما دیا کہ جنگ حنین میں تم نے ظاہری اسباب پر نظر ڈالی اور اپنی زیادتی دیکھ کر خوش ہوئے لیکن اس زیادتی تعداد اور اسباب کی موجودگی نے تمہیں کچھ فائدہ نہ دیا، حضرت عیاض اشعری فرماتے ہیں کہ جنگ یرموک میں ہمارے پانچ سردار تھے حضرت ابو عبیدہ، حضرت یزید بن ابو سفیان حضرت ابن حسنہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عیاض اور خلیفتہ المسلمین حضرت عمر ؓ کا حکم تھا کہ لڑائی کے وقت حضرت ابو عبیدہ سردار ہوں گے اس لڑائی میں ہمیں چاروں طرف سے شکست کے آثار نظر آنے لگے تو ہم نے خلیفہ وقت کو خط لکھا کہ ہمیں موت نے گھیر رکھا ہے امداد کیجئے، فاروق کا مکتوب گرامی ہماری گزارش کے جواب میں آیا جس میں تحریر تھا کہ تمہارا طلب امداد کا خط پہنچائیں تمہیں ایک ایسی ذات بتاتا ہوں جو سب سے زیادہ مددگار اور سب سے زیادہ مضبوط لشکر والی ہے وہ ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے جس نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمد ﷺ کی مدد بدر والے دن کی تھی بدری لشکر تو تم سے بہت ہی کم تھا میرا یہ خط پڑھتے ہی جہاد شروع کردو اور اب مجھے کچھ نہ لکھنا نہ کچھ پوچھنا، اس خط سے ہماری جراتیں بڑھ گئیں ہمتیں بلند ہوگئیں پھر ہم نے جم کر لڑنا شروع کیا الحمد اللہ دشمن کو شکست ہوئی اور وہ بھاگے ہم نے بارہ میل تک انکا تعاقب کیا بہت سا مال غنیمت ہمیں ملا جو ہم نے آپس میں بانٹ لیا پھر حضرت ابو عبیدہ کہنے لگے میرے ساتھ دوڑ کون لگائے گا ؟ ایک نوجوان نے کہا اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں حاضر ہوں چناچہ دوڑنے میں وہ آگے نکل گئے میں نے دیکھا ان کی دونوں زلفیں ہوا میں اڑ رہی تھیں اور وہ اس نوجوان کے پیچھے گھوڑا دوڑائے چلے جا رہے تھے، بدر بن نارین ایک شخص تھا اسکے نام سے ایک کنواں مشہور تھا اور اس میدان کا جس میں یہ کنواں تھا یہی نام ہوگیا تھا بدر کی جنگ بھی اسی نام سے مشہور ہوگئی یہ جگہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے پھر فرمایا کہ اللہ سے ڈرتے رہا کرو تاکہ شکر کی توفیق ملے اور اطاعت گزاری کرسکو۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
یہاں سے سورة آل عمران کے نصف ثانی کے دوسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے ‘ جو چھ رکوعات پر محیط ہے۔ یہ چھ رکوع مسلسل غزوۂ احد کے حالات و واقعات اور ان پر تبصرے پر مشتمل ہیں۔ غزوۂ احد شوال 3 ھ میں پیش آیا تھا۔ اس سے پہلے رمضان 2 ھ میں غزوۂ بدر پیش آچکا تھا ‘ جس کا تذکرہ ہم سورة الأنفال میں پڑھیں گے۔ اس لیے کہ ترتیب مصحف نہ تو ترتیب زمانی کے اعتبار سے ہے اور نہ ہی ترتیب نزولی کے مطابق۔ غزوۂ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہت زبردست فتح دی تھی اور کفار مکہ کو بڑی زک پہنچی تھی۔ ان کے ستر 70 سربرآوردہ لوگ مارے گئے تھے ‘ جن میں قریش کے تقریباً سارے بڑے بڑے سردار بھی شامل تھے۔ اہل مکہ کے سینوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی اور ان کے انتقامی جذبات لاوے کی طرح کھول رہے تھے۔ چناچہ ایک سال کے اندر اندر انہوں نے پوری تیاری کی اور تمام ساز و سامان جو وہ جمع کرسکتے تھے جمع کرلیا۔ ابوجہل غزوۂ بدر میں مارا جا چکا تھا اور اب قریش کے سب سے بڑے سردار ابوسفیان تھے۔ ابوسفیان چونکہ بعد میں ایمان لے آئے تھے اور صحابیت کے مرتبے سے سرفراز ہوئے تھے لہٰذا ہم ان کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ ابوسفیان تین ہزار جنگجوؤں کا لشکر لے کر مدینہ پر چڑھ دوڑے۔ اہل مکہ اپنی فتح یقینی بنانے کے لیے اس دفعہ اپنے بچوں اور خاص طور پر خواتین کو بھی ساتھ لے کر آئے تھے تاکہ ان کی غیرت بیدار رہے کہ اگر کہیں میدان سے ہمارے قدم اکھڑ گئے تو ہماری عورتیں مسلمانوں کے قبضے میں چلی جائیں گی۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ بھی لشکر کے ہمراہ تھی۔ وہ بھی بعد میں فتح مکہ کے موقع پر ایمان لے آئی تھیں۔ غزوۂ بدر میں ہندہ کا باپ ‘ بھائی اور چچا مسلمانوں کے ہاتھوں واصل جہنم ہوچکے تھے ‘ لہٰذا اس کے سینے کے اندر بھی انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ مکہ کا شاید ہی کوئی گھر بچا ہو جس کا کوئی فرد غزوۂ بدر میں مارا نہ گیا ہو۔اس موقع پر نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں ایک مشاورت منعقد فرمائی کہ اب کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے ‘ جبکہ تین ہزار کا لشکر مدینہ پر چڑھائی کرنے آ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا اپنا رجحان اس طرف تھا کہ اس صورت حال میں ہم اگر مدینہ میں محصور ہو کر مقابلہ کریں تو بہتر رہے گا۔ عجیب اتفاق ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی بھی یہی رائے تھی۔ لیکن وہ لوگ جو بدر کے بعد ایمان لائے تھے اور وہ جو غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوپائے تھے ان میں سے خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے خصوصی جوش و خروش کا مظاہرہ ہو رہا تھا کہ ہمیں میدان میں نکل کر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے ‘ ہمیں تو شہادت درکار ہے ‘ ہمیں آخر موت سے کیا ڈر ہے ؟ شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی !چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے فیصلہ فرما دیا کہ دشمن کا کھلے میدان میں مقابلہ کیا جائے گا۔ نبی اکرم ﷺ نے ایک ہزار کی نفری لے کر مدینہ سے جبل احد کی جانب کوچ فرمایا ‘ لیکن راستے ہی میں عبداللہ بن ابی اپنے تین سو آدمیوں کو ساتھ لے کر یہ کہہ کر واپس چلا گیا کہ جب ہمارے مشورے پر عمل نہیں ہوتا اور ہماری بات نہیں مانی جاتی تو ہم خواہ مخواہ اپنی جانیں جوکھوں میں کیوں ڈالیں ؟ تین سو منافقین کے چلے جانے کے بعد اسلامی لشکر میں صرف سات سو افراد باقی رہ گئے تھے ‘ جن میں کمزور ایمان والے بھی تھے۔ چناچہ دامن احد میں پہنچ کر مدینہ کے دو خاندانوں بنو حارثہ اور بنوسلمہ کے قدم بھی تھوڑی دیر کے لیے ڈگمگائے اور انہوں نے واپس لوٹنا چاہا ‘ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو حوصلہ دیا اور ان کے قدم جما دیے۔ اس کے بعد جنگ ہوئی تو اللہ کی طرف سے مدد آئی۔ اللہ نے لشکر اسلام کو فتح دے دی اور مشرکین کے قدم اکھڑ گئے۔ نبی اکرم ﷺ نے احد پہاڑ کو اپنی پشت پر رکھا تھا اور اس کے دامن میں صف بندی کی تھی۔ سامنے دشمن کا لشکر تھا۔ پہاڑ میں ایک درّہ تھا اور حضور ﷺ کو اندیشہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ وہاں سے ہم پر حملہ ہوجائے اور ہم دو طرف سے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آجائیں۔ لہٰذا آپ ﷺ نے اس درّہ پر حضرت عبداللہ بن جبیر رض کی امارت میں پچاس تیر انداز تعینات فرما دیے تھے اور انہیں تاکید فرمائی تھی یہاں سے مت ہلنا۔ چاہے تم دیکھو کہ ہم سب مارے گئے ہیں اور ہمارا اگوشت چیلیں اور کوّے نوچ رہے ہیں تب بھی یہ جگہ مت چھوڑنا ! لیکن جب مسلمانوں کو فتح ہوگئی تو درّے پر مامور حضرات میں اختلاف رائے ہوگیا۔ ان میں سے اکثر نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جو اتنی تاکید فرمائی تھی وہ تو شکست کی صورت میں تھی ‘ اب تو فتح ہوگئی ہے ‘ لہٰذا اب ہمیں بھی چل کر مال غنیمت جمع کرنے میں باقی سب لوگوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر رض وہاں کے لوکل کمانڈر تھے ‘ وہ انہیں منع کرتے رہے کہ یہاں سے ہرگز مت ہٹو ‘ رسول اللہ ﷺ کا حکم یاد رکھو۔ لیکن وہ تو حضور ﷺ کے حکم کی تاویل کرچکے تھے۔ ان میں سے 35 افراد درّہ چھوڑ کر چلے گئے اور صرف 15 باقی رہ گئے۔ خالد بن ولید جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے مشرکین کی گھڑ سوارفوج cavalry کے کمانڈر تھے۔ ان کی عقابی نگاہ نے دیکھ لیا کہ وہ درہ خالی ہے۔ ان کی پیدل فوج infantry شکست کھا چکی تھی اور بھگدڑ مچ چکی تھی۔ ایسے میں وہ اپنے دو سو گھڑ سواروں کے دستے کے ساتھ احد کا چکر کاٹ کر پشت سے اس درے کے راستے مسلمانوں پر حملہ آور ہوگئے۔ درّے پر صرف پندرہ تیر انداز باقی تھے ‘ ان کے لیے دو سو گھڑ سواروں کی یلغار کو روکنا ممکن نہیں تھا اور وہ مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اس اچانک حملے سے یکلخت جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی۔ ستر صحابہ کرام رض شہید ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ خود بھی زخمی ہوگئے۔َ خود کی کڑیاں آپ ﷺ کے رخسار میں گھس گئیں اور دندان مبارک شہید ہوگئے۔ خون اتنا بہا کہ آپ ﷺ پر بےہوشی طاری ہوگئی ‘ اور یہ بھی مشہور ہوگیا کہ حضور ﷺ کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے۔ لیکن پھر جب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو پکارا تو لوگ ہمت کر کے جمع ہوئے۔ تب آپ ﷺ نے یہ فیصلہ کیا کہ اس وقت پہاڑ پر چڑھ کر بچاؤ کرلیا جائے ‘ اور آپ تمام مسلمانوں کو لے کر کوہ احد پر چڑھ گئے۔ اس موقع پر ابوسفیان اور خالد بن ولید کے مابین اختلاف رائے ہوگیا۔ خالد بن ولید کا کہنا تھا کہ ہمیں ان کے پیچھے پہاڑ پر چڑھنا چاہیے اور انہیں ختم کر کے ہی دم لینا چاہیے۔ لیکن ابوسفیان بڑے حقیقت پسند اور زیرک شخص تھے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں ‘ مسلمان اونچائی پر ہیں ‘ وہ اوپر سے پتھر پھینکیں گے اور تیر برسائیں گے تو ہمارے لیے شدید جانی نقصان کا اندیشہ ہے۔ ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا ہے ‘ یہی بہت ہے۔ چناچہ مشرکین وہاں سے چلے گئے۔ مطالعۂ آیات سے قبل غزوۂ احد کے سلسلۂ واقعات کا یہ اجمالی خاکہ ذہن میں رہنا چاہیے۔آیت 121 وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ط۔غزوۂ احد کی صبح آپ ﷺ حضرت عائشہ رض کے حجرے سے برآمد ہوئے تھے اور جنگ کے میدان میں صف بندی کر رہے تھے ‘ وہاں مورچے معین کر رہے تھے اور ان میں صحابہ کرام رض کو مامور کر رہے تھے۔
وإذ غدوت من أهلك تبوئ المؤمنين مقاعد للقتال والله سميع عليم
سورة: آل عمران - آية: ( 121 ) - جزء: ( 4 ) - صفحة: ( 65 )Surah al imran Ayat 121 meaning in urdu
(اے پیغمبرؐ! مسلمانوں کے سامنے اُس موقع کا ذکر کرو) جب تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے تھے اور (احد کے میدان میں) مسلمانوں کو جنگ کے لیے جا بجا مامور کر رہے تھے اللہ ساری باتیں سنتا ہے اور وہ نہایت باخبر ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ان سب کے وعدے کی جگہ جہنم ہے
- بھلا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں یا
- اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی
- اور اس کو کوئی تکلیف نہ دینا (نہیں تو) تم کو سخت عذاب آ پکڑے
- (یعنی) نطفے سے جو (رحم میں) ڈالا جاتا ہے
- اور ہم نے اس کو ایک عبرت بنا چھوڑا تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟
- اور (قوم) عاد کے بھائی (ہود) کو یاد کرو کہ جب انہوں نے اپنی قوم
- اور اہلِ کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے پاس
- جب اُن کے پروردگار نے ان کو پاک میدان (یعنی) طویٰ میں پکارا
- (یعنی) لوگوں کی ہدایت کے لیے پہلے (تورات اور انجیل اتاری) اور (پھر قرآن جو
Quran surahs in English :
Download surah al imran with the voice of the most famous Quran reciters :
surah al imran mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter al imran Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers