Surah Al Araaf Ayat 157 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
[ الأعراف: 157]
وہ جو (محمدﷺ) رسول (الله) کی جو نبی اُمی ہیں پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی۔ اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی۔ وہی مراد پانے والے ہیں
Surah Al Araaf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ آیت بھی اس امر کی وضاحت کے لیے نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے کہ رسالت محمدیہ پر ایمان لائے بغیر نجات اخروی ممکن نہیں اور ایمان وہی معبتر ہے جس کی تفصیلات محمد رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) نے بیان فرمائی ہیں۔ اس آیت سے بھی تصور ( وحدت ادیان ) کی جڑ کٹ جاتی ہے۔
( 2 ) معروف، وہ ہے جسے شریعت نے اچھا اور منکر، وہ ہے جسے شریعت نے برا قرار دیا ہے ۔
( 3 ) یہ بوجھ اور طوق وہ ہیں جو پچھلی شریعت میں تھے، مثلاً نفس کے بدلے نفس کا قتل ضروری تھا، ( دیت یا معافی نہیں تھی ) یا جس کپڑے کو نجاست لگ جاتی، اس کا قطع کرنا ضروری تھا، شریعت اسلامیہ نے اسے صرف دھونے کا حکم دیا ۔ جس طرح قصاص میں دیت اور معافی کی بھی اجازت دی ۔ وغیرہ اور آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے بھی فرمایا ہے کہ ” مجھے آسان دین حنیفی کے ساتھ بھیجا گیا ہے “۔ ( مسند أحمد جلد 5۔ ص 266جلد ۔ ٦،ص116،233 ) لیکن افسوس! اس امت نے اپنے طور پر رسوم ورواج کے بہت سے بوجھ اپنے اوپر لاد لیے ہیں اور جاہلیت کے طوق زیب گلو کر لیے ہیں، جن سے شادی اور مرگ دونوں عذاب بن گئے ہیں ۔ هَدَاهَا اللهُ تَعَالَى ۔
( 4 ) ان آخری الفاظ سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو حضرت محمد رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) پر ایمان لانے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہوں گے۔ جو رسالت محمدیہ پر ایمان نہیں لائیں گے، وہ کامیاب نہیں، خاسر اور ناکام ہوں گے ۔ علاوہ ازیں کامیابی سے مراد بھی آخرت کی کامیابی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی قوم رسالت محمدیہ پر ایمان نہ رکھتی ہو اور اسے دنیاوی خوش حالی وفراوانی حاصل ہو۔ جس طرح اس وقت مغربی اور یورپی اور دیگر بعض قوموں کا حال ہے کہ وہ عیسائی یا یہودی یا کافر ومشرک ہونے کے باوجود مادی ترقی اور خوش حالی میں ممتاز ہیں۔ لیکن ان کی یہ ترقی عارضی وبطور امتحان واستدراج ہے۔ یہ ان کی اخروی کامیابی کی ضمانت یا علامت نہیں۔ اسی طرح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ المائدہ کی آیت 15میں نور سے مراد قرآن مجید ہی ہے ۔ ( جیسا وہاں بھی وضاحت کی گئی تھی ) کیوں کہ جو نور آپ کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہ قرآن مجید ہی ہے اس لیے اس ( نور ) سے خود نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) کی ذات مراد نہیں ہے ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ کی صفات میں ایک صفت نور بھی ہے۔ جس سے کفروشرک کی تاریکیاں دور ہوئیں۔ لیکن آپ کے نوری صفت ہونے سے آپ کا نُورٌ مِنْ نُورِ اللهِ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا، جس طرح اہل بدعت یہ ثابت کرتے ہیں۔ ( مزید دیکھئے سورۂ المائدۂ آیت 15 کا حاشیہ )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
سابقہ کتابوں میں آخری پیغمبر خاتم الانبیاء ﷺ کے جو اوصاف بیان ہوئے تھے جس سے ان نبیوں کی امت آپ کو پہچان جائے وہ بیان ہو رہے ہیں سب کو حکم تھا کہ ان صفات کا پیغمبر اگر تمہارے زمانے میں ظاہر ہو تو تم سب ان کی تابعداری میں لگ جانا۔ مسند احمد میں ہے ایک صاحب فرماتے ہیں میں کچھ خریدو فروخت کا سامان لے کر مدینے آیا جب اپنی تجارت سے فارغ ہوا تو میں نے کہا اس شخص سے بھی مل لوں میں چلا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ابوبکر و عمر کے ساتھ کہیں جا رہے ہیں میں بھی پیچھے پیچھے چلنے لگا آپ ایک یہودی عالم کے گھر گئے اس کا نوجوان خوبصورت تنومند بیٹا نزع کی حالت میں تھا اور وہ اپنے دل کو تسکین دینے کیلئے تورات کھولے ہوئے اس کے پاس بیٹھا ہوا تلاوت کر رہا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تجھے اس کی قسم جس نے یہ تورات نازل فرمائی ہے کیا میری صفت اور میرے معبوث ہونے کی خبر اس میں تمہارے پاس ہے یا نہیں ؟ اس نے اپنے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ اسی وقت اس کا وہ بچہ بول اٹھا کہ اس کی قسم جس نے تورات نازل فرمائی ہے ہم آپ کی صفات اور آپ کے آنے کا پورا حال اس تورات میں موجود پاتے ہیں اور میری تہہ دل سے گواہی ہے کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا اس یہودی کو اپنے بھائی کے پاس سے ہٹاؤ پھر آپ ہی اس کے کفن دفن کے والی بنے اور اس کے جنازے کی نماز پڑھائی۔ مستدرک حاکم میں ہے حضرت ہشام بن عاص اموی فرماتے ہیں کہ میں اور ایک صاحب روم کے بادشاہ ہرقل کو دعوت اسلام دینے کیلئے روانہ ہوئے۔ غوطہ دمشق میں پہنچ کر ہم حیلہ بن ایم غسانی کے ہاں گئے اس نے اپنا قاصد بھیجا کہ ہم اس سے باتین کرلیں۔ ہم نے کہا واللہ ہم تم سے کوئی بات نہ کریں گے ہم بادشاہ کے پاس بھیجے گئے ہیں اگر وہ چاہیں تو ہم سے خود سنیں اور خود جواب دیں ورنہ ہم قاصدوں سے گفتگو کرنا نہیں چاہتے۔ قاصدوں نے یہ خبر بادشاہ کو پہنچائی اس نے اجازت دی اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا چناچہ میں نے اس سے باتیں کیں اور اسلام کی دعوت دی۔ وہ اس وقت سیاہ لباس پہنے ہوئے تھا کہنے لگا کہ دیکھ میں نے یہ لباس پہن رکھا ہے اور حلف اٹھایا ہے کہ جب تک تم لوگوں کو شام سے نہ نکال دوں گا اس سیاہ لبادے کو نہ اتاروں گا۔ قاصد اسلام نے یہ سن کر پھر کہا بادشاہ ہوش سنبھالو اللہ کی قسم یہ آپ کے تخت کی جگہ اور آپ کے بڑھے بادشاہ کا پائے تخت بھی انشاء اللہ عنقریب ہم اپنے قبضے میں کرلیں گے۔ یہ کوئی ہماری ہوس نہیں بلکہ ہمارے نبی ﷺ سے ہمیں یہ پختہ خبر مل چکی ہے۔ اس نے کہا تم وہ لوگ نہیں ہاں ہم سے ہمارا یہ تخت و تاج و قوم چھینے گی جو دنوں کو روزے سے رہتے ہوں اور راتوں کو تہجد پڑھتے ہوں۔ اچھا تم بتاؤ تمہارے روزے کے احکام کیا ہیں ؟ اب جو ہم نے بتائے تو اس کا منہ کالا ہوگیا۔ اس نے اسی وقت ہمارے ساتھ اپنا ایک آدمی کردیا اور کہا انہیں شاہ روم کے پاس لے جاؤ جب ہم اس کے پائے تخت کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا تم اس حال میں تو اس شہر میں نہیں جاسکتے اگر تم کہو تو میں تمہارے لئے عمدہ سواریاں لا دوں ان پر سوار ہو کر تم شہر میں چلو ہم نے کہا ناممکن ہے ہم تو اسی حالت میں انہی سواریوں پر چلیں گے انہوں نے بادشاہ سے کہلوا بھیجا وہاں سے اجازت آئی کہ اچھا انہیں اونٹوں پر ہی لے آؤ ہم اپنے اونٹوں پر سوار گلے میں تلواریں لٹائے شاہی محل کے پاس پہنچے وہاں ہم نے اپنی سواریاں بٹھائیں بادشاہ دریچے میں سے ہمیں دیکھ رہا تھا ہمارے منہ سے بےساختہ دعا ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ) کا نعرہ نکل گیا۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ اسی وقت شام اور روم کا محل تھرا اٹھا اس طرح جس طرح کسی خوشے کو تیز ہوا کا جھونکا ہلا رہا ہو اسی وقت محل سے شاہی قاصد دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا آپ کو یہ نہیں چاہئے کہ اپنے دین کو اس طرح ہمارے سامنے اعلان کرو، چلو تم کو بادشاہ سلامت یاد کر رہے ہیں چناچہ ہم اس کے ساتھ دربار میں گئے دیکھا کہ چاروں طرف سرخ مخمل اور سرخ ریشم ہے خود بھی سرخ لباس پہنے ہوئے ہے تمام دربار پادریوں اور ارکان سلطنت سے بھرا ہوا ہے۔ جب ہم پاس پہنچ گئے تو مسکرا کر کہنے لگا جو سلام تم میں آپس میں مروج ہے تم نے مجھے وہ سلام کیوں نہ کیا ؟ ترجمان کی معرفت ہمیں بادشاہ کا یہ سوال پہنچا تو ہم نے جواب دیا کہ جو سلام ہم میں ہے اس کے لائق تم نہیں اور جو آداب کا دستور تم میں ہے وہ ہمیں پسند نہیں۔ اس نے کہا اچھا تمہارا سلام آپس میں کیا ہے ؟ ہم نے کہا السلام علیکم اس نے کہا اپنے بادشاہ کو تم کس طرح سلام کرتے ہو ؟ ہم نے کہا صرف ان ہی الفاظ سے۔ پوچھا اچھا وہ بھی تمہیں کوئی جواب دیتے ہیں ہم نے کہا یہی الفاظ وہ کہتے ہیں۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں سب سے بڑا کلمہ کون سا ہے ؟ ہم نے کہا دعا ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر )۔ اللہ عزوجل کی قسم ادھر ہم نے یہ کلمہ کہا ادھر پھر سے محل میں زلزلہ پڑا یہاں تک کہ سارا دربار چھت کی طرف نظریں کر کے سہم گیا۔ بادشاہ ہیبت ذدہ ہو کر پوچھنے لگا کیوں جی اپنے گھروں میں بھی جب کبھی تم یہ کلمہ پڑھتے ہو تمہارے گھر بھی اس طرح زلزلے میں آجاتے ہیں ؟ ہم نے کہا کبھی نہیں ہم نے تو یہ بات یہیں آپ کے ہاں ہی دیکھی ہے۔ بادشاہ کہنے لگا کاش کہ تم جب کبھی اس کلمے کو کہتے تمام چیزیں اسی طرح ہل جاتیں اور میرا آدھا ملک ہی رہ جاتا۔ ہم نے پوچھا یہ کیوں ؟ اس نے جواب دیا اس لئے کہ یہ آسان تھا بہ نسبت اس بات کے کہ یہ امر نبوت ہو۔ پھر اس نے ہم سے ہمارا ارادہ دریافت کیا ہم نے صاف بتایا۔ اس نے کہا اچھا یہ بتاؤ کہ تم نماز کس طرح پڑھتے ہو اور روزہ کس طرح رکھتے ہو ؟ ہم نے دونوں باتیں بتادیں اس نے اب ہمیں رخصت کیا اور بڑے اکرام و احترام سے ہمیں شاہی معزز مہمانوں میں رکھا۔ تین دن جب گذرے تو رات کے وقت ہمیں قاصد بلا نے آیا ہم پھر دربار میں گئے تو اس نے ہم سے پھر ہمارا مطلب پوچھا ہم نے اسے دوہرایا پھر اس نے ایک حویلی کی شکل کی سونا منڈھی ہوئی ایک چیز منگوائی جس میں بہت سارے مکانات تھے اور ان کے دروازے تھے اس نے اسے کنجی سے کھول کر ایک سیاہ رنگ کا ریشمی جامہ نکالا ہم نے دیکھا کہ اس میں ایک شخص ہے جس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں بڑی رانیں ہیں۔ بڑی لمبی اور گھنی داڑھی ہے اور سر کے بال دو حصوں میں نہایت کو خوبصورت لمبے لمبے ہیں ہم سے پوچھا انہیں جانتے ہو ؟ ہم نے کہا نہیں۔ کہا یہ حضرت آدم ؑ ہیں ان کے جسم پر بال بہت ہی تھے۔ پھر دوسرا دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ رنگ ریشم کا پارچہ نکالا جس میں ایک سفید صورت تھی جس کے گھونگر والے بال تھے سرخ رنگ آنکھیں تھیں بڑے کلے کے آدمی تھے اور بڑی خوش وضع داڑھی تھی ہم سے پوجھا انہیں پہچانتے ہو ؟ ہم نے انکار کیا تو کہا یہ حضرت نوح ؑ ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ ریشمی کپڑا نکالا اس میں ایک شخص تھا نہایت ہی گورا چٹا رنگ، بہت خوبصورت آنکھیں، کشادہ پیشانی، لمبے رخسار، سفید داڑھی، یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ مسکرا رہے ہیں۔ ہم سے پوچھا انہیں پہچانا ؟ ہم نے انکار کیا تو کہا یہ حضرت ابراہیم ؑ ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھولا اس میں سے ایک خوبصورت سفید شکل دکھائی دی جو ہو بہو رسول اللہ ﷺ کی تھی۔ ہم سے پوچھا انہیں پہچانتے ہو ؟ ہم نے کہا یہ حضرت محمد ہیں ﷺ ہیں۔ یہ کہا اور ہمارے آنسو نکل آئے۔ بادشاہ اب تک کھڑا ہوا تھا اب وہ بیٹھ گیا اور ہم سے دوبارہ پوچھا کہ یہی شکل حضور کی ہے ہم نے کہا واللہ یہی ہے اسی طرح کہ گویا تو آپ کو آپ کی زندگی میں دیکھ رہا ہے۔ پس وہ تھوڑی دیر تک غور سے اسے دیکھتا رہا پھر ہم سے کہنے لگا کہ یہ آخری گھر تھا لیکن میں نے اور گھروں کو چھوڑ کر اسے بیچ میں ہی اس لئے کھول دیا کہ تمہیں آزما لوں کہ تم پہچان جاتے ہو یا نہیں۔ پھر ایک اور دروازہ کھول کر اس میں سے بھی سیاہ رنگ ریشمی کپڑا نکالا جس میں ایک گندم گوں نرمی والی صورت تھی۔ بال گھنگھریالے آنکھیں گہری نظریں تیز تیور تیکھے دانت پر دانت ہونٹ موٹے ہو رہے تھے جیسے کہ غصے میں بھرے ہوئے ہیں۔ ہم سے پوچھا انہیں پہنچانا ؟ ہم نے انکار کیا بادشاہ نے کہا یہ حضرت موسیٰ ؑ ہیں۔ اسی کے متصل ایک اور صورت تھی جو قریب قریب اسی کی سی تھی۔ مگر ان کے سر کے بال گویا تیل لگے ہوئے تھے۔ ماتھا کشادہ تھا، آنکھوں میں کچھ فراخی تھی ہم سے پوچھا انہیں جانتے ہو ؟ ہمارے انکار پر کہا یہ حضرت ہارون بن عمران ؑ ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید رنگ ریشم کا ٹکڑا نکالا جس میں ایک گندم گوں رنگ میانہ قد سیدھے بالوں والا ایک شخص تھا گویا وہ غضبناک ہے پوچھا انہیں پہچانا ؟ ہم نے کہا نہیں۔ کہا یہ حضرت لوط ؑ ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید ریشمی کپڑا نکال کر دیکھایا جس میں سنہرے رنگ کے ایک آدمی تھے جن کا قد طویل نہ تھا رخسار ہلکے تھے چہرہ خوبصورت تھا ہم سے پوچھا انہیں جانتے ہو ؟ ہم نے کہا نہیں، کہا یہ حضرت اسحاق ؑ ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ رنگ کا ریشمی کپڑا نکالا جس میں ایک شکل تھی سفید رنگ خوبصورت اونچی ناک والے اچھے قامت والے نورانی چہرے والے جس میں خوف اللہ ظاہر تھا رنگ سرخی مائل سفید تھا پوجھا انہیں جانتے ہو ؟ ہم نے کہا نہیں، کہا یہ تمہارے نبی ﷺ کے دادا حضرت اسماعیل ؑ ہیں۔ پھر اور دروازہ کھول کر سفید ریشمی کپڑے کا ٹکڑا نکال کر دکھایا جس میں ایک صورت تھی جو حضرت آدم ؑ کی صورت سے بہت ہی ملتی جلتی تھی اور چہرہ تو سورج کی طرح روشن تھا، پوچھا انہیں پہچانا ؟ ہم نے لا علمی ظاہر کی تو کہا یہ حضرت یوسف ؑ ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سفید ریشم کا پارچہ نکال کر ہمیں دکھایا جس میں ایک صورت تھی سرخ رنگ بھری پنڈلیاں کشادہ آنکھیں اونجا پیٹ قدرے چھوٹا قد تلوار لٹکائے ہوئے۔ پوچھا انہیں جانتے ہو ؟ ہم نے کہا نہیں۔ کہا یہ حضرت داؤد ؑ ہیں پھر اور دروازہ کھول کر سفید ریشم نکالا جس میں ایک صورت تھی موٹی رانوں والی لمبے پیروں والی گھوڑے سوار۔ پوچھا انہیں پہنچانا ؟ ہم نے کہا نہیں، کہا یہ حضرت سلیمان ؑ ہیں۔ پھر ایک اور دروازہ کھولا اور اس میں سے سیاہ رنگ حریری پارچہ نکالا جس میں ایک صورت تھی۔ سفید رنگ نوجوان سخت سیاہ داڑھی بہت زیادہ بال خوشنما آنکھیں خوبصورت چہرہ۔ پوچھا انہیں جانتے ہو ؟ ہم نے کہا نہیں کہا یہ حضرت عیسیٰ بن مریم ؑ ہیں۔ ہم نے پوچھا آپ کے پاس یہ صورتیں کہاں سے آئیں ؟ یہ تو ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ یہ تمامایاء کی اصلی صورت کے بالکل ٹھیک نمونے ہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنے پیغمبر ﷺ کی صورت کو بالکل ٹھیک اور درست پایا۔ بادشاہ نے جواب دیا بات یہ ہے کہ حضرت آدم ؑ نے رب العزت سے دعا کی کہ آپ کی اولاد میں سے جو انبیاء ( علیہم السلام ) ہیں ان سب کو دکھایا جائے پس ان کی صورتیں آپ پر نازل ہوئیں جو حضرت آدم ؑ کے خزانے میں جو سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر تھا محفوظ تھیں ذوالقرنین نے انہیں وہاں سے لے لیا اور حضرت دانیال کو دیں۔ پھر بادشاہ کہنے لگے کہ میں تو اس پر خوش ہوں کہ اپنی بادشاہت چھوڑ دوں میں اگر غلام ہوتا تو تمہارے ہاتھوں بک جاتا اور تمہاری غلامی میں اپنی پوری زندگی بسر کرتا۔ پھر اس نے ہمیں بہت کچھ تحفے تحائف دے کر اچھی طرح رخصت کیا۔ جب ہم خلیفہ المسلمین امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دربار میں پہنچے اور یہ سارا واقعہ بیان کیا تو حضرت صدیق اکبر ؓ روئے اور فرمانے لگے اس مسکین کے ساتھ اللہ کی توفیق رفیق ہوتی تو یہ ایسا کر گذرتا۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے بتلایا ہے کہ نصرانی اور یہودی حضرت محمد ﷺ کے اوصاف اپنی کتابوں میں برابر پاتے ہیں۔ یہ روایت امام بیہقی کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی ہے۔ اس کی اسناد بھی خوف و خطر سے خالی ہے۔ حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کی جو صفتیں تورات میں ہوں وہ مجھے بتاؤ تو انہوں نے فرمایا ہاں واللہ آپ کی صفتیں تورات میں ہیں جو قرآن میں بھی ہیں کہ اے نبی ہم نے آپ کو گواہ اور خوشخبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا اور ان پڑھوں کو گمراہی سے بچانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے اور رسول ہیں، آپ کا نام متوکل ہے، آپ بدگو اور بد خلق نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو قبض نہ کرے گا جب تک کہ آپ کی وجہ سے لوگوں کی زبان سے لا الہ الا اللہ کہلوا کر ٹیڑھے دین کو درست نہ کر دے۔ بند دلوں کو کھول دے گا، بہرے کانوں کو سننے والا بنا دے گا، اندھی آنکھوں کو دیکھتی کر دے گا۔ یہ روایت صحیح بخاری شریف میں بھی ہے۔ حضرت عطا فرماتے ہیں پھر میں حضرت کعب سے ملا اور ان سے بھی یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا ایک حرف کی بھی کمی بیشی دونوں صاحبوں کے بیان میں نہ تھی یہ اور بات ہے کہ آپ نے اپنی لغت میں دونوں کے الفاظ بولے۔ بخاری شریف کی اس روایت میں اس ذکر کے بعد کہ آپ بدخلق نہیں یہ بھی ہے کہ آپ بازاروں میں شور وغل کرنے والے نہیں، آپ برائی کے بدلے برائی کرنے والے نہیں بلکہ معافی اور درگذر کرنے والے ہیں۔ عبداللہ بن عمرو کی حدیث کے ذکر کے بعد ہے کہ سلف کے کلام میں عموماً تورات کا لفظ اہل کتاب کی کتابوں پر بولا جاتا ہے۔ اس کے مشابہ اور بھی روایتیں ہیں واللہ اعلم۔ طبرانی میں حضرت جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ میں تجارت کی غرض سے شام میں گیا وہاں میری ملاقات اہل کتاب کے ایک عالم سے ہوئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ نبی تم میں ہوئے ہیں ؟ میں نے کہا ہاں، اس نے کہا اگر تمہیں ان کی صورت دکھائیں تو تم پہچان لو گے ؟ میں نے کہا ضرور چناچہ وہ مجھے ایک گھر میں لے گیا جہاں بہت سی صورتیں تھیں لیکن ان میں میری نگاہ میں حضور کی کوئی شبیہ نہ آئی، اسی وقت ایک اور عالم آیا ہم سے پوچھا کیا بات ہے ؟ جب اسے ساری بات معلوم ہوئی تو وہ ہمیں اپنے مکان لے گیا وہاں جاتے ہی میری نگاہ آپ کی شبیہ پر پڑی اور میں نے دیکھا کہ گویا کوئی آپ کے پیچھے ہی آپ کو تھامے ہوئے ہے، میں نے یہ دیکھ کر اس سے پوچھا یہ دوسرے صاحب پیچھے کیسے ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ جو نبی آیا اس کے بعد بھی نبی آیا لیکن اس نبی کے بعد کوئی نبی نہیں اس کے پیچھے کا یہ شخص اس کا خلیفہ ہے۔ اب جو میں نے غور سے دیکھا تو وہ بالکل حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی شکل تھی۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک مرتبہ اپنے موذن اقرع کو ایک پادری کے پاس بھیجا آپ اسے بلا لائے امیر المومنین نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ تم میری صفت اپنی کتابوں میں پاتے ہو ؟ اس نے کہا ہاں، کہا کیا ؟ اس نے جواب دیا کہ قرن۔ آپ نے کوڑا اٹھا کر فرمایا قرن کیا ہے ؟ اس نے کہا گویا کہ وہ لوہے کا سینگ ہے وہ امیر ہے دین میں بہت سخت۔ فرمایا اچھا میرے بعد والے کی صفت کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ خلیفہ تو وہ نیک صالح ہے لیکن اپنے قرابتداروں کو وہ دوسروں پر ترجیح دے گا۔ آپ نے فرمایا اللہ عثمان پر رحم کرے تین بار یہ فرمایا پھر فرمایا اچھا ان کے بعد ؟ اس نے کہا لوہے کے ٹکڑے جیسا۔ حضرت عمر نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا اور افسوس کرنے لگے اس نے کہا اے امیر المومنین ہوں گے تو وہ نیک خلیفہ لیکن بنائے ہی اس وقت جائیں گے جب تلوار کھچی ہوئی ہو اور خون بہہ رہا ہو ( ابو داؤد ) ان کتابوں میں آنحضرت ﷺ کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ آپ نیکیوں کا حکم دیں گے برائیوں سے روکیں گے۔ فی الواقع آپ ایسے ہی تھے کونسی بھلائی ہے جس کا آپ نے حکم نہ دیا ہو ؟ کونسی برائی ہے جس سے آپ نے نہ روکا ہو ؟ جیسے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں تم جب قرآن کے یہ لفظ سنو کہ اے ایمان والو تو اسی وقت ہمہ تن گوش ہوجاؤ کیونکہ یا تو کسی خیر کا تمہیں حکم کیا جائے گا یا کسی شر سے تمہیں بچایا جائے گا۔ ان میں سب سے زیادہ تاکید اللہ کی وحدانیت تھی جس کا حکم برابر ہر نبی کو ہوتا رہا۔ قرآن شاہد ہے کہ ہر امت کے رسول کو پہلا حکم یہی ملا کہ وہ لوگوں سے کہہ دیں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ماسوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ مسند احمد میں فرمان رسول اللہ ﷺ ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہوجائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمہارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمہارے بھی اس سے بہت دور ہوں۔ اس کی سند بہت پکی ہے۔ اسی کی ایک اور روایت میں حضرت علی کا قول ہے کہ جب تم رسول اللہ ﷺ سے منقول کوئی حدیث سنو تو اس کے ساتھ وہ خیال کرو جو خوب راہ والا بہت مبارک اور بہت پرہیزگاری والا ہو۔ پھر حضور کی ایک صفت بیان ہو رہی ہے کہ آپ کل پاک صاف اور طیب چیزوں کو حلال کرتے ہیں بہت سی چیزیں ان میں ایسی تھیں جنہیں لوگوں نے از خود حرام قرار دے لیا تھا جیسے جانوروں کو بتوں کے نام کر کے نشان ڈال کر انہیں حرام سمھجنا وغیرہ اور خبیث اور گندی چیزیں آپ لوگوں پر حرام کرتے ہیں جیسے سور کا گوشت سود وغیرہ اور جو حرام چیزیں لوگوں نے از خود حلال کرلی تھیں۔ بعض علماء کا فرمان ہے کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں کھاؤ وہ دین میں بھی ترقی کرتی ہیں اور بدن میں بھی فائدہ پہنچاتی ہیں اور جو چیزیں حرام کردی ہیں ان سے بچو کیونکہ ان سے دین کے نقصان کے علاوہ صحت میں بھی نقصان ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ چیزوں کی اچھائی برائی دراصل عقلی ہے۔ اس کے بہت سے جواب دیئے گئے ہیں لیکن یہ جگہ اس کے بیان کی نہیں اسی آیت کو زیر نظر رکھ کر بعض اور علماء نے کہا ہے کہ جن چیزوں کا حلال حرام ہونا کسی کو نہ پہنچا ہو اور کوئی آیت حدیث اس کے بارے میں نہ ملی ہو تو دیکھنا چاہئے کہ عرب اسے اچھی چیز سمجھتے ہیں یا اس سے کراہت کرتے ہیں اگر اسے اچھی چیز جان کر استعمال میں لاتے ہیں تو حلال ہے اور اگر بری چیز سمجھ کر نفرت کر کے اسے نہ کھاتے ہوں تو وہ حرام ہے۔ اس اصول میں بھی بہت کچھ گفتگو ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ آپ بہت صاف آسان اور سہل دین لے کر آئیں گے۔ چناچہ حدیث شریف میں ہے کہ میں ایک طرف آسان دین دے کر معبوث کیا گیا ہوں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل کو جب حضور ﷺ یمن کا امیر بنا کر بھیجتے ہیں تو فرماتے ہیں تم دونوں خوش خبری دینا، نفرت نہ دلانا، آسانی کرنا، سختی نہ کرنا، مل کر رہنا، اختلاف نہ کرنا۔ آپ کے صحابی ایوبرزہ اسلمی فرماتے ہیں میں حضور کے ساتھ رہا ہوں اور آپ کی آسانیوں کا خوب مشاہدہ کیا ہے پہلی امتوں میں بہت سختیاں تھیں لیکن پروردگار عالم نے اس امت سے وہ تمام تنگیاں دور فرما دیں۔ آسان دین اور سہولت والی شریعت انہیں عطا فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میری امت کے دلوں میں جو وسوسے گذریں ان پر انہیں پکڑ نہیں جب تک کہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ لائیں۔ فرماتے ہیں میری امت کی بھول چوک اور غلطی سے اور جو کام ان سے جبراً کئے کرائے جائیں ان سے اللہ تعالیٰ نے قلم اٹھا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس امت کو خود اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم فرمائی کہ کہو کہ اے ہمارے پروردگار تو ہماری بھول چوک پر ہماری پکڑ نہ کر۔ اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ لاؤ جو ہم سے پہلوں پر تھا۔ اے ہمارے رب ہمیں ہماری طاقت سے زیادہ بوجھل نہ کر۔ ہمیں معاف فرما، ہمیں بخش، ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا کار ساز مولیٰ ہے۔ پس ہمیں کافروں پر مدد عطا فرما۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ دعائیں کیں تو ہر جملے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے یہ قبول فرمایا۔ پس جو لوگ اس نبی آخر الزماں ﷺ پر ایمان لائیں اور آپ کا ادب عزت کریں اور جو وحی آپ پر اتری ہے اس نور کی پیروی کریں وہی دنیا آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 157 اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ یعنی ہمارے نبی امی ﷺ کا اتباع کریں گے جن کو رسول بنا کر بھیجا جائے گا۔ محمد عربی ﷺ نے دنیوی اعتبار سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ آپ ﷺ دنیوی معیار کے مطابق پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ اس لحاظ سے آپ ﷺ بھی امی تھے اور جن لوگوں میں آپ ﷺ کو مبعوث کیا گیا وہ بھی امی تھے ‘ کیونکہ ان لوگوں کے پاس اس سے پہلے کوئی کتاب تھی نہ کوئی شریعت۔الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰٹۃِ وَالْاِنْجِیْلِ ز یعنی آخری نبی ﷺ کے بارے میں پیشین گوئیاں ‘ آپ ﷺ کے حالات ‘ اور آپ ﷺ کے بارے میں واضح علامات ان کو تورات اور انجیل دونوں میں ملیں گی۔یَاْمُرُہُمْ بالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰٹہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ بنی اسرائیل پر کچھ چیزیں ان کی شرارتوں کی وجہ سے بھی حرام کردی گئی تھیں ‘ جیسا کہ سورة النساء آیت 160 میں ہم پڑھ آئے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ نبی امی ﷺ ان پر سے ایسی تمام بندشیں اٹھا دیں گے اور تمام پاکیزہ چیزوں کو ان کے لیے حلال کردیں گے۔وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبآءِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ ط یہ بوجھ اور طوق وہ بےجا اور خود ساختہ پابندیاں اور رسومات بھی ہیں جو معاشرے کے اندر کسی خاص طبقہ کے مفادات یا نمود و نمائش کی خواہش کی وجہ سے رواج پاتی ہیں ‘ بعد میں غریب لوگوں کو انہیں نبھانا پڑتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب ان کی وجہ سے ایک عام آدمی کی زندگی انتہائی مشکل ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے کی بلند ترین سطح پر بھی بڑی بڑی قباحتیں اور لعنتیں جنم لیتی ہیں جن کے بوجھ تلے مختلف اقوام بری طرح پس جاتی ہیں۔ مثلاً بادشاہت کا جبر ‘ جاگیرداری کا استحاصلی نظام ‘ سیاسی و معاشی غلامی ‘ رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانیت میں تفریق وغیرہ۔ تو اس آیت میں بشارت دی جا رہی ہے کہ نبی آخر الزماں ﷺ آئیں گے اور انسانیت کو غلط رسومات ‘ خود ساختہ عقائد اور نظام ہائے باطلہ کے بوجھوں سے نجات دلاکر عدل اور قسط کا نظام قائم کریں گے۔ اس کے بعد حضور ﷺ کے ساتھ تعلق کی شرائط مذکور ہیں جن میں سے ہر شرط پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موضوع کو تفصیلی طور پر سمجھنے کے لیے میرے کتابچے بعنوان : نبی اکرم ﷺ سے ہمارے تعلق کی بنیادیں کا مطالعہ مفید رہے گا۔فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ یہ پہلی اور بنیادی شرط ہے۔ آپ ﷺ پر ایمان لانے کے دو بنیادی تقاضے ہیں ‘ پہلا تقاضا ہے آپ ﷺ کی اطاعت اور دوسرا تقاضا ہے آپ ﷺ کی محبت۔ ان دونوں تقاضوں کے بارے میں دو احادیث ملاحظہ کیجیے۔ پہلی حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِءْتُ بِہٖ 1 تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہے جب تک کہ اس کی خواہش نفس تابع نہ ہوجائے اس چیز کے جو میں ﷺ لے کر آیا ہوں۔ یعنی جو احکام اور شریعت حضور ﷺ لے کر تشریف لائے ہیں ‘ اگر کوئی شخص ایمان رکھتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تو اس سب کچھ کو تسلیم کر کے اس پر عمل کرنا ہوگا۔ دوسری حدیث متفق علیہ ہے اور اس کے راوی حضرت انس بن مالک رض ہیں۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لَا یُوؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ 1 تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے محبوب ترنہ ہوجاؤں اس کے باپ ‘ بیٹے اور تمام انسانوں سے۔ چناچہ یہ دونوں تقاضے پورے ہوں گے تو آپ ﷺ پر ایمان کا دعویٰ حقیقت بنے گا۔ ایک غایت درجہ میں آپ ﷺ کا اتباع اور اطاعت ‘ دوسرے غایت درجے میں آپ ﷺ کی محبت۔وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ جب مذکورہ بالا دو تقاضے پورے ہوں گے تو ان کے لازمی نتیجے کے طور پر دلوں میں رسول اللہ ﷺ کی تعظیم پیدا ہوگی ‘ آپ ﷺ کی عظمت دلوں پر راج کرے گی۔ جب اور جہاں آپ ﷺ کا نام مبارک سنائی دے گا بےساختہ زبان پر درود وسلام آجائے گا۔ آپ ﷺ کا فرمان سامنے آنے پر منطق و دلائل کا سہارا چھوڑ کر سرتسلیم خم کردیا جائے گا۔ حضور ﷺ کے ادب و احترام کے سلسلے میں یہ اصول ذہن نشین کرلیجئے کہ اگر کہیں کسی مسئلے پر بحث ہو رہی ہو ‘ دونوں طرف دلائل کو دلائل کاٹ رہے ہوں اور ایسے میں اگر کوئی کہہ دے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس ضمن میں یوں فرمایا ہے تو حدیث کے سنتے ہی فوراً زبان بند ہوجانی چاہیے۔ ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ آپ ﷺ کا فرمان سن لینے کے بعد بھی کسی معاملے میں رائے زنی کرے۔ بعد میں تحقیق کی جاسکتی ہے کہ آپ ﷺ سے منسوب کر کے جو فرمان سنایا گیا ہے درحقیقت وہ حدیث ہے بھی یا نہیں اور اگر حدیث ہے تو روایت و درایت کے اعتبار سے اس کا کیا مقام ہے۔ حدیث صحیح ہے یا ضعیف ! یہ سب بعد کی باتیں ہیں ‘ لیکن حدیث سن کر وقتی طور پر چپ ہوجانا اور سر تسلیم خم کردینا آپ ﷺ کے ادب کا تقاضا ہے۔ وَنَصَرُوْہُ کے ضمن میں یہ نکتہ اہم ہے کہ نبی مکرم ﷺ کو کس کام میں مدددرکار ہے ؟ کیا آپ ﷺ کو اپنے کسی ذاتی کام کے لیے مدد چاہیے ؟ آپ ﷺ نے کوئی ذاتی سلطنت و حکومت تو قائم نہیں کی ‘ جس کے قیام و استحکام کے لیے آپ ﷺ کو مدد کی ضرورت ہوتی۔ آپ ﷺ کی کوئی ذاتی جاگیر یا جائیداد بھی نہیں تھی ‘ جس کو سنبھالنے کے لیے آپ ﷺ کو مدد درکار ہوتی۔ دراصل آپ ﷺ کو اپنے اس مشن کی تکمیل کے لیے مدد چاہیے تھی جس کے لیے آپ ﷺ بھیجے گئے تھے اور وہ تھا غلبۂ حق اور اقامت دین : ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ الصف : 9۔ دین حق کے غلبے کے لیے کی جانے والی جاں گسل جدوجہد میں آپ ﷺ کو مدد گاروں کی ضرورت تھی اور اس کے لیے آپ ﷺ کی طرف سے مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ ؟ کی صلائے عام تھی ‘ کہ مجھے اللہ کا دین غالب کرنا ہے ‘ یہ میرا فرض منصبی ہے ‘ کون ہے جو اس کام میں میرا ہاتھ بٹائے اور میرا مدد گار بنے ؟ چناچہ آپ ﷺ نے اپنی محنت ‘ صحابہ کرام رض کی قربانیوں اور اللہ کی نصرت سے جزیرہ نمائے عرب میں دین کو غالب کر کے اپنے مشن کی تکمیل کردی۔ آپ ﷺ کے بعد کچھ عرصہ دین غالب رہا ‘ پھر مغلوب ہوگیا اور آج تک مغلوب ہے۔ آج دنیا میں کہیں بھی دین غالب نہیں ہے۔ لہٰذا اب دین کو ساری دنیا میں غالب کرنا امت کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کے حوالے سے آپ ﷺ کا مشن آج بھی زندہ ہے ‘ یہ میدان اب بھی کھلا ہے۔ آج بھی حضور ﷺ کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَار اللّٰہِ الصف : 14 کا قرآنی حکم آج بھی ہمیں پکار رہا ہے۔وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓٗلا یہ گویا اس کٹھن مشن کی تکمیل کا راستہ بتایا گیا ہے۔ دین کے غلبے کی تکمیل قرآن کے ذریعے سے ہوگی ‘ یعنی تذکیر بالقرآن ‘ تبشیر بالقرآن ‘ تبلیغ بالقرآن ‘ انذار بالقرآن ‘ تعلیم بالقرآن وغیرہ۔ جیسے محمد عربی ﷺ نے قرآن کے ذریعے سے لوگوں کا تزکیہ کیا : یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق الجمعہ : 2 اس طرح آج بھی ضرورت ہے کہ قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو ترغیب دی جائے ‘ ان کے دلوں کی صفائی کی جائے ‘ انہیں جہالت کے اندھیروں سے ہدایت کے اجالے کی طرف لایا جائے ‘ تاریک دلوں کے اندر ایمان کی شمعیں روشن کی جائیں۔ پھر ان لوگوں کو ایک مشن پر اکٹھا کیا جائے ‘ انہیں منظم کیا جائے ‘ ان میں منزل کی تڑپ پیدا کی جائے اور پھر باطل سے ٹکرا کر اس کو پاش پاش کردیا جائے۔ یہ ہے آپ ﷺ کی مدد کرنے کا صحیح طریقہ ‘ اور یہ ہے اس نور قرآن کی پیروی کرنے کا معروف راستہ۔ اور جو لوگ اس راستے پر چلیں گے ان کے بارے میں فرمایا :
الذين يتبعون الرسول النبي الأمي الذي يجدونه مكتوبا عندهم في التوراة والإنجيل يأمرهم بالمعروف وينهاهم عن المنكر ويحل لهم الطيبات ويحرم عليهم الخبائث ويضع عنهم إصرهم والأغلال التي كانت عليهم فالذين آمنوا به وعزروه ونصروه واتبعوا النور الذي أنـزل معه أولئك هم المفلحون
سورة: الأعراف - آية: ( 157 ) - جزء: ( 9 ) - صفحة: ( 170 )Surah Al Araaf Ayat 157 meaning in urdu
(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اِس پیغمبر، نبی امی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر اُنہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال او ر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی تاکہ ان کے
- اور وہ وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا
- یہ کہ کوئی شخص دوسرے (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا
- سو وہ اسی میں سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے
- جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل
- مومنو! خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو۔ امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ
- جس کے پاس مقرب (فرشتے) حاضر رہتے ہیں
- یہ وہی (بدبخت) ہے، جو یتیم کو دھکے دیتا ہے
- اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ اور اپنے
- اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ
Quran surahs in English :
Download surah Al Araaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Araaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Araaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers