Surah anaam Ayat 151 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴾
[ الأنعام: 151]
کہہ کہ (لوگو) آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کر دی ہیں (ان کی نسبت اس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ (سے بدسلوکی نہ کرنا بلکہ) سلوک کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا کیونکہ تم کو اور ان کو ہم ہی رزق دیتے ہیں اور بےحیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا اور کسی جان (والے) کو جس کے قتل کو خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں ارشاد فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو
Surah anaam Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی حرام وہ نہیں ہیں جن کو تم نے بلا دلیل مَا أَنْزَلَ اللهُ، محض اپنے اوہام باطلہ اور ظنون فاسدہ کی بنیاد پر حرام قرار دے رکھا ہے۔ بلکہ حرام تو وہ چیزیں ہیں جن کو تمہارے رب نے حرام کیا ہے۔ تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارا پالنہار وہی ہے اور ہر چیز کا علم بھی اسی کے پاس ہے۔ اس لئے اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال اور جس چیز کو چاہے حرام کرے۔ چنانچہ میں تمہیں ان باتوں کی تفصیل بتلاتا ہوں جن کی تاکید تمہارے رب نے کی ہے۔
( 2 ) أَلا تُشْرِكُوا سے پہلے أَوْصَاكُمْ محذوف ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو تم شریک مت ٹھہراؤ۔ شرک سب سے بڑا گناہ ہے، جس کے لئے معافی نہیں، مشرک پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہے۔ قرآن مجید میں یہ ساری چیزیں مختلف انداز سے بار بار بیان ہوئی ہیں۔ اور نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) نے بھی احادیث میں ان کو تفصیل اور وضاحت سے بیان فرما دیا ہے اس کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ لوگ شیطان کے بہکاوﮮ میں آکر شرک کا عام ارتکاب کرتے ہیں۔
( 3 ) اللہ تعالیٰ کی توحید واطاعت کے بعد یہاں بھی ( اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی ) والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد اطاعت والدین کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر کسی نے اس ربوبیت صغریٰ ( والدین کی اطاعت اور ان سے حسن سلوک ) کے تقاضے پورے نہیں کئے تو وہ ربوبیت کبریٰ کے تقاضے بھی پورے کرنے میں ناکام رہے گا۔
( 4 ) زمانۂ جاہلیت کا یہ فعل قبیح آﺝ کل ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زور وشور سے جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔
( 5 ) یعنی قصاص کے طور پر، نہ صرف جائز ہے بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف نہ کریں تو یہ قتل نہایت ضروری ہے۔ ” وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ “ ( البقرۃ: 79 ) ” قصاص میں تمہاری زندگی ہے “۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
نبی اکرم ﷺ کی وصیتیں ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں جو شخص رسول اللہ ﷺ کی اس وصیت کو دیکھنا چاہتا ہو جو آپ کی آخری وصیت تھی تو وہ ان آیتوں کو ( تتقون ) تک پڑھے، ابن عباس ؓ فرماتے ہیں سورة انعام میں محکم آیتیں ہیں پھر یہی آیتیں آپ نے تلاوت فرمائیں۔ ایک مرتبہ حضور نے اپنے اصحاب سے فرمایا، تم میں سے کوئی شخص ہے جو میرے ہاتھ پر ان تین باتوں کی بیعت کرے، پھر آپ نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا جو اسے پورا کرے گا، وہ اللہ سے اجر پائے گا اور جو ان میں سے کسی بات کو پورا نہ کرے گا تو دنیا میں ہی اسے شرعی سزا دے دی جائے گی اور اگر سزا نہ دی گئی تو پھر اس کا معاملہ قیامت پر ہے اگر اللہ چاہے تو اسے بخش دے چاہے تو سزا دے ( مسند، حاکم ) بخاری مسلم میں ہے " تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کی " اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی سلام علیہ سے فرماتا ہے کہ " ان مشرکین کو جو اللہ کی اولاد کے قائل ہیں اللہ کے رزق میں سے بعض کو اپنی طرف سے حلال اور بعض کو حرام کہتے ہیں اللہ کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہیں کہہ دیجئے کہ سچ مچ جو چیزیں اللہ کی حرام کردہ ہیں انہیں مجھ سے سن لو جو میں بذریعہ وحی الٰہی بیان کرتا ہوں تمہاری طرح خواہش نفس، توہم پرستی اور اٹکل و گمان کی بنا پر نہیں کہتا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس کی وہ تمہیں وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، یہ کلام عرب میں ہوتا ہے کہ ایک جملہ کو حذف کردیا پھر دوسرا جملہ ایسا کہہ دیا جس سے حذف شدہ جملہ معلوم ہوجائے اس آیت کے آخری جملے ( ذالکم وصاکم ) سے ( الاتشرکو ) اس سے پہلے کے محذوف جملے ( اوصاکم ) پر دلالت ہوگئی۔ عرب میں یوں بھی کہہ دیا کرتے ہیں ( امرتک ان لا تقوم ) بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ آپ کی امت میں سے جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے وہ داخل جنت ہوگا تو میں نے کہا گو اس نے زنا کیا ہو گو اس نے چوری کی ہو آپ نے فرمایا ہاں گو اس نے زنا اور چوری کی ہو میں نے پھر یہی سوال کیا مجھے پھر یہی جواب ملا پھر بھی میں نے یہ بات پوچھی اب کے جواب دیا کہ گو شراب نوشی بھی کی ہو۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضور سے موحد کے جنت میں داخل ہونے کا سن کر حضرت ابوذر نے یہ سوال کیا تھا اور آپ نے یہ جواب دیا تھا اور آخری مرتبہ فرمایا تھا اور ابوذر کی ناک خاک آلود ہو چناچہ راوی حدیث جب اسے بیان فرماتے تو یہی لفظ دوہرا دیتے، سنن میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور میری ذات سے امید رکھے گا میں بھی تیری خطاؤں کو معاف فرماتا رہوں گا خواہ وہ کیسی ہی ہوں کوئی پرواہ نہ کروں گا تو اگر میرے پاس زمین بھر کر خطائیں لائے گا تو میں تیرے پاس اتنی ہی مغفرت اور بخشش لے کر آؤں گا بشرطیکہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو گو تو نے خطائیں کی ہوں یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ گئی ہوں پھر بھی تو مجھ سے استغفار کرے تو میں تجھے بخش دوں گا، اس حدیث کی شہادت میں یہ آیت آسکتی ہے ( اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ يُّشْرِكْ باللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا ) 48۔ النساء:4) یعنی مشرک کو تو اللہ مطلق نہ بخشے گا باقی گنہگار اللہ کی مشیت پر ہیں جسے جا ہے بخش دے۔ صحیح مسلم شریف میں ہے جو توحید پر مرے وہ جنتی ہے اس بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں۔ ابن مردویہ میں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گو تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں یا تمہیں سولی چڑھا دیا جائے یا تمہیں جلا دیا جائے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے سات باتوں کا حکم دیا 001 اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا گو تم جلا دیئے جاؤ یا کاٹ دیئے جاؤ یا سولی دے دیئے جاؤ۔ اس آیت میں توحید کا حکم دے کر پھر ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے کا حکم ہوا بعض کی قرأت ( ووصی ربک الا تعبدو الا ایاہ وبالوالدین احسانا ) بھی ہے۔ قرآن کریم میں اکثر یہ دونوں حکم ایک ہی جگہ بیان ہوئے ہیں جیسے آیت ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ ) 14۔ لقمان:31) میں مشرک ماں باپ کے ساتھ بھی بقدر ضرورت احسان کرنے کا حکم ہوا ہے اور آیت ( لَقَدْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهِمْ رُسُلًا ۭكُلَّمَا جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُهُمْ ۙ فَرِيْقًا كَذَّبُوْا وَفَرِيْقًا يَّقْتُلُوْنَ ) 70۔ المآئدہ :5) ، میں بھی دونوں حکم ایک ساتھ بیان ہوئے ہیں اور بھی بہت سی اس مفہوم کی آیتیں ہیں۔ بخاری و مسلم میں ہے ابن مسعود فرماتے ہیں میں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ کونسا عمل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا نماز وقت پر پڑھنا۔ میں نے پوچھا پھر ؟ فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا، میں نے پوچھا پھر ؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ میں اگر اور بھی دریافت کرتا تو حضور بتا دیتے، ابن مردویہ میں عبادہ بن صامت اور ابو درداء سے مروی ہے کہ مجھے میرے خلیل رسول اللہ ﷺ نے وصیت کی کہ اپنے والدین کی اطاعت کر اگرچہ وہ تجھے حکم دیں کہ تو ان کیلئے ساری دنیا سے الگ ہوجائے تو بھی مان لے، اس کی سند ضعیف ہے باپ داداؤں کی وصیت کر کے اولاد اور اولاد کی اولاد کی بات وصیت فرمائی کہ انہیں قتل نہ کرو جیسے کہ شیاطین نے اس کام کو تمہیں سکھا رکھا ہے لڑکیوں کو تو وہ لوگ بوجہ عار کے مار ڈالتے تھے اور بعض لڑکوں کو بھی بوجہ اس کے کہ ان کے کھانے کا سامان کہاں سے لائیں گے، مار ڈالتے تھے، ابن مسعود نے ایک مرتبہ حضور سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شریک کرنا حالانکہ اسی اکیلے نے پیدا کیا ہے۔ پوچھا پھر کونسا گناہ ہے ؟ فرمایا اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ یہ میرے ساتھ کھائے گی۔ پوچھا پھر کونسا ہے ؟ فرمایا اپنی پڑوس کی عورت سے بدکاری کرنا پھر حضور نے آیت ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا ) 68۔ الفرقان:25) کی تلاوت فرمائی اور آیت میں ہے ( وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ۭ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ ۭ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا ) 31۔ الإسراء :17) اپنی اولاد کو فقیری کے خوف سے قتل نہ کرو، اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ہم انہیں روزی دیتے ہیں اور تمہاری روزی بھی ہمارے ذمہ ہے۔ یہاں چونکہ فرمایا تھا کہ فقیری کی وجہ سے اولاد کا گلا نہ گھونٹو تو ساتھ ہی فرمایا تمہیں روزی ہم دیں گے اور انہیں بھی ہم ہی دے رہے ہیں پھر فرمایا کسی ظاہر اور پوشیدہ برائی کے پاس بھی نہ جاؤ جیسے اور آیت میں ہے ( قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا باللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) 33۔ الأعراف:7) ، یعنی تمام ظاہری، باطنی برائیاں، ظلم و زیادتی، شرک و کفر اور جھوٹ بہتان سب کچھ اللہ نے حرام کردیا ہے۔ اس کی پوری تفسیر آیت ( وذروا ظاھر الاثم باطنہ کی تفسیر میں گذر چکی ہے صحیح حدیث میں ہے اللہ سے زیادہ غیرت ولا کوئی نہیں اسی وجہ سے تمام بےحیائیاں اللہ نے حرام کردی ہیں خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں۔ سعد بن عبادہ نے کہا کہ اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھ لوں تو میں تو ایک ہی وار میں اس کا فیصلہ کر دوں جب حضور کے پاس ان کا یہ قول بیان ہوا تو فرمایا کیا تم سعد کی غیرت پر تعجب کر رہے ہو ؟ واللہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور میرا رب مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے، اسی وجہ سے تمام فحش کام ظاہر و پوشیدہ اس نے حرام کردیئے ہیں (بخاری و مسلم ) ایک مرتبہ حضور سے کہا گیا کہ ہم غیرت مند لوگ ہیں آپ نے فرمایا واللہ میں بھی غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔ یہ غیرت ہی ہے جو اس نے تمام بری باتوں کو حرام قرار دے دیا ہے اس حدیث کی سند ترمذی کی فباء پر ہے ترمذی میں یہ حدیث ہے کہ میری امت کی عمریں ساٹھ ستر کے درمیان ہیں۔ اس کے بعد کسی کے ناحق قتل کی حرمت کو بیان فرمایا گو وہ بھی فواحش میں داخل ہے لیکن اس کی اہمیت کی وجہ سے اسے الگ کر کے بیان فرما دیا۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جو مسلمان اللہ کی توحید اور میری رسالت اقرار کرتا ہو اسے قتل کرنا بجز تین باتوں کے جائز نہیں یا تو شادی شدہ ہو کر پھر زنا کرے یا کسی کو قتل کر دے یا دین کو چھوڑ دے اور جماعت سے الگ ہوجائے۔ مسلم میں ہے اس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کسی مسلمان کا خون حلال نہیں۔ ابو داؤد اور نسائی میں تیسرا شخص وہ بیان کیا گیا ہے جو اسلام سے نکل جائے اور اللہ کے رسولوں سے جنگ کرنے لگے اسے قتل کردیا جائے گا یا صلیب پر چڑھا دیا جائے گا یا مسلمانوں کے ملک سے جلا وطن کردیا جائے گا۔ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ؓ نے اس وقت جبکہ باغی آپ کو محاصرے میں لئے ہوئے تھے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کسی مسلمان کا خون بجز ان تین کے حلال نہیں ایک تو اسلام کے بعد کافر ہوجانے والا دوسرا شادی ہوجانے کے بعد زنا کرنے والا اور بغیر قصاص کے کسی کو قتل کردینے والا۔ اللہ کی قسم نہ تو میں نے جاہلیت میں زنا کیا نہ اسلام لانے کے بعد، اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی میں نے کسی اور دین کی تمنا کی اور نہ میں نے کسی کو بلا وجہ قتل کیا۔ پھر تم میرا خون بہانے کے درپے کیوں ہو ؟ حربی کافروں میں سے جو امن طلب کرے اور مسلمانوں کے معاہدہ امن میں آجائے اس کے قتل کرنے والے کے حق میں بھی بہت و عید آئی ہے اور اس کا قتل بھی شرعاً حرام ہے۔ بخاری میں ہے معاہدہ امن کا قاتل جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے راستے تک پہنچ جاتی ہے اور روایت میں ہے کیونکہ اس نے اللہ کا ذمہ توڑا اس میں ہے پچاس برس کے راستے کے فاصلے سے ہی جنت کی خوشبوں پہنچی ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ ہیں اللہ کی وصیتیں اور اس کے احکام تاکہ تم دین حق کو، اس کے احکام کو اور اس کی منع کردہ باتوں کو سمجھ لو۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 151 قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ تم لوگ جب چاہتے ہو کسی بکری کو حرام قرار دے دیتے ہو ‘ کبھی خود ہی کسی اونٹ کو محترم ٹھہرا لیتے ہو ‘ اور اس پر مستزاد یہ کہ پھر اپنی ان خرافات کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہو۔ آؤ میں تمہیں واضح طور پر بتاؤں کہ اللہ نے اصل میں کن چیزوں کو محترم ٹھہرایا ہے ‘ ممنوع اور حرام چیزوں کے بارے میں اللہ کے کیا احکام ہیں اور اس سلسلے میں اس نے کیا کیا حدود وقیود مقرر کی ہیں۔ یہ مضمون تفصیل کے ساتھ سورة بنی اسرائیل میں آیا ہے۔ وہاں ان احکام کی تفصیل میں پورے دو رکوع تیسرا اور چوتھا نازل ہوئے ہیں۔ ایک طرح سے انہی احکام کا خلاصہ یہاں ان آیات میں بیان ہوا ہے۔ شریعت کے بنیادی احکام دراصل ضرورت اور حکمت الٰہی کے مطابق قرآن حکیم میں مختلف جگہوں پر مختلف انداز میں وارد ہوئے ہیں۔ سورة البقرة دسویں رکوع میں جہاں بنی اسرائیل سے میثاق لینے کا ذکر آیا ہے وہاں دین کے اساسی نکات بھی بیان ہوئے ہیں۔ پھر اس کے بعد شرعی احکام کی کچھ تفصیل ہمیں سورة النساء میں ملتی ہے۔ اس کے بعد یہاں اس سورة میں اور پھر انہی احکام کی تفصیل سورة بنی اسرائیل میں ہے۔ اَلاَّ تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْءًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ج۔یعنی سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ شرک کو حرام ٹھہرایا ہے اور دوسرے نمبر پر والدین کے حقوق میں کوتاہی حرام قرار دی ہے۔ قرآن حکیم میں یہ تیسرا مقام ہے جہاں حقوق اللہ کے فوراً بعد حقوق والدین کا تذکرہ آیا ہے۔ اس سے پہلے سورة البقرة آیت 83 اور سورة النساء آیت 36 میں والدین کے حقوق کا ذکر اللہ کے حقوق کے فوراً بعد کیا گیا ہے۔ وَلاَ تَقْتُلُوْٓا اَوْلاَدَکُمْ مِّنْ اِمْلاَقٍط نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَاِیَّاہُمْ ج وَلاَ تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ج وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ الاَّ بالْحَقِّ ط بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ نے ہر انسانی جان کو محترم ٹھہرایا ہے۔ لہٰذا کسی اصول ‘ حق اور قانون کے تحت ہی انسانی جان کا قتل ہوسکتا ہے۔ قتل عمد کے بدلے میں قتل ‘ قتل مرتد ‘ مسلمان زانی یا زانیہ اگر شادی شدہ ہوں کا قتل ‘ حربی کافر وغیرہ کا قتل۔ یہ انسانی قتل کی چند جائز اور قانونی صورتیں ہیں۔
قل تعالوا أتل ما حرم ربكم عليكم ألا تشركوا به شيئا وبالوالدين إحسانا ولا تقتلوا أولادكم من إملاق نحن نرزقكم وإياهم ولا تقربوا الفواحش ما ظهر منها وما بطن ولا تقتلوا النفس التي حرم الله إلا بالحق ذلكم وصاكم به لعلكم تعقلون
سورة: الأنعام - آية: ( 151 ) - جزء: ( 8 ) - صفحة: ( 148 )Surah anaam Ayat 151 meaning in urdu
اے محمدؐ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ا ن کو بھی دیں گے اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا
- (لوگو) تم کو (مال کی) بہت سی طلب نے غافل کر دیا
- اور (خوب) تجمل وآرائش (کردیتے) اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان
- اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) لوٹ کر لاؤ اس میں سے
- کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم کو ہمارے معبودوں
- جو لوگ بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی دلیل آئی ہو خدا کی
- اور جو کافر ہوئے اور ہماری آیتوں کو جھٹلاتے رہے ان کے لئے ذلیل کرنے
- اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں
- (انہوں نے) کہا ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں آپ مایوس نہ ہوئیے
- انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا اور (لوگوں کو) خدا کے راستے سے
Quran surahs in English :
Download surah anaam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah anaam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter anaam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers