Surah Nisa Ayat 164 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا﴾
[ النساء: 164]
اور بہت سے پیغمبر ہیں جن کے حالات ہم تم سے پیشتر بیان کرچکے ہیں اور بہت سے پیغمبر ہیں جن کے حالات تم سے بیان نہیں کئے۔ اور موسیٰ سے تو خدا نے باتیں بھی کیں
Surah Nisa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جن نبیوں اور رسولوں کے اسمائے گرامی اور ان کے واقعات قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں ان کی تعداد 24 یا 25 ہے۔ ( 1 ) آدم
( 2 ) ادریس
( 3 ) نوح
( 4 ) ہود
( 5 ) صالح
( 6 ) ابراہیم
( 7 ) لوط
( 8 ) اسماعیل
( 9 ) اسحاق ( 10 ) یعقوب ( 11 ) یوسف ( 12 ) ایوب ( 13 ) شعیب ( 14 ) موسیٰ ( 15 ) ہارون ( 16 ) یونس ( 17 ) داود ( 18 ) سلیمان ( 19 ) الیاس ( 20 ) الیسع ( 21 ) زکریا ( 22 ) یحیی( 23 ) عیسیٰ ( 24 ) ذوالکفل۔ ( اکثر مفسرین کے نزدیک ) ( 25 )حضرت محمد صلوٰت اللہ وسلامہ علیہ و علیہم اجمعین۔
( 2 ) جن انبیا ورسل کے نام اور واقعات قرآن میں بیان نہیں کئے گئے، ان کی تعداد کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک حدیث میں جو بہت مشہور ہے ایک لاکھ 24 ہزار اور ایک حدیث میں 8 ہزار تعداد بتلائی گئی ہے۔ لیکن یہ روایات سخت ضعیف ہیں۔ قرآن وحدیث سے صرف یہی معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار وحالات میں مبشرین ومنذرین ( انبیاء ) آتے رہے ہیں۔ بالآخر یہ سلسلۂ نبوت حضرت محمد پر ختم فرما دیا گیا۔ آپ سے پہلے کتنے نبی آئے ( صلى الله عليه وسلم ) ان کی صحیح تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تاہم آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے بعد جتنے بھی دعوے داران نبوت ہو گزرے یا ہوں گے، سب کے سب دجال اور کذاب ہیں اور ان کی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے والے دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور امت محمدیہ سے الگ ایک متوازی امت ہیں۔ جیسے امت بابیہ، بہائیہ اور امت مرزائیہ وغیرہ۔ اسی طرح مرزا قادیانی کو مسیح موعود ماننے والے لاہوری مرزائی ہیں۔
( 3 ) یہ موسیٰ ( عليه السلام ) کی وہ خاص صفت ہے جس میں وہ دوسرے انبیا سے ممتاز ہیں۔ صحیح ابن حبان کی ایک روایت کی رو سے امام ابن کثیر نے اس صفت ہم کلامی میں حضرت آدم ( عليه السلام ) وحضرت محمد ( صلى الله عليه وسلم ) کو بھی شریک مانا ہے۔ ( تفسير ابن كثير زیر آیت تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
نزول انبیاء، تعداد انبیاء، صحائف اور ان کے مرکزی مضامین حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سکین اور عدی بن زید نے کہا " اے محمد ﷺ ہم نہیں مانتے کہ حضرت موسیٰ کے بعد اللہ نے کسی انسان پر کچھ اتارا ہو۔ " اس پر یہ آیتیں اتریں، محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں جب آیت ( يَسْــَٔــلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُمُ الْبَيِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ ۚ وَاٰتَيْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِيْنًا01503 وَرَفَعْنَا فَوْقَھُمُ الطُّوْرَ بِمِيْثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِي السَّبْتِ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا01504 فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِمْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَقَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ۭ بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا01505۠ وَّبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلٰي مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيْمًا01506ۙ ) 4۔ النساء:153 سے 156) تک اتری اور یہودیوں کے برے اعمال کا آئینہ ان کے سامنے رکھ دیا گیا تو انہوں نے صاف کردیا کہ کسی انسان پر اللہ نے اپنا کوئی کلام نازل ہی نہیں فرمایا، نہ موسیٰ پر، نہ عیسیٰ پر، نہ کسی اور نبی پر، آپ اس وقت گوٹ لگائے بیٹھے تھے، اسے آپ نے کھول دیا اور فرمایا کسی پر بھی نہیں ؟ پس اللہ تعالیٰ نے آیت ( وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ ) 6۔ الأنعام:91) نازل فرمائی، لیکن یہ قول غور طلب ہے اس لئے کہ یہ آیت سورة انعام میں ہے جو مکیہ ہے اور سورة نساء کی مندرجہ بالا آیت مدنیہ ہے جو ان کی تردید میں ہے، جب انہوں نے کہا تھا کہ آسمان سے کوئی کتاب آپ اتار لائیں، جس کے جواب میں فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰ سے انہوں نے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا۔ پھر ان کے عیوب بیان فرمائے ان کی پہلی اور موجودہ سیاہ کاریاں واضح کردیں پھر فرمایا کہ اللہ نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمد ﷺ کی طرف اسی طرح وحی نازل فرمائی ہے جس طرح اور انبیاء کی طرف وحی کی۔ زبور اس کتاب کا نام ہے جو حضرت داؤد ؑ پر اتری تھی، ان انبیاء ( علیہم السلام ) کے قصے سورة قصص کی تفسیر میں بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ پھر فرمایا ہے تعداد اختیار اور اس آیت یعنی مکی سورت کی آیت سے پہلے بہت سے انبیاء کا ذکر ہوچکا ہے اور بہت سے انبیاء کا ذکر نہیں بھی ہوا۔ جن انبیاء کرام کے نام قرآن کے الفاظ میں آگئے ہیں وہ یہ ہیں، آدم، ادریس، نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ ، ہارون، یونس، داؤد، سلیمان، یوشع، زکریا، عیسیٰ ، یحییٰ ، اور بقول اکثر مفسرین ذوالکفل اور ایوب اور الیاس) اور ان سب کے سردار محمد مصطفیٰ ﷺ اور بہت سے ایسے رسول بھی ہیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں کیا گیا، اسی وجہ سے انبیاء اور مرسلین کی تعداد میں اختلاف ہے، اس بارے میں مشہور حدیث حضرت ابوذر ؓ کی ہے جو تفسیر ابن مردویہ میں یوں ہے کہ آپ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ انبیاء کتنے ہیں ؟ فرمایا تین سو تیرہ، بہت بڑی جماعت۔ میں نے پھر دریافت کیا، " سب سے پہلے کون سے ہیں ؟ " فرمایا " آدم " میں نے کہا " کیا وہ بھی رسول تھے ؟ " فرمایا " ہاں اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، پھر ان میں اپنی روح پھونکی، پھر درست اور ٹھیک ٹھاک کیا " پھر فرمایا اے ابوذر چار سریانی ہیں، آدم، شیت، نوح، خضوخ جن کا مشہور نام ادریس ہے، انہی نے پہلے قلم سے خط لکھا، چار عربی ہیں، ہود، صالح، شعیب اور تمہارے نبی ﷺ ، اے ابوذر بنو اسرائیل کے پہلے نبی حضرت موسیٰ ہیں اور آخری حضرت عیسیٰ ہیں۔ تمام نبیوں میں سب سے پہلے نبی حضرت آدم ہیں اور سب سے آخری نبی تمہارے نبی ہیں۔ " اس پوری حدیث کو جو بہت طویل ہے۔ حافظ ابو حاتم نے اپنی کتاب الانواع و التقاسیم میں روایت کیا ہے جس پر صحت کا نشان دیا ہے، لیکن ان کے برخلاف امام ابو الفرج بن جوزی رحمتہ ہے کہ ائمہ جرح و تعدیل میں سے بہت سے لوگوں نے ان پر اس حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے واللہ اعلم، لیکن یہ حدیث دوسری سند سے حضرت ابو امامہ سے بھی مروی ہے، لیکن اس میں معان بن رفاعہ سلامی ضعیف ہیں اور علی بن یزید بھی ضعیف ہیں اور قاسم بن عبدالرحمٰن بھی ضعیف ہیں، ایک اور حدیث ابو یعلی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آٹھ ہزار نبی بھیجے ہیں، چار ہزار بنو اسرائیل کی طرف اور چار ہزار باقی اور لوگوں کی طرف، یہ حدیث بھی ضعیف ہے اس میں زیدی اور ان کے استاد رقاشی دونوں ضعیف ہیں، واللہ اعلم، ابو یعلی کی اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا آٹھ ہزار انبیاء میرے بھائی گذر چکے ہیں ان کے بعد حضرت عیسیٰ آئے اور ان کے بعد میں آیا ہوں اور حدیث میں ہے میں آٹھ ہزار نبیوں کے بعد آیا ہوں جن میں سے چار ہزار نبی بنی اسرائیل میں سے تھے۔ یہ حدیث اس سند سے غریب تو ضرور ہے لیکن اس کے تمام راوی معروف ہیں اور سند میں کوئی کمی یا اختلاف نہیں بجز احمد بن طارق کے کہ ان کے بارے میں مجھے کوئی علالت یا جرح نہیں ملی، واللہ اعلم۔ ابوذر غفاری والی طویل حدیث جو انبیاء کی گنتی کے بارے میں ہے، اسے بھی سن لیجئے، آپ فرماتے ہیں میں مسجد میں آیا اور اس وقت حضور ﷺ تنہا تشریف فرماتے، میں بھی آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہا آپ نے نماز کا حکم دیا ہے آپ نے فرمایا " ہاں وہ بہتر چیز ہے، چاہے کوئی زیادتی کرے چاہے کمی " میں نے کہا " حضور ﷺ کون سے اعمال افضل ہیں ؟ " فرمایا " اللہ پر ایمان لانا، اس کی راہ میں جہاد کرنا " میں نے کہا " حضور ﷺ کونسا مسلمان اعلیٰ ہے ؟ " فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں " میں نے پوچھا " کونسی ہجرت افضل ہے ؟ " فرمایا " برائیوں کو چھوڑ دینا " میں نے پوچھا کونسی نماز افضل ہے ؟ فرمایا " لمبے قنوت والی " میں نے کہا کونسا روزہ افضل ہے ؟ فرمایا " فرض کفایت کرنے والا ہے اور اللہ کے پاس بہت بڑھا چڑھا ثواب ہے " میں نے پوچھا کونسا جہاد افضل ہے ؟ " فرمایا جس کا گھوڑا بھی کاٹ دیا جائے اور خود اس کا بھی خون بہا دیا جائے۔ " میں نے کہا غلام کو آزاد کرنے کے عمل میں افضل کیا ہے ؟ " فرمایا جس قدر گراں قیمت ہو اور مالک کو زیادہ پسند ہو۔ " میں نے پوچھا صدقہ کونسا افضل ہے ؟ فرمایا " کم مال والے کا کوشش کرنا اور چپکے سے محتاج کو دے دینا۔ " میں نے کہا قرآن میں سب سے بڑی آیت کونسی ہے ؟ فرمایا " آیت الکرسی " پھر آپ نے فرمایا " اے ابوذر ساتوں آسمان کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے کوئی حلقہ کسی چٹیل میدان کے مقابلے میں اور عرش کی فضیلت کرسی پر، بھی ایسی ہے جیسے وسیع میدان کی حلقے پر " میں نے عرض کیا حضور ﷺ انبیاء کتنے ہیں ؟ فرمایا " ایک لاکھ چوبیس ہزار " میں نے کہا ان میں سے رسول کتنے ہیں ؟ فرمایا " تین سو تیرہ کی بہت بڑی پاک جماعت " میں نے پوچھا سب سے پہلے کون ہیں ؟ فرمایا " آدم " میں نے کہا کیا وہ بھی نبی رسول تھے ؟ فرمایا " ہاں انہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح ان میں پھونکی اور انہیں صحیح تر بنایا۔ " پھر آپ نے فرمایا سنو چار تو سریانی ہیں، آدم، شیث، خنوخ اور یہی ادریس ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے قلم سے لکھا اور نوح اور چار عربی ہیں ہود، شعیب، صالح اور تمہارے نبی، سب سے پہلے رسول حضرت آدم ہیں اور سب سے آخری رسول حضرت محمد ہیں ﷺ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ نے کتابیں کس قدر نازل فرمائی ہیں ؟ فرمایا ایک سو چار، حضرت شیث ؑ پر پچاس صحیفے، حضرت خنوخ ؑ پر تیس صحیفے، حضرت ابراہیم ؑ پر دس صحیفے اور حضرت موسیٰ پر توراۃ سے پہلے دس صحیفے اور توراۃ انجیل زبور اور فرقان، میں نے کہا یا رسول اللہ حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا اس کی مرکزی تعلیم جبر سے مسلط بادشاہ کو اس کے اقتدار کا مقصد سمجھانا تھا اور اسے مظلوم کی فریاد رسی کرنے کا احساس دلانا تھا۔ جس کی دعا کو اللہ تعالیٰ لازماً قبول فرماتے ہیں۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو !" دنیا کا مال جمع کرنے سے روکنا تھا اور ان میں نصائح تھیں مثلاً یہ کہ عقل مند کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا نظام الاوقات بنائے وقت کے ایک حصہ میں وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے، دوسرے حصہ میں اپنے خالق کی صفات پہ غور و فکر کرے، بقیہ حصہ میں تدبیر معاش میں مشغول ہو۔ عقل مند کو تین چیزوں کے سوا کسی اور چیز میں دلچسپی نہ لینا چاہئے، ایک تو آخرت کے زاد راہ کی فکر، دوسرے سامان زیست اور تیسرے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونا یا فکر معاش یا غیر حرام چیزوں سے سرور و لذت، عقل مند کو اپنے وقت کو غنیمت سمجھ کر سرگرم عمل رہنا چاہئے، اپنی زبان پر قابو اور قول و فعل میں یکسانیت برقرار رکھنا چاہئے، وہ بہت کم گو ہوگا، بات وہی کہو جو تمہیں نفع دے، میں نے پوچھا موسیٰ ؑ کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا وہ عبرت دلانے والی تحریروں کا مجموعہ تھے، مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو موت کا یقین رکھتا ہے پھر بھی غافل ہے، تقدیر کا یقین رکھتا ہے پھر بھی مال دولت کے لئے پاگل ہو رہا ہے، ہائے وائے میں پڑا ہوا ہے، دنیا کی بےثباتی دیکھ کر بھی اسی کو سب کچھ سمجھتا رہے، قیامت کے دن حساب کو جانتا ہے پھر بےعمل ہے، میں نے عرض کیا حضور ﷺ اگلے انبیاء کی کتابوں میں جو تھا اس میں سے بھی کچھ ہماری کتاب میں ہمارے ہاتھوں میں ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں پڑھو آیت ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى ) 87۔ الاعلی :14) آخر سورت تک، میں نے کہا حضور ﷺ مجھے وصیت کیجئے۔ آپ نے فرمایا میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، یہی تیرے اعمال کی روح ہے، میں نے کہا حضور ﷺ مجھے وصیت کیجئے۔ آپ نے فرمایا میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، یہی تیرے اعمال کی روح ہے، میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کچھ اور بھی، آپ نے فرمایا قرآن کی تلاوت اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہ وہ تیرے لئے آسمانوں میں ذکر اور زمین میں نور کے حصول کا سبب ہوگا، میں نے پھر کہا حضور ﷺ کچھ مزید فرمایئے، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کردیتی ہے، میں نے کہا پھر کہا حضور ﷺ کچھ مزید فرمایئے، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کردیتی ہے، میں نے کہا اور زیادہ فرمایا جہاد میں مشغول رہو، میری امت کی رہبانیت یعنی درویشی یہی ہے، میں نے کہا اور وصیت کیجئے فرمایا بھلی بات کہنے کے سوا زبان بند رکھو، اس سے شیطان بھاگ جائے گا اور دینی کاموں میں بڑی تائید ہوگی۔ میں نے کہا کچھ اور بھی فرما دیجئے فرمایا اپنے سے نیچے درجے کے لوگوں کو دیکھا کر اور اپنے سے اعلیٰ درجہ کے لوگوں پر نظریں نہ ڈالو، اس سے تمہارے دل میں اللہ کی نعمتوں کی عظمت پیدا ہوگی، میں نے کہا مجھے اور زیادہ نصیحت کیجئے فرمایا مسکینوں سے محبت رکھو اور ان کے ساتھ بیٹھو، اس سے اللہ کی رحمتیں تمہیں گراں قدر معلوم ہوں گی، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا " قرابت داروں سے ملتے رہو، چاہے وہ تجھ سے نہ ملیں " میں نے کہا اور ؟ فرمایا سچ بات کہو چاہے وہ کسی کو کڑوی لگے، میں نے اور بھی نصیحت طلب کی فرمایا اللہ کے بارے میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کر، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا اپنے عیبوں پر نظر رکھا کر، دوسروں کی عیب جوئی سے باز رہو، پھر میرے سینے پر آپ نے اپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا اے ابوذر تدبیر کے مانند کوئی عقل مندی نہیں اور حرام سے رک جانے سے بڑھ کر کوئی پرہیزگاری نہیں اور اچھے اخلاق سے بہتر کوئی حسب نسب نہیں۔ مسند احمد میں بھی یہ حدیث کچھ اسی مفہوم کی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری پوچھتے ہیں کیا خارجی بھی دجال کے قائل ہیں، لوگوں نے کہا نہیں فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے میں ایک ہزار بلکہ زیادہ نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے لیکن مجھ سے اللہ نے اس کی وہ علامت بیان فرمائی ہے جو کسی اور کو نہیں فرمائی " سنو وہ بھینگا ہوگا اور رب ایسا ہو نہیں سکتا اس کی داہنی آنکھ کافی بھینگی ہوگی، آنکھ کا ڈھیلا اتنا اٹھا ہوا جیسے چونے کی صاف دیوار پر کسی کا کھنکار پڑا ہو اور اسکی بائیں آنھ ایک جگمگاتے ستارے جیسی ہے، وہ تمام زبانیں بولے گا، اس کے ساتھ سرسبز و شاداب جنت سیاہ دھواں دھار دوزخ نظر آئے گا " ایک حدیث میں ہے ایک لاکھ نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں بلکہ زیادہ کا۔ پھر فرمایا ہے موسیٰ سے خود اللہ نے صاف طور پر کلام کیا۔ یہ ان کی خاص صفت ہے کہ وہ کلیم اللہ تھے، ایک شخص حضرت ابوبکر بن عیاش ؒ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک شخص اس جملہ کو یوں پڑھتا ہے آیت ( وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا ) 4۔ النساء:164) یعنی موسیٰ نے اللہ سے بات کی ہے، اس پر آپ بہت بگڑے اور فرمایا یہ کسی کافر نے پڑھا ہوگا۔ میں نے اعمش سے اعمش نے یحییٰ نے عبدالرحمٰن سے، عبدالرحمٰن سے علی سے، علی نے رسول اللہ ﷺ سے پڑھا ہے کہ آیت ( وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا ) 4۔ النساء:164) غرض اس شخص کی معنوی اور لفظی تحریف پر آپ بہت زیادہ ناراض ہوئے مگر عجب نہیں کہ یہ کوئی معتزلی ہو، اس لئے کہ معتزلہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا نہ کسی اور سے۔ کسی معتزلی نے ایک بزرگ کے سامنے اسی آیت کو اسی طرح پڑھا تو انہوں نے اسے ڈانٹ کر فرمایا پھر اس آیت میں یہ بددیانتی کیسے کرو گے ؟ جہاں فرمایا ہے آیت ( وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰي لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ) 7۔ الأعراف:143) یعنی موسیٰ ہمارے وعدے پر آیا اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا، مطلب یہ ہے کہ یہاں تو یہ تاویل و تحریف نہیں چلے گی۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا " جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا تو وہ اندھیری رات میں سیاہ چیونٹی کا کسی صاف پتھر پر چلنا بھی دیکھ لیتے تھے۔ " یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد صحیح نہیں اور جب موقوفاً بقول ابی ہریرہ ثابت ہوجائے تو بہت ٹھیک ہے۔ مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے۔ کہ کلیم اللہ سے جب اللہ نے کلام کیا وہ صوفی کی چادر اور صوف کی سردول اور غیر مذبوح گدھے کی کھال کی جوتیاں پہنے ہوئے تھے، ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چالیس ہزار باتیں حضرت موسیٰ سے کیں جو سب کی سب وصیتیں تھیں، نتیجہ یہ کہ لوگوں کی باتیں حضرت موسیٰ سے سنی نہیں جاتی تھیں کیونکہ کانوں میں کلام الٰہی کی گونج رہتی تھی، اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں۔ پھر اس میں انقطاع بھی ہے۔ ایک اثر ابن مردویہ میں ہے حضرت جابر فرماتے ہیں جو کلام اللہ تعالیٰ نے طور والے دن حضرت موسیٰ سے کیا تھا یہ تو میرے اندازے کے مطابق اس کی صفت جس دن پکارا تھا اس انداز کلام کی صفت سے الگ تھی۔ موسیٰ ؑ نے اس کا راز معلوم کرنا چاہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ ابھی تو میں نے دس ہزار زبانوں کی قوت سے کلام کیا ہے حالانکہ مجھے تمام زبانوں کی قوت حاصل ہے بلکہ ان سب سے بھی بہت زیادہ۔ بنو اسرائیل نے آپ سے جب کلام زبانی کی صفت پوچھی آپ نے فرمایا " میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا " انہوں نے کہا کچھ تشبیہ تو بیان کرو، آپ نے فرمایا تم نے کڑاکے کی آواز سنی ہوگی، وہ اس کے مشابہ تھی لیکن ویسی نہ تھی، اس کے ایک راوی فضل رقاشی ضعیف ہیں اور بہت ہی ضعیف ہیں۔ حضرت کعب فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ سے کلام کیا تو یہ تمام زبانوں پہ محیط تھا۔ حضرت کلیم اللہ نے پوچھا " باری تعالیٰ یہ تیرا کلام ہے ؟ فرمایا نہیں اور نہ تو میرے کلام کی استقامت کرسکتا ہے۔ حضرت موسیٰ نے دریافت کیا کہ اسے رب تیری مخلوق میں سے کسی کا کلام تیرے کلام سے مشابہ ہے ؟ فرمایا نہیں سوائے سخت تر کڑاکے کے، یہ روایت بھی موقوف ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حضرت کعب اگلی کتابوں سے روایت کیا کرتے تھے جن میں بنو اسرائیل کی حکایتیں ہر طرح صحیح اور غیر صحیح ہوتی ہیں۔ یہ رسول ہی ہیں جو اللہ کی اطاعت کرنے والوں اور اس کی رضامندی کے متلاشیوں کو جنتوں کی خوشخبریاں دیتے ہیں اور اس کے اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کو عذاب اور سزا سے ڈراتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے جو اپنی کتابیں نازل فرمائی ہیں اور اپنے رسول بھیجے ہیں اور ان کے ذریعہ اپنے اوامرو نواہی کی تعلیم دلوائی یہ اس لئے کہ کسی کو کوئی حجت یا کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَلَوْ اَنَّآ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰى ) 20۔ طہ :134) یعنی اگر ہم انہیں اس سے پہلے ہی اپنے عذاب سے ہلاک کردیتے تو وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہیں بھیجے جو ہم ان کی باتیں مانتے اور اس ذلت و رسوائی سے بچ جاتے، اسی جیسی یہ آیت بھی ہے آیت ( وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 28۔ القصص:47) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام برائیوں کو حرام کیا ہے خواہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور ایسا بھی کوئی نہیں جسے بہ نسبت اللہ کے مدح زیادہ پسند ہو یہی وجہ ہے کہ اس نے خود اپنی مدح آپ کی ہے اور کوئی ایسا نہیں جسے اللہ سے زیادہ ڈر پسند ہو، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوش خبریاں سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اسی وجہ سے اس نے رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 164 وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْکَ ط پوری دنیا کی تاریخ بیان کرنا تو قرآن مجید کا مقصد نہیں ہے کہ تمام انبیاء و رسل علیہ السلام کی مکمل فہرست دے دی جاتی۔ یہ تو کتاب ہدایت ہے ‘ تاریخ کی کتاب نہیں ہے۔ وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا یہ خاص حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امتیازی شان بیان ہوئی ہے۔ لیکن یہ مکالمہ مِنْ وَرَآ ءِ حِجَابٍ تھا ‘ یعنی پردے کے پیچھے سے ‘ البتہ تھا دُوُ بدو کلام۔ اب اس کے بعد وہ آیت آرہی ہے جس میں نبوت کا اساسی مقصد بیان ہوا ہے کہ یہ تمام رسول علیہ السلام کس لیے بھیجے گئے تھے۔
ورسلا قد قصصناهم عليك من قبل ورسلا لم نقصصهم عليك وكلم الله موسى تكليما
سورة: النساء - آية: ( 164 ) - جزء: ( 6 ) - صفحة: ( 104 )Surah Nisa Ayat 164 meaning in urdu
ہم نے اُن رسولوں پر بھی وحی نازل کی جن کا ذکر ہم اِس سے پہلے تم سے کر چکے ہیں اور اُن رسولوں پر بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا ہم نے موسیٰؑ سے اِس طرح گفتگو کی جس طرح گفتگو کی جاتی ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اگر تم اُن سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا
- کیا خدا اپنے بندوں کو کافی نہیں۔ اور یہ تم کو ان لوگوں سے جو
- تو فرعون کے لوگوں نے اس کو اُٹھا لیا اس لئے کہ (نتیجہ یہ ہونا
- کہو کہ اہلِ کتاب! تم خدا کی آیتوں سے کیوں کفر کرتے ہو اور خدا
- وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم
- پھر دو بارہ (سہ بارہ) نظر کر، تو نظر (ہر بار) تیرے پاس ناکام اور
- اور خدا کی فرمانبرداری اور رسولِ (خدا) کی اطاعت کرتے رہو اور ڈرتے رہو اگر
- سن رکھو کہ جو خدا کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور
- اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ
- اور ان کے بعد تم کو اس زمین میں آباد کریں گے۔ یہ اس شخص
Quran surahs in English :
Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers