Surah Inshiqaq Ayat 16 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَلَا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ﴾
[ الانشقاق: 16]
ہمیں شام کی سرخی کی قسم
Surah Inshiqaq Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) شَفَقٌ، اس سرخی کو کہتے ہیں جو سورج غروب ہونے کے بعد آسمان پر ظاہر ہوتی ہے اور عشا کا وقت شروع ہونے تک رہتی ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
پیشین گوئی شفق سے مراد وہ سرخی ہے جو غروب آفتاب کے بعد آسمان کے مغربی کناروں پر ظاہر ہوتی ہے حضرت علی حضرت ابن عباس حضرت عبادہ بن صامت، حضرت ابوہریرہ، حضرت شداد بن اوس، حضرت عبداللہ بن عمر، محمد بن علی بن حسین مکحول، بکر بن عبداللہ مزنی، بکیر بن الشیخ، مالک بن ابی ذئب، عبدالعزیز بن ابو سلمہ، ماجشون یہی فرماتے ہیں کہ شفق اس سرخی کو کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ سے یہ بھی مروی ہے کہ مراد سفیدی ہے، پس شفق کناروں کی سرخی کو کہتے ہیں وہ طلوع سے پہلے ہو یا غروب کے بعد اور اہل سنت کے نزدیک مشہور یہی ہے، خلیل کہتے ہیں عشاء کے وقت تک یہ شفق باقی رہتی ہے، جوہری کہتے ہیں سورج کے غروب ہونے کے بعد جو سرخی اور روشنی باقی رہتی ہے اسے شفق کہتے ہیں۔ یہ اول رات سے عشاء کے وقت تک رہتی ہے۔ عکرمہ فرماتے ہیں مغرب سے لے کر عشاء تک، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے مغرب کا وقت شفق غائب ہونے تک ہے، مجاہد سے البتہ یہ مروی ہے کہ اس سے مراد سارا دن ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ مراد سورج ہے، غالباً اس مطلب کی وجہ اس کے بعد کا جملہ ہے تو گویا روشنی اور اندھیرے کی قسم کھائی، امام ابن جریر فرماتے ہیں دن کے جانے اور رات کے آنے کی قسم ہے۔ اوروں نے کہا ہے سفیدی اور سرخی کا نام " شفق " ہے اور قول ہے کہ یہ لفظ ان دونوں مختلف معنوں میں بولا جاتا ہے۔ وسق کے معنی ہیں جمع کیا یعنی رات کے ستاروں اور رات کے جانوروں کی قسم، اسی طرح رات کے اندھیرے میں تمام چیزوں کا اپنی اپنی جگہ چلے جانا، اور چاند کی قسم جبکہ وہ پورا ہوجائے اور پوری روشنی والا بن جائے، لترکبن الخ کی تفسیر بخاری میں مرفوع حدیث سے مروی ہے۔ کہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف چڑھتے چلے جاؤ گے، حضرت انس فرماتے ہیں جو سال آئے گا وہ اپنے پہلے سے زیادہ برا ہوگا۔ میں نے اسی طرح تمہارے نبی ﷺ سے سنا ہے اس حدیث سے اور اوپر والی حدیث کے الفاظ بالکل یکساں ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث ہے۔ ( اللہ اعلم ) اور یہ مطلب بھی اسی حدیث کا بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد ذات نبی ہے ﷺ اور اس کی تائید حضرت عمر ابن مسعود ابن عباس اور عام اہل مکہ اور اہل کوفہ کی قرأت سے بھی ہوتی ہے۔ ان کی قرأت ہے لترکبن۔ شعبی کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اے نبی تم ایک آسمان کے بعد دوسرے آسمان پر چڑھو گے، مراد اس سے معراج ہے، یعنی منزل بمنزل چڑھتے چلے جاؤ گے سدی کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ اپنے اپنے اعمال کے مطابق منزلیں طے کرو گے۔ جیسے حدیث میں ہے، کہ تم اپنے سے اگلے لوگوں کے طریقوں پر چڑھو گے بالکل برابر برابر یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا ہو تو تم بھی یہی کرو گے، لوگوں نے کہا اگلوں سے مراد آپ کی کیا یہود و نصرانی ہیں ؟ آپ نے فرمایا پھر اور کون ؟ حضرت مکحول فرماتے ہیں ہر بیس سال کے بعد تم کسی نہ کسی ایسے کام کی ایجاد کرو گے جو اس سے پہلے نہ تھا، عبداللہ فرماتے ہیں، آسمان پھٹے گا پھر سرخ رنگ ہوجائے گا۔ پھر بھی رنگ بدلتے چلے جائیں گے، ابن مسعود فرماتے ہیں کبھی تو آسمان دھواں بن جائے گا پھر پھٹ جائے گا۔ حضرت سعید بن جیبر فرماتے ہیں یعنی بہت سے لوگ جو دنیا میں پست و ذلیل تھے آخرت میں بلندو ذی عزت بن جائیں گے، اور بہت سے لوگ دنیا میں مرتبے اور عزت والے تھے وہ آخرت میں ذلیل و نامراد ہوجائیں گے۔ عکرمہ یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ پہلے دودھ پیتے تھے پھر غذا کھانے لگے، پہلے جوان تھے پھر بڈھے ہوئے۔ حسن بصری فرماتے ہیں نرمی کے بعد سختی سختی کے بعد نرمی، امیری کے بعد فقیری، فقیری کے بعد امیری، صحت کے بعد بیماری، بیماری کے بعد تندروستی، ایک مرفوع حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ابن آدم غفلت میں ہے وہ پروا نہیں کرتا کہ کس لیے پیدا کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ جب کسی کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو فرشتے سے کہتا ہے اس کی روزی اس کی اجل، اس کی زندگی، اس کا بدیا نیک ہونا لکھ لے پھر وہ فارغ ہو کر چلا جاتا ہے، اور دوسرا فرشتہ آتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے یہاں تک کہ اسے سمجھ آجائے پھر وہ فرشتہ اٹھ جاتا ہے پھر دو فرشتے اس کا نامہ اعمال لکھنے والے آجاتے ہیں۔ موت کے وقت وہ بھی چلے جاتے ہیں اور ملک الموت آجاتے ہیں اس کی روح قبض کرتے ہیں پھر قبر میں اس کی روح لوٹا دی جاتی ہے، ملک الموت چلے جاتے ہیں قیامت کے دن نیکی بدی کے فرشتے آجائیں گے اور اس کی گردن سے اس کا نامہ اعمال کھول لیں گے، پھر اس کے ساتھ ہی رہیں گے، ایک سائق ہے دوسرا شہید ہے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا آیت ( لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ ھٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ 22 ) 50۔ ق :22) تو اس سے غافل تھا، پھر رسول اللہ ﷺ نے آیت لترکبن الخ پڑھی یعنی ایک حال سے دوسرا حال پھر فرمایا لوگو تمہارے آگے بڑے بڑے ہم امور آ رہے ہیں جن کی برداشت تمہارے بس کی بات نہیں لہذا اللہ تعالیٰ بلندو برتر سے مدد چاہو، یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے، منکر حدیث ہے اور اس کی سند میں ضعیف راوی ہیں لیکن اس کا مطلب بالکل صحیح اور درست ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ امام ابن جریر نے ان تمام اقوال کو بیان کر کے فرمایا ہے کہ صحیح مطلب یہ ہے کہ آپ اے محمد ﷺ سخت سخت کاموں میں ایک کے بعد ایک سے گزرنے والے ہیں اور گو خطاب حضور ﷺ سے ہی ہے لیکن مراد سب لوگ ہیں کہ وہ قیامت کی ایک کے بعد ایک ہولناکی دیکھیں گے، پھر فرمایا کہ انہیں کیا ہوگیا یہ کیوں نہیں ایمان لاتے ؟ اور انہیں قرآن سن کر سجدے میں گر پڑنے سے کونسی چیز روکتی ہے، بلکہ یہ کفار تو الٹا جھٹلاتے ہیں اور حق کی مخالفت کرتے ہیں اور سرکشی میں اور برائی میں پھنسے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کی باتوں کو جنھیں یہ چھپا رہے ہیں بخوبی جانتا ہے، تم اے نبی ﷺ انہیں خبر پہنچا دو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب تیار کر رکھے ہیں، پھر فرمایا کہ ان عذابوں سے محفوط ہونے والے بہترین اجر کے مستحق ایماندار نیک کردار لوگ ہیں، انہیں پورا پورا بغیر کسی کمی کے حساب اور اجر ملے گا، جیسے اور جگہ ہے آیت ( عَطَاۗءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ01008 ) 11۔ ھود :108) بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ بلا احسان لیکن یہ معنی ٹھیک نہیں ہر آن پر لحظہ اور ہر وقت اللہ تعالیٰ عز و جل کے اہل جنت پر احسان و انعام ہوں گے بلکہ صرف اس کے احسان اور اس کے فعل و کرم کی بنا پر انہیں جنت نصیب ہوئی نہ کہ ان کے اعمال کی وجہ سے پس اس مالک کا تو ہمیشہ اور مدام والا احسان اپنی مخلوق پر ہے ہی، اس کی ذات پاک ہر طرح کی ہر وقت کی تعریفوں کے لائز ہمیشہ ہمیشہ ہے، اسی لیے اہل جنت پر اللہ کی تسبیح اور اس کی حمد کا الہام اسی طرح کیا جائے جس طرح سانس بلا تکلیف اور بےتکلف بلکہ بےارادہ چلتا رہتا ہے، قرآن فرماتا ہے آیت ( واخر دعوٰ ھم ان الحمد اللّٰہ رب العالمین ) یعنی ان کا آخری قول یہی ہوگا کہ سب تعریف جہانوں کے پالنے والے اللہ کے لیے ہی ہے، الحمد اللہ سورة انشقاق کی تفسیر ختم ہوئی۔ اللہ ہمیں توفیق خیر دے اور برائی سے بچائے، آمین۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 15{ بَلٰٓیج اِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیْرًا۔ } ” کیوں نہیں ! یقینا اس کا رب تو اسے خوب دیکھ رہا تھا۔ “ اگلی تین آیات میں تین قسمیں کھائی گئی ہیں۔ اپنے مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے یہ آیات سورة المدّثر کی ان آیات کے ساتھ خاص مناسبت اور بہت گہری مشابہت رکھتی ہیں : { کَلَّا وَالْقَمَرِ - وَالَّیْلِ اِذْ اَدْبَرَ - وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ۔ } ” کیوں نہیں ‘ قسم ہے چاند کی۔ اور قسم ہے رات کی جب کہ وہ پیٹھ موڑے۔ اور قسم ہے صبح کی جبکہ وہ روشن ہوجائے “۔ ان دونوں مقامات کے مابین ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ ان دونوں سورتوں میں قسموں پر مشتمل مذکورہ آیات سے بالکل نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔ سورة المدّثر میں بھی { کَلَّا وَالْقَمَرِ۔ } سے ایک نئے مضمون کا آغاز ہو رہا ہے اور بالکل ایسی ہی صورت حال زیرمطالعہ سورت کے اس مقام پر بھی نظر آتی ہے۔
Surah Inshiqaq Ayat 16 meaning in urdu
پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یہ لوگ جن کو (خدا کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں
- اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو صاف میدان دیکھو
- اور وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا
- اور ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو بڑی مصیبت سے نجات
- اور نہ اندھوں کو گمراہی سے (نکال کر) رستہ دیکھا سکتے ہو۔ تم ان ہی
- تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے
- کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ یہ ہمارے
- (تو لوگ) کسی کی سفارش کا اختیار نہ رکھیں گے مگر جس نے خدا سے
- (خدا نے فرمایا کہ) میرے بندوں کو راتوں رات لے کر چلے جاؤ اور (فرعونی)
- فرمایا کہ تجھے مہلت دی جاتی ہے
Quran surahs in English :
Download surah Inshiqaq with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Inshiqaq mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Inshiqaq Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers