Surah Muminoon Ayat 14 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ﴾
[ المؤمنون: 14]
پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔ پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا۔ تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے
Surah Muminoon Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس کی کچھ تفصیل سورہ حج میں گزر چکی ہے۔ یہاں پھر اسے بیان کیا گیا ہے۔ تاہم وہاں مُخلَّقَۃ کا جو ذکر تھا، یہاں اس کی وضاحت، مُضْغَۃ کو ہڈیوں میں تبدیل کرنے اور ہڈیوں کو گوشت پہنانے، سے کر دی ہے۔ مُضْغَۃ گوشت کو ہڈیوں سے تبدیل کرنے کا مقصد، انسانی ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے کیونکہ محض گوشت میں تو کوئی سختی نہیں ہوتی، پھر اگر اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی رکھا جاتا، تو انسان میں وہ حس و رعنائی نہ آتی، جو ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ اس لئے ہڈیوں پر ایک خاص تناسب اور مقدار سے گوشت چڑھا دیا گیا کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ تاکہ قدو قامت میں غیر موزونیت اور بھدا پن پیدا نہ ہو۔ بلکہ حسن و جمال کا ایک پیکر اور قدرت کی تخلیق کا ایک شاہ کار ہو۔ اسی چیز کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا «لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ» ( التین:4 ) ” ہم نے انسان کو احسن تقویم یعنی بہت اچھی ترکیب یا بہت اچھے ڈھانچے میں بنایا “۔
( 2 ) اس سے مراد وہ بچہ ہے جو نو مہینے کے بعد ایک خاص شکل و صورت لے کر ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے اور حرکت و اضطراب کے ساتھ دیکھنے اور سننے اور ذہنی قوتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں۔
( 3 ) خَالِقِیْنَ یہاں ان صالحین کے معنی میں ہے۔ جو خاص خاص مقداروں میں اشیا کو جوڑ کر کوئی ایک چیز تیار کرتے ہیں۔ یعنی ان تمام صنعت گروں میں، اللہ جیسا بھی کوئی صنعت گر ہے جو اس طرح کی صنعت کاری کا نمونہ پیش کر سکے جو اللہ تعالٰی نے انسانی پیکر کی صورت میں پیش کیا ہے۔ پس سب سے زیادہ خیر و برکت والا وہ اللہ ہی ہے، جو تمام صنعت کاروں سے بڑا اور سب سے اچھا صنعت کار ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
انسان کی پیدائش مرحلہ وار اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کی ابتدا بیان کرتا ہے کہ اصل آدم مٹی سے ہیں، جو کیچڑ کی اور بجنے والی مٹی کی صورت میں تھی پھر حضرت آدم ؑ کے پانی سے ان کی اولاد پیدا ہوئی۔ جیسے فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کرکے پھر انسان بنا کر زمین پر پھیلادیا ہے۔ مسند میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو خاک کی ایک مٹھی سے پیدا کیا، جسے تمام زمین پر سے لیا تھا۔ پس اسی اعتبار سے اولاد آدم کے رنگ روپ مختلف ہوئے، کوئی سرخ ہے، کوئی سفید ہے، کوئی سیاہ ہے، کوئی اور رنگ کا ہے۔ ان میں نیک ہیں اور بد بھی ہیں۔ آیت ( ثم جعلنہ )۔ میں ضمیر کا مرجع جنس انسان کی طرف ہے جیسے ارشاد ہے آیت ( ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ ۚ ) 32۔ السجدة :8)۔ اور آیت میں ہے ( اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ 20ۙ ) 77۔ المرسلات:20) پس انسان کے لئے ایک مدت معین تک اس کی ماں کا رحم ہی ٹھکانہ ہوتا ہے جہاں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف اور ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ پھر نطفے کی جو ایک اچھلنے والا پانی ہے جو مرد کی پیٹ سے عورت کے سینے سے نکلتا ہے شکل بدل کر سرخ رنگ کی بوٹی کی شکل میں بدل جاتا ہے پھر اسے گوشت کے ایک ٹکڑے کی صورت میں بدل دیا جاتا ہے جس میں کوئی شکل اور کوئی خط نہیں ہوتا۔ پھر ان میں ہڈیاں بنادیں سر ہاتھ پاؤں ہڈی رگ پٹھے وغیرہ بنائے اور پیٹھ کی ہڈی بنائی۔ رسول ﷺ فرماتے ہیں انسان کا تمام جسم سڑ گل جاتا ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے۔ اسی سے پیدا کیا جاتا ہے اور اسی سے ترکیب دی جاتی ہے۔ پھر ان ہڈیوں کو وہ گوشت پہناتا ہے تاکہ وہ پوشیدہ اور قوی رہیں۔ پھر اس میں روح پھونکتا ہے جس سے وہ ہلنے جلنے چلنے پھرنے کے قابل ہوجائے اور ایک جاندار انسان بن جائے۔ دیکھنے کی سننے کی سمجھنے کی اور حرکت وسکون کی قدرت عطا فرماتا ہے۔ وہ بابرکت اللہ سب سے اچھی پیدائش کا پیدا کرنے والا ہے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ جب نطفے پر چار مہنیے گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھجتا ہے جو تین تین اندھیریوں میں اس میں روح پھونکتا ہے یہی معنی ہے کہ ہم پھر اسے دوسری ہی پیدائش میں پیدا کرتے ہیں یعنی دوسری قسم کی اس پیدائش سے مراد روح کا پھونکا جانا ہے پس ایک حالت سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی طرف ماں کے پیٹ میں ہی ہیر پھیر ہونے کے بعد بالکل ناسمجھ بچہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ جوان بن جاتا ہے پھر ادھیڑپن آتا ہے پھر بوڑھا ہوجاتا ہے پھر بالکل ہی بڈھا ہوجاتا ہے الغرض روح کا پھونکا جانا پھر ان کے انقلابات کا آنا شروع ہوجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ صادق ومصدوق آنحضرت محمد مصطفٰے ﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی ہے پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت میں رہتا ہے پھر چالیس دن تک وہ گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور بحکم الہٰی چار باتیں لکھ لی جاتی ہیں روزی، اجل، عمل، اور نیک یا بد، برا یا بھلا ہونا پس قسم ہے اس کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ ایک شخص جنتی عمل کرتا رہتا یہاں تک کہ جنت سے ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے لیکن تقدیر کا وہ لکھا غالب آجاتا ہے اور خاتمے کے وقت دوزخی کام کرنے لگتا ہے اور اسی پر مرتا ہے اور جہنم رسید ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک انسان برے کام کرتے کرتے دوزخ سے ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے لیکن پھر تقدیر کا لکھا آگے بڑھ جاتا ہے اور جنت کے اعمال پر خاتمہ ہو کر داخل فردوس بریں ہوجاتا ہے۔ ( بخاری ومسلم وغیرہ ) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں نطفہ جب رحم میں پڑتا ہے تو وہ ہر ہر بال اور ناخن کی جگہ پہنچ جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد اس کی شکل جمے ہوئے خون جیسی ہوجاتی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ اپنے اصحاب سے باتیں بیان کررہے تھے کہ ایک یہودی آگیا تو کفار قریش نے اس سے کہا یہ نبوت کے دعویدار ہیں اس نے کہا اچھا میں ان سے ایک سوال کرتا ہوں جسے نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ آپ کی مجلس میں آکر بیٹھ کر پوچھتا ہے کہ بتاؤ انسان کی پیدائش کس چیز سے ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا مرد عورت کے نطفے سے۔ مرد کا نطفہ غلیظ اور گاڑھا ہوتا ہے اس سے ہڈیاں اور پٹھے بنتے ہیں اور عورت کا نطفہ رقیق اور پتلا ہوتا ہے اس سے گوشت اور خون بنتا ہے۔ اس نے کہا۔ آپ سچے ہیں اگلے نبیوں کا بھی یہی قول ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں جب نطفے کو رحم میں چالیس دن گزر جاتے ہیں تو ایک فرشتہ آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتا ہے کہ اے اللہ یہ نیک ہوگا یا بد ؟ مرد ہوگا یا عورت ؟ جو جواب ملتا ہے وہ لکھ لیتا ہے اور عمل، عمر، اور نرمی گرمی سب کچھ لکھ لیتا ہے پھر دفتر لپیٹ لیا جاتا ہے اس میں پھر کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں رہتی بزار کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہے جو عرض کرتا ہے اے اللہ اب نطفہ ہے، اے اللہ اب لوتھڑا ہے، اے اللہ اب گوشت کا ٹکڑا ہے۔ جب جناب باری تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پوچھتا ہے اے اللہ مرد ہو یا عورت، شکی ہو یا سعید ؟ رزق کیا ہے ؟ اجل کیا ہے ؟ اس کا جواب دیا جاتا ہے اور یہ سب چیزیں لکھ لی جاتی ہیں ان سب باتوں اور اتنی کامل قدرتوں کو بیان فرما کر فرمایا کہ سب سے اچھی پیدائش کرنے والا اللہ برکتوں والا ہے حضرت عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب کی موافقت چار باتوں میں کی ہے جب یہ آیت اتری کہ ہم نے انسان کو بجتی مٹی سے پیدا کیا ہے تو بےساختہ میری زبان سے فتبارک اللہ احسن الخالقین نکلا اور وہی پھر اترا۔ زید بن ثابت انصاری ؓ جب رسول کریم ﷺ کو اوپر والی آیتیں لکھوا رہے تھے اور آیت ( ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ 14ۭ ) 23۔ المؤمنون :14) تک لکھوا چکے تو حضرت معاذ ؓ نے دریافت فرمایا یارسول اللہ ﷺ آپ کیسے ہنسے ؟ آپ نے فرمایا اس آیت کے خاتمے پر بھی یہی ہے اس حدیث کی سند کا ایک راوی جابر جعفی ہے جو بہت ہی ضعیف ہے اور یہ روایت بالکل منکر ہے۔ حضرت زید بن ثابت ؓ کاتب وحی مدینے میں تھے نہ کہ مکہ میں حضرت معاذ ؓ کے اسلام کا واقعہ بھی مدینے کا واقعہ ہے اور یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے پس مندرجہ بالا روایت بالکل منکر ہے واللہ اعلم۔ اس پہلی پیدائش کے بعد تم مرنے والے ہو، پھر قیامت کے دن دوسری دفعہ پیدا کئے جاؤگے، پھر حساب کتاب ہوگا خیروشر کا بدلہ ملے گا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 14 ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً ” عَلَقہ کا ترجمہ عام طور پر ”جما ہوا خون “ ہوتا آیا ہے جو کہ غلط ہے۔ لغوی اعتبار سے عربی مادہ علق ع ل ق سے معلق ‘ تعلق ‘ متعلق ‘ علاقہ وغیرہ الفاظ تو مشتق ہیں لیکن اس لفظ کا جمے ہوئے خون کے مفہوم و معانی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ دراصل جس زمانے میں یہ تراجم ہوئے ہیں اس میں نہ تو dissection کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی ابھی مائیکروسکوپ ایجاد ہوئی تھی ‘ لہٰذا علم الجنین کے بارے میں تمام تر معلومات کی بنیاد ظاہری مشاہدے پر تھی۔ اور چونکہ ابتدائی ایام کا حمل گرنے کی صورت میں رحم سے بظاہر خون کے لوتھڑے ہی برآمد ہوتے تھے ‘ اس لیے اس سے یہی سمجھا گیا کہ رحم مادر میں انسانی تخلیق کی ابتدائی شکل جمے ہوئے خون کے لوتھڑے کی سی ہوتی ہے۔ آج جب ہم جنینیات Embryology کے بارے میں جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں لفظ ” عَلَقہ “ پر غور کرتے ہیں تو اس کا مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ جدید سائنسی معلومات کے مطابق fertilized ovum ابتدائی مرحلے میں رحم کی دیوار کے اندر جما ہوا embeded ہوتا ہے ‘ جبکہ اگلے مرحلے میں وہ اس سے ابھر کر ‘ bulge out کر کے دیوار کے ساتھ جونک کی طرح لٹکنے لگ جاتا ہے۔ اور یہی دراصل ” علقہ “ ہے۔فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً ” پھر اگلے مرحلے میں یہ ”علقہ “ گوشت کے ایک نیم چبائے ہوئے لوتھڑے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ بلکہ ڈاکٹر کیتھ ایل مور موصوف دور حاضر میں علم الجنین پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا ذکر بیان القرآن کے حصہ اوّل ‘ تعارف قرآن کے باب پنجم میں بھی آچکا ہے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کی وضاحت کے لیے کچے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا اور واقعتا اسے دانتوں سے چبا کر دکھایا کہ دانتوں کے نشان پڑجانے سے اس گوشت کے ٹکڑے کی جو شکل بنی ہے بعینہٖ وہی شکل اس مرحلے میں ” مُضغۃ “ کی ہوتی ہے۔ فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق ” اور اس کے بعد ”ثُمّ “ کے ساتھ چوتھے اور آخری دور کا ذکر ہے :ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط ” آیت کے اس حصے میں معنی کا ایک جہان آباد ہے ‘ مگر اسے بہت کم لوگوں نے سمجھا ہے۔ عام لوگ قرآن کی ایسی بہت سی آیات کو پڑھتے ہوئے بیخبر ی سے یوں آگے گزر جاتے ہیں جیسے ان میں کوئی خاص بات نہ ہو ‘ مگر جس پر حقیقت منکشف ہوتی ہے اسے کلام اللہ کے ایک ایک حرف کے اندر قیامت مضمر دکھائی دیتی ہے۔ کتنے ہی مفسرین ہیں جو سورة الحدید کی تیسری آیت ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ج کی تفسیر کیے بغیر آگے گزر گئے ہیں ‘ لیکن امام رازی رح جب اسے پڑھتے ہیں تو ان کی نظر کسی اور ہی جہان کا نظارہ کرتی ہے ‘ اس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں : اِعْلَمْ اَنَّ ھٰذَا الْمَقَامَ مَقامٌ غَامِضٌ عَمِیْقٌ مُہِیبٌ جان لو کہ یہ مقام بہت مشکل ‘ بہت گہرا اور بہت پرہیبت ہے ! یہ قرآن کا معجزاتی پہلو ہے اور اس کا تعلق دیکھنے والی آنکھ سے ہے۔ بہر حال ان آیات کو پھر سے پڑھیے اور تخلیق کے مراحل میں ”فَ “ اور ” ثُمَّ “ کے نازک فرق کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ غور کیجیے ! یہاں ” ثُمَّ “ کا وقفہ ایک پورے دور کو ظاہر کرتا ہے ‘ جبکہ تخلیقی عمل کے اندرونی مراحل کے بیان کو ” فَ “ سے الگ کیا گیا ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ یعنی مٹی کے جوہر سے نطفے کی تخلیق ایک مکمل دور ہے۔ ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ یہ دوسرا دور ہے۔ یعنی نطفے کا قرار مکین میں پہنچ کر ایک بیج کی حیثیت سے دفن ہوجانا۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً یہ تیسرے دور کا ذکر ہے اور اس دور کے اندر تین مراحل ہیں ‘ ہر مرحلے کے ذکر کے ساتھ ” فَ “ کا استعمال ہوا ہے : فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق۔ اس کے بعد ” ثُمَّ “ کے ساتھ چوتھے اور آخری دور کا ذکر ہے : ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط ” پھر ہم نے اسے ایک اور دوسری مخلوق بنا کھڑا کیا “۔ یعنی اب یہ ایک بالکل نئی مخلوق ہے۔ یہاں ” بالکل نئی مخلوق “ سے کیا مراد ہے ؟ اس کی تفصیل اس حدیث میں ملتی ہے جس کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعود رض ہیں۔ یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بایں الفاظ نقل ہوئی ہے : اِنَّ اَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا نُطْفَۃً ، ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ ، ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ ، ثُمَّ یُرْسَلُ اِلَیْہِ الْمَلَکُ فَیَنْفُخُ فِیْہِ الرُّوْحَ۔۔ 1” تم میں سے ہر ایک کی تخلیق یوں ہوتی ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس یوم تک نطفہ کی صورت ‘ میں ‘ اس کے بعد اتنے ہی روز تک علقہ کی صورت میں ‘ اور اس کے بعد اتنے ہی روز گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں رہتا ہے۔ بعد ازاں اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے ‘ پس وہ اس میں روح پھونکتا ہے۔۔ “یعنی چالیس دن تک نطفہ ‘ پھر چالیس دن تک علقہ اور اس کے بعد چالیس دن تک مضغۃ ‘ ایک سو بیس دن چار ماہ میں یہ تین مراحل مکمل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں۔ وہ کو لڈ سٹوریج عالم ارواح سے اس کی روح کو لا کر اس مادی جسم کے ساتھ ملا دیتا ہے اور یوں ایک نئی مخلوق وجود میں آجاتی ہے۔ یعنی اب تک وہ ایک حیوانی جسم تھا ‘ لیکن اس روح کے پھونکے جانے کے بعد وہ انسان بن گیا۔ البتہ اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنے میں بھی لوگوں سے غلطی ہوئی ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا گیا ہے کہ ایک سو بیس دن کے بعد اس جسم میں جان ڈال دی جاتی ہے۔ یعنی روح کو ” جان “ life سمجھا گیا ہے۔ گویا چار ماہ تک تخلیقی مراحل سے گزرتا ہوا یہ وجود بےجان تھا ؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی یا جان اس میں پہلے دن سے ہی موجود تھی۔ حتیٰ کہ باپ کے نطفے کا خلیہ spermatozoon اور ماں کا بیضہ ovum بھی اپنی اپنی جگہ پر زندہ وجود ہیں اور ان دونوں کے اختلاط سے وجود میں آنے والا جفتہ zygote بھی۔ بہر حال ایک سو بیس دن کے بعد اس جسد حیوانی میں ” روح “ پھونکی جاتی ہے ‘ جو ایک نورانی چیز ہے اور وہی اسے حیوان سے انسان بناتی ہے۔ اور اسی تبدیلی یا تخلیقی مرحلے کو آیت زیر نظر میں ” خَلْقًا اٰخَرَ “ ایک نئی تخلیق سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ثم خلقنا النطفة علقة فخلقنا العلقة مضغة فخلقنا المضغة عظاما فكسونا العظام لحما ثم أنشأناه خلقا آخر فتبارك الله أحسن الخالقين
سورة: المؤمنون - آية: ( 14 ) - جزء: ( 18 ) - صفحة: ( 342 )Surah Muminoon Ayat 14 meaning in urdu
پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جب وحشی جانور جمع اکٹھے ہو جائیں گے
- اور یہ کہ وہی مارتا اور جلاتا ہے
- (یعنی) دوزخ۔ جس میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بری آرام گاہ ہے
- اور جب دریا بہہ (کر ایک دوسرے سے مل) جائیں گے
- جو متقی ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے
- کہنے لگا کہ مجھے تیری عزت کی قسم میں ان سب کو بہکاتا رہوں گا
- الٓرا۔ یہ کتاب روشن کی آیتیں ہیں
- اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے ایسے
- تو جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے ان کے لئے بخشش اور آبرو
- یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن تک چلی
Quran surahs in English :
Download surah Muminoon with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Muminoon mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Muminoon Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers