Surah al imran Ayat 130 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾
[ آل عمران: 130]
اےایمان والو! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور خدا سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو
Surah al imran Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) چونکہ غزوہ احد میں ناکامی رسول ( صلى الله عليه وسلم ) کی نافرمانی اور مال دنیا کے لالچ کے سبب ہوئی تھی اس لئے اب طمع دنیا کی سب سے زیادہ بھیانک اور مستقل شکل سود سے منع کیا جا رہا ہے اور اطاعت کیشی کی تاکید کی جا رہی ہےاور بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤکا یہ مطلب نہیں بڑھا چڑھا کر نہ ہو تو مطلق سود جائز ہے۔ بلکہ سود کم ہو یا زیادہ مفرد ہو یا مرکب، مطلقاً حرام ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ یہ قید نہی ( حرمت ) کے لئے بطور شرط نہیں ہے بلکہ واقعے کی رعایت کے طور پر یعنی سود کی اس وقت جو صورتحال تھی، اس کا بیان واظہار ہے۔ زمانہ جاہلیت میں سود کا یہ رواج عام تھا کہ جب ادائیگی کی مدت آجاتی اور ادائیگی ممکن نہ ہوتی تو مزید مدت میں اضافے کے ساتھ سود میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا جس کی وجہ سے تھوڑی سی رقم بڑھ چڑھ کر کہیں پہنچ جاتی اور ایک عام آدمی کے لئے اس کی ادائیگی ناممکن ہو جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے درو اور اس آگ سے درو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے جس سے تنبیہ بھی مقصود ہے کہ سود خوری سے باز نہ آئے تو یہ فعل حرام تمہیں کفر تک پہنچا سکتاہے،کیونکہ یہ اللہ ورسول سے محاربہ ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
سود خور جہنمی ہے اور غصہ شیطان کی دین ہے اس سے بچو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو سودی لین دین سے اور سود خوری سے روک رہا ہے، اہل جاہلیت سودی قرضہ دیتے تھے مدت مقرر ہوتی تھی اگر اس مدت پر روپیہ وصول نہ ہوتا تو مدت بڑھا کر سود پر سود بڑھا دیا کرتے تھے اسی طرح سود در سود ملا کر اصل رقم کئی گنا بڑھ جاتی، اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو اس طرح ناحق لوگوں کے مال غصب کرنے سے روک رہا ہے اور تقوے کا حکم دے کر اس پر نجات کا وعدہ کر رہا ہے، پھر آگ سے ڈراتا ہے اور اپنے عذابوں سے دھمکاتا ہے پھر اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی اطاعت پر آمادہ کرتا ہے اور اس پر رحم و کرم کا وعدہ دیتا ہے پھر سعادت دارین کے حصول کیلئے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کو فرماتا ہے اور جنت کی تعریف کرتا ہے، چوڑائی کو بیان کر کے لمبائی کا اندازہ سننے والوں پر ہی چھوڑا جاتا ہے جس طرح جنتی فرش کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا آیت ( مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي فُرُشٍۢ بَطَاۗىِٕنُهَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ ) 55۔ الرحمن:54) یعنی اس کا استر نرم ریشم کا ہے تو مطلب یہ ہے کہ جب استر ایسا ہے تو ابرے کا کیا ٹھکانا ہے اسی طرح یہاں بھی بیان ہو رہا ہے کہ جب عرض ساتوں آسمانوں اور ساتویں زمینوں کے برابر ہے تو طول کتنا بڑا ہوگا اور بعض نے کہا ہے کہ عرض و طول یعنی لمبائی چوڑائی دونوں برابر ہے کیونکہ جنت مثل قبہ کے عرش کے نیچے ہے اور جو چیز قبہ نما ہو یا مستدیر ہو اس کا عرض و طول یکساں ہوتا ہے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے جب تم اللہ سے جنت مانگو تو فردوس کا سوال کرو وہ سب سے اونچی اور سب سے اچھی جنت ہے اسی جنت سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اور اسی کی چھت اللہ تعالیٰ رحمن رحیم کا عرش ہے، مسند امام احمد میں ہے کہ ہرقل نے حضور ﷺ کی خدمت میں بطور اعتراض کے ایک سوال لکھ بھیجا کہ آپ مجھے اس جنت کی دعوت دے رہے ہیں جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے تو یہ فرمایئے کہ پھر جہنم کہاں گئی ؟ حضور ﷺ نے فرمایا یعلیٰ بن مرہ کی ملاقات حمص میں ہوئی تھی کہتے ہیں اس وقت یہ بہت ہی بوڑھا ہوگیا تھا کہنے لگا جب میں نے یہ خط حضور ﷺ کو دیا تو آپ نے اپنی بائیں طرف کے ایک صحابی کو دیا میں نے لوگوں سے پوچھا ان کا کیا نام ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ حضرت معاویہ ہیں ؓ حضرت عمر ؓ سے بھی یہی سوال ہوا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ دن کے وقت رات اور رات کے وقت دن کہاں جاتا ہے ؟ یہودی یہ جواب سن کر کھسیانے ہو کر کہنے لگے کہ یہ توراۃ سے ماخوذ کیا ہوگا، حضرت ابن عباس ؓ سے بھی یہ جواب مروی ہے، ایک مرفوع حدیث میں ہے کسی نے حضور ﷺ سے پوچھا تو آپ نے جواب میں فرمایا جب ہر چیز پر رات آجاتی ہے تو دن کہاں جاتا ہے ؟ اس نے کہا جہاں اللہ چاہے، آپ نے فرمایا اسی طرح جہنم بھی جہاں چاہے ( بزار ) اس جملہ کے دو معنی ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ رات کے وقت ہم گو دن کو نہیں دیکھ سکتے لیکن تاہم دن کا کسی جگہ ہونا ناممکن نہیں، اسی طرح گو جنت کا عرض اتنا ہی ہے لیکن پھر بھی جہنم کے وجود سے انکار نہیں ہوسکتا جہاں اللہ چاہے وہ بھی ہے، دوسرے معنی یہ کہ جب دن ایک طرف چڑھنے لگا رات دوسری جانب ہوتی ہے اسی طرح جنت اعلیٰ علیین میں ہے اور دوزخ اسفل السافلین میں تو کوئی نفی کا امکان ہی نہ رہا واللہ اعلم پھر اللہ تعالیٰ اہل جنت کا وصف بیان فرماتا ہے کہ وہ سختی میں اور آسانی میں خوشی میں اور غمی میں تندرستی میں اور بیماری میں غرض ہر حال میں راہ اللہ اپنا مال خرچ کرتے رہتے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ) 2۔ البقرۃ :274) یعنی وہ لوگ دن رات چھپے کھلے خرچ کرتے رہتے ہیں کوئی امر انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باز نہیں رکھ سکتا اس کی مخلوق پر اس کے حکم سے احسان کرتے رہتے ہیں۔ یہ غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کی برائیوں سے درگزر کرنے والے ہیں ( کظم ) کے معنی چھپانے کے بھی ہیں یعنی اپنے غصہ کا اظہار بھی نہیں کرتے بعض روایتوں میں ہے اے ابن آدم اگر غصہ کے وقت تجھے یاد رکھوں گا یعنی ہلاکت کے وقت تجھے ہلاکت سے بچا لوں گا ( ابن ابی حاتم ) اور حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو شخص اپنا غصہ روک لے اللہ تعالیٰ اس پر سے اپنے عذاب ہٹا لیتا ہے اور جو بھی اپنی زبان ( خلاف شرع باتوں سے ) روک لے اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف معذرت لے جائے اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول فرماتا ہے ( مسند ابو یعلیٰ ) یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں بھی اختلاف ہے اور حدیث شریف میں ہے۔ آپ فرماتے ہیں پہلوان وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ حقیقتاً پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے ( احمد ) صحیح بخاری صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تم میں سے کوئی ایسا ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو ؟ لوگوں نے کہا حضور ﷺ کوئی نہیں آپ نے فرمایا میں تو دیکھتا ہوں کہ تم اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال چاہتے ہو اس لئے کہ تمہارا مال تو درحقیقت وہ ہے جو تم راہ اللہ اپنی زندگی میں خرچ کردو اور جو چھوڑ کر جاؤ وہ تمہارا مال نہیں بلکہ تمہارے وارثوں کا مال ہے تو تمہارا راہ اللہ کم خرچ کرنا اور جمع زیادہ کرنا یہ دلیل ہے اس امر کی کہ تم اپنے مال سے اپنے وارثوں کے مال کو زیادہ عزیز رکھتے ہو، پھر فرمایا تم پہلوان کسے جانتے ہو ؟ لوگوں نے کہا حضور ﷺ اسے جسے کوئی گر انہ سکے آپ نے فرمایا نہیں بلکہ حقیقتاً زور دار پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر پورا قابو رکھے، پھر فرمایا بےاولاد کسے کہتے ہو ؟ لوگوں نے کہا جس کی اولاد نہ ہو، فرمایا نہیں بلکہ فی الواقع بےاولاد وہ ہے جس کے سامنے اس کی کوئی اولاد مری نہ ہو ( مسلم ) ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو مفلس کنگال کون ہے ؟ لوگوں نے کہا جس کے پاس مال نہ ہو آپ نے فرمایا بلکہ وہ جس نے اپنا مال اپنی زندگی میں راہ اللہ نہ دیا ہو ( مسند احمد ) حضرت حارثہ بن قدامہ سعدی ؓ حاضر خدمت نبوی میں عرض کرتے ہیں کہ حضور ﷺ مجھے کوئی نفع کی بات کہیے جو مختصر ہو تاکہ میں یاد بھی رکھ سکوں آپ نے فرمایا غصہ نہ کر اس نے پھر پوچھا آپ نے پھر یہی جواب دیا کئی کئی مرتبہ یہی کہا ( مسند احمد ) کسی شخص نے حضور ﷺ سے کہا مجھے کچھ وصیت کیجئے آپ نے فرمایا غصہ نہ کر وہ کہتے ہیں میں نے جو غور کیا تو معلوم ہوا کہ تمام برائیوں کا مرکز غصہ ہی ہے ( مسند احمد ) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوذر ؓ غصہ آیا تو آپ بیٹھ گئے اور پھر لیٹ گئے ان سے پوچھا گیا یہ کیا ؟ تو فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے جسے غصہ آئے وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اگر اس سے بھی غصہ نہ جائے تو لیٹ جائے ( مسند احمد ) مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے کہ عروہ بن محمد کو غصہ چڑھا آپ وضو کرنے بیٹھ گئے اور فرمانے لگے میں نے اپنے استادوں سے یہ حدیث سنی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا ہوا ہے اور آگ بجھانے والی چیز پانی ہے پس تم غصہ کے وقت وضو کرنے بیٹھ جاؤ حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا اپنا قرض اسے معاف کر دے اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے آزاد کردیتا ہے لوگو سنو جنت کے اعمال سخت اور مشکل ہیں اور جہنم کے کام آسان اور سہل ہیں نیک بخت وہی ہے جو فتنوں سے بچ جائے کسی گھونٹ کا پینا اللہ کو ایسا پسند نہیں جتنا غصہ کے گھونٹ کا پی جانا ایسے شخص کے دل میں ایمان رچ جاتا ہے ( مسند احمد ) حضور ﷺ فرماتے ہیں جو شخص اپنا غصہ اتارنے کی طاقت رکھتے ہوئے پھر بھی ضبط کرلے اللہ تعالیٰ اس کا دل امن وامان سے پر کردیتا ہے جو شخص باوجود موجود ہونے کے شہرت کے کپڑے کو تواضع کی وجہ سے چھوڑ دے اسے اللہ تعالیٰ کرامت اور عزت کا حلہ قیامت کے دن پہنائے گا اور جو کسی کا سر چھپائے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن بادشاہت کا تاج پہنائے گا ( ابوداؤد ) حضور ﷺ فرماتے ہیں جو شخص باوجود قدرت کے اپنا غصہ ضبط کرلے اسی اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے بلا کر اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے پسند کرلے ( مسند احمد ) اس مضمون کی اور بھی حدیثیں ہیں، پس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے غصہ میں آپے سے باہر نہیں ہوتے لوگوں کو ان کی طرف سے برائی نہیں پہنچتی بلکہ اپنے جذبات کو دبائے رکھتے ہیں اور اللہ سے ڈر کر ثواب کی امید پر معاملہ سپر دالہ کرتے ہیں، لوگوں سے درگزر کرتے ہیں ظالموں کے ظلم کا بدلہ ابھی نہیں لیتے اسی کو احسان کہتے ہیں اور ان محسن بندوں سے اللہ محبت رکھتا ہے حدیث میں ہے رسول مقبول ﷺ فرماتے ہیں تین باتوں پر میں قسم کھاتا ہوں ایک تو یہ کہ صدقہ سے مال نہیں گھٹتا دوسرے یہ کہ عفو و درگزر کرنے سے انسان کی عزت بڑھتی ہے تیسرے یہ کہ تواضع فروتنی اور عاجزی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ بلند مرتبہ عطا کرتا ہے، مستدرک کی حدیث میں ہے جو شخص یہ چاہے کہ اس کی بنیاد بلند ہو اور اس کے درجے بڑھیں تو اسے ظالموں سے درگزر کرنا چاہئے اور نہ دینے والوں کو دینا چاہئے اور توڑنے والوں سے جوڑنا چاہئے اور حدیث میں ہے قیامت کے دن ایک پکارے گا کہ اے لوگو درگزر کرنے والو اپنے رب کے پاس آؤ اور اپنا اجر لو۔ مسلمانوں کی خطاؤں کے معاف کرنے والے جنتی لوگ ہیں۔ پھر فرمایا یہ لوگ گناہ کے بعد فوراً ذکر اللہ اور استغفار کرتے ہیں۔ مسند احمد میں یہ روایت حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اللہ رحمن و رحیم کے سامنے حاضر ہو کر کہتا ہے کہ پروردگار مجھ سے گناہ ہوگیا تو معاف فرما اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے سے گو گناہ ہوگیا لیکن اس کا ایمان ہے کہ اس کا رب گناہ پر پکڑ بھی کرتا ہے اور اگر چاہے تو معاف بھی فرما دیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف فرمایا، اس سے پھر گناہ ہو تو فرما دیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف فرمایا، اس سے پھر گناہ ہوجاتا ہے یہ پھر توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ پھر بخشتا ہے چوتھی مرتبہ پھر گناہ کر بیٹھتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما کر کہتا ہے اب میرا بندہ جو چاہے کرے ( مسند احمد ) یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ جناب رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ یہ رسول اللہ ﷺ جب ہم آپ کو دیکھتے ہیں تو ہمارے دلوں میں رقت طاری ہوجاتی ہے اور ہم اللہ والے بن جاتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو وہ حالت نہیں رہتی عورتوں بچوں میں پھنس جاتے ہیں گھر بار کے دھندوں میں لگ جاتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا۔ اگر تمہاری حالت یہی ہر وقت رہتی تو پھر فرشتے تم سے مصافحہ کرتے اور تمہاری ملاقات کو تمہارے گھر پر آتے، سنو اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تمہیں یہاں سے ہٹا دے اور دوسری قوم کو لے آئے جو گناہ کرے پھر بخشش مانگے اور اللہ انہیں بخشے ہم نے کہا حضور ﷺ یہ فرماتے کہ جنت کی بنیادیں کس طرح استوار ہیں آپ نے فرمایا ایک اینٹ سونے کی تو ایک چاندی کی ہے اس کا گارہ مشک خالص ہے اس کے کنکر لؤلؤ اور یاقوت ہیں، اس کی مٹی زعفران ہے، جنتیوں کی نعمتیں کبھی ختم نہ ہوں گی ان کی زندگی ہمیشہ کی ہوگی ان کے کپڑے پرانے نہیں ہونگے جوانی کبھی نہیں ڈھلے گی اور تین اشخاص کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی عادل بادشاہ کی دعا افطاری کے وقت روزے دار کی دعا اور مظلوم کی دعا بادلوں سے اٹھائی جاتی ہے اور اس کے لئے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جناب باری ارشاد فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری ضرور مدد کروں گا اگرچہ کچھ وقت کے بعد ہو ( مسند احمد ) امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کوئی گناہ کرے پھر وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے اور اپنے گناہ کی معافی چاہے تو اے اللہ عزوجل اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے ( مسند احمد ) صحیح مسلم میں روایت امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ مروی ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تم میں سے جو شخص کامل وضو کر کے دعا ( اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشھدان محمد اعبدہ و رسولہ ) پڑھے اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس سے چاہے اندر چلا جائے، امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ؓ سنت کے مطابق وضو کرتے ہیں پھر فرماتے ہیں میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے آپ نے فرمایا جو شخص مجھ جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے ( بخاری مسلم ) پس یہ حدیث کو حضرت عثمان سے اس سے اگلی روایت حضرت عمر سے اور اس سے اگلی روایت حضرت ابوبکر سے اور اس سے تیسری روایت کو حضرت ابوبکر سے حضرت علی روایت کرتے ہیں تو الحمد اللہ، اللہ تعالیٰ کی وسیع مغفرت اور اس کی بےانتہاء مہربانی کی خبر سید الاولین والاخرین کی زبانی آپ کے چاروں برحق خلفاء کی معرفت ہمیں پہنچی ( آؤ اس موقعہ پر ہم گنہگار بھی ہاتھ اٹھائیں اور اپنے مہربان رحیم و کریم اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اس سے معافی طلب کریں اللہ تعالیٰ اے ماں باپ سے زیادہ مہربان اے عفو و درگزر کرنے والے ! اور کسی بھکاری کو اپنے در سے خالی نہ پھیرنے والے ! تو ہم خطاکاروں کی سیاہ کاریوں سے بھی درگزر فرما اور ہمارے کل گناہ معاف فرما دے۔ مترجم ) یہی وہ مبارک آیت ہے کہ جب یہ نازل ہوئی تو ابلیس رونے لگا ( مسند عبدالرزاق ) استغفار اور لا الہ الاللہ مسند ابو یعلیٰ میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں لا الہ الا اللہ کثرت سے پڑھا کرو اور استغفار پر مداومت کرو ابلیس گناہوں سے لوگوں کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور اس کی اپنی ہلاکت لا الہ الا اللہ اور استغفار سے ہے، یہ حدیث دیکھ کر ابلیس نے لوگوں کو خواہش پرستی پر ڈال دیا پس وہ اپنے آپ کو راہ راست پر جانتے ہیں حالانکہ ہلاکت میں ہوتے ہیں لیکن اس حدیث کے دو راوی ضعیف ہیں۔ مسند احمد میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ ابلیس نے کہا اے رب مجھے تیری عزت کی قسم میں بنی آدم کو ان کے آخری دم تک بہکاتا رہوں گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے میرے جلال اور میری عزت کی قسم جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں بھی انہیں بخشتا رہوں گا مسند بزاز میں ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے کہا مجھ سے گناہ ہوگیا آپ نے فرمایا پھر استغفار کر اس نے کہا مجھ سے اور گناہ ہوا فرمایا استغفار کئے جا، یہاں تک کہ شیطان تھک جائے پھر فرمایا گناہ کو بخشنا اللہ ہی کے اختیار میں ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک قیدی آیا اور کہنے لگا یا اللہ میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں محمد ﷺ کی طرف توبہ نہیں کرتا ( یعنی اللہ میں تیری ہی بخشش چاہتا ہوں ) آپ نے فرمایا اس نے حق حقدار کو پہنچایا۔ اصرار کرنے سے مراد یہ ہے کہ معصیت پر بغیر توبہ کئے اڑ نہیں جاتے اگر کئی مرتبہ گناہ ہوجائے تو کئی مرتبہ استغفار کرتے ہیں، مسند ابو یعلیٰ میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں وہ اصرار کرنے والا اور اڑنے والا نہیں جو استغفار کرتا رہتا ہے اگرچہ ( بالفرض ) اس سے ایک دن میں ستر مرتبہ بھی گناہ ہوجائے پھر فرمایا کہ وہ جانتے ہوں یعنی اس بات کو کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ ھُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَيَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰهَ ھُوَ التَّوَّاب الرَّحِيْمُ ) 9۔ التوبة:104) کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جگہ ہے آیت ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ) 4۔ النساء:110) جو شخص کوئی برا کام کرے یا گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ عزوجل بخشش کرنے والا مہربان ہے۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ نے منبر پر بیان فرمایا لوگو تم اوروں پر رحم کرو اللہ تم پر رحم کرے گا لوگو تم دوسروں کی خطائیں معاف کرو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخشے گا باتیں بنانے والوں کی ہلاکت ہے گناہ پر جم جانے والوں کی ہلاکت ہے پھر فرمایا ان کاموں کے بدلے ان کی جزا مغفرت ہے اور طرح طرح کی بہتی نہروں والی جنت ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑے اچھے اعمال ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 130 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَاْکُلُوا الرِّبآوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃًص یہاں پر سود مرکب compound interest کا ذکر آیا ہے جو بڑھتا چڑھتا رہتا ہے۔ واضح رہے کہ شراب اور جوئے کی طرح سود کی حرمت کے احکام بھی تدریجاً نازل ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے ایک مکی سورة ‘ سورة الروم میں انفاق فی سبیل اللہ اور سود کو ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر سود کی قباحت اور شناعت کو واضح کردیا گیا : وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِج وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ جیسے کہ شراب اور جوئے کی خرابی کو سورة البقرة آیت 219 میں بیان کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد آیت زیر مطالعہ میں دوسرے قدم کے طور پر مہاجنی سود usury سے روک دیا گیا۔ ہمارے ہاں آج کل بھی ایسے سود خور موجود ہیں جو بہت زیادہ شرح سود پر لوگوں کو قرض دیتے ہیں اور ان کا خون چوس جاتے ہیں۔ تو یہاں اس سود کی مذمت آئی ہے۔ سود کے بارے میں آخری اور حتمی حکم 9 ھ میں نازل ہوا ‘ لیکن ترتیب مصحف میں وہ سورة البقرة میں ہے۔ وہ پورا رکوع نمبر 38 ہم مطالعہ کرچکے ہیں۔ وہاں پر سود کو دو ٹوک انداز میں حرام قرار دے دیا گیا اور سود خوری سے باز نہ آنے پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے جنگ کا الٹی میٹم دے دیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزوۂ احد کے حالات و واقعات کے درمیان سود خوری کی مذمت کیوں بیان ہوئی ؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درے پر مامور پچاس تیر اندازوں میں سے پینتیس اپنی جگہ چھوڑ کر جو چلے گئے تھے تو ان کے تحت الشعور میں مال غنیمت کی کوئی طلب تھی ‘ جو نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس حوالے سے سود خوری کی مذمت بیان کی گئی کہ یہ بھی انسان کے اندر مال و دولت سے ایسی محبت پیدا کردیتی ہے جس کی وجہ سے اس کے کردار میں بڑے بڑے خلا پیدا ہوسکتے ہیں۔
ياأيها الذين آمنوا لا تأكلوا الربا أضعافا مضاعفة واتقوا الله لعلكم تفلحون
سورة: آل عمران - آية: ( 130 ) - جزء: ( 4 ) - صفحة: ( 66 )Surah al imran Ayat 130 meaning in urdu
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- خدا ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینھہ برساتا ہے۔ اور وہی (حاملہ
- یہ (داخل کیا جانا یقیناً صحیح یعنی) حق الیقین ہے
- جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کی پھر تم اس (کی ٹہنیوں
- اور جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھیں پھر اپنے قول سے رجوع کرلیں
- خدا (ایسا خبیر وبصیر ہے کہ) کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں نہ زمین میں
- انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے کیا سبب ہے کہ ہُدہُد نظر
- اور اگر تم خدا کے رستے میں مارے جاؤ یا مرجاؤ تو جو (مال و
- اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں بادشاہ بنایا ہے تو لوگوں میں انصاف
- اور گنہگارو! آج الگ ہوجاؤ
- کیا ان لوگوں کو جو اہلِ زمین کے (مرجانے کے) بعد زمین کے مالک ہوتے
Quran surahs in English :
Download surah al imran with the voice of the most famous Quran reciters :
surah al imran mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter al imran Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers